محمد بلال رضا عطّاری (درجۂ دورۂ حدیث شریف جامعۃُ
المدینہ فیضان عطار تاجپور ہند)
وَ مَا خَلَقْتُ
الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)ترجمۂ کنز العرفان: اور میں نے
جنّ اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔ (پ27 ، الذٰریٰت : 56)
اللہ پاک نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرما کر ہم پر احسان
عظیم فرمایا، اس نے ہمیں عدم سے وجود بخش کر اشرف المخلوقات بنایا، اس پاک
پروردگار نے دیگر بہت سے انعامات فرمائے جو شمار سے باہر ہے، ویسے تو بندہ اپنے
خالق کی کسی بھی نعمت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے لیکن اس ناچیز بندے کو چاہئے کہ
وہ اللہ پاک کی عبادت کرتا رہے اور اس کی نعمتوں کا ہر حال میں شکر کرتا رہے اور
اللہ پاک کے حقوق کو بجا لانے کی ہمہ تن کوشش میں لگا رہے۔
حقوق اللہ کی تعریف :جن کے بجا لانے میں صرف اللہ کی جانب کی رعایت مقصود ہو، یا
اس سے مراد وہ احکام ہیں جن سے عام لوگوں کا نفع وابسطہ ہو ۔ ( حسامی، ص 236 )
حقوق اللہ میں بنیادی حق یہ ہے کہ اللہ پاک کی عبادت کرنا
اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔
آئیے تفاسیر و احادیث کی روشنی میں چند حقوق اللہ سنتے ہیں:
( 1 ) حضرت معاذ بن
جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
سواری پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے سوار تھا آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اے معاذ! تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کا کیا
حق ہے؟ اور اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی
بہتر جانتا ہے۔
تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
کہ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ
ٹھہرائیں پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا کہ اللہ پر بندوں کا حق ہے
کہ جب وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں تو انہیں عذاب نہ دے۔(بخاری شریف، حدیث
: 2856)
(2،3) وَ اَقِیْمُوا
الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ترجمۂ کنز
العرفان : اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ (پ1، البقرۃ: 43) تفسیر صراط
الجنان میں اس آیت کریمہ کے تحت فرمایا گیا کہ اے یہودیو! تم ایمان قبول کرکے
مسلمانوں کی طرح پانچ نمازیں ان کے حقوق اور شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جس طرح
مسلمان اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اسی طرح تم بھی اپنے مالوں کی زکوٰۃ دو ۔
(صراط الجنان،سورۃ البقرۃ،تحت الآیۃ: 43)
(4) وَ لِلّٰهِ عَلَى
النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ ترجمۂ کنز العرفان : اور اللہ کے لئے
لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(پ4،آلِ عمرٰن:97 )اس آیت میں حج کی فرضیت اور استطاعت کی
شرط کا بیان ہے۔ ( صراط الجنان، آلِ عمرٰن ،تحت الآیۃ:97 )
اس سے پتا چلا کہ جو مسلمان استطاعت رکھتا ہو اس پر حج کرنا
فرض ہے یہ اللہ پاک کا ایک عظیم حق ہے جس کو ترک نہیں کیا جا سکتا ۔
(5) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمۂ کنز
العرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ۔ (پ5، النسآء:
59)
حضور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت
و فرمانبرداری فرض ہے، قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اطاعت کا حکم دیا گیا بلکہ رب کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اور اس پر ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا اور
تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی پر عذاب جہنم کا مژدہ
سنایا ،لہٰذا جس کام کا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حکم فرمایا اسے کرنا
اور جس سے منع فرمایا اس سے رک جانا ضروری ہے۔ ( صراط الجنان،النساء ،تحت الآیۃ:
59 )
اس سے معلوم ہوا کہ رسل کی اطاعت اللہ کریم کا حق ہے۔ ہمیں
رسول جو حکم ارشاد فرمائے اس پر عمل کرنا ضروری ہے جس سے دونوں جہاں میں سعادت مندی
ہمارا مقدر بنے۔