قراٰنِ کریم اور حدیث شریف میں خدا کے حقوق بندے پر بہت
سارے ہے مثلاً اللہ پاک پر ایمان لانا اور کسی کو اس میں شریک نہ ماننا۔ اللہ پاک
کے بھیجے ہوئے پیغمبروں پر ایمان لانا اور ان کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنا۔
صرف واحد اللہ پاک کی عبادت کرنا۔ یعنی نماز روزہ، حج، زکوٰۃ، وغیرہ ارکانِ اسلام
کی پابندی۔ یہ سب حقوق اللہ میں شمار ہوتے ہیں۔
وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ
كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُؕ-وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا
تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۠(۳۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور تمہیں بہت کچھ منہ مانگا
دیا اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے بےشک آدمی بڑا ظالم بڑا
ناشکرا ہے۔(پ13، ابرٰھیم:34)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی۔ سواری پر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اے
معاذ! تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ اور اللہ پر بندوں کا کیا حق
ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ تو رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ اسی کی
عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ پر بندوں کا حق ہے کہ جب وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ
ٹھہرائیں تو انہیں عذاب نہ دے۔(بخاری شریف، حدیث : 2856) سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ
ان کی رہنمائی کے لیے رسولوں اور نبیوں کو مبعوث فرمایا جو انہیں اللہ پاک کی
معرفت کراتے رہے ، اس لیے ہر فرد بشر پر ضروری ہے کہ اس منعم حقیقی اور کائنات کے
رب کے حقوق کو پہچانے اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کرے ۔
ذات والا صفات کے حقوق بہت زیادہ ہیں ہم ان میں چند اہم اور
خاص الخاص حقوق کو بیان کرتے ہیں ۔
(1) اللہ پاک کی
معرفت : یہ سب سے پہلا اور اہم حق ہے جس کا ادا کرنا ہر شخص پر
ضروری ہے ، اس میں درج ذیل امور شامل ہیں : (1) اس کے ذات کی معرفت(2)اس کے صفات کی
معرفت( 3) اس کے حقوق کی معرفت ۔
(2)اللہ پاک پر ایمان
: اللہ پاک کی ایسی معرفت حاصل کی جائے جو اس پر ایمان لانے
کی متقاضی ہو ، اللہ پاک پر ایمان لانے میں درج ذیل امور شامل ہیں :(1)اللہ پاک کے
وجود پر ایمان لانا ۔(2)اللہ پاک کی ربوبیت پر ایمان لانا ۔(3)اللہ پاک کی الوہیت
پر ایمان لانا ۔(4)اللہ پاک کے اسماء و صفات پر ایمان لانا ۔
(3) اللہ پاک کی
عبادت : اللہ پاک پر ایمان لانے کے بعد اس کا سب سے بڑا اور عظیم
حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے
نہ کسی نبی کو ، نہ کسی ولی کو اور نہ ہی کسی دوسری مخلوق کو۔ اللہ پاک کے اس حق
کا تقاضا ہے کہ ہر قسم کی عبادت کو صرف اسی کیلئے خاص کیا جائے خواہ وہ(1)عبادات
قلبیہ ہوں ، جیسے : محبت ، خوف ، رجاء ، توکل وغیرہ ۔(2)عبادات لسانیہ ہوں جیسے :
دعا ، پناہ طلبی ، فریاد طلبی وغیرہ ۔(3) عبادات بدنیہ ہوں ، جیسے : نماز ، روزہ ،
طواف ، رکوع ، سجدہ وغیرہ ۔(4)عبادات مالیہ ہوں ، جیسے : صدقہ ، قربانی ، نذر و نیاز
اور وقف وغیرہ ۔(5)عبادات بدنیہ اور مالیہ سے مرکب ہوں ، جیسے : حج و زیارت وغیرہ
۔
حقوق حق کی جمع ہے تو اللہ پاک کے حقوق سے مراد فرائض وواجبات وسننِ مؤکدہ اور وہ لوازمات جو شریعت نے اس پر لازم
کئے ہیں۔رضائے الہی پانے، اللہ رب العزت کا فرمانبردار بننے کے لئےاللہ پاک کے تمام
حقوق کی معلومات کا ہونا اور پھر ان کی عمدہ طریقے پر ادائیگی کے لئے ان کے مسائل
کا ازبر ہونا بھی ضروری ہے۔ احسن طریقے پر حقوق اللہ ادا کرنے والے کے بارے میں
منقول ہے: اورلوگوں
میں سب سےبڑا سخی وہ ہے جوحقوق اللہ کوعمدہ طریقے پراداکرے اگرچہ اس کے علاوہ
دیگرکاموں میں لوگ اسے بخیل ہی کہتے ہوں۔ اورسب سے بڑا بخیل وہ ہے جواللہ پاک کے
حقوق کی ادائیگی میں بخل کرے اگرچہ دوسرے کاموں میں لوگ اُسے سخی ہی کہتے ہوں
۔(دنیا سے بے رغبتی اور امیدوں کی کمی، ص 77)
قارئین کرام: ایسی سخاوت جو خالقِ کائنات کو
بھول جانے ، ذکر اللہ سے غافل ہونے کا سبب اور احکامِ الہی پر عمل کرنے، پرہیزگاری
اور فرمانبرداری کو بجا لانے اور اللہ پاک کے حقوق کو عمدہ طریقے سے ادا کرنے میں
رکاوٹ بنے وہ بہت بڑی بدبختی اور ہلاکت کا سبب ہے۔ ہم اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں اپنے مقصدِ حقیقی کوپسِ پشت ڈال کر24 گھنٹے اللہ
پاک کے حقوق کو ضائع کرتے ہوئے تو نہیں گزار رہے؟
اللہ پاک کے حقوق دو قسم کے ہیں پہلی قسم کے حقوق وہ ہیں جن کا تعلق ایمان و عقیدہ
سے ہے جیسے توحید،شہادت، رسالت، تصدیق وغیرہ دوسری قسم کے حقوق وہ ہیں جو جسمانی و
مالی عبادتوں سے تعلق رکھتے ہیں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد فی سبیل اللہ،
صدقاتِ واجبہ، نذر وغیرہ ۔
حقوق اللہ کی
یہ دونوں قسمیں اشرف المخلوقات کی اصلاح اور دونوں جہاں کی کامیابی کے لئے بے حد
ضروری ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جب تک ایمان اور عقیدہ درست نہیں ہو گا تو نہ
فرائض قبول ہوں گے، نہ واجبات قبول ہوں گے اور نہ ہی سننِ مؤکدہ قبول ہوں گے الغرض
کوئی عمل قبول نہیں ہو گا۔ اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ پہلے اسلام کےعقائد کو جان
کر ان پر ایمان لائیں اور دل کی گہرائی و سچائی سے ان کو مان کر زبان سے اقرار بھی
کریں۔ گویا کہ عقائد جڑ ہیں اور اعمال شاخیں ہیں اگر درخت کی جڑ کٹ جائے گی تو
شاخیں کبھی ہری بھری نہیں ہو سکتیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ پہلے عقائد کو سیکھا
جائےاور عقائد میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ پر ایمان کی معرفت ضروری ہے:
ایمان: میں ایمان لایا اﷲ پاک پر اور اس
کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس
پر کہ ہر بھلائی اور برائی اﷲتعالیٰ نے مقدر فرما دی ہے اور مرنے کے بعد دوبارہ
زندہ ہونا ہے۔(جنتی زیور، ص 165) توحید: تمام
عالم زمین و آسمان وغیرہ سارا جہان پہلے بالکل ناپید تھا۔ کوئی چیز بھی نہیں تھی
پھر اﷲتعالیٰ نے اپنی قدرت سے سب کو پیدا کیا تو یہ سب کچھ موجود ہوا۔ (شرح العقائد
النسفیہ ، ص24) جس
نے تمام عالم اور دوسرے جہان کو پیدا کیا اسی پاک ذات کا نام اﷲ پاک ہے۔( المسامرۃ
بشرح المسایرۃ، ص44) اﷲتعالیٰ ایک ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔(پ26،
محمد:19/ پارہ15،
الکھف:26) وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ (المسامرۃ
بشرح المسایرۃ ، ص22 تا25) وہ بے پروا
ہے۔ کسی کا محتاج نہیں۔ سارا عالم اس کا محتاج ہے۔ (شرح الملا علی القاری علی
الفقہ الاکبر ، ص15) کوئی چیز اس کے مثل نہیں وہ سب سے یکتا
اور نرالا ہے۔(پ25، الشورٰی :11 /پ30،الاخلاص:1۔4) اور وہی سب کا خالق و مالک ہے۔(پ7،المائدۃ:120/پ7،الانعام:102)
وہ زندہ ہے۔(پ3، البقرۃ: 255)
وہ قدرت والا ہے وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (پ22،فاطر:44)
سب کچھ دیکھتا ہے سب کچھ سنتا ہے ۔ (پ25،الشورٰی:11) سب کی زندگی اور موت کا مالک ہے جس
کو جب تک چاہے زندہ رکھے اور جب چاہے موت دے۔ وہی سب کو جلاتاا ور مارتا ہے۔(پ11 ، التوبۃ:116)
وہی سب کو روزی دیتا ہے وہی جس کو چاہے عزت اور ذلت دیتا ہے۔ (پ3،اٰل عمران: 26،
37) اور وہ جو کچھ چاہے کرتا ہے ۔ (پ17،الحج:18)
وہی عبادت کے لائق ہے۔ (پ3، البقرۃ:255) کوئی اس کا مثل اور مقابل نہیں۔(پ25، الشورٰی:11) نہ اس نے کسی کو جنا نہ وہ کسی سے جنا گیا۔ (پ30،الاخلاص:3)
نہ وہ بیوی بچوں والا ہے ۔ (پ29،الجن:3) وہ کلام فرماتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:253)
لیکن اس کا کلام ہم لوگوں کے کلام کی طرح کا نہیں ہے۔ وہ زبان، آنکھ، کان وغیرہ
اعضاء سے اور ہر عیب اور نقصان سے پاک ہے ہر کمال اس کی ذات میں موجود ہے۔
(المسامرہ بشرح المسایرۃ ، ص392۔393) اس کی سب صفتیں ہمیشہ سے ہیں اور
ہمیشہ رہیں گی۔ کوئی صفت اس کی کبھی نہ ختم ہو سکتی ہے نہ گھٹ بڑھ سکتی ہے۔
(المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد ، ص49/شرح
العقائد النسفیۃ ، ص45۔47) وہ اپنی پیدا کی ہوئی ہر چیز پر بڑا
مہربان ہے۔ وہی سب کو پالتا ہے۔ (پ1،الفاتحۃ:1۔2)وہ
بڑائی والا اور بڑی عزت والا ہے۔ (پ28، الحشر:23) سب کچھ اسی کے قبضہ اور اختیار میں
ہے جس کو چاہے پست کردے ۔جس کو چاہے بلند کردے۔ (پ3،اٰل
عمران:26) جس کی چاہے روزی کم کردے جس کی چاہے زیادہ کردے۔ (پ21، العنکبوت:62)
وہ انصاف والا ہے ۔ (شعب الایمان ، حدیث: 102،ج1 ، ص114)کسی
پر ظلم نہیں کرتا۔ (پ5،النسا:40 / پ15،
الکہف:49) وہ
بڑے تحمل اور برداشت والا ہے۔ (شعب الایمان ، حدیث:102،ج1،ص114)
وہ گناہوں کا بخشنے والا۔ (پ24،الزمر:53) اور بندوں کی دعاؤں کو قبول فرمانے
والا ہے۔ (پ20،النمل:62/پ2 ،البقرۃ:186)
وہ سب پر حاکم ہے اس پر کوئی حکم چلانے والا نہیں۔ (پ7،الانعام:18،ھود:45/المستند
المعتمدعلی المعتقد المنتقد، ص99،حاشیہ
131) نہ اس کو اس کے ارادہ سے کوئی روکنے
والا ہے ۔ (پ26،ق:29)
وہ سب کا کام بنانے والا ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اسی کے حکم سے ہوتا ہے بغیر
اس کے حکم کے کوئی ذرہ ہل نہیں سکتا۔ اس کے کسی حکم اور اس کے کسی کام میں کسی کو
روک ٹوک کی مجال نہیں۔ (بہارشریعت،ج1،ص8) وہ تمام عالم اور سارے جہان کی
حفاظت' اور اس کا انتظام فرماتا ہے۔ (پ13،یوسف:64/ پ22،
سبا: 21) نہ وہ سوتا ہے نہ اونگھتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:225)
نہ کبھی غافل ہوتا ہے۔ (پ2،
البقرۃ: 144) اﷲتعالیٰ پر کوئی چیز واجب اور لازم
نہیں ہے وہ جو کچھ کر تا ہے وہ اس کا فضل اور اس کی مہربانی ہے۔(المسامرۃ بشرح
المسایرۃ ، ص154 / المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد
، ص71) وہ مخلوق کی تمام صفتوں سے پاک
ہے۔(شرح الفقہ الاکبر،ص31) وہ بڑا ہی رحیم وکریم ہے۔ وہ اپنے بندوں کو کسی ایسے
کام کا حکم نہیں دیتا۔ جو بندوں سے نہ ہو سکے۔(پ3،
البقرۃ:286) اﷲتعالیٰ جہت اور مکان و زمان اور
حرکت و سکون اور شکل و صورت وغیرہ مخلوقات کی تمام صفات و کیفیات سے پاک ہے۔ (شرح
العقائد النسفیۃ ،ص38۔41،المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، ص 30۔31)
دنیا کی زندگی میں سر کی آنکھوں سے اﷲتعالیٰ کا دیدار صرف ہمارے نبی حضرت محمد
مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
حاصل ہوا۔ ہاں دل کی نگاہ سے یا خواب میں اﷲتعالیٰ کا دیدار دوسرے انبیاء علیہم
السلام بلکہ بہت سے اولیاء کرام کو بھی نصیب ہوا۔ اور آخرت میں ہر سنی مسلمان کو
اﷲتعالیٰ اپنا دیدار کرائے گا مگر یاد رکھو کہ اﷲتعالیٰ کا دیدار بلاکیف ہے۔ یعنی
دیکھیں گے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے؟ اور کس طور پر دیکھیں گے۔ ان شاء
اﷲتعالیٰ جب دیکھیں گے۔ اس وقت بتادیں گے۔ اس میں بحث کرنا جائز نہیں۔ یہ ایمان
رکھو کہ قیامت میں ضرور اس کا دیدار ہوگا' جو آخرت کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔(شرح
الملا علی القاری علی الفقہ الاکبر ، ص123۔ 124/ المعتقد المنتقدمع المستند المعتمد،
ص56،58،شرح
العقائد النسفیۃ، ص74۔75) اﷲتعالیٰ کے ہر کام میں بے شمار حکمتیں ہیں خواہ ہم کو
معلوم ہوں یانا معلوم ہوں۔(المسامرۃ بشرح المسایرۃ ،ص215)
اﷲتعالیٰ کے کسی کام کو برا سمجھنا یا اس پر اعتراض کرنا یا ناراض ہونا یہ کفر کی
بات ہے۔ (جنتی زیور، ص 171)
خبردار! خبردار! کبھی ہرگز ہرگز اﷲتعالیٰ کے کسی
کام پر نہ اعتراض کرو ،نہ ناراض ہو بلکہ یہی ایمان رکھو کہ اﷲتعالیٰ جو کچھ کرتا
ہے وہی اچھا ہے۔ خواہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے کیونکہ اﷲتعالیٰ علیم و حکیم
یعنی بہت زیادہ جاننے والا اور بہت زیادہ حکمتوں والا ہے اور وہ اپنے بندوں پر بہت
زیادہ مہربان ہے۔(جنتی زیور، ص 171)
نبوت و رسالت: اللہ پاک مالک
ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے، وہ انسانوں میں سے بھی رسول بناتا ہے اور ملائکہ میں
سے بھی جنہیں چاہے۔( خازن، 3 / 318-317، مدارک، ص749) یہاں ایک
اہم بات یاد رہے کہ اللہ پاک نے نبوت و رسالت کیلئے جنہیں چننا تھا چن لیا اور
جنہیں چن لیا وہ دائمی نبی اور رسول ہو گئے اور اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت و رسالت
کا منصب ختم فرما دیاہے لہٰذا ان کی تشریف آوری کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ
اختتام پذیر ہو گیا اور اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی
ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: مَا
كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ
خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)
ترجمۂ کنزا لا یمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول
ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (پ22،احزاب:40) اور صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل میں انبیاءِکرام
علیہم السلام حکومت کیا کرتے تھے،جب ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی ان کا
خلیفہ ہوتا، (لیکن یاد رکھو!) میرے بعد ہر گز کوئی نبی نہیں ہے،ہاں عنقریب خُلَفا
ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔(بخاری،/ 461، الحدیث: 3455)
اور سنن ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی، تو میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی
نبی۔( ترمذی، 4 / 121، الحدیث: 2279)
نماز: یادرکھئے!ایمان و عقائد کی
درستی کے بعدنماز حُقُوقُ اللہ میں سب سے
اہم حق ہے۔چنانچہ فتاویٰ رضویہ جلد 9، ص158-159 پر ہے:ایمان و تصحیحِ عقائد(یعنی
ایمان اور درست عقائد کو تسلیم کرنے)کے بعد جملہ حُقُوقُ اللہ میں سب سے اہم و
اعظم نماز ہے۔ نماز ضائع کرنے والوں کو قبرو حشر میں دردناک عذابات
کاسامناکرناپڑےگا،چنانچہ بروزِقیامت گناہگاروں
کی شفاعت فرمانےوالےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا:قيامت کےدن سب سے
پہلے نماز چھوڑنے والوں کےچہرے سياہ ہوں گے اور بے شک جہنم ميں ايک وادی ہےجسے لَمْلَمْ کہا جاتا ہے،اس میں
سانپ ہيں اورہرسانپ اُونٹ جتناہے،اس کی لمبائی ايک مہینےکی مسافت جتنی ہے،جب وہ بے
نمازی کو ڈَسےگاتواس کازہر 70سال تک اس کےجسم(Body)میں جوش مارتا رہےگا،پھر اس
کاگوشت گل کرہڈی سےالگ ہوجائے گا۔(کتاب الکبائر، ص26)
روزہ:توحیدو رسالت کا اقرار کرنے اور تمام ضروریاتِ دین پر ایمان لانے کے
بعد جس طرح ہر مُسلمان پر نماز فرض قرار دی گئی ہے اسی طرح رمضان شریف کے روزے بھی
ہر مُسلمان (مرد وعورت) عاقل وبالغ پر فرض ہیں اور یہ روزے 10 شعبان المعظم دو ہجری کو
فرض ہوئے۔قرآنِ مجید میں روزوں کی فرضیت کا حکم سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں
ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تَعَالٰی ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ
عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے
تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔(پ 2، البقرۃ: 183)تفسیر صِرَاطُ
الْجِنَان میں اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھا ہے: روزے کا مقصد تقوی و
پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی
حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق
ہوتی ہے، جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس
اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔(صراط
الجنان،1/292) روزے کے لغوی
معنٰی ہیں : ’’ رُکنا ‘‘ لہٰذا شریعت کی اِصطلاح میں صبح صادِق سے لے کر غروب آفتاب تک قصداً
کھانے پینے اور جماع سے ’’رُکے رہنے‘‘کو روزہ کہتے ہیں۔(فیضانِ
رمضان، ص 75)یادرکھئے: ہر وہ عبادت جس کے کرنے میں مشقت و پریشانی کا سامنا
ہو،اللہ پاک
کی رحمت سےاس کا ثواب مزید بڑھ جاتا ہے اور اس کو ادا نہ کرنے پر عذاب کی وعیدیں بیان
کی گئ ہیں چنانچہ فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے ماہ رمضان کو پایا اورا س کے روزے نہ رکھے وہ شخص شقی (یعنی بد بخت
)ہے۔(مجمع الزوائد، ج3، ص340،حدیث:4773) مزید ارشاد فرمایا:جس نے کسی رخصت اور مرض کے بغير رمضان
المبارک کا ايک روزہ چھوڑا، وہ ساری زندگی کے روزے رکھے تب بھی اس کی کمی پوری
نہيں کر سکتا۔(ترمذی، حدیث:723،ص1718) ہر مسلمان (مرد و عورت) غور کرے صحت مند و تندرست ہونے کے باوجود بغیر
عذرِ شرعی کتنے روزے قضا کر دیتا ہے، یاد رکھئے!رمضان المبارک کے پورے روزے رکھنا فَرض ہے،بِلاعُذرِشَرَعی ایک روزہ
بھی تَرک کرنا ناجائز و حَرام اورجَہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔اس سے معلوم ہوا
کہ چاہے شدید گرمی ہو یا پھر تپتپاتی دھوپ ہو، کام کا بوجھ ہو یا پھر موسم کی سختی
ہو الغرض ہر قسم کی مشقت کو برداشت کرتے ہوئے اللہ پاک کے حق کو احسن طریقے سے ادا
کریں اور رمضان المبارک کے مکمل روزے نہ صرف خود رکھیں بلکہ اپنے بچوں کوکم عُمری سے ہی نماز روزہ کی عادت ڈالیں
ان شاء اللہ العزیز اس کے بے شمار فوائد وبرکات حاصل ہوں گی اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِسنّت
مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بچہ جیسے آٹھویں سال میں قدم
رکھے اس کے ولی (سرپرست ) پر لازِم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دےاور جب گیارھواں
سال شروع ہو توولی (سرپرست )پر واجب ہے کہ صوم وصلوٰۃ (نماز روزہ نہ رکھنے )پر
مارے،بشرطیکہ روزے کی طاقت ہو اور روزہ ضرر نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ ج10،ص345 )اے کاش! ہم اللہ پاک کی رضا پانے اور روزے کے بے شمار
مقاصد کو پانے کے لئے زندگی کے ہر رمضان میں روزے رکھنے میں کامیاب ہو جائیں۔
آمین بجاہِ النبی الآمین
زکوٰۃ: زکاۃ کو اسلام کی بنیاد کہا گیا ہے اور یہ اللہ
رب العزت کا نماز کے بعد تیسرا حق ہے جس کا تعلق مالی عبادت سے ہے اللہ رب العزت
کے اس حق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلامِ الہی قرآنِ پاک
میں اللہ رب العزت نے نماز اور زکوۃ کا ایک ساتھ 32 مرتبہ ذکر فرمایا
ہے۔(ردالمحتار، ج3، ص202)
زکاۃ شریعت میں اﷲ پاک کے لیے مال کے ایک حصہ کا جو شرع نے مقرر کیا ہے، مسلمان
فقیر کو مالک کر دینا ہے اور وہ فقیر نہ ہاشمی ہو، نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام اور
اپنا نفع اُس سے بالکل جدا کر لے۔(تنویر الابصار،ج3،
ص203 ۔206) زکاۃ کی فرضیت حکمِ قرآنی سے ثابت ہے: وَ اَقِیْمُوا
الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ترجمہ کنزالایمان:اور نماز قائم رکھو
اور زکوٰۃ دو۔(پ 1،البقرۃ:43)
احکامِ فقہ میں اس کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ زکاۃ
فرض ہے، اُس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق اور ادا میں
تاخیر کرنے والا گنہگار و مردود الشہادۃ ہے۔(درمختارمع ردمحتار،ج3، ص204) بندے پر اللہ رب العزت کا یہ حق ہے کہ وہ جب اس نے کلمۂ
اسلام پڑھ لیا اب وہ ضروریاتِ دین کا اقرار بھی کرےجیساکہ صاحبِ بہارِ شریعت
فرماتے ہیں : نِری
کلمہ گوئی اِسلام کیلئے کافی نہیں، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے۔
(بہارِ شریعت ،ج1،حصہ5،ص
870) زکوٰۃ2ہجری میں روزوں سے قبل فرض
ہوئی ۔(درمختار، ج3،ص202) اسلام نے اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ہر ایسا شخص کہ
جس کو اللہ رب العزت نے مال کی دولت سے نوازا ہے اور وہ مال شریعت کی مقررہ مقدار
کو پہنچ گیا ہے تو اللہ پاک کا حق ہے کہ وہ مالی عبادت کے مسائل بھی سیکھے چنانچہ
منقول ہے کہ جب مالک ِنصاب ہوگیا تو زکوۃ کے مسائل کا جاننا
واجب ہوگیا اور اگر مالک ِنصاب ہونے سے قبل مرگیا اور زکوۃ کے مسائل کو نہ سیکھا
تو گنہگار نہ ہوا۔ (اشعۃ اللمعات، جلد اول ، ص ۱۶۱)زکاۃ دینا کامل مسلمان ہونے کا سبب ہے فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : تمہارے
اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔ (الترغیب والترھیب
،حدیث۱۲، ج۱،
ص۳۰۱ ) مزید ارشاد فرمایا: جو اللہ اور اس
کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مال کی زکوۃ ادا کرے ۔(معجم کبیر
،حدیث: 13561،ج12،ص324) زکاۃ دینے والے کو اللہ پاک کی رحمت چاروں
طرف سے گھیر لیتی ہے، زکاۃ دینے سے پرہیزگاری نصیب ہوتی ہے اور یہ ایسی صفت ہے کہ
جو پرہیز گار لوگوں کی علامات میں سے ایک علامت ہے، زکاۃ دینے والے کامل ترین
لوگوں میں شمار ہو جاتا ہے، زکاۃ دینے والے اللہ پاک کے گھروں یعنی مساجد کو آباد
کرنے والے ہیں، زکاۃ دینے والے معاشرے میں موجود ہزاروں کی تعداد میں حاجت مند لوگوں
کی حاجتوں کو پورا کر کے غریبوں کے دل میں خوشی داخل کرنے والے ہیں، ان غریب لوگوں
کو زکوۃ دینے والوں کی بدولت معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ ملتاہے۔ الغرض
یہ اللہ رب العزت کا ایسا حق ہے کہ جس کو عمدہ طریقے سے ادا کرنے سے اللہ رب العزت
کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے اور بعض بعض کو تقویت پہنچاتا ہے۔
حج: نام ہے احرام باندھ کر 9 ذو الحجہ کو
میدانِ عرفات میں ٹھہرنے اورکعبہ معظمہ کے طواف کا۔ اس کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہے
کہ اس میں یہ افعال کیے جائیں تو حج ہے۔(بہارِ شریعت، حج کا بیان، 1 / 1035)
حج اللہ رب العزت کے حقوق میں سے ایک حق اور ارکانِ اسلام میں سے ایک بنیادی رکن
ہے اور جسمانی و مالی اللہ رب العزت کی اہم عبادت ہے اور یہ ایسی عبادت اور اللہ
رب العزت کا حق ہے جو کہ ہر ایک عاقل و بالغ مسلمان پر فرض نہیں ہے بلکہ ان عاقلین
و بالغین مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے جو جسمانی و مالی طاقت و استطاعت رکھتے ہوں
۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَ لِلّٰهِ
عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ- ترجمۂ
کنز الایمان: اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج
کرنا ہے جو اس تک چل سکے۔(پ 4، ال عمران: 97) یہ اللہ رب العزت کا وہ حق ہے کہ جو اس کو ادا کرنے کے لئے عالمِ
اسلام کے جملہ مسلمان ایک ہی لباس زیبِ تن کئے ہوئے مخصوص ایام میں ایک ہی وقت کے
اندر پوری دنیا میں ایک ہی مقام پر رنگ و نسل میں فرق کئے بغیر ایک ہی انداز میں
ایسی جگہ کہ جس کو اللہ رب العزت نے کعبۃ اللہ شریف کا نام دیا ہے جہاں قتال منع
ہے لڑائی جھگڑے منع ہیں بغض عناد دل میں نہیں رکھ سکتے بالکل پاک و صاف ہو کر
اتحاد و اتفاق میں رہتے ہوئے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بچے ، بڑھے ، نوجوان مرد
و عورت ہر قسم کے فرق کو مٹا کر اکٹھے ہوتے ہیں، اس حق اللہ کو ادا کرتے ہوئے یہ
مسلمانوں کا ایسا اتحاد و اتفاق جو سب کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ سب کا ایک لباس
ہوتا ہے سب ایک ہی گھر کے اردگرد طواف کرتے ہیں۔ یہ لمحات اللہ رب العزت کے ان
بندوں کے لئے جن کو اللہ رب العزت نے اپنے گھر تک پہنچنے کی طاقت دی ہے نعمتِ
عظمیٰ سے کم نہیں ہوتے۔ چونکہ یہ وہ خوش نصیب مسلمان ہیں جن کو حجاج کے لقب سے
نوازنے کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی بے شمار خصوصی کرم نوازیوں سے نوازا جاتا
ہے، جب یہ حجاج اپنے وطن کو واپس لوٹتے اور ان کرم نوازیوں کا تذکرہ اپنے ان رفقاء
سے کرتے ہیں جن سے ملاقات کرتے ہیں تو ان ملاقات کرنے والوں میں سے ایسے لوگ بھی
ہوتے ہیں جو اس حق اللہ کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ بھی ان نعمتوں کا تذکرہ
سن کر اس مقدس مقام کی زیارت کا دل میں ارمان لئے مچل اٹھتے ہیں ۔ چونکہ حج کے
فضائل ہی ایسے ہیں کہ اللہ رب العزت کے اس حق کو ادا کئے بغیر کسی بھی مسلمان کا
دل چین کی نیند نہیں سوتا ہر مسلمان اس مقدس مقام کی زیارت کرنے اور اس حق اللہ کی
اس فضیلت کو پانے کی ہر طرح کی کوشش میں لگ جاتا ہے فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس نے حج کیا اور کوئی جھگڑ ایاگناہ نہ کیا تووہ اپنے
گناہوں سے ایسے نکل جائے گا جیسا اس دن تھا جب اسکی ماں نے اسے جَناتھا ۔(بخاری ، 1 / 512 ،
حدیث : 1521) مزید ارشاد فرمایا: حج کیا کرو ، کیو نکہ حج گُناہو ں کواِ س
طرح دھو دیتا ہے ، جیسے پانی میل کو دھو دیتا ہے ۔( معجم اوسط ، من اسمہ القیس ، 3 / 416 ، حدیث :
4997) نیز حضور سید دو عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص (باوجود فرض ہونے کے ) حج
کئے بغیر مر جائے تو چاہے یہودی ہو کر مرے، چاہے عیسائی ہوکر۔ (ترمذی،حدیث:812، ج2، ص219) وہ عبادت کس
قدَرعظمت والی ہے کہ جس کے نہ ہونے سے دین کا کمال ختم ہو جاتا ہے اور اسے چھوڑنے
والا گمراہی میں یہودونصاریٰ کی طرح ہے۔ (احیا ء العلوم، ج1، ص 726)
محترم قارئینِ کرام! مضمون کو اختتام کی طرف لاتے ہوئے اس
بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ یہ مضمون ہے اللہ رب العزت کے حقوق کی
مختصر وضاحت پر مشتمل اور ان کو ادا نہ کرنا جرم ہے اور یہ ایسا جرم ہے کہ اللہ رب
العزت کی بارگاہ میں توبہ کرنے سے اللہ رب العزت اس کی سزا معاف فرما دیتا ہے۔ یاد رہے کہ ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں ہوتی ،
بلکہ مُختلف جُرموں کی توبہ بھی مُختلِف ہے جیسے اگر اللہ تَعالیٰ کے حُقُوق تَلف
کئے ہوں ،مثلاً نمازیں قَضا کیں ، رمضان کے روزے نہ رکھے ، فرض زکوٰۃ اَدا نہ کی،
حج فرض ہونے کے باوُجُود نہ کیا، تو ان سے توبہ یہ ہے کہ نماز روزے کی قَضا کرے،
زکوٰۃ اَدا کرے ، حج کرے اور ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی
تَقْصِیْر (غلطی )کی مُعافی مانگے، اسی طرح اگر اپنے کان ،آنکھ، زَبان، پیٹ، ہاتھ
پاؤں ، شرمگاہ اور دیگر اَعضاء سے ایسے گُناہ کئے ہوں ، جن کا تَعلُّق اللہ تَعالیٰ
کے حُقُوق کے ساتھ ہو ، بندوں کے حُقُوق کے ساتھ نہ ہو، جیسے غیر مَحرم عورت کی
طرف دیکھنا، جَنابت کی حالت میں مسجد میں بیٹھنا، قرآنِ مجید کو بے وُضو ہاتھ
لگانا، شراب نوشی کرنا، گانے باجے سُننا وغیرہ، ان سے توبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
کی بارگاہ میں اپنے گُناہوں کا اِقْرار کرتے، ان گُناہوں پر ندامت کااِظہار کرتے
اورآئندہ یہ گُناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرتے ہوئے مُعافی طلب کرے اور اس کے بعد
کچھ نہ کچھ نیک اَعمال کرے ،کیونکہ نیکیاں گُناہوں کو مِٹا دیتی ہیں ۔(
تفسیر صراط الجنان ،ج 4 ، ص 230)
اللہ رب العزت حق اللہ عمدہ طریقے سے
ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اللہ رب
العزت پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے اس نے زمین اور آسمان پیدا فرمائے چرند و
پرند اور دیگر مخلوقات پیدا فرمائیں، اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
انسانوں میں پیدا فرما کر انسانیت کو شرف عطا فرمایا اور اشرف بنایا ہمیں ایمان کی
نعمت عطا فرمائی۔ ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ اللہ عزوجل پوری کائنات
کا ملک و خالق ہے پوری کائنات کا رب ہے اور اس کے احسانات سب سے زیادہ ہیں اس طرح اللہ عزوجل
کے حقوق بھی ہم پرسب سے زیادہ ہیں، ہم ذیل میں رب العزت کے چند حقوق کا تذکرہ کر
رہے ہیں:
(1) توکل:توکل فرض عین ہے اور علم توکل سیکھنا بھی فرض
عین ہے اسباب ترک کرکے محض خالق الاسباب پر بھروسہ رکھنا خواص کا توکل ہے اور عام
لوگوں کے لئے طاقت ہوتے ہوئے کام کاج چھوڑ کر رزق کے انتظار میں بیٹھ جانا جہالت
ہے۔توکل کی تعریف :توکل وکالت سے بنا ہے جیسے کہا
جاتا ہے ۔
وکل امرہ ابی فلان ترجمہ: ایک
شخص نے اپنا معاملہ فلاں کے سپردکردیا او راس پر بھروسہ کر لیا ( احیا العلوم)حضرت
علامہ سید نعیم الدین مراد آباد رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں توکل کے معنی
ہیں اللہ تبارک
و تعالیٰ پراعتماد کرنا اور کاموں کو اس کے سپرد کردینا یعنی حوالے کر دینا مقصود
یہ ہے کہ بندے کا اعتمادتمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پرہونا چاہیے۔(خزائن العرفان )ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنزالایمان ، اور جو اللہ پر
بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بے شک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے۔(پارہ28، سورۂ طلاق،
آیت: 3)تفسیر:حضرت ابو فردا زاہد رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: میں نے خواب دیکھا ایک شخض کہہ رہا تھا تم نہیں جانتے کہ توکل والے آرام
میں ہیں، میں نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے کن چیزوں سے آرام
میں ؟کہا دنیاوی پریشانیوں اور قیامت کے دن حساب کی تنگی سے آرام میں ہیں۔ حضرت
ابو فروا زاہد ر حمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم اس خواب کے بعد
میں نے پروا کرنا چھوڑ دی کہ رزق تاخیر سے آتا ہے یا جلدی آتا ہے۔(کتاب توکل علی اللہ )
(2) اللہ عزوجل کی نافرمانی سے بچنا :رسولِ اکرم صلی
اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں انہیں ضائع
نہ کرو کچھ چیزیں حرام کی ہیں انہیں ہلکا نہ جانو اور کچھ حدیں قائم کی ہیں ان سے
آگے نہ بڑھو اور اس نے ( تم پر رحمت فرماتے ہوئے) دانستہ کچھ چیزوں سے سکوت
فرمادیا ہے ان کی جستجو نہ کرو۔( مسلم شریف ،کتاب التوبہ)نیکی یا گناہ کے دونوں
راستے آپ کے سامنے ہیں اب فیصلہ آپ نے خود ہی کرنا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں
فرمانبرداری کے راستے پر چلتے ہوئے رحمٰن عزوجل کی خوشنودی آپ کو مطلوب ہے?
یا شیطان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے گناہوں کے دلدل میں پھنسانا چاہتے ہیں ?یاد رکھئے نیکی کے راستے پر چلیں
گے تو رضائے رب الانعام کے ساتھ ساتھ بیشمار برکتوں سے بھی نوازے جائیں گے اور اگر
گناہ اور نافرمانی کے راستے کو اپنائیں گے تو شیطان کی فرمانبرداری اور رحمن عزوجل
کی نافرمانی کے سبب لعنت کا طوق آپ کا مقدر بن جائے گا۔
(3) توبہ کرنا:بندے پر فرض ہے کہ جب نافرمانی کامرتکب ہو
تومغفرت کے لیے فوراً بارگاہِ خداوندی کی طرف رجوع کرلے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ کنزالایمان : اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور گناہوں سے
در گزر فرماتا ہے اور وہ جاتنا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔(پارہ25، سورة شوریٰ ، آیت
نمبر25)تفسیر: سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گناہوں سے توبہ
کرنے والا ایسا ہے کہ جیسا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔(سنن کبریٰ، کتاب الشہادات)حضرت
عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہا روایت کرتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: اے لوگو ں اللہ سے توبہ کروبیشک میں بھی دن میں سو مرتبہ
استغفار کرتاہوں۔(صحیح مسلم ،کتاب الذکرو الدعا و توبہ والاستغفار)
(4) شکریہ ادا کرنا:ربِ ذواجلال نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزوں اور اللہ عزوجل
کا احسان جانو اگر تم اسی کو پوچتے ہو۔ ( آیت نمبر172، پارہ2، سورة البقرہ)تفسیر :صدر الافاضل حضرت علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کی نعمتوں پر شکر واجب ہے۔ تفسیر
بیضاوی میں اس کے تحت لکھا ہے کہ عبادت بغیر شکر کے مکمل نہیں ہوتی اور تفسیر کبیر
میں فرمایا کہ شکر تمام عبادتوں کی اصل ہے۔
(5) اللہ عزوجل کے فیصلوں پر راضی رہنا:حدیث پاک میں ہے: خوشخبری ہے اس کے لیے جس کو اسلام کی
ہدایت دی گئی قدرے کفایت رزق دیا گیا اور وہ اس پر ر اضی ہے۔(ترمذی شریف کتاب
الزہد صفحہ 561)قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنزالایمان:اور قریب ہے
کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات
تمہیں پسند آئے او روہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم
نہیں جانتے۔(پارہ 2، آیت نمبر216، سورة البقرہ)امام شعرانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک
نے جوکچھ عطا فرمایا ہے، جس حال میں رکھا ہے اگر بندہ اس کے علاوہ کچھ اور طلب کر
ے تو وہ گویا اس بات کا دعویٰ کررہا ہے کہ وہ اللہ پاک سے بڑھ کر علم
رکھنے والا ہے اور بندے کے جاہل ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔( انوار القدسیہ، فی
بیان آداب ص30)
ہمارے اسلامی بھائیو ں ہم پر جو حقوق اللہ عزوجل
ہیں وہ بے شمار ہیں ہمیں چاہیے کہ رب کریم کے حقوق کی ادائیگی میں اپنی ہرساعت اور
ہر سانس لگا دیں ، اللہ عزوجل کے حقوق ہم ادا نہیں کر سکتے۔مگر ہمیں
اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرتے رہنا چاہیے یہ ہم پر لازم ہے دعا ہے اللہ عزوجل
ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ النبی الامین
محمد طلحٰہ خان عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ
فیضان خلفائے راشدین،راولپنڈی ،پاکستان)
حقوق
”حق“ کی جمع ہے، اس کے مختلف معنی ہیں جن میں سے ایک ”بدلہ“ بھی ہے۔ حقوق دو قسم
کے ہیں:حق العبد،حقوق اللہ(بہارِ شریعت، حصہ12، ص976)اخلاقیات کا تقاضہ ہے کہ جب کوئی
شخص کسی کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو حق یہ ہے کہ اس بھلائی کا اچھا بدلہ دیا جائے ،تو
جس ذاتِ باری تعالٰی نے ہمیں زندگی بخشی، اور اچھی زندگی بسر کرنے کے لیے اعلٰی
جسم، اور جسم میں بہترین اعضاء اور پوری دنیا میں طرح طرح کی نعمتوں سے نوازہ بھلا
اسکے کتنے سارے حقوق بندے پر لازم ہونگے۔ الغرض اللہ پاک کے بے شمار احسانات کے بدلے انسان پر سب سے زیادہ اور پہلے
حقوق اللہ تعالٰی ہی کے ہیں، جس کا ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ حقوق اللہ کی
طویل فہرست میں سے 5 حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
(1) توحید کا اقرار : بندوں پر اللہ پاک کا سب سے پہلا حق، اسکے وحدہ لا شریک (وہ اکیلا ہے،اسکا کوئی
شریک نہیں) ہونے کا اقرار کرناہے۔ جس طرح یہودی و عیسائی اور دیگر کفار نے اللہ پاک کے ساتھ دیگر خدا گڑھ لیے، ان سب
کا انکار کرتے ہوئے اللہ پاک کو صرف
ایک ماننا حقُ اللہ ہے، جیسا کہ
فرمانِ باری تعالٰی ہے: وَ اعْبُدُوا
اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا ترجمہ کنزالعرفان
: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ(پارہ:5، النسا:36)
(2) مستحقِ عبادت : دوسرا بنیادی حق خاص اللہ پاک کے لیے عبادت کرناہے۔ کسی بھی قسم
کی کوئی بھی عبادت کا مستحق صرف و صرف وہی ذاتِ باری تعالٰی ہے۔ فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: پس بے شک
اللہ پاک کا اپنے بندوں پر حق ہے کہ
بندے صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی شے کو بھی اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک نہ ٹھرائیں۔(مشکوٰة
المصابیح، ج1، کتاب الایمان، حدیث:21) (3) اللہ
تعالٰی سے کیا وعدہ پورا کرنا: ارشادِ باری تعالٰی ہے: وَ
اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ ترجمہ
کنزالعرفان: اور اللہ کا عہد پورا کرو جب تم کوئی عہد کرو ۔(پارہ:14، النحل:91)
تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت کے متعلق حضرت علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ’’عہد سے مراد
ہر وہ چیز ہے جسے پورا کرنا انسان پر لازم ہے خواہ اسے پورا کرنا اللہ تعالیٰ
نے بندے پر لازم کیا ہو یا بندے نے خود اسے پورا کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا ہو“
(صراط الجنان،ج5، تحت الآیۃ: النحل91) اس عہد سے ایک مراد یہ بھی ہے کہ جب کسی
گناہ سے توبہ کی جائے تو اپنی توبہ پر ثابت قدمی بھی ہو کیونکہ توبہ بھی اللہ تعالٰی
سے آئندہ اس گناہ سے باز رہنے کا وعدہ ہے۔ اور یہ اللہ تعالٰی کا حق ہے کہ جو وعدہ
اس سے کیا جائے اسے پورا کیا جائے۔
4) دعا مانگنا:
اللّٰه تعالٰی کا فرمان ہے: وَ قَالَ
رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ
عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰) ترجمہ
کنزالعرفان:اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا
بیشک وہ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کرجہنم میں جائیں گے۔
(پارہ:24، المؤمن:60) رئیس المتکلمین، والدِ اعلٰی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں
کہ:” یہاں عبادت سے مراد دعا ہے“۔(احسن الوعا لاداب الدعا تخریج بنام فضائلِ دعا،
فصلِ اوّل فضائلِ دعا میں) یعنی اللّٰه تعالٰی سے دعا مانگنا بھی حقوق اللّٰه میں
سے ہے کہ اُس سے دعا مانگی جاۓ اور صرف اُسی سے مانگی جاۓ۔
اگر کوٸی
شخص ذاتِ باری تعالٰی سے بے پرواہ ہو کر بطورِ تکبر یا مطلقاً دعا ہی نہیں مانگتا توغضبِ
الٰہی کا مستحق ہو گا۔
(5) اللہ پاک
سے دوستی: فرمانِ باری تعالٰی ہے: اِنَّمَا
وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ترجمہ
کنزالعرفان: تمہارے دوست صرف اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں (پارہ:6، المائدہ:55)
یعنی صرف و صرف اللہ تعالی، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور مومنین کا حق ہے کہ ان کے ساتھ نہ کہ یہودی، عیسائی
اور دیگر کفار کے ساتھ دوستی کی جائےکیونکہ یہ کفار آپس میں دوست ہیں لیکن
مسلمانوں کے کبھی دوست نہیں بن سکتے بلکہ ہمیشہ دشمن تھے، ہیں اور رہیں گے۔
حقوق
اللہ کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اللہ پاک کا حق یہ ہے کہ تمام اسلامی عقائد پر ایمان رکھنا اور تمام
تعلیماتِ دینیہ پر عمل کرنا۔ اگرچہ کوئی شخص بھی کما حقہ (جیسا حق ہے) اللہ تعالٰی
کے حقوق ادا نہیں کرسکتا لیکن ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے رب، اپنےخالق و
مالک کے تمام تر حقوق ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کرے، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ
عنھم کا معمول تھا کہ، قتادہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام تجارت فرمایا کرتے تھے، لیکن
جب حقوق اللہ میں سے کوئی حق پیش ہوتا تو انہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ تعالی
کے ذکر سے نہیں روک سکتی تھی، یہاں تک کہ وہ اس حق کو اللہ تعالٰی کی طرف ادا فرما
لیا کرتے تھے۔(صحیح بخاری، ج2، کتاب البیوع،باب التجارۃ فی البر، الحدیث:2063)
اللہ پاک ہمیں بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد
ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین
حافظ احمد حمادعطّاری(درجۂ سادسہ، فیضان آن لائن
اکیڈمی، اوکاڑہ،پاکستان)
اللہ
کریم کی ذات بلند و برتر جو جمیع مخلوقات کی خالق ،رازق اور مالک ذات ہے، اپنی
اطاعت کی سب سے زیادہ حقدار ہے۔ جیسےدینِ اسلام نے والدین، اولاد، اساتذہ، پڑوسی،
وغیرہ کے حقوق کو بیان فرمایا اسی طرح حقوق اللہ کو بھی واضح طور پر بیان فرمایا
اور ان کو ادا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ۔ جنّ و اِنْس کو عبادتِ خداوندی کا
حکم ہوا بلکہ اسی (عبادت)کوان کا مقصدِ تخلیق بتایا۔ اب ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ
وہ اپنے اوپر لازم فرائض کو بخوبی سمجھے اور ان کو ادا کرنے کی ہمہ وقت کوشش کرتا
رہے ۔ اللہ کریم کی ذات کے حقوق کا جاننا بھی لازمی ہے تاکہ ان کی ادائیگی کر کے
انسان اپنی زندگی کے مقصد کو پانے میں کامیاب ہو سکے ۔
(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : فَاِنَّ
حَقَّ اللَّهِ عَلَى العِبَادِ اَنْ يَّعْبُدُوهُ وَلاَ يُشْرِكُوا بِهٖ شَيْئًا
یعنی بندوں پر اللہ کا حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی چیزکو اس کا شریک نہ
ٹھہرائیں۔ (بخاری،2/269، 270، حدیث:2856)
(2)اللہ پاک کی ذات و صفات پر کامل ایمان لانا بھی
اللہ کا حق ہے اور پھر اس نعمتِ ایمان کو اسی کا احسان سمجھنا بھی ضروری ہے۔اللہ
پاک ایمان پر استقامت رکھنے والے افراد کا ذکر قراٰنِ مجید میں کچھ یوں فرماتا ہے:
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ
اسْتَقَامُوْا
﴾ ترجمۂ کنزالایمان: بےشک وہ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے۔
(پ24،حٰمٓ السجدۃ:30)پھر ان کو جو انعامات ملیں گے ان کا بھی ذکر فرمایا۔
(3) اللہ کریم کا
ایک بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ اس سے انتہا درجے کی محبت کی جائے ۔ اس محبت کا ذکر
کرتے ہوئے قراٰن ِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿ وَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- ﴾ ترجمۂ
کنزالعرفان: اور ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ (پ2، البقرۃ: 165)پھر
مختلف جگہوں پر ان لوگوں کی صفات اور انعامات کا بھی بیان فرمایا۔
(4) اللہ رب العزت
کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس سے ملاقات کا شوق اور اس بات کا یقین رکھا جائے،قراٰن
کریم میں خشیتِ الٰہی کے حامل افراد کی صفت اس طرح بیان ہوئی ہے: ﴿ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ
وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠(۴۶) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: جنہیں یقین ہے
کہ انھیں اپنے رب سے ملنا ہے۔ (پ1،البقرۃ:46)
(5) اسی طرح اللہ کریم کی ذات اس بات کی زیادہ حقدار
ہے کہ اس سے ڈرا جائے،ارشاد ہے: ﴿ یَّسْتَخْفُوْنَ
مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ ﴾
ترجَمۂ کنزُالایمان: آدمیوں سے چھپتے ہیں اور اللہ سے نہیں چھپتے اور اللہ ان کے
پاس ہے۔ (پ5،النسآء:108) حالانکہ وہ (اللہ) اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے
حیا کی جائے اور اس کے عذاب سے ڈرا جائے۔ (صراط الجنان، 2/298)
معزز
قارئین!اللہ کریم ہمیں بالخصوص اپنے حقوق اور بالعموم باقی سب کے حقوق کو جاننے
اور ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم