اللہ رب
العزت پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے اس نے زمین اور آسمان پیدا فرمائے چرند و
پرند اور دیگر مخلوقات پیدا فرمائیں، اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
انسانوں میں پیدا فرما کر انسانیت کو شرف عطا فرمایا اور اشرف بنایا ہمیں ایمان کی
نعمت عطا فرمائی۔ ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ اللہ عزوجل پوری کائنات
کا ملک و خالق ہے پوری کائنات کا رب ہے اور اس کے احسانات سب سے زیادہ ہیں اس طرح اللہ عزوجل
کے حقوق بھی ہم پرسب سے زیادہ ہیں، ہم ذیل میں رب العزت کے چند حقوق کا تذکرہ کر
رہے ہیں:
(1) توکل:توکل فرض عین ہے اور علم توکل سیکھنا بھی فرض
عین ہے اسباب ترک کرکے محض خالق الاسباب پر بھروسہ رکھنا خواص کا توکل ہے اور عام
لوگوں کے لئے طاقت ہوتے ہوئے کام کاج چھوڑ کر رزق کے انتظار میں بیٹھ جانا جہالت
ہے۔توکل کی تعریف :توکل وکالت سے بنا ہے جیسے کہا
جاتا ہے ۔
وکل امرہ ابی فلان ترجمہ: ایک
شخص نے اپنا معاملہ فلاں کے سپردکردیا او راس پر بھروسہ کر لیا ( احیا العلوم)حضرت
علامہ سید نعیم الدین مراد آباد رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں توکل کے معنی
ہیں اللہ تبارک
و تعالیٰ پراعتماد کرنا اور کاموں کو اس کے سپرد کردینا یعنی حوالے کر دینا مقصود
یہ ہے کہ بندے کا اعتمادتمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پرہونا چاہیے۔(خزائن العرفان )ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنزالایمان ، اور جو اللہ پر
بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بے شک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے۔(پارہ28، سورۂ طلاق،
آیت: 3)تفسیر:حضرت ابو فردا زاہد رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: میں نے خواب دیکھا ایک شخض کہہ رہا تھا تم نہیں جانتے کہ توکل والے آرام
میں ہیں، میں نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے کن چیزوں سے آرام
میں ؟کہا دنیاوی پریشانیوں اور قیامت کے دن حساب کی تنگی سے آرام میں ہیں۔ حضرت
ابو فروا زاہد ر حمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم اس خواب کے بعد
میں نے پروا کرنا چھوڑ دی کہ رزق تاخیر سے آتا ہے یا جلدی آتا ہے۔(کتاب توکل علی اللہ )
(2) اللہ عزوجل کی نافرمانی سے بچنا :رسولِ اکرم صلی
اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں انہیں ضائع
نہ کرو کچھ چیزیں حرام کی ہیں انہیں ہلکا نہ جانو اور کچھ حدیں قائم کی ہیں ان سے
آگے نہ بڑھو اور اس نے ( تم پر رحمت فرماتے ہوئے) دانستہ کچھ چیزوں سے سکوت
فرمادیا ہے ان کی جستجو نہ کرو۔( مسلم شریف ،کتاب التوبہ)نیکی یا گناہ کے دونوں
راستے آپ کے سامنے ہیں اب فیصلہ آپ نے خود ہی کرنا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں
فرمانبرداری کے راستے پر چلتے ہوئے رحمٰن عزوجل کی خوشنودی آپ کو مطلوب ہے?
یا شیطان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے گناہوں کے دلدل میں پھنسانا چاہتے ہیں ?یاد رکھئے نیکی کے راستے پر چلیں
گے تو رضائے رب الانعام کے ساتھ ساتھ بیشمار برکتوں سے بھی نوازے جائیں گے اور اگر
گناہ اور نافرمانی کے راستے کو اپنائیں گے تو شیطان کی فرمانبرداری اور رحمن عزوجل
کی نافرمانی کے سبب لعنت کا طوق آپ کا مقدر بن جائے گا۔
(3) توبہ کرنا:بندے پر فرض ہے کہ جب نافرمانی کامرتکب ہو
تومغفرت کے لیے فوراً بارگاہِ خداوندی کی طرف رجوع کرلے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ کنزالایمان : اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور گناہوں سے
در گزر فرماتا ہے اور وہ جاتنا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔(پارہ25، سورة شوریٰ ، آیت
نمبر25)تفسیر: سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گناہوں سے توبہ
کرنے والا ایسا ہے کہ جیسا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔(سنن کبریٰ، کتاب الشہادات)حضرت
عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہا روایت کرتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: اے لوگو ں اللہ سے توبہ کروبیشک میں بھی دن میں سو مرتبہ
استغفار کرتاہوں۔(صحیح مسلم ،کتاب الذکرو الدعا و توبہ والاستغفار)
(4) شکریہ ادا کرنا:ربِ ذواجلال نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزوں اور اللہ عزوجل
کا احسان جانو اگر تم اسی کو پوچتے ہو۔ ( آیت نمبر172، پارہ2، سورة البقرہ)تفسیر :صدر الافاضل حضرت علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کی نعمتوں پر شکر واجب ہے۔ تفسیر
بیضاوی میں اس کے تحت لکھا ہے کہ عبادت بغیر شکر کے مکمل نہیں ہوتی اور تفسیر کبیر
میں فرمایا کہ شکر تمام عبادتوں کی اصل ہے۔
(5) اللہ عزوجل کے فیصلوں پر راضی رہنا:حدیث پاک میں ہے: خوشخبری ہے اس کے لیے جس کو اسلام کی
ہدایت دی گئی قدرے کفایت رزق دیا گیا اور وہ اس پر ر اضی ہے۔(ترمذی شریف کتاب
الزہد صفحہ 561)قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنزالایمان:اور قریب ہے
کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات
تمہیں پسند آئے او روہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم
نہیں جانتے۔(پارہ 2، آیت نمبر216، سورة البقرہ)امام شعرانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک
نے جوکچھ عطا فرمایا ہے، جس حال میں رکھا ہے اگر بندہ اس کے علاوہ کچھ اور طلب کر
ے تو وہ گویا اس بات کا دعویٰ کررہا ہے کہ وہ اللہ پاک سے بڑھ کر علم
رکھنے والا ہے اور بندے کے جاہل ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔( انوار القدسیہ، فی
بیان آداب ص30)
ہمارے اسلامی بھائیو ں ہم پر جو حقوق اللہ عزوجل
ہیں وہ بے شمار ہیں ہمیں چاہیے کہ رب کریم کے حقوق کی ادائیگی میں اپنی ہرساعت اور
ہر سانس لگا دیں ، اللہ عزوجل کے حقوق ہم ادا نہیں کر سکتے۔مگر ہمیں
اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرتے رہنا چاہیے یہ ہم پر لازم ہے دعا ہے اللہ عزوجل
ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ النبی الامین