حق کی تعریف:حق سے
مراد وہ ذمہ داری ہے جو ایک ذات پردوسری ذات کے مقابل لازم ہو۔
حق کی اقسام:حقوق
دو قسم کےہیں:( 1)حقوق اللہ( 2)حقوق العباد۔
ہمارا دین کامل،جامع اور مکمل
ہے۔اس میں اللہ اور بندے دونوں کے حقوق کا بیان ہے۔دنیا میں آنے کا مقصد اللہ پاک
نے قرآن ِکریم میں بیان فرمایا ہے کہ بندے کو رب کریم کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا
ہے تو اب اس کا بندہ ہونے کے ناطے یہ ضروری ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔اگر کوئی کسی
پر احسان کرے تو لازمی طور پر وہ اس کا مشکور اور ممنون ہوگا تو رب کریم جس کے
اتنے احسانات ہیں کہ شمار نہیں تو اس کا شکر ادا کرنااس سے بھی زیادہ ضروری ہے اور محبت کا تقاضا
بھی یہ ہے کہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوشش کی جائے۔یہ جب ہی ممکن ہے کہ اس کے
حقوق ادا کیے جائیں۔
حقوق العباد پر تو کلام بہت عام
ہے مگر حقوق اللہ سے عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ نماز ادا کرنی ہے،روزہ رکھ لیا
تو اللہ کے حقوق ادا ہو گئے،جان لیجیے!حقوق اللہ کے معنی اس سے کہیں وسیع ہیں۔آئیے
!اپنے پیدا کرنے والے کے چند حقوق کے بارے میں جان لیتے ہیں۔
اللہ پاک کا پہلا
حق:اس
کی ذات و صفات پر کامل ایمان لانا ہے۔ ایمان وہ چیز ہے کہ اس کے بغیر کسی دوسری چیز
کا تصور ہی ممکن نہیں۔بات شروع ہی اٰمنتُ باللّٰہ (میں اللہ پر
ایمان لایا )سے ہوتی ہے،رسول و فرشتے و کتاب اس کے بعد آتے ہیں اور ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ جیسے ایمان
لانے کا حق ہے ویسے ایمان لایا جائے کہ صرف ظاہرا ًہی نہیں بلکہ دل سے ایمان لائے،دل سے اس کے رب ہونے اور وہ تمام صفات جو اس کے بارے میں بیان کی جاتی ہیں ان کو مانے
اور دل سے خود کو اس کا بندہ تسلیم کرے۔
دوسرا حق:اللہ پاک کا
دوسرا حق یہ ہے کہ جو یہ ایمان لایا اس کو اپنا کمال نہیں بلکہ اس کا ہی احسان اور
اس کی ہی عطا سمجھے کہ بغیر اس کی توفیق
کے ایمان لانا ممکن ہی نہیں اور یہی سمجھے کہ اگر اللہ چاہے تو ہی میرے دل میں ایمان
ہے اگر نہ چاہے تو اس عاجز بندے کے اختیار میں کچھ نہیں۔اللہ پاک ایمان کی سلامتی
عطا فرمائے۔قبر میں بھی ایمان ساتھ لے کر جائیں۔قرآنِ کریم میں ان لوگوں کے بارے میں
فرمایا گیا جو اسلام لانے پر آقا ﷺ پر احسان جتاتے تھے:یَمُنُّوْنَ
عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْاؕ- قُلْ لَّا
تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْۚ-بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ
هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ0 اے محبوب وہ
تم پر احسان جتاتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے تم فرماؤ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ
رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اُس نے تمہیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم
سچے ہو۔ (الحجرات:17)
تیسرا حق:اللہ
پاک کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کی ملاقات کا شوق رکھا جائے،جس سے محبت ہو اس سے ملنے
کا شوق بھی ہوتا ہے اور اس ملاقات کو خوبصورت بنانے کی کوشش بھی کرتا ہے،جو اللہ پاک
سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے وہ اس سے ملاقات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کرتا ہے اور
اس کو بہتر بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی عبادت میں کوشش کی جائے۔فرمایا:وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ0الَّذِیْنَ
یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ بے شک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری
طرف جھکتے ہیں جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے۔(البقرہ:45-46)
چوتھا حق:اللہ
پاک کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس سے اعلیٰ درجے کی محبت کی جائے،اس کی محبت میں جیے
اور اس کی محبت میں مرے،اپنی خوشی پر اللہ کی رضا اور خوشنودی کو ترجیح دے،اس کی یاد
میں روئے اس کی خاطر دوستی رکھے،اس کی خاطر ہی دشمنی رکھے،اس کے پسندیدہ لوگوں کو
خود بھی پسند کرے،قرآنِ کریم میں ایمان والوں کی نشانی بیان فرمائی گئی ہے:وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر
کسی کی محبت نہیں۔ (البقرہ:165)
پانچواں حق:اللہ
پاک کا پانچواں حق اس کی اطاعت ہے کہ جس
جس چیز کا اس نے حکم دیا اسے بجا لائے اور جس جس چیز کا اس نے منع فرمایا اس سے رک
جائے اور اس کی اطاعت میں دل تنگ نہ ہو
بلکہ خوشی خوشی اس کی عبادت میں کوشش کرے،نماز پڑھے تو خشوع و خضوع سے،زکوٰۃ ادا
کرے تو دل تنگ نہ ہو،روزہ رکھے تو بھوک پیاس پر رب کی رضا کی خاطر صبر کرے،حرام سے
پرہیز کرے تو رب کے لیے،کفر سے بچے تو رب
کے لیے،پھر ان سب کو اللہ کی توفیق اور احسان جانے اور اپنی عبادت پر ناز نہ کرے
بلکہ استغفار کرے، جیسے قرآنِ کریم میں پرہیزگاروں کے بارے میں ارشاد فرمایا:وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ0اور رات کے
آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔(الذٰریٰت:18)اور یہ بھی فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ
رَسُوْلَهٗ
اے ایمان والوں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔(الانفال:20)
ان کے
علاوہ اور بھی بہت سارے حقوق ہیں کہ جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔اگر ہم اللہ پاک کے
ان حقوق کی ادائیگی کریں گے تو ہی محض بندے سے حقیقی بندہ بن سکتے ہیں۔ اللہ پاک
سے ملاقات تو کرنی ہے اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو اللہ پاک ہم سے خوش ہو یا
ناراض ہو تو کیوں نہ اس حال میں ملاقات کی جائے کہ وہ ہم سے راضی ہو اور اس سعادت
کو پانے کے لیے اس کے حقوق ادا کرنے ہوں گے۔اللہ پاک توفیق عطا فرمائے۔