شریعتِ اسلامی کی رو سے خدا کے حقوق بندے پر  مثلاً اس پر ایمان لانا،اس کے پیغمبروں پر ایمان لانا،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ماننا اور نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ اللہ پاک کے حقوق میں شامل ہیں۔

اسلام نے انسان تو انسان ہر جاندار کے حقوق کا تحفظ کیا ہے،اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ایک پُرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر قدم پر رہنمائی فرماتا ہے۔اب اگر کوئی اسلام میں داخل ہو جاتا ہے کلمہ طیبہ پڑھتا ہے تو اس پر کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے پڑھنے سے کتنے اللہ اور نبی کریم کے حقوق آجاتے ہیں۔ اللہ پاک کا حق تمام مخلوقات پر سب سے زیادہ ضروری اور سب سے اہم ہے کیونکہ وہ اس کائنات کا اور ہمارا خالق،مالک،مولی اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔اللہ پاک کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے۔ارشاد ِباری:وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ0مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ0 اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے میں ان سے کوئی روزی نہیں چاہتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں بے شک اللہ پاک ہی بڑا روزی دینے والا،زبردست طاقت دینے والا ہے۔( الذاریات:56-57)

حق کی تعریف:حقوق حق کی جمع ہے،حق کسی چیز کا اس طرح ثابت ہو جانا واقع ہو جانا اس طرح موجود ہو جانا کہ اس کے موجود ہونے کا انکار نہ کیا جا سکے،حق کہلاتا ہے۔حق کا معنی درست ذمہ داری،سچ اور انصاف،جائز مطالبہ وغیرہ بھی ہے۔

احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:حضوراکرم ﷺ نے حضرت معاذ سے پوچھا:اے معاذ !کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے؟انہوں نے کہا:اللہ اور اس کا رسول ﷺہی بہتر جانتے ہیں! نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں۔(صحیح البخاری،حدیث:2856) مطلب ہر مشکل و آسانی میں اپنی ہر ضرورت کے لیے ہر حال میں اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا اور اس کے غیر کی طرف متوجہ نہ ہونا،ہر کام میں اللہ کو ہی کارساز سمجھنا،اللہ پاک کا حق ہے۔ اللہ پاک کی ایسی معرفت حاصل کی جائے جو اس پر ایمان لانے کے متقاضی ہو،اللہ پاک پر ایمان لانے میں یہ امور شامل ہیں:اللہ پاک کے وجود پر ایمان لانا،اس کی الوہیت پر ایمان لانا،اس کی ربوبیت پر ایمان لانا،اس کے اسما و صفات پر ایمان لانا۔

شریعتِ اسلامیہ میں بدکاری کرنے،چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔نماز میں کوتاہی کرنے والے کی سزا کے متعلق تین آیاتِ مبارکہ یہ ہیں:

(1)فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ0الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ0ترجمہ: تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔( الماعون:4-5)۔ اس سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جو نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پہلے پڑھتے تھے،اب نہیں پڑھتےیا سست ہو گئے،تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنا لیتے ہیں،اس لیے نماز کی ساری کوتاہیوں سے بچنا چاہیے۔

(2)فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاترجمہ: تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔(مریم:59)

(3)مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ0قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ0وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ0ترجمہ:کون سی چیزتمہیں دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے:ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔( المدثر:42-44)

اہل ِجنت جنت کے بالا خانوں میں بیٹھےجہنمیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کس وجہ سے تمہیں جہنم میں ڈالاتو وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں نہ نماز پڑھتے تھے نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔

زکوٰۃ:جو شخص زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے،زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اگر مرنے سے پہلے اس نے سچی توبہ نہ کی اس گناہ سے تو اسے آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے،اللہ پاک نے ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ0 یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ0 اے ایمان والو بےشک بہت پادری اور جوگی لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں،یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزااس جوڑنے کا (توبۃ:34-35)

مسلمان ہونے کے لیے انسان کلمہ طیبہ پڑھتا ہے جس میں اللہ کے معبودِ برحق ہونے کی گواہی ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہر دو جہاں علم کی قید میں ہے اور علم کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی قید میں ہے اور کلمہ طیبہ اسم اللہ کی قید میں ہےاور جو شخص زبان سے کلمہ پڑھتا ہے اور دل سے اس کی تصدیق کرتا ہے اور کلمہ طیبہ کی حقیقت کو جانتا ہے،اس سے علم مخفی نہیں رہتا۔(امیر الکونین)

انسان پر حق ہے کہ وہ صرف اور صرف اسی کو خالق و مالک مانے یعنی اللہ پاک کے سوا کسی کی بھی کسی بھی حالت میں عبادت،اطاعت،فرمانبرداری نہ کرے بلکہ اطاعت اور فرمانبرداری میں اللہ پاک کی رضا شامل رکھے۔ آقا ﷺ فرماتے ہیں:فقر میرا فخر ہے اور فقر کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر فخر حاصل ہے۔(عین الفقر )

فقر اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے(شمس الفقرا)اے کاش !ہم بھی صحیح معنوں میں حقوق اللہ ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

پس مذکورہ تمام آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کی جائے،خشوع و خضوع کے ساتھ فرض نمازوں کی پابندی کی جائے،مال پر زکوٰۃ فرض ہونے اور پھر اس کا حساب لگا کر ہر سال زکوٰۃ ادا کی جائے اس طرح دیگر جو حقوق بیان کیے گئے ان کی بھی ادائیگی کر کے عذابِ نار سے بچانے کا سامان کرنا چاہیے اس کا ایک آسان ذریعہ آپ کو بتاتی چلوں کہ دعوتِ اسلامی کا پیارا پیارا دینی ماحول ہے،اس سے وابستہ ہو جائے آپ جس وقت چاہیں دعوتِ اسلامی آپ کی رہنمائی کے لیے اسی وقت حاضر ہے۔اللہ کریم ہمیں اخلاص کے ساتھ حقوق کی ادائیگی کرنے اور دین کے لیے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین