قرآنِ پاک میں انسان کی کامیابی کے لئے بہت سے الفاظ ہیں جیسے”فائزون“” ناجحون“۔اسی طرح ایک لفظ ”مفلحون“بھی ہے یعنی فلاح پانے والے۔فلاح سے مراد ایسی کامیابی جو کامل ہو ادھوری نہ ہو بلکہ ایسی کامیابی جس کا نتیجہ جنت ہو اور ایسی کامیابی کی خوشخبری متقین کو قرآنِ پاک میں سنائی گئی ہے۔ ہر مسلمان دنیا و آخر ت میں کامیابی چاہتا ہے۔آج دنیا کی کامیابی و فلاح کے لئے دن رات ہماری کوششیں جاری ہیں۔اس کامیابی کے حصول کے لئے ہم مشکل سے مشکل کام کر گزرتی ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی آخرت کی فلاح کے لئے کتنی کوشش کر رہی ہیں! وہ کون سے اعمال ہیں جن کو اپنا کر اخروی فلاح حاصل کی جاتی ہے! تو قرآن کی روشنی میں ان اعمال کو جاننے کی کوشش کرتی ہیں:(1،2،3)غیب پر ایمان،نماز قائم کرنا، اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کرنا: ترجمہ وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارےدیے ہوئے رزق سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ (4)کتابوں پر ایمان لانا اور(5)آخرت پر ایمان لانا: ترجمہ:وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا اور تم سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان،البقرۃ:3،4،5) (6)امر بالمعروف اور نہی عن المنکر :ترجمہ: اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان،ال عمران:104) (7)رشتہ داروں،مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرنا:ترجمہ:تو رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور ہی لوگ کامیابی والے ہیں۔ (سورۂ روم:38)(8)نفس کے لالچ سے بچنا:ترجمہ: اور جسے اس کے نفس کے لالچ پن سے بچا لیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (تغابن:16)(9)مالی و جانی جہاد:ترجمہ: لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں اورجانوں کے ساتھ جہاد کیا اور انہی کے لئے بھلائیاں ہیں اور یہی کامیاب ہیں۔(التوبۃ:88)اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت:ترجمہ: مسلمانوں کی بات تو ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو وہ عرض کریں گے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(النور:51) ضرورت اس امر کی ہے کہ ان آیات طیبات کی روشنی میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ کیا ہم ایسے اعمال پر کاربند ہیں جو ہمیں آخرت میں فلاح و کامیابی دلا سکتے ہیں؟ یا پھر ایسے کاموں کو اپنائے ہوئی ہیں جو ہماری فلاح اور کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے؟ اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں شرم سار کریں گے؟ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اعمالِ صالح کی توفیق عطا فرمائے۔


فلاح سے مراد:المفلحون فلاح سے بنا ہے۔فلاح کے لغوی معنیٰ ہیں:چیرنا،کھلنا اور قطع کرنا، اسی لئے کسان کو فلاح کہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ زمین کو چیرتا ہے۔اصطلاح میں فلاح کے معنی ہے :کامیابی، کیونکہ وہ بھی آڑوں اور پردوں کو چیر کر مشکلات کو دفع کر کے حاصل کی جاتی ہے۔فلاح سے مراد رب کریم کا اپنی طرف کھینچنا ہے۔قرآنِ کریم میں بہت سی جگہ مختلف اعمال پر کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے جن میں سے چند یہ ہیں ۔1) ترجمۂ کنز الایمان :وہ جو نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور آخرت پر یقین لائیں  وہی اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور انہیں کا کام بنا۔تفسیر:معنی یہ ہے کہ نیک لوگ وہ ہیں جو نماز کو اس کی تمام شرائط اور حقوق کے ساتھ ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں فرض ہونے والی زکوٰۃ اس کے حق داروں کو دیتے ہیں اور وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے، اعمال کا حساب ہونے اور اعمال کی جزاو سزا میں شک یا انکار نہیں کرتے بلکہ اس پر یقین رکھتے ہیں ۔جن کے یہ اوصاف ہیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت پر ہیں اور وہی لوگ قیامت کے دن اپنے رب کی بارگاہ سے ثواب حاصل کر کے حقیقی طور پر کامیاب ہونے والے ہیں۔(روح البیان،لقمان،تحت الآیۃ:4-5، 7/63-64-تفسیر طبری،لقمان،تحت الآیۃ:4-5، 10/201 ملتقطاً)2)دین و دنیا میں کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ:ترجمۂ کنز الایمان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔تفسیر:فرمایا گیا کہ مسلمانوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جب انہیں اللہ پاک اور اس کے رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف بلایا جائے تا کہ رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے درمیان اللہ پاک کے دیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ فرمادیں تو وہ عرض کریں کہ ہم نے بُلاوا سُنا اور اسے قبول کر کے اطاعت کی اور جو ان صفات کے حامل ہیں وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(خازن،النور،تحت الآیۃ:51،3/ 359،مدارک،النور،تحت الآیۃ:51،ص787ملتقطاً)اس سے معلوم ہوا! سیدالمرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کےحکم کے سامنے اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں اور نہ ہی آپ کے حکم کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں صرف اپنی عقل کو معیار بنایا جائے بلکہ جس طرح ایک مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے سپرد کر دیتا ہے اور اس کی دی ہوئی دوائی کو چون وچرا کئے بغیر استعمال کرتا ہے اسی طرح خود کوحضورِ اقدس،مکے مدینے کے والی،جن کا رتبہ سب سے بلند وعالی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حوالے کر دینا اور آپ کے ہر حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دینا چاہئے کیونکہ ہماری عقلیں ناقص ہیں اور تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عقلِ مبارک وحی کے نور سے روشن اور کائنات کی کامل ترین عقل ہے۔ اگر اس پر عمل ہو گیا تو پھر دین و دنیا میں کامیابی نصیب ہو گی۔3)نفس کو برائیوں سے پاک کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے:ترجمۂ کنز الایمان:بیشک مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا کیا۔تفسیر :اللہ پاک نے اس آیت میں فرمایا:بیشک جس نے اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا ۔(جلالین مع صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ: 9، 6/2370)اس سے معلوم ہوا! اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرنا کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے نفس کو گناہوں میں چھپا دینا ناکامی کا سبب ہے اور نفس برائیوں سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب اللہ پاک اور اس کے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت کی جائے۔ 4)اور ارشاد فرماتا ہے:’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا0‘‘(احزاب:71)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔لہٰذا جو شخص حقیقی کامیابی حاصل کرنا اور ناکامی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی اطاعت کر کے اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرے۔5) ترجمۂ کنز الایمان :تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی مراد کو پہنچے۔تفسیر : معنی یہ ہے کہ جس کے عقائد درست اور اعمال نیک ہوں گے تو اس کے اعمال کا  اللہ پاک کے نزدیک وزن ہو گا اور یہی لوگ اپنا مقصد ومطلوب کو پا کر کامیاب ہوں گے۔(تفسیرابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: 102، 4 / 64-65)6) ترجمۂ کنز الایمان :تو رشتہ دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو یہ بہتر ہے اُن کے لئے جو الله کی رضا چاہتے ہیں اور اُنہیں کا کام بنا۔تفسیر:یعنی اے وہ شخص! جسے اللہ پاک نے وسیع رزق دیا،تم اپنے رشتے دار کے ساتھ حسن ِسلوک اور احسان کر کے ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو صدقہ دے کر اور مہمان نوازی کرکے اُن کے حق بھی دو۔رشتہ داروں،مسکینوں  اور مسافروں کے حقوق ادا کرنا ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو اللہ پاک کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ پاک سے ثواب کے طالب ہیں اور وہی لوگ آخرت میں  کامیاب ہونے والے ہیں۔(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: 38، ص909، روح البیان، الروم، تحت الآیۃ: 38، 7 / 39، خازن، الروم، تحت الآیۃ: 38، 3 / 465، ملتقطاً)اس سے معلوم ہوا! جو شخص رشتہ دارو ں سے حسنِ سلوک اور صدقہ و خیرات ،نام و نَمود اور رسم کی پابندی کی وجہ سے نہیں  بلکہ محض اللہ پاک کی رضا کے لئے کرے وہی ثواب کا مستحق ہے۔7) ترجمۂ کنز الایمان :دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں جنت والے ہی مراد کو پہنچے۔تفسیر : یعنی جہنم والے جن کے لئے دائمی عذاب ہے اور جنت والے جن کیلئے ہمیشہ کا عیش اور سَرمَدی راحت ہے،یہ دونوں برابر نہیں بلکہ جنت والے ہی کامیاب ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی اللہ پاک کی رضا میں گزاری اور آخرت میں اس کی نعمتوں کے مستحق ہوئے جبکہ کفار دونوں جگہ نقصان میں رہے۔(سورة الحشر: 20)8)اصل کامیابی ہر مسلمان کو حاصل ہے:ترجمۂ کنز الایمان :وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔(سورة البقرۃ:5)تفسیر صراط الجنان : یاد رہے!اس آیت میں فلاح سے مراد ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل کامیابی متقین ہی کو حاصل ہے، ہاں! اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے بہرحال جنت کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔9) جس نے اپنے مال کو شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔ ترجمۂ کنز الایمان :تو اللہ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے اور فرمان سنو اور حکم مانو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اپنے بھلے کو اور جو اپنی جان کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ تفسیر : یعنی جب تم نے اس نصیحت کو سن لیا اور ثواب کے بارے میں جان لیا تو تم اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق اللہ پاک سے ڈرتے رہو ، اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تمہیں جو بات ارشاد فرمائیں اسے سنو اور ان کا حکم مانو اور اپنے فائدے کیلئے اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کرو اور جو اپنے نفس کے لالچی پن سے بچالیا گیا اور اس نے اپنے مال کو اطمینان کے ساتھ حکمِ شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(روح البیان، التغابن، تحت الآیۃ: 16، 10 / 19،خازن، التغابن،تحت الآیۃ: 16، 4 / 277، خزائن العرفان، التغابن، تحت الآیۃ: 16، ص1031، ملتقطاً) اس آیت سے معلوم ہوا! ہر شخص پر اپنی طاقت کے مطابق تقویٰ اورپرہیز گاری لازم ہے ۔ اور جس نے اپنے مال کو شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔10) اُخروی کامیابی کے لئے ہی عمل کرنا چاہئے: ترجمۂ کنز الایمان : تو کیا ہمیں مرنا نہیں مگر ہماری پہلی موت اور ہم پر عذاب نہ ہوگا۔ بے شک یہی بڑی کامیابی ہے۔ ایسی ہی بات کے لئے کامیوں کو کام کرنا چاہیے۔تفسیر:ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب موت ذبح کردی جائے گی تو اہل ِجنت فرشتوں سے کہیں گے:کیا ہم دنیا میں  ہو جانے والی پہلی موت کے سوا مریں گے نہیں اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا؟فرشتے کہیں گے: نہیں یعنی اب تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ اس پر جنتی کہیں گے کہ بیشک یہ بڑی کامیابی ہے جو ہمیں نصیب ہوئی ۔(خازن، والصافات،تحت الآیۃ:58-60، 4/18، مدارک، الصافات،تحت الآیۃ: 58-60، ص1002 ملتقطاً)اس آیت میں اللہ پاک کی اطاعت کے بدلے ثواب اور اُخروی انعامات حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ عمل کرنے والوں کو ایسی ہی کامیابی کے لئے عمل کرنا چاہیے۔(خازن، والصافات،تحت الآیۃ: 61، 4 / 18-19) اس آیت ِمبارکہ سے معلوم ہوا! اصل اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، لہٰذا اسی کامیابی کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ہر عقل مند کو چاہئے کہ وہ نیکوں کے اوصاف اپنا کر حقیقی کامیابی حاصل کرنے والوں میں شامل ہونے کی بھرپور کوشش کرے ۔


عربی لفظ قد افلح کا لغوی معنی ہے: جودنیا اورآخرت میں کامیاب ہے ۔کامیابی کا وسیع تر اسلامی تصور یہ ہے کہ خدا راضی ہو، آخرت میں نجات ملے،جہنم سے چھٹکارا اور جنت میں داخلہ حاصل ہو جائے۔حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی بندہ خلوصِ دل سےاللہ پاک اور اس کے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے تو کامیابی ہر میدان میں اس کے قدم چومتی ہے۔ اللہ پاک کی غیبی امداد اس کے شاملِ حال ہوتی ہے اور بظاہر اسباب نہ ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوتا ہے۔استقامت اور ثابت قدمی اختیار کرنے والا انسان کامیاب ہوتا ہے۔کامیاب لوگوں کے متعلق اللہ پاک فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:بے شک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔تفسیر:قدافلح:بے شک کامیاب ہوگئے۔اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے ۔(پ18،المومنون:1-تفسیر صراط الجنان،6/494) ترجمۂ کنزالعرفان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔(پ18،النور:52) ترجمۂ کنزالعرفان: تو جسے آگ سے بچا لیا گیا اور ان میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا۔(پ4،ال عمران:185)قرآن کی نظر میں ایمان اور اچھے کردار والے حقیقت میں کامیاب ہیں۔ترجمہ:یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔(پ1،البقرۃ:5) ترجمۂ کنزالعرفان:اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(پ4،ال عمران:104) ترجمۂ کنزالعرفان:وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(پ10:التوبہ:20)ترجمۂ کنزالعرفان:تو اللہ سے ڈرو جہاں تک تم سے ہو سکے اور سنو اور حکم مانو اور راہِ خدا میں خرچ کرو یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہوگا اور جسے اس کے نفس کے لالچ پن سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ28،التغابن:16) ترجمۂ کنز العرفان:اللہ نے فرمایا:یہ قیامت وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچےنہرے جاری ہیں وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،یہی بڑی کامیابی ہے ۔(پ7،المائدۃ:119)حقیقی اور اصل کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن بندے کے گناہ معاف کئےجائیں اور اسے جہنم کے عذاب سے بچا لیا جائے۔اللہ پاک فرماتا ہے: ترجمۂ کنز العرفان: اور انہیں گناہوں کی شامت سے بچا لے اور جسے تو نے اس دن گناہوں کی شامت سے بچا لیا تو بےشک تو نے اس پر رحم فرمایا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔(پ24،المؤمن:9)نفس کو برائیوں سے پاک کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنز العرفان: بے شک جس نے نفس کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہو گیا اوربے شک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہو گیا ۔(پ30،الشمس:9-10) آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


 اللہ پاک کی ایک ایسی نعمت ہے جس کو ہر بندہ حاصل کرنا چاہتا ہے مؤمن، کافر، نوجوان بوڑھا ،مرد ، عورت الغرض کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کو اس کی تلاش نہ ہو وہ نعمت ہے کامیابی۔ جی ہاں ! ہر انسان کامیابی کی جستجو میں ہے۔ کامیابی کا مفہوم سمجھنے میں انسان کا بڑا اختلاف ہے۔ کسی کے نزدیک مالدار ہونا کامیابی ہے، کوئی تخت و تاج کا ملنا کامیابی گمان کرتا ہے، کوئی عزت و شہرت کو اصل کامیابی سمجھتا ہے، لیکن یہ سب باتیں غلط ہیں حقیقی کامیابی تو وہ ہے جس کو اللہ پاک فرمائے کہ یہ کامیابی ہے۔ یہاں قرآنی آیات کی روشنی میں دس ایسے اعمال بیان کئے جاتے ہیں جن کو کرنے سے بنده دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

(1) کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ پاک کا ذکر کرتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ پاک کے ذکر سے ہرگز غافل نہ ہو۔ ہر وقت اس کے ذکر میں مشغول رہے۔ اپنے رب کا کثرت سے ذکر کرنے والے فلاح و کامرانی پانے والے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۴۵)۔ ترجمۂ کنزالعرفان : اے ایمان والو! جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ۔(پ10، الانفال: 45) (2) اللہ پاک کا خوف تمام نیکیوں اور دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے۔ خوف خدا نجات دلانے والا ،جنّت میں لے جانے والا، فلاح و کامرانی دلانے والا عمل ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے : فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠(۱۰۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو اللہ سے ڈرتے رہو اے عقل والو کہ تم فلاح پاؤ ۔ (پ 7،المآئدۃ: 100)

(3) جس مسلمان نے اپنے آپ کو گناہوں سے بچالیا وہ کامیاب ہوگیا اور جو گناہوں پر کمر بستہ رہا ، وہ ناکام ہوگیا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسےستھرا کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چُھپایا۔(پ30،الشمس:10،9)(4) سود کا لین دین کرنا، سودی کاروبار کرنا مسلمان کی دنیا و آخرت کو تباہ کردیتا ہے۔ دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی پانے کے لئے سودی کاروبار اور کام سے بچنا ضروری ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَاْكُلُوا  الرِّبٰۤوا  اَضْعَافًا  مُّضٰعَفَةً۪-  وَّ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تُفْلِحُوْنَۚ (۱۳۰) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو !سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اُس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔ (پ4، آلِ عمران: 130)(5) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲) ترجمہ کنزالعرفان : اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پ 18،نور:52)

(6) اللہ پاک فرماتا ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) ترجمۂ کنزالعرفان : بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ 18، المؤمنون:1 تا 3)(7) جو جہنم سے بچ گیا اور جنّت میں داخل ہوگیا وہی کامیاب ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ- ترجمۂ کنز الایمان: جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا ۔(پ4، آلِ عمران: 185)(8) اللہ پاک فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔ (پ28،الحشر :9)

(9) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩(۷۷) ، ترجمہ کنزالعرفان : اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرواور اچھے کام کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاجاؤ۔ (پ 17 ،الحج : 77) نوٹ:یہ آیتِ سجدہ ہےاورآیتِ سجدہ پڑھنےیاسننےسےسجدہ واجب ہوجاتاہے ۔(10) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴)ترجمہ کنزالعرفان : بیشک جس نے خود کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہوگا۔ (پ 30 ، الاعلیٰ :(14


اللہ پاک اسے کامیابی عطا فرماتا ہے جسے ایمان کی دولت مل جاتا ہے اور سب سے بڑی کامیابی ایمان بچا لینا ہی ہے ۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے۔(پ 18، المؤمنون:1)قَدْ اَفْلَحَ:بیشک کامیاب ہوگئے۔ اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں گے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: 1، 8 / 258، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: 1، 6 / 66، ملتقطاً)حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے: یاد رہے کہ ہر ایک نے موت کا کڑوا ترین ذائقہ چکھ کر ا س دنیا سے کوچ کرنا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے اور جسے اس دن جہنم کے دردناک عذابات سے بچا لیاگیا اور بے مثل نعمتوں کی جگہ جنت میں داخل کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب ہے، جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔(پ 4، اٰلِ عمران :185)

اور جہنم سے بچنے اور جنت میں داخلے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے،جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو جہنم سے بچنا اور جنت میں داخل ہونا پسند ہو تو اسے موت ضرور اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جس معاملے کو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہو وہی معاملہ دوسروں کے ساتھ کرے۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، 2 / 625، حدیث: 6821) اور چونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اس لئے ایمان پر ثابت قدم رہنا اور اس کی حفاظت کی بھرپور کوشش کرنا ضرور ی ہے تاکہ موت کے وقت ایمان سلامت رہے اور قیامت کے دن جنت میں داخلہ نصیب ہو۔( صراط الجنان ،پ 18، المؤمنون:1)

اور وہ شخص جو اللہ اور اس کی اطاعت کرتا ہے اور وہ کامیاب ہے۔ اسی طرح اپنے نفس کو برائی سے روکنے والا شخص بھی کامیاب ہے۔ ارشاد باری ٰ ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) ترجمۂ کنزالایمان:بیشک مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا کیا۔(پ 30،شمس:9)

بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اللہ پاک نے اس سے پہلی آیات میں چند چیزوں کی قَسمیں ذکر کر کے ا س آیت اور اس کے بعد والی آیت میں فرمایا کہ بیشک جس نے اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا اور بیشک جس نے اپنے نفس کو گناہوں میں چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔( جلالین مع صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ: 9-10، 6 / 2370)

اس سے معلوم ہوا کہ اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرنا کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے نفس کو گناہوں میں چھپا دینا ناکامی کا سبب ہے اور نفس برائیوں سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کی جائے اوراطاعت کرنے والوں کے بارے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پ 18،نور:52)اور ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔(پ 22،احزاب:71)

لہٰذا جو شخص حقیقی کامیابی حاصل کرنا اور ناکامی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کر کے اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرے۔( صراط الجنان پ30،سورہ شمس : 9)

نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنے والا شخص بھی کامیاب ہے۔ ارشاد باری ہے: وَ  لْتَكُنْ  مِّنْكُمْ  اُمَّةٌ  یَّدْعُوْنَ  اِلَى  الْخَیْرِ  وَ  یَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  یَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِؕ-وَ  اُولٰٓىٕكَ  هُمُ  الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔(پ 4، اٰلِ عمران :104)

یاد رہے جس آیت میں کامیابی مراد لیا گیا ہے اس سے ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل کامیابی ہے اور وہ متقین ہی کو حاصل ہے ہاں اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے بہرحال جنت کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔


انسان فطری طور پر جلد باز ہےجس کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ نفعِ عاجل کے پیشِ نظر دنیوی کاموں میں ترقی و کامیابی کو ہی سب کچھ سمجھ رکھاہے۔جبکہ حقیقی کامیاب وہ ہے جو اس زندگی میں نیک اعمال بجا لاکر اللہ پاک و حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگیا ہو۔ آئیے حقیقی فلاح و کامیابی والے 10 اعمال قراٰنِ مجید کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)نماز میں گڑگڑانا: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔ (پ 18، مؤمنون:1، 2) (2)فضول باتوں سے بچنا: اللہ پاک کا ارشاد ہے:﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) ﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔ (پ 18، مؤمنون: 3 ) اس آیت کے تحت علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: لغو سے مراد ہر وہ قول و فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے،جس کا مسلمان کو دینی یا دنیوی کوئی فائدہ نہ ہو۔(تفسیر صاوی، جز4، ص 1356)(3) زکوٰۃ ادا کرنا: اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18،مؤمنون:4)

(4) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا: اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔(پ18،مؤمنون: 5) (5) وعدوں کو پورا کرنا: اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں۔(پ18،مؤمنون:8) (6) وقت پر نماز ادا کرنا:اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ (پ 18، مؤمنون:9)(7) طہارت حاصل کرکے نماز ادا کرنا: اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵) ترجَمۂ کنزُ الایمان: بیشک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔ (پ30،الاعلیٰ:14، 15)

(8)نفس کو برائیوں سے پاک کرنا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰) ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: بیشک مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا۔(پ30، الشمس: 10،9) (9)اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا: فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ18، النور: 31) (10)اللہ پاک کی طرف وسیلہ تلاش کرنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔ (پ6، مائدہ:35)

اللہ پاک ہمیں قراٰنِ کریم میں بتائے گئے فلاح و کامرانی کے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

کامیاب ہونا، فلاح پانا، مقصد کو حاصل کر لینا وغیرہ الفاظ تقریباً ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی انسان ہو، کسی بھی فیلڈ سے تعلق رکھتا ہو وہ کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ لیکن کامیاب ہونے سے کیا مراد ہے؟ اس سے عام طور پر یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ جس کے پاس روپیہ، پیسہ، اچھی نوکری وغیرہ ہو وہی کامیاب ہے ۔بلکہ حقیقت  اس سے جدا ہے۔ اسلام ایک کامل واکمل دین ہے۔ اس نے ہمیں اس معاملے میں بھی تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ہمیں کامیاب بننے والے اعمال عطا فرما دئیے ہیں۔ کہ کن کن اعمال کو ہم کریں گے، تو ہم کامیاب کہلائیں گے یا ہم کامیابی حاصل کرنے والے ہو جائیں گے۔ آئیے اس بارے میں ہم قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ قرآن سے بڑھ کر رہنمائی کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد فرماتا ہے:

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترااور آخرت پر یقین رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔(پ 1،بقرہ:3تا 5)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵)ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔ (پ6، المآئدہ: 35)

مسلمان عورتوں کو پردے کا حکم دینا فلاح پانے کا ذریعہ ہے۔اللہ پاک کا فضل تلاش کرنا( یعنی حلال معاش میں مشغول ہونا، مریض کی عیادت کرنا ،جنازہ میں شرکت کرنا ،علماء کی زیارت کرنا وغیرہ) اعمال صالحہ بجا لانا فلاح پانے کا ذریعہ ہے۔صبر کرنا ،سرحد پر اسلامی ملک کی نگرانی کرنے والا کامیاب ہے۔ان اعمال کے علاوہ بھی قرآن و حدیث و دیگر کتب میں کامیاب بننے اور فلاح حاصل کرنے والے اعمال مذکور ہے۔ جن کو مطالعہ کرنے اور درس و بیان میں شرکت کرنے سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچائے اور صرف اپنی بارگاہ کا محتاج رکھے اور مذکورہ و غیر مذکورہ اعمال پر عمل کر کے کامیاب زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔(پ 18، المؤمنون:1 تا 5)ان آیات کی تفسیر میں صاحب خزائن العرفان صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃُ اللہ الہادی فرماتے ہیں: ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے ہیں۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ نماز میں خشوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہوا اور دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشۂ چشم سے کسی طرف نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے نہ ہوں اور انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کے حرکات سے باز رہے ۔ بعض نے فرمایا کہ خشوع یہ ہے کہ آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے ۔ اگر پہلی آیت مبارکہ کی طرف دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے ۔ مراد کو پہنچے سے مراد فلاحی وہ کامیابی ہے۔ لہذا ایمان والا ہونا فلاح وہ کامیابی ہونے کی علامت ہے ۔

ان مذکورہ پانچ آیات مبارکہ میں فلاح و کامیابی والے پانچ اعمال درجہ ذیل ہیں:

(1) اللہ پاک اور اس کے محبوب آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کامل ایمان و یقین رکھنا اور اللہ پاک کی تمام باتوں و چیزوں پر ایمان لانا یعنی تمام ضرویات دین پر ایمان لانا فلاح و کامیابی والا عمل ہے۔(2) نمازوں میں گڑگڑانا رونا اور یہ سمجھنا کہ شاید یہ میری زندگی کی آخری نماز ہو۔ (3) فضول اور بیہودہ باتوں سے بچنا۔ اس سے مراد اچھی بات کے علاوہ کچھ نہ بولنا۔(4) زکوٰۃ دینا یعنی زکوٰۃ ادا کرنا۔(5) اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا۔(6) کلمہ پڑھنا۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ(7) روزہ رکھنا۔ اس میں بالخصوص ماہ رمضان المبارک کے روزے اور بالعموم بقیہ تمام مہینوں کے نفلی روزے آجاتے ہیں۔(8) صاحب استطاعت ہونے پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ۔ (9) دوسروں کی اور مظلوم کی مدد کرنا اس سے مراد یہ ہے کہ ایک حدیث پاک میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مظلوم کے بد دعا سے بچو کیونکہ وہ رب کریم سے اپنے حق کا سوال کرتا ہے ۔(شعب الایمان) (10) سلام کو عام کرو۔ تم فلاح و کامیابی پا جاؤ گے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی ان مذکورہ فلاح و کامیابی والے اعمال اخلاص کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ ترجمۂ کنزالعرفان : بیشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے ۔(پ 15 ، بنی اسرائیل:9) اللہ پاک کا کڑوڑ ہا کڑوڑ احسان ہے کہ جس نے ہمیں نا صرف ایمان کی دولت سے نوازہ بلکہ ایک بہترین زندگی گزارنے کے لیے حضرتِ محمدِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صورت میں ایک نمونہ اور پھر قرآنِ مجید فرقانِ رشید کی صورت میں اصول و ضوابط جیسی نعمتوں سے نوازہ۔قرآنِ کریم ایسے قوانین کا سر چشمہ ہے جو فلاح و کامیابی کی راہ دکھاتا ہے ۔ گویا کہ یہ قرآنِ پاک کی خوبی خاصہ ہے کہ یہ بجانبِ حق رہنمائی کرنے والی کتاب ہے۔ اسی وجہ سے رشدوحدایت سے مزین یہ کتاب جگہ بہ جگہ فلاح و کامیابی کے اصولوں سے آراستہ ہے۔ ان میں سے دس مقامات جہاں قرآنِ رشید فلاح و کامیابی کے انمول اصول بیان کرہا ہے ذکر کیے جاتے ہیں :

(1)وَ  لْتَكُنْ  مِّنْكُمْ  اُمَّةٌ  یَّدْعُوْنَ  اِلَى  الْخَیْرِ  وَ  یَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  یَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِؕ-وَ  اُولٰٓىٕكَ  هُمُ  الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴ترجمۂ کنز العرفان: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ 4، اٰلِ عمران :104)

(2)یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَاْكُلُوا  الرِّبٰۤوا  اَضْعَافًا  مُّضٰعَفَةً۪-  وَّ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمہ کنزالعرفان :اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔(پ 4، اٰلِ عمران :130)

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵ترجمہ کنزالعرفان : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ6، مآئدہ: 35)

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩(۷۷) ، ترجمہ کنزالعرفان : اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرواور اچھے کام کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاجاؤ۔ (پ17،الحج:77) نوٹ:یہ آیتِ سجدہ ہےاورآیتِ سجدہ پڑھنےیاسننےسےسجدہ واجب ہوجاتاہے ۔

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۴۵) ، ترجمئہ کنزالعرفان : اے ایمان والو! جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یادکرو تاکہ فلاح پاؤ۔(پ10، الانفال: 45)

(6) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) ترجمۂ کنزالعرفان : بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ ۔(پ 18، المؤمنون:1 تا 3)

(7) وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) ترجمہ ٔکنزالعرفان : اور اے مسلمانوں! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ18،النور:31)

(8)وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲) ترجمہ کنزالعرفان : اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پ 18،نور:52)

(9) فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۳۸) ترجمۂ کنزالعرفان: تو رشتے دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی۔ یہ ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو الله کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(پ 21،روم:38)

(10) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴)ترجمہ کنزالعرفان : بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔ (پ 30 ، اعلیٰ :(14

یہ ایسے اعمال ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں کامیابی و کامرانی حاصل کی جاسکتی ہے اور آخرت میں بھی فلاح و بہبود سے ہمکنار ہونا نصیب ہوگا ۔اور حقیقی کامیابی تو اس میں ہے کہ بندہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے رب کریم کی فرمانبرداری میں زندگی گزارے ۔ اسکے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے ، اس کے بارے میں اللہ پاک خود فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ﲜ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِیْرُؕ(۱۱) ترجمہ کنزالعرفان : بے شک جو ایما ن لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ،یہی بڑی کامیابی ہے۔ (پ 30، البروج : 11)

اللہ پاک ہمیں حقیقی فلاح و کامیابی کی راہ پر چلنے کی توفیق رحمت فرمائے ۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مسلمانوں پر اللہ پاک کے کئی انعامات ہیں۔ ان میں سے قرآن مجید بھی مسلمانوں پر کسی انعام سے کم نہیں۔ قرآن مجید تمام کتابوں سے افضل ہے جو کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کی گئی۔ اس میں ایسے اعمال بیان کیے ہیں کہ جن کو بجالانے سے دنیا و آخرت کی کامیابی حصہ بنے گی۔ ان میں سے 10 آیات پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں جن پر عمل کرنے سے کامیابی کی بشارت ہے۔خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے:

(1) اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰)ترجمۂ کنزالعرفان: وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(پ 10،توبہ:20)

(2) وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ (۵۲) ترجمۂ کنزالعرفان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پ 18،نور:52)تفسیر صراط الجنان میں ہے اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو فرائض میں اللہ پاک کی اور سُنّتوں میں اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرے اور ماضی میں اللہ پاک کی ہونے والی نافرمانیوں کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرے اور آئندہ کے لئے پرہیز گاری اختیار کرے تو ایسے لوگ ہی کامیاب ہیں۔

(3)فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۳۸)ترجمۂ کنزالعرفان: تو رشتے دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی۔ یہ ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو الله کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(پ 21،روم:38)

(4) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴)ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔۔(پ 30 ، اعلیٰ :(14تفسیر صراط الجنان: میں اس آیت میں لفظ ’’ تَزَكّٰى‘‘ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد خود کو کفر و شرک اور گناہوں سے پاک کرنا ہے ۔دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز کے لئے طہارت حاصل کرنا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے زکوٰۃ ادا کر کے مال کو پاک کرنا مراد ہے۔

(5) اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًاۙ(۳۱)ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک ڈر والوں کے لئے کامیابی کی جگہ ہے ۔( پ 30 ، النبا:31)تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ وہ لوگ جو کفر اور برے اعمال سے بچتے ، اور اللہ پاک سے ڈرتے ہیں ان کے لئے جنت میں کامیابی کی جگہ ہے۔

(6)وَ  لْتَكُنْ  مِّنْكُمْ  اُمَّةٌ  یَّدْعُوْنَ  اِلَى  الْخَیْرِ  وَ  یَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  یَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِؕ-وَ  اُولٰٓىٕكَ  هُمُ  الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴ترجمۂ کنز العرفان: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ 4، اٰلِ عمران :104)

(7) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)ترجمۂ کنزالعرفان: بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ (پ 18، المؤمنون:1) تفسیر صراط الجنان میں اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں گے۔

(8) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩(۷۷)ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو!رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور اچھے کام کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاجاؤ۔ (پ17،الحج:77) نوٹ:یہ آیتِ سجدہ ہےاورآیتِ سجدہ پڑھنےیاسننےسےسجدہ واجب ہوجاتاہے ۔

(9) وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۱۰)ترجمۂ کنزالعرفان: اور اللہ کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ (پ 28،جمعہ:10)

(10)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰)ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(پ 7،مائدہ:90)


فلاح و کامیابی ایسی منزل ہے جس کی خواہش ہر ایک کے دل میں ہوتی ہے، دنیاوی معاملات ہوں یا اُخروی، الغرض! ہر شخص زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب ہونا چاہتا ہے، کامیابی اس کے قدم چومے اور کبھی بھی ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔  اصل فلاح و کامیابی کیا ہے؟ کیا دنیا ہی میں کامیاب ہو جانا ایک مسلمان کی اصل کامیابی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں اور نہ ہی یہی ہمارا مقصدِ حیات ہونا چاہئے ۔ جب ہم مقصدِ تخلیق پر تفکر کریں تو اصل کامیابی سمجھ آ جائے گی۔ مقصدِ تخلیق سے متعلق اللہ پاک قرآنِ مجید فرقانِ حمید پارہ 27 سورۃ الذّٰرِیٰت آیت 56 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)ترجمۂ کنز الایمان: اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں ۔

اصل فلاح و کامیابی اس دن کی کامیابی ہے کہ جس دن بندہ اپنے رب کائنات سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو، اس کا نامۂ اعمال اسے دائیں ہاتھ ملے، بلا حساب جہنم سے نجات پا کر ابدی نعمتوں والی جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل ہو جائے۔

دنیا کی رنگینوں میں کھو کر، طرح طرح کی آسائش و آرائش کو دیکھ کر، دنیاوی معاملات میں انہماک کی بدولت ہمارے ذہنوں سے حقیقی کامیابی کے خیالات و تصورات بالکل مفقود ہو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب فنا ہونے والا ہے۔ وَ مَا هٰذِهِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ-وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۶۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ دنیا کی زندگی تو نہیں مگر کھیل کود اور بےشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچّی زندگی ہے کیا اچھا تھا اگر جانتے۔ (پ21، عنکبوت: 64)

لہٰذا عاشقِ رسول کو چاہئے کہ وہ حقیقی فلاح و کامیابی کے حصول میں کوشاں رہے اور اس کے لئے اچھے طریقے سے تیاری کرے۔ اور اس بات کا خیال کرے کہ رب ذوالجلال نے حقیقی کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:كُلُّ نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ(۱۸۵) ترجمۂ کنز الایمان: ہر جان کو موت چکھنی ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔(پ4، آلِ عمران: 185) حکیمُ الاُمَّت، مُفْتی احمد یارخان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیتِ مُبارَکہ کے تَحت فرماتے ہیں : اِنسان ہوں یا جنّ یا فِرِشْتہ ، اللہ پاک کے سِوا ہر ایک کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے۔( نور ُالعرفان ،ص117)

اللہ پاک کے پاک کلام، قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں کئی ایسی آیات ہیں جن کی ابتداء و انتہاء فلاح و کامیابی اور کامیاب لوگوں کی صفات کا تذکرہ کرتی ہے۔ ان میں سے چند آیات درج ذیل ہیں کہ جن میں فلاح و کامیابی والے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے:

(1) قرآن کی روشنی میں کامیابی والا ایک عمل یہ بیان کیا گیا ہے کی ایمان کی حالت میں سلامتیِ عقیدہ کے ساتھ نیک اعمال سر انجام دئیے جائیں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ﶈ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ(۲) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵) ترجمۂ کنز الایمان: اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترااور آخرت پر یقین رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔ (پ1، البقرہ: 2 تا 5)

(2) کامیابی کاراز ایک یہ بھی ہے کہ ظاہر وباطن میں اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ایسی پختہ یقین کے ساتھ محبت ہو کہ آپ کی تعظیم و توقیر کی جائے اور زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملات ومعمولات میں آپ کی اطاعت و اتباع کی جائے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ کنز الایمان: ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُتراوہی بامراد ہوئے۔(پ9، الاعراف: 157)

(3) تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنا اور اللہ پاک کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اللہ پاک کی راہ میں جہاد کرنا فلاح و کامیابی والا عمل ہے ۔اللہ رب العزت قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵)ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔ (پ6، المآئدۃ: 35)

(4) کامیاب اور فلاح یافتہ لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ باوضو رہنے اور باجماعت نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، ہر طرح کی لغو اور فضول گفتگو اور فحش و بیہودہ بیٹھکوں سے کوسوں دور رہتے ہیں، اللہ پاک کے دئیے ہوئے پاکیزہ و طاہر مالوں میں سے فرض کردہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہیں، خوش دلی اور ایمان داری کو اپنا وطیرہ بناتے ہیں اور عہد ومیثاق کو پورا کرتے ہیں ۔ اللہ پاک ان صفات سے متصف لوگوں کو دائمی انعام و جزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(۷) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) ترجمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ اُن پر کوئی ملامت نہیں تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (پ18، المؤمنون: 1 تا 11)

(5) کامل ترین وکامیاب اورفلاح یافتہ لوگوں کی صفات میں سے یہ ہے کہ وہ صبح و شام اللہ پاکی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اللہ پاک کی بے شمار و ان گنت نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شکر بجا لاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۴۵) ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔(پ10، الانفال: 45)مزید فرمایا: فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹)ترجمۂ کنزالایمان: تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا ہو۔(پ8،الاعراف:69)

(6) فلاح و کامیابی والے اعمال میں سے ایک عمل یہ ہے کہ حلال و حرام میں تمیز رکھیں، خبیث و طیب میں فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے، ہر کامیاب شخص ہر قسم کے حرام و خبیث مال کے حصول سے بچتا ہے اور طیب و حلال مال کو اختیار کرتا ہے۔جیسا کہ اللہ رب العزت ان صفاتِ حمیدہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَاْكُلُوا  الرِّبٰۤوا  اَضْعَافًا  مُّضٰعَفَةً۪-  وَّ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تُفْلِحُوْنَۚ (۱۳۰) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو !سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اُس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس سودی خصلت کو نہ چھوڑا گیا توکبھی بھی فلاح وکامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔(پ4، آلِ عمران: 130)

(7) کامیاب افراد ہر قسم کے شیطانی اعمال اور گناہ سے پرہیز کرتے ہیں مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، دل آزاری، شراب، جوا اور دیگر منشیات و مہلکات وغیرہ جیسا اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰)ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو! شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔(پ7، المآئدۃ:90)

(8) قارئینِ کرام ! کامیابی اور فلاح کا دروازہ اللہ رب العزت کے حضور تمام گناہوں کی سچی توبہ سے کھلتا ہے ،واقعی سچی توبہ نہ صرف انسان کے گناہوں کی کالک کو دھو دیتی ہے بلکہ بندے کو فلاح و کامیابی سے ہمکَنَار کرتی ہے اللہ پاک قرآنِ مجید میں پارہ18،سُورَۃُ النُّور،آیت نمبر31 میں ارشاد فرماتا ہے : وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنز الایمان:اور اللہ کی طرف توبہ کرو! اے مسلمانو سب کے سب، اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔(پ18،النور:31)ان آیتوں پر غور تو کیجئے! قراٰن مجید ہمیں توبہ کرنے پر ابھار رہا ہے، اتنا ہی نہیں توبہ کرنے پر فلاح و کامیابی کی نوید بھی سنا رہا ہے، قربان ہوجائیے! گناہ کر کر کےجس رب کی خوب نافرمانی کی وہی رب ہمیں اپنی بارگاہ میں رجوع لانے کا حکم دے رہا ہے، گویا ’’ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ۔

(9) قارئینِ کرام ! توبہ پر استقامت پانے ، گناہوں سے باز رہنے ، آخرت کی حقیقی زندگی کو سنوارنے، قربِ خدا وندی پانے، دیدارِ الہٰی سے مشرف ہونے، فلاح و کامیابی اور سعادت مندی کے لئے پنجگانہ نماز کا پابند ہونا لازمی ہے۔ نماز کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩(۷۷) ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلے کام کرو اس امید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو۔(پ17،الحج:77) نوٹ:یہ آیتِ سجدہ ہےاورآیتِ سجدہ پڑھنےیاسننےسےسجدہ واجب ہوجاتاہے ۔

اس آیت میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو 3اَحکام دئیے ہیں : (1)…نمازپڑھو ۔ کیونکہ نماز کے سب سے افضل ارکان رکوع اور سجدہ ہیں اور یہ دونوں نماز کے ساتھ خاص ہیں تو ان کا ذکر گویا کہ نماز کا ذکر ہے ۔ (2)… اللہ پاک کی عبادت کرو ۔ اس کاایک مطلب یہ ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت کرو اور ا س کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے جو کام کرنے کا حکم دیا ہے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ، ان سب (پر عمل کرنے کی صورت) میں اپنے رب کی عبادت کرو ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ رکوع، سجدہ اور دیگر نیک اعمال کو اپنے رب کی عبادت کے طور پر کرو کیونکہ عبادت کی نیت کے بغیر فقط ان افعال کو کرنا کافی نہیں ۔ (3)…نیک کام کرو ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں : ان سے مراد صلہ رحمی کرنا اور دیگر اچھے اَخلاق ہیں ۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ تم یہ سب کام اس امید پر کرو کہ تم جنت میں داخل ہو کر فلاح و کامیابی پاجاؤ اور تمہیں جہنم سے چھٹکارا نصیب ہو جائے ۔(صراط الجنان، 8/ 480)

(10) فلاح و کامیابی سے مشرف مسلمان عورتوں کے لئے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱)ترجمۂ کنزالایمان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی مِلک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔(پ18،النور:31)

اللہ پاک ہم سب کو فلاح اور کامیابی والے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسانوں کوپیدافرمایا تاکہ وہ اس کی عبادت کریں،اس کی وحدانیت کا اقرار کریں، اس کی اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم کی پیروی کریں اور نیک اعمال کر کے حقیقی کامیابی (یعنی اللہ پاک کی رضا و جنت) حاصل کریں اور بُرے اعمال سے بچ کر ہمیشہ کی ذلت (یعنی اللہ پاک کی ناراضی و جہنم) سے نجات پائیں۔ فلاح و کامیابی پانے والے مختلف اعمال قراٰنِ کریم میں بیان فرمائے گئے ہیں ان میں سے 10 پیشِ خدمت ہیں:

(1)اللہ اور رسول کی فرماں برداری: فلاح و کامیابی دلانے والے اعمال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر حکم کی پیروی کی جائے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا:﴿یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱)﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔(پ22،الاحزاب:71)

(2)توبہ کرنا:اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرنا بھی کامیابی دلانے والا عمل ہے جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:﴿وَتُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱)﴾ترجمۂ کنز العرفان: اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ18، النور 31)

(3)خشوع و خضوع سےنماز ادا کرنا: نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنا بھی کامیابی دلانے والے اعمال میں سے ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ کنزالعرفان:جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔(پ18، المؤمنون:2)

(4)فضول باتوں سے منہ پھیرنا: فضول اور بے ہودہ باتوں سے پرہیز کرنا بھی کامیابی و فلاح دلانے والا عمل ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجمۂ کنزالعرفان:اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں۔ (پ18، المؤمنون:3)

(5)زکوٰۃ ادا کرنا:کامیابی دلانے والا ایک عمل زکوٰۃ ادا کرنا بھی بیان کیا گیا۔قراٰنِ پاک میں ہے:﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)ترجمۂ کنزالعرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں۔ (پ18، المؤمنون:4)

(6)شرمگاہ کی حفاظت کرنا:شرمگاہ کی حفاظت کرنا کامیابی دلانے والا عمل ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵)ترجمۂ کنزالعرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔(پ18، المؤمنون:5)

(8،7)امانتوں خیانت نہ کرنا اور وعدے پورے کرنا:فلاح و کامیابی دلانے والے اعمال میں سے دو یہ بھی ہیں۔امانت میں خیانت نہ کرنا اور وعدے کو پورا کرنا۔ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)ترجمۂ کنز العرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں۔(پ18، المؤمنون:8)

(9)نمازوں کی محافظت کرنا:پانچوں نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنا اور ان پر محافظت اختیار کرنا آخرت میں کامیابی پانے کا سب سے بہترین عمل ہے۔جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾ترجمۂ کنزالعرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔(پ18، المؤمنون:9)

(10)نفس کو مذموم صفات سے پاک کرنا:نفس کو مذموم صفات جیسے تکبر، ریاکاری،بغض و حسد اور دنیا کی محبت وغیرہ سے پاک کرنا اُخروی کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔(پ30، اعلیٰ:14)

اللہ پاک ہمیں ان سب اعمال کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حقیقی فلاح و کامیابی نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم