فلاح سے مراد:المفلحون فلاح سے بنا
ہے۔فلاح کے لغوی معنیٰ ہیں:چیرنا،کھلنا اور قطع کرنا، اسی لئے کسان کو فلاح کہتے
ہیں۔ کیوں کہ وہ زمین کو چیرتا ہے۔اصطلاح میں فلاح کے معنی ہے :کامیابی، کیونکہ وہ
بھی آڑوں اور پردوں کو چیر کر مشکلات کو دفع کر کے حاصل کی جاتی ہے۔فلاح سے مراد
رب کریم کا اپنی طرف کھینچنا ہے۔قرآنِ کریم میں بہت سی جگہ مختلف اعمال پر کامیابی
کی ضمانت دی گئی ہے جن میں سے چند یہ ہیں ۔1) ترجمۂ کنز الایمان :وہ جو نماز قائم
رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور آخرت پر یقین لائیں وہی اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور انہیں کا کام
بنا۔تفسیر:معنی یہ ہے کہ نیک لوگ وہ ہیں جو نماز کو اس کی تمام شرائط اور حقوق کے
ساتھ ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں فرض ہونے والی زکوٰۃ اس کے حق داروں
کو دیتے ہیں اور وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے، اعمال کا حساب ہونے
اور اعمال کی جزاو سزا میں شک یا انکار نہیں کرتے بلکہ اس پر یقین رکھتے ہیں
۔جن کے یہ اوصاف ہیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت پر ہیں اور
وہی لوگ قیامت کے دن اپنے رب کی بارگاہ سے ثواب حاصل کر کے حقیقی طور پر کامیاب
ہونے والے ہیں۔(روح
البیان،لقمان،تحت الآیۃ:4-5، 7/63-64-تفسیر طبری،لقمان،تحت الآیۃ:4-5، 10/201 ملتقطاً)2)دین
و دنیا میں کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ:ترجمۂ کنز الایمان: مسلمانوں کی بات تو
یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو عرض
کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔تفسیر:فرمایا گیا کہ مسلمانوں
کو ایسا ہونا چاہئے کہ جب انہیں اللہ پاک اور اس کے رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف بلایا جائے تا کہ رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے درمیان اللہ پاک کے دیے ہوئے احکامات
کے مطابق فیصلہ فرمادیں تو وہ عرض کریں کہ ہم نے بُلاوا سُنا اور اسے قبول کر کے اطاعت
کی اور جو ان صفات کے حامل ہیں وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(خازن،النور،تحت
الآیۃ:51،3/ 359،مدارک،النور،تحت
الآیۃ:51،ص787ملتقطاً)اس
سے معلوم ہوا! سیدالمرسلین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کےحکم کے سامنے
اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں اور نہ ہی آپ کے حکم کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے
معاملے میں صرف اپنی عقل کو معیار بنایا جائے
بلکہ جس طرح ایک مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے سپرد کر دیتا ہے اور اس کی دی ہوئی
دوائی کو چون وچرا کئے بغیر استعمال کرتا ہے اسی طرح خود کوحضورِ اقدس،مکے مدینے کے والی،جن کا رتبہ سب
سے بلند وعالی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حوالے کر دینا اور آپ کے ہر حکم کے
سامنے سر ِتسلیم خم کر دینا چاہئے کیونکہ ہماری عقلیں ناقص ہیں اور
تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
عقلِ مبارک وحی کے نور سے روشن اور کائنات کی کامل ترین عقل ہے۔ اگر اس پر عمل ہو
گیا تو پھر دین و دنیا میں کامیابی نصیب ہو گی۔3)نفس کو برائیوں سے پاک
کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے:ترجمۂ کنز الایمان:بیشک مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا
کیا۔تفسیر :اللہ پاک نے اس آیت میں فرمایا:بیشک جس نے اپنے نفس کو برائیوں سے
پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا ۔(جلالین مع صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ:
9، 6/2370)اس سے معلوم ہوا! اپنے نفس کو برائیوں سے پاک
کرنا کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے نفس کو گناہوں میں چھپا دینا ناکامی کا
سبب ہے اور نفس برائیوں سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب اللہ پاک اور
اس کے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
اطاعت کی جائے۔ 4)اور ارشاد فرماتا ہے:’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ
رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا0‘‘(احزاب:71)ترجمۂ
کنزُالعِرفان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے
بڑی کامیابی پائی۔لہٰذا جو شخص حقیقی کامیابی حاصل کرنا اور ناکامی
سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی اطاعت کر کے اپنے نفس کو
برائیوں سے پاک کرے۔5) ترجمۂ کنز الایمان :تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی
مراد کو پہنچے۔تفسیر : معنی یہ ہے کہ جس
کے عقائد درست اور اعمال نیک ہوں گے تو اس کے اعمال کا اللہ پاک کے نزدیک
وزن ہو گا اور یہی لوگ اپنا مقصد ومطلوب کو پا کر کامیاب ہوں گے۔(تفسیرابوسعود،
المؤمنون، تحت الآیۃ: 102، 4 / 64-65)6) ترجمۂ کنز الایمان :تو رشتہ
دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو یہ بہتر ہے اُن کے لئے جو الله کی رضا
چاہتے ہیں اور اُنہیں کا کام بنا۔تفسیر:یعنی اے وہ شخص! جسے اللہ پاک نے وسیع رزق
دیا،تم اپنے رشتے دار کے ساتھ حسن ِسلوک اور احسان کر کے ا س کا حق دو اور مسکین
اور مسافر کو صدقہ دے کر اور مہمان نوازی کرکے اُن کے حق بھی دو۔رشتہ
داروں،مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرنا ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو
اللہ پاک کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ پاک سے ثواب کے طالب ہیں اور وہی لوگ آخرت
میں کامیاب ہونے والے ہیں۔(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: 38، ص909، روح
البیان، الروم، تحت الآیۃ: 38، 7 / 39، خازن، الروم، تحت الآیۃ: 38، 3 / 465،
ملتقطاً)اس
سے معلوم ہوا! جو شخص رشتہ دارو ں سے حسنِ سلوک اور صدقہ و خیرات ،نام و نَمود اور
رسم کی پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اللہ پاک کی رضا کے لئے کرے وہی ثواب
کا مستحق ہے۔7) ترجمۂ کنز الایمان :دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں جنت والے
ہی مراد کو پہنچے۔تفسیر : یعنی جہنم والے جن کے لئے دائمی عذاب ہے اور جنت والے جن
کیلئے ہمیشہ کا عیش اور سَرمَدی راحت ہے،یہ دونوں برابر نہیں بلکہ جنت
والے ہی کامیاب ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی اللہ پاک کی رضا میں گزاری اور
آخرت میں اس کی نعمتوں کے مستحق ہوئے جبکہ کفار دونوں جگہ نقصان میں رہے۔(سورة
الحشر: 20)8)اصل
کامیابی ہر مسلمان کو حاصل ہے:ترجمۂ کنز الایمان :وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے
ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔(سورة البقرۃ:5)تفسیر
صراط الجنان : یاد رہے!اس آیت میں فلاح سے مراد ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل
کامیابی متقین ہی کو حاصل ہے، ہاں! اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا
ہی گناہگار کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے
بہرحال جنت کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔9) جس نے اپنے مال
کو شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔ ترجمۂ کنز الایمان :تو اللہ سے
ڈرو جہاں تک ہوسکے اور فرمان سنو اور حکم مانو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اپنے
بھلے کو اور جو اپنی جان کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ تفسیر
: یعنی جب تم نے اس نصیحت کو سن لیا اور ثواب کے بارے میں جان لیا تو تم اپنی طاقت
اور وسعت کے مطابق اللہ پاک سے ڈرتے رہو ، اللہ پاک اور اس کے رسول صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تمہیں جو بات ارشاد فرمائیں اسے سنو
اور ان کا حکم مانو اور اپنے فائدے کیلئے اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کرو
اور جو اپنے نفس کے لالچی پن سے بچالیا گیا اور اس نے اپنے مال کو اطمینان کے ساتھ
حکمِ شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(روح
البیان، التغابن، تحت الآیۃ: 16، 10 / 19،خازن، التغابن،تحت الآیۃ: 16، 4 / 277،
خزائن العرفان، التغابن، تحت الآیۃ: 16، ص1031، ملتقطاً) اس آیت سے معلوم
ہوا! ہر شخص پر اپنی طاقت کے مطابق تقویٰ اورپرہیز گاری لازم ہے ۔ اور جس نے اپنے
مال کو شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔10) اُخروی کامیابی کے لئے
ہی عمل کرنا چاہئے: ترجمۂ کنز الایمان : تو کیا ہمیں مرنا نہیں مگر ہماری پہلی موت اور ہم پر عذاب نہ ہوگا۔ بے
شک یہی بڑی کامیابی ہے۔ ایسی ہی بات کے لئے کامیوں کو کام کرنا چاہیے۔تفسیر:ان
آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب موت ذبح کردی جائے گی تو اہل ِجنت فرشتوں سے کہیں
گے:کیا ہم دنیا میں ہو جانے والی پہلی موت کے سوا مریں گے نہیں اور
ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا؟فرشتے کہیں گے: نہیں یعنی اب تمہیں کبھی موت
نہیں آئے گی۔ اس پر جنتی کہیں گے کہ بیشک یہ بڑی کامیابی ہے جو
ہمیں نصیب ہوئی ۔(خازن، والصافات،تحت الآیۃ:58-60،
4/18، مدارک، الصافات،تحت الآیۃ: 58-60، ص1002 ملتقطاً)اس آیت میں اللہ
پاک کی اطاعت کے بدلے ثواب اور اُخروی انعامات حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ
عمل کرنے والوں کو ایسی ہی کامیابی کے لئے عمل کرنا چاہیے۔(خازن،
والصافات،تحت الآیۃ: 61، 4 / 18-19) اس آیت ِمبارکہ سے معلوم ہوا!
اصل اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیا
جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، لہٰذا اسی کامیابی کو حاصل کرنے کی
بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ہر عقل مند کو چاہئے کہ وہ نیکوں کے اوصاف اپنا کر حقیقی
کامیابی حاصل کرنے والوں میں شامل ہونے کی بھرپور کوشش کرے ۔