محمد الیاس عطاری مدنی (شعبہ آئی ٹی، مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی، پاکستان)
فلاح و کامیابی ایسی منزل ہے جس کی خواہش ہر ایک کے دل میں
ہوتی ہے، دنیاوی معاملات ہوں یا اُخروی، الغرض! ہر شخص زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب
ہونا چاہتا ہے، کامیابی اس کے قدم چومے اور کبھی بھی ناکامی کا سامنا نہ کرنا
پڑے۔ اصل فلاح و کامیابی کیا ہے؟ کیا دنیا
ہی میں کامیاب ہو جانا ایک مسلمان کی اصل کامیابی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں اور نہ ہی
یہی ہمارا مقصدِ حیات ہونا چاہئے ۔ جب ہم مقصدِ تخلیق پر تفکر کریں تو اصل کامیابی
سمجھ آ جائے گی۔ مقصدِ تخلیق سے متعلق اللہ پاک قرآنِ مجید فرقانِ حمید پارہ 27 سورۃ الذّٰرِیٰت آیت
56 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا
لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)ترجمۂ کنز الایمان: اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی
لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں ۔
اصل فلاح
و کامیابی اس دن کی کامیابی ہے کہ جس دن
بندہ اپنے رب کائنات سے اس حال میں ملاقات کرے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو، اس کا
نامۂ اعمال اسے دائیں ہاتھ ملے، بلا حساب جہنم سے نجات پا کر ابدی نعمتوں والی جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل ہو جائے۔
دنیا کی
رنگینوں میں کھو کر، طرح طرح کی آسائش و آرائش کو دیکھ کر، دنیاوی معاملات میں
انہماک کی بدولت ہمارے ذہنوں سے حقیقی کامیابی کے خیالات و تصورات بالکل مفقود ہو
چکے ہیں۔ حالانکہ یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب فنا ہونے والا ہے۔ وَ مَا هٰذِهِ
الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌؕ-وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ
لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۶۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ دنیا کی زندگی تو
نہیں مگر کھیل کود اور بےشک آخرت کا گھر
ضرور وہی سچّی زندگی ہے کیا اچھا تھا اگر جانتے۔ (پ21، عنکبوت: 64)
لہٰذا
عاشقِ رسول کو چاہئے کہ وہ حقیقی فلاح و کامیابی کے حصول میں کوشاں رہے اور اس کے
لئے اچھے طریقے سے تیاری کرے۔ اور اس بات کا خیال کرے کہ رب ذوالجلال نے حقیقی
کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ
الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ
وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا
الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۱۸۵) ترجمۂ کنز الایمان: ہر جان کو موت چکھنی ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو
پورے ملیں گے جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی
زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔(پ4، آلِ عمران: 185) حکیمُ الاُمَّت، مُفْتی احمد
یارخان رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیتِ
مُبارَکہ کے تَحت فرماتے ہیں : اِنسان
ہوں یا جنّ یا فِرِشْتہ ، اللہ پاک کے سِوا
ہر ایک کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے۔( نور ُالعرفان ،ص117)
اللہ پاک کے پاک
کلام، قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں کئی ایسی آیات ہیں جن کی ابتداء و انتہاء
فلاح و کامیابی اور کامیاب لوگوں کی صفات کا تذکرہ کرتی ہے۔ ان میں سے چند آیات
درج ذیل ہیں کہ جن میں فلاح و کامیابی والے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے:
(1) قرآن
کی روشنی میں کامیابی والا ایک عمل یہ بیان کیا گیا ہے کی ایمان کی حالت میں سلامتیِ عقیدہ کے ساتھ
نیک اعمال سر انجام دئیے جائیں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ﶈ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى
لِّلْمُتَّقِیْنَۙ(۲) الَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ
مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴)
اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵) ترجمۂ کنز
الایمان: اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم
رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں
اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترااور آخرت پر یقین
رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر
ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔ (پ1، البقرہ: 2 تا 5)
(2)
کامیابی کاراز ایک یہ بھی ہے کہ ظاہر وباطن میں اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ
مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ایسی پختہ یقین کے ساتھ محبت ہو کہ آپ کی تعظیم و توقیر کی جائے اور
زندگی کے ہر شعبے اور ہر معاملات ومعمولات میں آپ کی اطاعت و اتباع کی جائے اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ
نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ کنز الایمان: ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور
اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُتراوہی بامراد ہوئے۔(پ9،
الاعراف: 157)
(3) تقویٰ
و پرہیزگاری اختیار کرنا اور اللہ پاک کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اللہ پاک کی راہ
میں جہاد کرنا فلاح و کامیابی والا عمل ہے ۔اللہ رب العزت قرآنِ مجید فرقانِ حمید
میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ(۳۵)ترجمۂ کنز
الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں
جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔ (پ6، المآئدۃ: 35)
(4)
کامیاب اور فلاح یافتہ لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ باوضو رہنے اور
باجماعت نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، ہر طرح کی لغو
اور فضول گفتگو اور فحش و بیہودہ بیٹھکوں
سے کوسوں دور رہتے ہیں، اللہ پاک کے دئیے ہوئے پاکیزہ و طاہر مالوں میں سے فرض
کردہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہیں، خوش دلی اور ایمان داری کو
اپنا وطیرہ بناتے ہیں اور عہد ومیثاق کو پورا کرتے ہیں ۔ اللہ پاک ان صفات سے متصف
لوگوں کو دائمی انعام و جزا بیان کرتے
ہوئے ارشاد فرماتا ہے: قَدْ
اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ
حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا
عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ
مَلُوْمِیْنَۚ(۶) فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(۷) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ
عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ
یُحَافِظُوْنَۘ(۹) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) ترجمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی
نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ
زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی
شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی
مِلک ہیں کہ اُن پر کوئی ملامت نہیں تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے
بڑھنے والے ہیں اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں اور وہ جو
اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ
اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (پ18، المؤمنون: 1 تا 11)
(5) کامل
ترین وکامیاب اورفلاح یافتہ لوگوں کی صفات
میں سے یہ ہے کہ وہ صبح و شام اللہ پاکی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اللہ پاک کی بے
شمار و ان گنت نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شکر بجا لاتے ہیں۔ جیسا کہ قرآنِ پاک
میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۴۵) ترجمۂ کنز
الایمان: اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔(پ10، الانفال: 45)مزید فرمایا: فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹)ترجمۂ کنزالایمان: تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا ہو۔(پ8،الاعراف:69)
(6) فلاح و کامیابی والے اعمال میں سے ایک عمل یہ ہے کہ حلال و حرام میں تمیز
رکھیں، خبیث و طیب میں فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے، ہر کامیاب شخص ہر قسم کے
حرام و خبیث مال کے حصول سے بچتا ہے اور طیب و حلال مال کو اختیار کرتا ہے۔جیسا کہ
اللہ رب العزت ان صفاتِ حمیدہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا
اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ (۱۳۰) ترجمۂ کنز
الایمان: اے ایمان والو !سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اُس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس
سودی خصلت کو نہ چھوڑا گیا توکبھی بھی فلاح وکامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے۔(پ4،
آلِ عمران: 130)
(7) کامیاب
افراد ہر قسم کے شیطانی اعمال اور گناہ سے پرہیز کرتے ہیں مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی،
دل آزاری، شراب، جوا اور دیگر منشیات و مہلکات وغیرہ جیسا اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ
الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ
فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰)ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان
والو! شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا
کہ تم فلاح پاؤ۔(پ7، المآئدۃ:90)
(8) قارئینِ کرام !
کامیابی اور فلاح کا دروازہ اللہ رب العزت کے حضور تمام گناہوں کی سچی توبہ سے کھلتا ہے ،واقعی سچی توبہ نہ صرف انسان کے
گناہوں کی کالک کو دھو دیتی ہے بلکہ بندے
کو فلاح و کامیابی سے ہمکَنَار کرتی ہے اللہ پاک قرآنِ مجید میں پارہ18،سُورَۃُ
النُّور،آیت نمبر31 میں ارشاد فرماتا ہے :
وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ
الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنز
الایمان:اور اللہ کی طرف توبہ کرو! اے مسلمانو سب کے سب، اس امید پر کہ تم فلاح
پاؤ۔(پ18،النور:31)ان آیتوں پر غور
تو کیجئے! قراٰن مجید ہمیں توبہ کرنے پر ابھار رہا ہے، اتنا ہی نہیں توبہ کرنے پر
فلاح و کامیابی کی نوید بھی سنا رہا ہے، قربان ہوجائیے! گناہ کر کر کےجس رب کی خوب
نافرمانی کی وہی رب ہمیں اپنی بارگاہ میں رجوع لانے کا حکم دے رہا ہے، گویا ’’ہم تو
مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ۔
(9) قارئینِ کرام ! توبہ
پر استقامت پانے ، گناہوں سے باز رہنے ، آخرت کی حقیقی زندگی کو سنوارنے، قربِ
خدا وندی پانے، دیدارِ الہٰی سے مشرف ہونے، فلاح و کامیابی اور سعادت مندی کے
لئے پنجگانہ نماز کا پابند ہونا لازمی ہے۔
نماز کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَ
افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ۩(۷۷) ترجمۂ
کنزالایمان: اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی بندگی کرو اور بھلے
کام کرو اس امید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو۔(پ17،الحج:77) نوٹ:یہ آیتِ سجدہ
ہےاورآیتِ سجدہ پڑھنےیاسننےسےسجدہ واجب ہوجاتاہے ۔
اس آیت میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو 3اَحکام دئیے ہیں :
(1)…نمازپڑھو ۔ کیونکہ نماز کے سب سے افضل
ارکان رکوع اور سجدہ ہیں اور یہ دونوں نماز کے ساتھ خاص ہیں تو ان کا ذکر گویا کہ
نماز کا ذکر ہے ۔ (2)… اللہ پاک کی عبادت کرو ۔ اس کاایک مطلب یہ ہے کہ تم اپنے رب
کی عبادت کرو اور ا س کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک
نے جو کام کرنے کا حکم دیا ہے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ، ان سب (پر عمل کرنے کی
صورت) میں اپنے رب کی عبادت کرو ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ رکوع، سجدہ اور دیگر نیک
اعمال کو اپنے رب کی عبادت کے طور پر کرو کیونکہ عبادت کی نیت کے بغیر فقط ان
افعال کو کرنا کافی نہیں ۔ (3)…نیک کام کرو ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہُ عنہما فرماتے ہیں : ان سے مراد صلہ رحمی کرنا اور دیگر اچھے اَخلاق
ہیں ۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ تم یہ سب کام اس امید پر کرو کہ تم جنت میں داخل ہو کر فلاح و
کامیابی پاجاؤ اور تمہیں جہنم سے چھٹکارا نصیب ہو جائے ۔(صراط الجنان، 8/ 480)
(10) فلاح و کامیابی سے مشرف مسلمان عورتوں کے لئے قرآنِ
مجید فرقانِ حمید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ
وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ
مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ
زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ
بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ
اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ
نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی
الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى
عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ
مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ
الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱)ترجمۂ کنزالایمان: اور
مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے
گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے
بھانجے یا اپنے دین کی عورتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی مِلک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس
امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔(پ18،النور:31)
اللہ پاک ہم سب کو فلاح اور کامیابی والے اعمال کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم