منیر عطاری(درجہ سابعہ، جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم ، جہلم، پاکستان)
قرآن کریم
میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ
هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ
فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ
الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو
اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور
وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔(پ 18، المؤمنون:1 تا
5)ان آیات کی تفسیر میں صاحب خزائن العرفان صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃُ اللہ
الہادی فرماتے ہیں: ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے
ہیں۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ نماز میں خشوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہوا اور دنیا
سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشۂ چشم سے کسی طرف
نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس
کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے نہ ہوں اور انگلیاں نہ چٹخائے اور اس
قسم کے حرکات سے باز رہے ۔ بعض نے فرمایا کہ خشوع یہ ہے کہ آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے ۔ اگر پہلی آیت مبارکہ کی طرف دیکھا
جائے تو پتہ چلتا ہے ۔ مراد کو پہنچے سے مراد فلاحی وہ کامیابی ہے۔ لہذا ایمان
والا ہونا فلاح وہ کامیابی ہونے کی علامت ہے ۔
ان مذکورہ پانچ آیات مبارکہ میں فلاح و کامیابی والے پانچ
اعمال درجہ ذیل ہیں:
(1) اللہ پاک اور
اس کے محبوب آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کامل ایمان و یقین رکھنا اور اللہ پاک کی تمام باتوں و چیزوں
پر ایمان لانا یعنی تمام ضرویات دین پر ایمان لانا فلاح و کامیابی والا عمل ہے۔(2)
نمازوں میں گڑگڑانا رونا اور یہ سمجھنا کہ
شاید یہ میری زندگی کی آخری نماز ہو۔ (3) فضول اور بیہودہ باتوں سے بچنا۔ اس سے
مراد اچھی بات کے علاوہ کچھ نہ بولنا۔(4) زکوٰۃ دینا یعنی زکوٰۃ ادا کرنا۔(5) اپنی
شرمگاہ کی حفاظت کرنا۔(6) کلمہ پڑھنا۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول
اللہ(7) روزہ رکھنا۔ اس
میں بالخصوص ماہ رمضان المبارک کے روزے اور بالعموم بقیہ تمام مہینوں کے نفلی روزے
آجاتے ہیں۔(8) صاحب استطاعت ہونے پر بیت
اللہ کا حج کرنا فرض ۔ (9) دوسروں کی اور مظلوم کی مدد کرنا اس سے مراد یہ ہے کہ ایک
حدیث پاک میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مظلوم کے بد دعا سے
بچو کیونکہ وہ رب کریم سے اپنے حق کا سوال کرتا ہے ۔(شعب الایمان) (10) سلام کو عام کرو۔ تم فلاح و کامیابی پا جاؤ گے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی ان مذکورہ فلاح و
کامیابی والے اعمال اخلاص کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید
المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم