اللہ پاک اسے کامیابی عطا فرماتا ہے جسے ایمان کی دولت مل جاتا ہے اور سب سے بڑی کامیابی ایمان بچا لینا ہی ہے ۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے۔(پ 18، المؤمنون:1)قَدْ اَفْلَحَ:بیشک کامیاب ہوگئے۔ اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں گے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: 1، 8 / 258، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: 1، 6 / 66، ملتقطاً)حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے: یاد رہے کہ ہر ایک نے موت کا کڑوا ترین ذائقہ چکھ کر ا س دنیا سے کوچ کرنا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے اور جسے اس دن جہنم کے دردناک عذابات سے بچا لیاگیا اور بے مثل نعمتوں کی جگہ جنت میں داخل کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب ہے، جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا۔(پ 4، اٰلِ عمران :185)

اور جہنم سے بچنے اور جنت میں داخلے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے،جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو جہنم سے بچنا اور جنت میں داخل ہونا پسند ہو تو اسے موت ضرور اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جس معاملے کو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہو وہی معاملہ دوسروں کے ساتھ کرے۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، 2 / 625، حدیث: 6821) اور چونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اس لئے ایمان پر ثابت قدم رہنا اور اس کی حفاظت کی بھرپور کوشش کرنا ضرور ی ہے تاکہ موت کے وقت ایمان سلامت رہے اور قیامت کے دن جنت میں داخلہ نصیب ہو۔( صراط الجنان ،پ 18، المؤمنون:1)

اور وہ شخص جو اللہ اور اس کی اطاعت کرتا ہے اور وہ کامیاب ہے۔ اسی طرح اپنے نفس کو برائی سے روکنے والا شخص بھی کامیاب ہے۔ ارشاد باری ٰ ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) ترجمۂ کنزالایمان:بیشک مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا کیا۔(پ 30،شمس:9)

بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اللہ پاک نے اس سے پہلی آیات میں چند چیزوں کی قَسمیں ذکر کر کے ا س آیت اور اس کے بعد والی آیت میں فرمایا کہ بیشک جس نے اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا اور بیشک جس نے اپنے نفس کو گناہوں میں چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔( جلالین مع صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ: 9-10، 6 / 2370)

اس سے معلوم ہوا کہ اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرنا کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے نفس کو گناہوں میں چھپا دینا ناکامی کا سبب ہے اور نفس برائیوں سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کی جائے اوراطاعت کرنے والوں کے بارے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پ 18،نور:52)اور ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔(پ 22،احزاب:71)

لہٰذا جو شخص حقیقی کامیابی حاصل کرنا اور ناکامی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کر کے اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرے۔( صراط الجنان پ30،سورہ شمس : 9)

نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنے والا شخص بھی کامیاب ہے۔ ارشاد باری ہے: وَ  لْتَكُنْ  مِّنْكُمْ  اُمَّةٌ  یَّدْعُوْنَ  اِلَى  الْخَیْرِ  وَ  یَاْمُرُوْنَ  بِالْمَعْرُوْفِ  وَ  یَنْهَوْنَ  عَنِ  الْمُنْكَرِؕ-وَ  اُولٰٓىٕكَ  هُمُ  الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔(پ 4، اٰلِ عمران :104)

یاد رہے جس آیت میں کامیابی مراد لیا گیا ہے اس سے ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل کامیابی ہے اور وہ متقین ہی کو حاصل ہے ہاں اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے بہرحال جنت کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔