اولاد کے 5 حقوق از بنت شہزاد احمد،جامعۃ المدینہ دھوراجی
کالونی کراچی

اللہ پاک نے جس طرح کئی قسم کے احکام بیان فرمائے
ہیں اسی طرح ہر ایک کے حقوق بھی بیان فرمائے
ہیں جیسے اولاد پر والدین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان
پر حقوق اسی طرح والدین پر اولاد کے حقوق بھی بیان فرمائے
ہیں۔
اولاد کے حقوق قرآن و حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتے ہیں قرآن پاک میں رب پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ
نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-(پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور اپنی
اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں۔اس
آیت سے اولاد کی اہمیت و حق بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں غربت کی وجہ سے بھی قتل نہ
کیا جائے۔
اولاد کے 5 حقوق:
1) اولاد کے اچھے نام رکھے جائیں برے نام نہ رکھے
جائیں کہ یہ بدفال ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسکے لڑکا پیدا ہو اور وہ
میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کیلیے اسکا نام محمد رکھے تو وہ اور
اسکا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)
2) چند بچے ہو تو جو چیز دے سب کو یکساں دے ایک کو
دوسرے پر بےفضیلت دینی ترجیح نہ دے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے: اولاد
میں سے کسی ایک کو زیادہ دینےمیں کچھ حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و
فضیلت دینا دینی فضل و شرف کی وجہ سے ہو لیکن اگر سب برابر ہو تو پھر ترجیح دینا
مکروہ ہے۔ (الخانیۃ، 2/290)
3) جب تمیز آئے
ادب سکھائے
کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے، چلنے، حیا، ماں باپ استاد پیرو مرشد کی اطاعت و
آداب کے طور طریقے بتائے۔ رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: اولاد کا والد پر یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔
(شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)ارشاد فرمایا: کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا عطیہ
نہیں دیا، جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)
4) حضور ﷺ اور انکے آل و اصحاب و اولیاء و علماء کی
محبت و تعظیم اولاد کے دل میں ڈالے کہ اصل سنت و زیور ایمان بلکہ باعث بقائے
ایمان ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں
ہوسکتا جب تک میں اسے اسکی اولاد اسکے والدین اور تمام لوگو سے زیادہ محبوب نہ
ہوجاؤں۔ (بخاری، 1/17، حدیث: 14)
5)اولاد کو فرض نماز کے ساتھ ساتھ دیگر فرائض و عبادت
کی بھی تعلیم دیتا رہے اور قرآن پاک کی
محبت و تعلیم بھی سکھائے۔ حضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: (1)اپنے
نبی ﷺ کی محبت (2) اہل بیت کی محبت اور(3)قرآن پاک کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث:311)
میری آنے والی نسلیں تیرے عشق ہی میں
مچلیں انہیں نیک تو بنانا
مدنی مدینے والے

اولاد اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے جس طرح اولاد کے
ذمے ماں باپ کے حقوق ہیں اس طرح ماں باپ کے ذمے بھی اولاد کے حقوق ہیں بعض اولاد
ماں باپ کے لیے نعمت اور بعض اولاد زحمت بن جاتی ہے اچھی تربیت سے بچہ معاشرے میں
ایک اچھا فرد بن کر ابھرتا ہے اسی طرح اسلامی تربیت نہ کرنے سے بدترین فرد بن جاتا
ہے۔ ماں باپ پر اولاد کے بہت سے حقوق ہیں ان میں سے پانچ ذکر کیے جاتے ہیں:
1ماں باپ پر اولاد کا ایک حق یہ ہے بچے کا نام اچھا
نام رکھے جیسے عبد اللہ عبد الرحمن وغیرہ یا انبیاء علیہم السلام اولیاء اللہ اپنے
بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے نام پر نام رکھے یہ باعث برکت ہے خصوصاً نام
پاک محمد ﷺ پر رکھے حدیث شریف میں ہے: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور
میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کیلئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا لڑکا
دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)
2 حق یہ ہے بچے کا عقیقہ کرے حدیث پاک میں ہے کہ
بچا اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام رکھا
جائے اور نہ ہو تو چودہویں دن ورنہ اکیسویں دن کرے بیٹی کیلئے ایک اور بیٹے کے لیے
دو ایک ران دائی کو دے کہ بچہ کی طرف سے شکرانہ ہے۔ (اولاد کے حقوق، ص 16)
3۔ جب بچہ سات برس کا ہو جائے تو اسے نماز کا حکم
دے پیار سے سمجھائے جب دس برس کا ہو جائے تو مار کر پڑھائے اور اس عمر میں اپنے
ساتھ اور کسی کے ساتھ نہ سلائے جدا بچھونے جدا پلنگ پر اپنے پاس رکھے مناسب موقع
پر سمجھائے اور نصیحت کرے مگر بدعا نہ کرے کہ یہ ان کے لیے سببِ اصلاح نہیں بلکہ
زیادہ فساد کا اندیشہ ہے۔
4بیٹیوں سے زیادہ دلجوئی رکھے کہ ان کا دل بہت
تھوڑا ہوتا ہے اور ان کو سورۂ نور کی تعلیم دے عشق مجازی پر مشتمل کتابیں اور فسق
و فجور بھرپور غزلوں کو نہ پڑھنے دے کہ نرم لکڑی جدھر جھکائے جھک جاتی ہے صحیح
حدیث سے ثابت ہے کہ عورتوں کو سورۂ یوسف کی تفسیر ترجمہ نہ پڑھایا جائے اس میں
عورتوں کی خفیہ چالوں کا ذکر ہے پھر بچوں کو خرافات شاعرانہ میں ڈالنا کب بجا ہو
سکتا ہے۔ (اولاد کے حقوق، ص 26)
5 علم دین خصوصاً وضو غسل نماز روزہ کے مسائل توکل
قناعت زہد اخلاص تواضع امانت صدق عدل حیا سلامت صدر ولسان ، (دل و زبان اور دیگر
اعضاء کی سلامتی) خوبیوں کے فضائل پڑھائے حرص و طمع حب دنیا حب جاہ ریا عجب تکبر
خیانت کذب ظلم فحش غیبت حسد کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل پڑھائے۔ (اولاد کے حقوق،
ص 21)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اولاد کی اچھی تربیت کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔
اولاد کے 5 حقوق از بنت ہدایت اللہ، جامعۃ المدینہ دیال
گڑھ فیصل آباد پنجاب

الله پاک نے اگرچہ والدین کا حق اولاد پر نہایت
عظیم رکھا ہے یہاں تک کہ اپنے حق کے برابر اس کا ذکر فرمایا کہ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ- (پ 21،لقمٰن 14) ترجمہ:
کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔ مگر اولاد کا حق بھی والدین پر عظیم رکھا
ہے،کہ اولاد مسلمان ہونے،سب سے قریبی پڑوسی ہونے،قریبی رشتہ دار ہونے،اور بالخصوص
ایک ہی کنبے کے ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ حسن سلوک کے حقدار ہیں۔اولاد اگر نیک
ہو تو جہاں دنیا میں راحت و سکون کا ذریعہ ہوتی ہے وہیں آخرت میں بھی بخشش کا
سامان ہے۔ویسے تو اولاد کے حقوق ایک طویل موضوع ہے لیکن یہاں 5 مقدّم حقوق کو
اختصار کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ چنانچہ
1۔ اچھی قوم میں نکاح کرے بیوی کے انتخاب
کے سلسلے میں مرد کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے
کہ عورت کی اچھی یا بری صفات کل اولاد میں منتقل ہوں گی،نکاح کے سلسلے میں عورت کے
اہل خانہ کے طرز زندگی کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور پر نور،خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے نطفہ کےلیے
اچھی جگہ تلاش کرو کہ عورتیں اپنے ہی بہن بھائیوں کے مشابہ بچے پیدا کرتی ہیں۔ (الکامل
فی ضعفاء الرجال، 6/423)
نیز نکاح کے وقت ناجائز و حرام رسومات و اعمال کے
ارتکاب سے اجتناب کرے۔
2۔ پیدائش کے بعد کے حقوق کان میں اذان دینا،کسی
نیک شخص سے گھٹی دلوانا،اچھا اور خوش معنی نام رکھنا،بال مونڈوانا،عقیقہ کرنا
وغیرہ۔
3۔ کسی کامل پیر سے بیعت صوفیاء
فرماتےہیں کہ ایک دن کے بچے کو بھی بے پیرا نہیں چھوڑنا چاہیئے لہذا
بچے کا اہم ترین حق یہ بھی ہے کہ اسے کسی پیر کامل سے بیعت کروایا جائے۔ فی
زمانہ جامع شرائط پیر کا ملنا کم یاب ہے لہذا جو کسی سےبھی بیعت نہیں ہے اسے چاہیئے
کہ اپنے ایمان کی فکر کرے اور فوراً سلسلہ عالیہ قادریہ کے عظیم بزرگ شیخ طریقت، امیر
اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ
کے ذریعے سلسلہ قادریہ میں داخل ہو جائے اور سلسلہ
قادریہ کی عظمتوں کے تو کیا کہنے! کہ اس کےعظیم پیشوا حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ
علیہ قیامت تک کے لیے اپنے مریدوں کے توبہ پر مرنے کے ضامن ہیں۔
4۔ دینی تعلیم سکھائے۔ اپنی
اولاد کو کامل مسلمان بنانے کے لیے زیور تعلیم سے آراستہ کرنا بے حد ضروری ہے
والدین کوچاہیئے
کہ اپنی اولادکو ضروری دینی تعلیم جیسےعقائد،عشق رسول ﷺ،محبت صحابہ و اہل بیت،نماز
و روزے کے مسائل، دیگر واجبات و فرائض،حلال و حرام،خرید و فروخت،اور حقوق العباد
وغیرہ کے احکامات ضرور سکھائیں،انہیں باقاعدہ تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا سکھائیں،اس کےبعد چاہیں تو دنیاوی
تعلیم جس میں شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو دلوائیں لیکن فی زمانہ بہتری اسی میں ہے کہ
درس نظامی کروائیں تاکہ وہ عالم بننے کے بعد معاشرے میں لائق تقلید کردار کا مالک
بنےاور دوسروں کو بھی علم دین سکھائے۔
5۔ بچوں کو ان امور سے بچائیں بچوں کی
اچھی تربیت بھی ان کا ایک اہم ترین حق اور والدین کا اہم ترین فریضہ ہے لہذا اچھی
تربیت کے لیے بچوں کو بد مذہبوں کی صحبت، سوال کرنے(مانگنے)،دوسرے بچوں کا الٹا
نام لینے،تمسخر، کسی کے عیب معلوم ہونے پر اسےبلا مصلحت شرعی لوگوں پر ظاہر
کرنے،تکبر،جھوٹ، غیبت،لعنت کرنے،چوری،حسد، بغض وکینہ،گالی دینے،وعدہ خلافی وغیرہ
جیسی بری صفات سے بچانے کی حتی المقدور کوشش کرے۔
اللہ پاک ہر اولاد کو والدین کے لیے انکی حیات میں
مسرّت و شادمانی، بعد وفات صدقۂ جاریہ اور آخرت میں بخشش کا سامان بنائے۔ آمین
بجاہ خاتم النبیین ﷺ
میری آنے والی نسلیں، تیرے عشق ہی میں
مچلیں انہیں نیک تم بنانا مدنی
مدینے والے

اولاد اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے جو کہ وہ اپنے
بندوں کو عطا کرتا ہے۔ جس طرح اولاد پر والدین کے بہت سے حقوق ہیں اسی طرح بحیثیت
والدین ان پر بھی اولاد کے کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے اور ان حقوق سے
آگاہی بھی حاصل کرنی ضروری ہے، یہاں اولاد کے پانچ حقوق بیان کیے جاتے ہیں:
اولاد کا پہلا حق جب بچہ پیدا ہو تو فورا ہی اس کے
دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں تاکہ بچہ شیطان کے خلل سے محفوظ
رہے اور اسے یہ معلوم ہو کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے اور کسی عالم دین یا
پرہیزگار انسان سے کوئی میٹھی چیز چبوا کر بچے کے منہ میں ڈال دیں تاکہ بچہ شیریں
زبان اور با اخلاق ہو۔ اور ان کی پیدائش کے ساتویں دن ماں باپ ان کے سر منڈا کر
بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کریں۔ اور بچے کا کوئی اچھا سا نام رکھیں ہرگز
ہرگز بچوں کے برے نام نہ رکھے جائیں بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور صحابیات رضی
اللہ تعالیٰ عنہن اور اولیائے کرام کے ناموں پر ان کے نام رکھے جائیں۔
خصوصا اگر لڑکا ہو تو اس کا نام محمد رکھیں اس کی
بڑی برکات ہیں۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس
کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس
کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (1)
اولاد کا دوسرا حق بچوں سے پیار اور محبت سے پیش
آیا جائے اور ہر معاملے میں ان کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی
کرے ان کی تربیت اور پرورش میں پوری پوری
کوشش کرے۔ بچوں کی جائز ضروریات کو پورا کرے اور بچوں کو ہر قسم کے رنج و غم اور
تکلیفوں سے بچائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ سب سے زیادہ بچوں پر
مہربان تھے۔ (2) اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ بچوں کے ساتھ شفقت بھرا رویہ اختیار
کریں اور اگر کبھی ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو سب کے سامنے انہیں مارنے اور ڈانٹنے
کے بجائے انہیں علیحدہ سے سمجھایا جائے اور ان کی اصلاح کی جائے کیونکہ ہر وقت کی
ڈانٹ ڈپٹ اور مار سے بچہ باغی ہو جاتا ہے اور ماں باپ کا فرمانبردار نہیں رہتا۔
اولاد کا تیسرا حق بچوں کو ان کی ضرورت کی چیزیں لے
کر دی جائیں یعنی ان کے رہنے کے لیے گھر کا مناسب انتظام کریں اور پہننے کے لیے
مناسب کپڑے دیں اور اچھی تعلیم دلوائیں اور بچے کو پاک کمائی سے پاک روزی دے کہ ناپاک
مال ناپاک ہی عادتیں ڈالتا ہے۔ اگر بچے بیمار پر جائیں تو ان کا علاج کروائے۔ چند
بچے یا بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں یعنی برابر دیں ہرگز کمی بیشی نہ
کریں ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔
فتاوی قاضی خان میں ہے: امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ
اللہ علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: اولاد میں سے کسی کو زیادہ دینے میں کچھ حرج
نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی شرف و فضل کی وجہ سے ہو
لیکن اگر سب برابر ہوں تو ترجیح دینا مکروہ ہے۔ (3)
بچیوں اور
بچوں کو برابر کی چیزیں دیں اور انصاف کریں اور بچیوں کا خاص طور پر خیال کریں کہ
ان کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔
اولاد کا
چوتھا حق انہیں دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا جائے بچوں کو سب سے پہلے
مدرسۃ المدینہ سے درست تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی دینی
تربیت بھی کرے اور ان کو بری صحبت سے بچائے۔ ان کو طہارت، پاکی، نماز، وضو، اور
غسل کا درست طریقہ بتائے۔
سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دیا جائے
اور 10 سال سے نماز مار کر پڑھائے (لیکن منہ اور سر پر نہ مارے) اپنی اولاد کو نیک
بنائیں کیونکہ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان تربیت نشان ہے: اپنی
اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی ﷺ کی محبت، اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن پاک کیونکہ قرآن پاک پڑھنے والے لوگ انبیاء و اصفیاء کے ساتھ
اللہ پاک کے سایہ رحمت میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا بچوں گا۔ (4)
اولاد کا پانچواں حق ان کی مناسب تعلیم دلوانے کے
بعد ان کی اچھی جگہ شادی کروا دیں اور ان کی رضامندی سے شادی کروائی جائے یعنی
نکاح کرتے وقت ان کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھا جائے اور شادی کرواتے وقت دین
کو فوقیت دی جائے کہ اگر بیٹی ہے تو اس کے لیے نیک لڑکا پسند کیا جائے اور کفو میں
اس کی شادی کروائی جائے اور اگر بیٹا ہے تو اس کے لیے نیک عورت کا انتخاب کیا جائے
نہ کہ حسن و جمال اور حسب و نسب کو فوقیت دی جائے اپنی اولاد کو ہنر بھی سکھائے
جائیں جیسے لڑکیوں کو سلائی کڑھائی اور کھانا پکانا وغیرہ اور لڑکوں کو بزنس کے
طریقے، حلال روزی کمانے کے طریقے وغیرہ سکھائے جائیں تاکہ وہ حلال روزی کما کر کھا
سکیں۔
اپنی اولاد کو وراثت سے محروم نہ کیا جائے انہیں
شریعت کے مطابق وراثت سے بھی حصہ ملنا چاہیےخاص طور پر بیٹی کو بھی وراثت سے محروم
نہ کیا جائے۔
اللہ پاک ہمیں اپنی اولاد کی نیک تربیت کرنے اور
انہیں اچھے آداب سکھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
حوالہ جات:
1۔ کنز
العمال، جز: 16، 8/175، حدیث: 45215
2۔ مسلم، ص 974، حدیث:6026
3۔ اولاد کے حقوق، ص 20۔ الخانیۃ، 2/290
4۔جامع صغیر، ص 25، حدیث:311)

یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جہاں عزیز و اقارب
کے حقوق کی تاکید کی گئی ہے وہاں ذوی الارحام کو خصوصیت سے ذکر کیا گیا ہے اور جس طرح
اولاد پر والدین کے حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے بھی والدین پر کچھ حقوق مقرر کیے
گئے ہیں جن کو ادا کرنا والدین کے لیے ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے
والدین پر اولاد کے جو حقوق بیان فرمائے ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔زبان کھلتے ہی اللہ اللہ پھر پورا کلمہ لا الہ
الااللہ محمد رسول اللہ سکھائے۔
2۔کھانے،پینے،ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے کے آداب
سیکھائے، بزرگوں کی تعظیم ماں باپ اور اساتذہ کی اطاعت کے طریقے و ادب بتائے۔ جیسا
کہ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: باپ پر اولاد کا
حق ہے کہ وہ انہیں بہترین ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔(شعب الایمان، 6/400،
حدیث: 8658)
3۔حضور اقدس ﷺ کی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالے
کہ یہ اصل ایمان ہے۔
4۔حضور پرنور ﷺ کے آل و اصحاب و اولیاء و علماء کی
محبت و عظمت کی تعلیم دے کہ یہ باعث بقائے ایمان ہے اور قرآن سکھائے۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس کی ترغیب
موجود ہے، چنانچہ فرمان آخری نبی ﷺ ہے: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ اپنے نبی کی
محبت، اہل بیت کی محبت اور قرأت قرآن۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث:311)
5۔ بیٹی کے حقوق میں سے ہے کہ اس کے پیدا ہونے پر
نا خوشی نا کرے بلکہ نعمت الہٰیہ جانے، اسے سینا پرونا کاتنا، کھانا پکانا سکھائے اور
سورۂ نور کی تعلیم دے۔ جیسا کہ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: عورتوں کو چرخہ کاتنا سکھاؤ
اور انہیں سورۂ نور کی تعلیم دو۔ (شعب الایمان، 2/447، حدیث: 2453)
اولاد کے 5 حقوق از بنت محمد نعیم احمد،فیضان عائشہ
صدیقہ مظفر پورہ سیالکوٹ

اولاد والدین کے لئے اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے
جس کا کوئی نعم البدل نہیں اور والدین پر لازم ہے کہ اس نعمت کا شکر ادا کرے اور
اپنی اولاد کے تمام حقوق کو ادا کریں ان کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھیں تاکہ
وہ اچھے مسلمان اور اچھے شہری بن کر زندگی گزاریں۔ اولاد کے بہت سے حقوق ہیں حقوق
جن میں سے چند یہ بھی ہیں:
(1): والدین کو چاہیے کہ تمام اولاد کو برابری
حیثیت دیں۔
(2): اولاد کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کریں۔
(3): اولاد سے محبت و شفقت کریں۔
(4): اولاد کی تربیت کا بندوبست کریں۔
(5): اولاد کا حق ہے کہ والدین اسکے ساتھ نرم رویہ
اختیار کریں۔
(6): بچے کا اچھا نام رکھیں برا نام نہ رکھیں کہ برے
نام سے بڑا اثر پڑتا ہے۔
(7): والدین کو چاہیے کہ اولاد کو بزرگوں کا احترام
اور چھوٹوں کی عزت کرنی سکھائیں۔
(8): والدین کو چاہیے کہ اولاد کو دینی تعلیم دینے
کے لئے مدرسہ میں پڑھائیں۔
(9): والسین لو چاہیے کہ اولاد کو حلال کھانا
کھلائے اور انہیں بتائیں کہ حلال ہی کھانا چاہیے۔
(10): والدین بچی کو بچپن ہی سے پردہ کرنے کی تربیت
دیں تاکہ ان کو بڑی ہو کر پردہ کرنے میں آسانی ہو۔
(11): والدین اولاد کو دوسروں کی مدد کرنا سکھائیں۔
(12): والدین بچپن ہی سے بچوں کو جیب خرچ دینا شروع
نہ کردیں بلکہ خود ہی ان کو گھر میں کھانے پینے کی چیزیں لا کر دیا کریں۔
(13): والدین کو چاہیے کہ بچوں کو موبائل سے دور
رکھا کریں۔
(14): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیں۔
(15): والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو دنیوی
تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی بھی سکھائیں۔
(16): جب اولاد بڑی ہوجائے تو والدین کو چاہیے کہ
کسی نیک خاندان میں انکی شادی کر دیں۔
(17): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو سب کے ساتھ
مل جل کر رہنے کی تربیت کریں۔
(18): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو اپنے کام
خود کرنے کی تربیت دیں۔
(19): والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو پتنگ اڑانے
سے منع کریں۔
(20): والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو بچپن ہی سے
نماز پڑھنا اور روزے رکھنا سکھائیں تاکہ ان کو بڑے ہونے تک بھی یہ عادت ان کی
موجود رہے۔
(21): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو اپنے دین کے
مطابق رہنا سکھائیں۔
(22): والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو جھوٹ بولنے
سے منع کریں اور سچ بولنا سکھائیں۔

حقوق العباد میں سے ایک حق یہ ہے کہ اولاد کو اس کا
حق دیا جائے۔ جہاں ماں باپ کے بےشمار حقوق ہیں وہاں اولاد کے بھی بہت سارے حقوق
ہیں جن کا پورا کرنا والدین پر لازم ہے۔
حق زندگی: زمانہ جاہلیت
میں لوگ غیرت کے نام پر اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے۔اسلئے اولاد کا ایک حق
یہ بھی ہے کہ اسے زندگی بخشی جائے بلکہ اس کی اعلیٰ پرورش کی جائے نہ کہ اس کی
زندگی چھین لی جائے۔ آج کے دور میں بھی بہت سے لوگ اپنی اولاد قتل کر دیتے ہیں اور
اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔
پرورش:سب سے پہلے جو
ضروری حق ہے وہ اولاد کی پرورش ہے کہ جس ماحول میں اولاد پرورش پاتا ہے وہ اسی
ماحول سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کے گھر میں سنتوں بھرا دینی ماحول ہے تو آپ کی
اولاد بھی نیکوں کی صحبت میں اچھی پرورش پائی گی اور اگر دنیاوی محبت میں گرفتار
گناہوں بھرا ماحول ہو تو آپ کے اولاد بھی ویسے ہی بڑے ہوں گے۔ اکثر والدین لڑکیوں
کی نسبت لڑکوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کا کل سرمایہ ہوتے ہیں اور
لڑکوں کو لڑکیوں کی نسبت اچھی پرورش دی جاتی ہے اسے اچھی تعلیم دی جاتی ہے اور اس
کی ہر خواہش پوری کی جاتی ہے۔ جب لڑکیوں کو اچھی تعلیم دی جائے تو لوگوں کی باتوں
کی وجہ سے چھڑوا دیا جاتا ہے کہ ویسے بھی پڑھا کر کیا فائدہ پھر بھی اگلے گھر جاکر
گھر، بچوں کو ہی سنبھالے گی۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کو بھی ان کا حق دیا
جائے۔
تربیت:سب سے اہم
ترین فریضہ جو والدین پر ضروری ہے وہ ہے اولاد کی تربیت۔ کیونکہ آپ اپنی اولاد کی
تربیت جسطرح کریں گے آپ کی اولاد بھی ویسے ہی تربیت پائے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ
ہماری اولاد اچھی تربیت پائے تو سب سے پہلے والدین کو اپنی اصلاح کی کوشش کرنی ہے
کیونکہ بچہ بڑوں سے دیکھ کر سیکھتا ہے۔ اگر آپ خود اپنے بڑوں اور چھوٹوں کا ادب
واحترام نہیں کریں گے تو آپ کا بچہ آپ سے سیکھ کر ایسا ہی کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس کیلئے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر
ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)
ایک اور روایت میں ہے: اولاد کیلئے باپ کا کوئی
عطیہ اچھی تربیت سے بہتر نہیں۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)
اچھا نام رکھنا:بچوں کا یہ
بھی حق ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان کا اچھا نام رکھا جائے جس کا
معنیٰ بھی اچھا ہو۔ جیسے رسول اللہ ﷺ کے پیارے صحابہ و صحابیات کے نام۔
تعلیم: اولاد کا ایک
حق یہ بھی ہے کہ اسے ماحول کے مطابق تعلیم دی جائے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ
دینی تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔ دنیاوی تعلیم دنیا میں ہی رہ جاتی ہے مگر دینی تعلیم
آخرت میں بھی کام آتی ہے۔ اسلئے اپنی اولادوں کو دین کے مطابق بھی تعلیم دیں۔
وراثت:جب بھی والدین
کو بہتر محسوس ہوتا ہے اپنی اولاد کو وراثت کا حصہ عطا کر دیں۔ حصہ عطا کرتے وقت
تمام اولاد کو برابر حصہ عطا کیا جائے خاص کر بیٹیوں کو۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ
بیٹیوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیتے اور خود کو گناہگار بنا دیتے ہیں۔
اولاد کے 5حقوق از بنت محمد الیاس،فیضان عائشہ
صدیقہ مظفر پورہ سیالکوٹ

انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ
تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت
سب سے اہم فریضہ ہے۔اللہ رب العزت قیامت کےدن اولاد سے والدین کے متعلق سوال کرنے
سےپہلے والدین سے اولاد کے متعلق سوال کرے گا، کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر
حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین
کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا
بھی حکم دیا ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے
ہیں۔ شیر خوارگی سے لڑکپن اور جوانی کےمراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار
ہوتی ہےاس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتاہے۔ اولادکے لیے پاک اور حلال
غذا کی فراہمی والدین کے ذمے ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ رزق حلال کمائیں۔ والدین
جھوٹ بولنے کےعادی ہیں تو بچہ بھی جھوٹ بولے گا۔ والدین کی خرابیاں نہ صرف ظاہری
طور پر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ باطنی طور پر یہ خرابیاں اس کے
اندر رچ بس جاتی ہیں۔ والدین کےجسم میں گردش کرنے والےخون میں اگر حرام، جھوٹ،
فریب، حسد، اور دوسری خرابیوں کے جراثیم موجود ہیں تویہ جراثیم بچے کوبھی وراثت
میں ملیں گے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح
طریقے سے ادا کرنا ہے اوران کو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ
اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ
احسان کیا جائے۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کے حقوق میں
کتاہیوں سے بچا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی
نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوشک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے
تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس
کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت، انہیں اچھا، ذمہ دار،
دوسروں کی خیر خواہی کرنے والا مثالی اور باکردار مسلمان بنانا والدین کی ذمہ داری
ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کے تربیت اولاد کے واقعہ کو بیان
کیا، ان کی نصیحتیں تربیت اولاد کیلئے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق مختلف اندازسے حضورﷺ
نے احکامات صادر فرمائے، حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنی
اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو
(نماز نہ پڑھنے پر) اسے مارو اور (دس سال کی عمر میں) انہیں الگ الگ سلایا کرو۔ (ابو
داود، 1/208، حدیث: 494)
بچوں کے عزت و احترام کو برقرار رکھتے ہوئے ان کو آداب
سکھلانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں ادب
سکھلاؤ۔ (ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671) بچوں کو نظم وضبط، اچھی عادات سکھانا اور
ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا والدین کا فرض ہے، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تم
میں سے کوئی شخص اپنے بچے کو ادب سکھاتاہے، یہ اس کیلئے اس کام سے بہترہے کہ وہ ہر
روز ایک صاع خیرات کرے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ہر بچہ
فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتاہے اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بناتے ہیں۔ (بخاری،
3/298، حدیث: 4775) اس سے واضح ہوا کہ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے کھانے پینے، گفتگو
کرنے، والدین اوربڑوں کی عزت وتکریم کرنے، پاکیزگی اورصفائی کاخیال رکھنے جیسے آداب
سکھلانا والدین کی ذمہ داری ہے۔

انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ
تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت
سب سے اہم فریضہ ہے۔ اللہ رب العزت قیامت کے دن اولاد سے والدین کے متعلق سوال
کرنے سے پہلے والدین سے اولاد کے متعلق سوال کرے گا۔ کیونکہ جس طرح والدین کے
اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے
ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کے ساتھ
احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
اولاد کے بہت سارے حقوق ہیں جن میں سے 5 مندرجہ ذیل
ہیں:
1۔ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول
الله! میں کس کے ساتھ بھلائی کروں؟ ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے ساتھ۔ اس نے عرض کی: میرے ماں باپ وفات پاچکے ہیں
ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کے ساتھ بھلائی کرو جیسے تم پر تمہارے والدین کا حق ہے
اسی طرح تم پر تمہاری اولاد کا بھی حق ہے۔ (الادب المفرد، ص 48، حدیث: 94)
2۔ بچے کا ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام
رکھا جائے اور اس سے تکلیف (یعنی بالوں) کو دور کیا جائے، جب وہ چھ سال کا ہو جائے
تو اسے ادب سکھائے اور جب 10 سال کا ہو جائے تو اس کا بستر الگ کر دیا جائے اور جب
13 سال کا ہو جائے تو اسے نماز نہ پڑھنے پر مارے اور جب 16 سال کا ہو جائے تو اس
کا باپ اس کی شادی کرادے پھر اسکا ہاتھ پکڑ کر کے کہے میں نے تجھے ادب سکھایا
تعلیم دی اور تیرا نکاح کیا میں دنیامیں تیرے فتنے سے اور آخرت میں تیرے عذاب کی
اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن كبرى، 2/324،
حدیث: 3236)
3۔ باپ پر اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے
اچھی طرح ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)
4۔ ہر لڑکا یا لڑکی اپنے عقیقہ میں گروی ہے، ساتویں
دن اس کی طرف سے ذبح کیا جائے اور اس کاسر مونڈا جائے۔ (ابو داود، 3/141، حدیث: 2837)
5۔ اپنی اولاد کو عطا کرنے میں برابری رکھو۔ (بخاری،
2/171، حدیث: 4294)

انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ
تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت
سب سے اہم فریضہ ہے۔ اللہ رب العزت قیامت کےدن اولاد سےوالدین کے متعلق سوال کرنے
سےپہلے والدین سےاولاد کےمتعلق سوال کرے گا۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر
حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین
کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا
بھی حکم دیا ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے
ہیں۔ شیر خوارگی سے لڑکپن اور جوانی کےمراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار
ہوتی ہےاس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتاہے۔ اولادکے لیے پاک اور حلال
غذا کی فراہمی والدین کے ذمے ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ رزق حلال کمائیں۔ والدین
جھوٹ بولنے کےعادی ہیں تو بچہ بھی جھوٹ بولے گا۔ والدین کی خرابیاں نہ صرف ظاہری
طور پر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ باطنی طور پر یہ خرابیاں اس کے
اندر رچ بس جاتی ہیں۔ والدین کےجسم میں گردش کرنے والےخون میں اگر حرام، جھوٹ،
فریب، حسد، اور دوسری خرابیوں کے جراثیم موجود ہیں تویہ جراثیم بچے کوبھی وراثت
میں ملیں گے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح
طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ
اور خیانت ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ
الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ
اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28،
التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں
کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور
فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں
حکم دیا جاتا ہے۔
حضرت علی نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا: ان
(اپنی اولاد) کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ۔
1۔ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے
سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے۔ (ترمذی، 3/ 383، حدیث: 1959)یعنی اچھی تربیت کرنا
اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔
2۔ اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے
درمیان برابری کرو،اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو۔ مطلب یہ ہے کہ ظاہری تقسیم کے
اعتبار سے سب بچوں میں برابری کرنی چاہیے،کیونکہ اگر برابری نہ ہو تو بچوں کی دل
شکنی ہوتی ہے۔ہاں! فطری طور پر کسی بچے سے دلی طور پر زیادہ محبت ہو تواس پر کوئی
پکڑ نہیں،بشرطیکہ ظاہری طور پر برابری رکھے۔ حدیث میں تین بارمکرر برابری کی
تاکیدکی ہے جو اس کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے
3۔ جب وہ (یعنی بچے) سات سال کے ہو جائیں تو انہیں
نماز کا حکم دو اور دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو، اور ان کے
بستروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 494)
4۔ اپنے آپ کو، اپنی اولاد کو، اپنے خادموں کو اور
اپنے مال کو بد دعانہ دو (ایسا نہ ہو) کہ
وہ گھڑی دعا کی قبولیت کی ہو اور تمہاری دعا قبول ہو جا ئے۔ (ابو
داود، 2/126، حدیث: 1532)
5۔ اپنی اولا دکورشوت، سود، چوری اور ملاوٹ جیسا
حرام مال نہیں کھلانا چاہیے کیونکہ یہ ان کی بدبختی، سرکشی اور نافرمانی کا سبب
بنتا ہے۔
اولاد کے درمیان برابری کرنا واجب ہے، اور برابری
نہ کرنا ظلم شمار ہوگا۔اور اس کا خیال نہ رکھنا اولاد میں احساس کمتری اور باغیانہ
سوچ کو جنم دیتا ہے، جس کے بعد میں بہت بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ
تمام مسلمان والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین

انسان تمام مخلوق میں افضل اور زمین پر الله رب
العزت کا نائب ہے اس لئے اسے بہت سےفرائض سونپے گئے ہیں جن میں اولاد کی تربیت
کرنا ایک اہم فرض ہےکل قیامت کے دن والدین سے ان کی پرورش کے متعلق سوال ہوگا والدین
کی یہ ڈیوٹی الله کریم پاک کی طرف سے لگائی گئی ہے ماں پر لازم ہے کہ وہ بچپن سے
ہی اپنے بچے کی تربیت کرے کہ ماں بچے کی پہلی درسگاہ ہے اور والد کو چاہیے کہ وہ
اپنی اولاد کے لئے حلال رزق کمائے کھلائے تاکہ اولاد نیک ہو۔ قرآن مجید میں الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ
اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا
مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ
یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان:
اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی
اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی
نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں والدین کے ذمے اہم کام کی ایک
ذمہ داری اور اولاد کی بہترین تربیت کا حکم ارشاد کیا گیا ہے اس آیت مبارکہ کی
تفسیر میں حضرت علی فرماتے ہیں: اپنی اولاد کو تعلیم دو اور انہیں ادب کرنا سکھاؤ۔
اولاد کی تربیت کے حوالے سے آقا ﷺ کے فرامین سے
رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
1 ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ باپ پر اولاد کا یہ
حق ہے کہ وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400،
حدیث: 8658)
2۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: کوئی باپ اپنی اولاد کو اس
سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھائے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)یعنی
اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لئے سب سے بہترین
عطیہ ہے۔
3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب وہ یعنی بچے سات سال
کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے
پر ان کو مارو اور ان کے بستروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دو۔(ابو داود، 1/208،
حدیث: 494)
4۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ساتویں دن بچے کا
عقیقہ کیا جائے۔ اس کا نام رکھا جائے اور اس کے بال وغیرہ دور کئے جائیں اور جب چھ
سال کا ہو تو اسے ادب سکھایا جائے۔ جب وہ نو سال کا ہو تو اس کا بچھونا علیحدہ کر
دے جب تیرہ سال کا ہو جائے تو اسے نماز کے لئےتو اسے نماز کے لئے مارے اور جب وہ
سولہ سال کا ہو تو باپ اس کی شادی کردے۔پھر آقا ﷺ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا
ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ میں نے تجھے ادب سکھایا۔تعلیم دیااور تیری شادی کردی میں
دنیا کے فتنے اور آخرت کے عذاب سے تیرے لئے اللہ پاک کی پناہ چاہتا ہوں۔ (طبقات الشافیہ
الکبری للسبکی، 6/318)
5۔حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
سجدہ کی حالت میں آپ کی گردن پر سوار ہو گئے آپ نے سجدہ طویل کر دیا۔ صحابہ کرام
سمجھےکہ شاید کوئی بات ہو گئی ہو۔جب آپ نے نماز مکمل کر لی تو صحابہ کرام نے عرض
کی یارسول اللہ ﷺ آپ نے بہت طویل سجدہ کیا یہاں تک کہ ہم سمجھے کو کوئی بات واقع
ہو گئی ہے آپ نے فرمایا: میرا بیٹا مجھ پر سوا ر ہو گیا تھا تو میں نے جلدی کرنا
مناسب نہ سمجھا تاکہ وہ اپنی خوشی (حاجت) پوری کرلے۔ (نسائی، ص 196، حدیث: 1138)
ان احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہواکہ اولاد کو سکھانا
اسے بولنے کا ادب و طریقہ بتانا ان کے اچھے نام رکھنا نماز کو اس کے وقت میں ادا
کرنا یہ سب سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے اللہ پاک والدین کو اولاد کے اولاد کو
والدین کے اور ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اولاد الله پاک کی ایک عظیم نعمت ہے جس کی اہمیت کا
اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس سے محروم ہیں اولاد جیسی خوبصورت نعمت کا تقاضہ
یہ ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بہت سے فرائض انجام
دینے کا حکم دیا ہے جن میں ایک فریضہ اولاد کی تربیت ہے جس کا طریقہ یہ ہے ان کی صحیح
اسلامی تربیت کی جائے اور شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ان کی پرورش کی
جائے اولاد کی پرورش اور دیکھ بھال ماں باپ کی قانونی زمہ داری ہے اولاد کے حقوق
احادیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔
اولاد کے 5 حقوق
1رسول اکرم نور مجسم،شاہ بنی آدم ﷺ کا فرمان عظمت
نشان ہے: الله پاک اس باپ پر رحم فرمائے جو اپنی اولاد کی نیک کام میں مدد کرتا ہے۔
2 آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو عطا کرنے
میں برابری رکھو۔ (بخاری، 2/171، حدیث:
4294)
3 فرمان آخری نبی ﷺ: باپ پر اولاد کے حقوق میں سے
یہ بھی ہے کہ اس اچھی طرح ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400،
حدیث: 8658)
4میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ ﷺ کا فرمان
عالیشان ہے: کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب دے، وہ اس کے لئے ایک صاع صدقہ کرنے سے
بہتر ہے۔(ترمذى، 3/382، حدیث:1958)
5 سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا: باپ کے ذمے بھی اولاد
کے حقوق ہیں جس طرح اولاد کے ذمہ باپ کے حقوق ہیں۔
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا جس والدین کے اولاد
پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے بھی والدین پر حقوق ہیں اور جیسے الله تعالیٰ نے
ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کے ساتھ
احسان کرنے کا حکم بھی دیا اولاد کی اچھی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے اس
تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اس لئے سب سے پہلے اپنے اخلاق و
عادات درست کر کے ان کے لئے ایک نمونہ بنیں اس کے بعد ان کے عقائد و افکار اور
نظریات کو سنوارنے کے لیے بھر پور محبت کریں۔