جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اور ان کو پورا کرنا اولاد پر فرض ہے اسی طرح کچھ حقوق والدین پر بھی اولاد کے ہیں جنکو پورا کرنا والدین پر لازم ہے۔ ماں بچے کی پہلی درس گاہ ہے اس لیے ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچے کی بچپن سے ہی اچھی تربیت کرے تا کہ بچہ جب بڑا ہو تو باادب بنے۔ والد کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو حلال رزق کما کر کھلائے تاکہ بچے نیک بنے کیو نکہ حرام مال سے والد کی اپنی دنیا اور آخرت برباد ہو سکتی ہے۔

آئیے حدیث شریف کی روشنی میں اولاد کے کچھ حقوق ملاحظہ فرمائیے۔

1۔ رسول ﷺ نے فرمایا: ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے، اور اس کے بال وغیرہ دور کئے جائیں اور جب چھ سال کا ہوتو اسے ادب سکھایا جائے،جب وہ نو سال کا ہو تو اس کا بچھونا علیحدہ کر دے، جب تیرہ سال کا ہو تو اسے نماز کے لئے مارے اور جب وہ سولہ سال کا ہو تو باپ اس کی شادی کردے، پھر آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ میں نے تجھے ادب سکھایا، تعلیم دی اور تیری شادی کر دی، میں دنیا کے فتنے اور آخرت کے عذاب سے تیرے لئے اللہ پاک کی پناہ چاہتا ہوں۔ (طبقات الشافیہ الکبری للسبکی، 6/318)

2۔ رسول ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ کی حالت میں آپ کی گردن پر سوار ہوگئے آپ نے سجدہ طویل کر دیا، لوگوں نے سمجھا شاید کوئی بات ہوگئی ہے، جب آپ نے نماز پوری کر لی تو صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ نے بہت طویل سجدہ کیا، یہاں تک کہ ہم سمجھے کوئی بات واقعی ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تو میں نے جلدی کرنا مناسب نہ سمجھا تاکہ وہ اپنی خوشی (حاجت) پوری کر لے۔ (نسائی، ص 196، حدیث: 1138)

اس حدیث مبارک میں کئی فوائد ہیں، ایک یہ کہ جب تک آدمی سجدے میں رہتا ہے اسے اللہ پاک کا قرب حاصل رہتا ہے اس حدیث مبارک سے اولاد سے نرمی اور بھلائی اور امت کی تعلیم، سب باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اولاد کی خوشبو جنت کی خوشبو ہے۔ (معجم اوسط، 4/243، حدیث: 586)

3۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے حضرت احنف بن قیس کو بلانے کے لیے بھیجا، جب وہ آ گئے تو میرے باپ نے کہا: اے ابو بحر!اولاد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: امیر المومنین! یہ ہمارے دلوں کے پھل اور پشت کے ستون ہیں، ہم ان کے لیے نرم زمین اور سایہ دار آسمان ہیں، ہم انہی کے سبب ہر بلند چیز تک پہنچتے ہیں، اگریہ کچھ مانگیں تو انہیں دیجئے اگر یہ ناراض ہوں تو انہیں راضی کیجیے۔

ان پر اتنے ثقیل نہ ہوں کہ یہ آپ کی زندگی کو ناپسند کرنے لگیں اور آپ کی موت کی آرزو آنے لگیں، آپ کے قرب کو برا سمجھنے لگیں، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا:بخدا! اے احنف! جب تم آئے ہوتو میں یزید پر غم و غصہ سے بھرا بیٹھا تھا چنانچہ جب احنف چلے گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یزید سے راضی ہو گئے اور یزید کو دوہزار درہم اور دوسو کپڑے بھیجے۔ یزید نے ان میں سے ایک ہزار درہم اور ایک سو کپڑے حضرت احنف کے ہاں بھیج دے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص584)

4۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ باپ پر اولاد کا یہ حق ہے کہ وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

5۔ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن مبارک کے سامنے اپنے کسی لڑکے کی شکایت کی،آپ نے فرمایا: کیا تم نے اس پر بدعا کی ہے؟اس نے کہا:ہاں!آپ نے فرمایا:تو نے اسے برباد کر دیا ہے، اولاد کے ساتھ نیک سلوک اور نرمی کرنی چاہیے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص582)

اولاد کوبدعا دینے سے بچنا چاہیے کیونکہ کوئی گھڑی قبولیت کی ہو سکتی ہے اور وہ بدعا اولاد کے حق میں قبول ہو سکتی ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں سب کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

دین اسلام میں بچوں کی تربیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے بچوں کی صحیح تربیت اور نشونما کے لیے اپنے اخلاق و عادات کو درست کر کے ان کے لیے ایک نمونہ بنے۔ پھر اس کے بعد ان کے عقائد و افکار اور نظریات کو سنوارنے کے لیے بھرپور محنت کریں اور ان کی اخلاقی اور معاشرتی حالت سدھارنے کے لیے ان کے قول و کردار پر بھرپور نظر رکھیں۔ تاکہ وہ معاشرے کے باصالحیت اور صالح فرد بن سکیں کیونکہ اولاد کی تربیت صالح ہو تو ایک نعمت ہے ورنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے۔ دین شریعت میں اولاد کی تربیت کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں۔ اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اور ان کو ازاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے کتاب و سنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے، ان کی امانت کو ادا کیا جائے، ان کو ازاد چھوڑنے اور ان کے حقوق میں کوتاہیوں سے بچا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔

احادیث مبارکہ:

(1) حضرت جابر سمرہ دضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اسکے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)

(2) اولاد کے لیے باپ کا کوئی عطیہ اچھی تربیت سے بہتر نہیں۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

(3) جس کی پرورش میں دو لڑکیاں بلوغ تک رہیں تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ بالکل پاس پاس ہوں گے یہ کہتے ہوئے حضور ﷺ نے اپنی انگلیاں ملاتے ہوئے کہا کہ اس طرح۔ (مسلم، ص 1085، 6695)

(4) کیا میں تم کو یہ نہ بتا دوں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ اور وہ اپنی اس لڑکی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب) واپس لوٹ آئی تمہارے سوا اس کا کوئی کفیل نہیں۔ (ابن ماجہ، 4/188، حدیث: 3667)

(5) جو شخص تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی پرورش کرے پھر ان کو ادب سکھائے اور ان کے ساتھ مہربانی کرے یہاں تک کہ خدا ان کو مستغنی کر دے (یعنی وہ بالغ ہو جائیں اور ان کا نکاح ہو جائے) تو پرورش کرنے والے پر اللہ تعالیٰ جنت کو واجب کر دے گا ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اور دو بیٹیوں اور دو بہنوں کی پرورش پر کیا ثواب ہے؟ حضور ﷺ فرماتے ہیں دو کا ثواب بھی یہی ہے راوی کہتے ہیں اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں دریافت کرتے تو ایک کی نسبت بھی حضور یہی فرماتے۔ (مشكوة المصابیح، 2/214، حدیث: 4975)

(6) اپنی اولاد کو سات سال کا ہونے پر نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں انہیں نماز نہ پرھنے پر مارو اور انکے بستر الگ کر دو۔(ابو داود، 1/208، حدیث: 494)


پچھلے دنوں کنزالمدارس بورڈ کے اسٹاف ممبر محمد اشفاق احمد عطاری کی ہمشیرہ (بہن) انتقال کر گئیں تھیں جن کے ایصالِ ثواب کے لئے 20 جنوری 2025ء کو فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا گیا۔

اس دوران کنزالمدارس بورڈ فیصل آباد کے مولانا محمد اسماعیل عطاری مدنی، رجسٹرار پروفیسر جاوید اسلم باجوہ اور اسٹاف کے دیگر اسلامی بھائی موجود تھے۔بعدازاں مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت کروائی گئی۔(رپورٹ: کنزالمدارس بورڈ دعوتِ اسلامی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ تعالیٰ کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت سب سے اہم فریضہ ہے۔اللہ رب العزت قیامت کےدن اولاد سےوالدین کے متعلق سوال کرنے سےپہلے والدین سےاولاد کےمتعلق سوال کرے گا۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔

اولاد کے حقوق میں سے کچھ حقوق درج ذیل ہیں:

جب بچہ پیدا ہو تو سب سے حق یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان دینا۔

عقیقہ کرنا بچے کے پیدا ہونے کے ساتویں دن یا اس کے بعد جو جانور اس کے حوالے سے ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عقیقے کی تاکید فرمائی ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ ہر بچہ اپنے عقیقے کے ساتھ گروی ہے، اس کی طرف سے سات دن ذبح کیا جائے اور بچے کا نام رکھا جائے۔ (ابو داود، 3/141، حدیث: 2837)

اچھے نام کا انتخاب کرنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ ان کا اچھا نام منتخب کریں اور رکھیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو حسن ادب سے راستہ کرے۔(شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

ختنہ کروانا، اسلامی تعلیم و تربیت کرنا، حضرت ایوب رضی اللہ عنہ اپنے والد اور اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہو۔(ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرنا یعنی بیٹوں اور بیٹیوں میں فرق نہ کیا جائے بلکہ بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح ہر چیز میں برابر حصہ دیا جائے۔ ان کو روزگار کے لائق بنانا تاکہ بڑے ہونے پر وہ خود کما سکیں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ سکیں۔ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا تاکہ انہیں صحیح اور غلط کی پہچان ہو۔ بالغ ہونے پر مناسب جگہ شادی کرنا۔ ان کے لیے دعائے خیر کرنا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو گود میں لے کر دعاکرتے تھے کہ اے اللہ! میں ان سے محبت کرتاہوں تو بھی ان سے محبت کر۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے تمام حقوق بروقت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جب قرابت اور رشتہ داری کے حق کی تاکید ہے تو رشتہ داروں میں زیادہ خاص اور قریبی رشتہ ولادت کا ہے اس لیے اس کے حقوق باقی اقارب سے کئی گنا زائد ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ! میں کس کے ساتھ بھلائی کروں؟ ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے ساتھ، اس نے عرض کی میرے ماں باپ وفات پا چکے ہیں۔ارشاد فرمایا ! اپنی اولاد کے ساتھ بھلائی کرو جیسے تم پر تمہارے والدین کا حق ہے اس طرح تم پر تمہاری اولاد کا بھی حق ہے۔

اولاد کے متعدد حقوق ہیں مگر یہاں اولاد کے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:

1۔ باپ پر اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اچھی طرح ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

2۔ والدین پر اولاد کا حق یہ بھی ہے کہ بچے کی دیندار لوگوں میں شادی کرے کہ بچہ پر اپنے نانا ابو اور ماموں کی عادات و افعال کا بھی اثر پڑتا ہے۔

3۔ جب تمیز آئے ادب سکھائے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی تعلیم، ماں باپ، استاد اور دختر کو شوہر کی بھی اطاعت کے طرق و آداب(طور طریقے) بتائے۔

4۔ حضور اقدس ﷺ کی محبت و تعظیم اولاد کے دل میں ڈالے کہ اصل ایمان و عین ایمان ہے۔

5۔ جب جوان ہو شادی کر دے، شادی میں وہی رعایت قوم و دین و سیرت و صورت ملحوظ رکھے۔

یاد رہے کہ حقوق اللہ و حقوق العباد کا بجا لانا ہر مسلمان پر لازم ہے حقوق اللہ میں کوتاہی تو رب تعالیٰ معاف فرما دے گا مگر حقوق العباد میں کوتاہی بندے سے معاف کروانا لازم ہے ورنہ رب تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائے گا اسی لیے حقوق العباد کو پورا کرنے کی سعی کرتے رہیں اور ان حقوق کی زیادہ فکر کرنی چاہیے۔

اللہ پاک ہمیں حقوق العباد کامل طور پر پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ

ہمارا اسلام کتنا پیارا ہے کہ ہر شخص کے حقوق کو ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے والدین ہوں یا اولاد رشتہ دار ہوں یا پڑوسی سب کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے ہر ایک کو اس کا حق دلاتا ہے حضور ﷺ کی ولادت سے پہلے بیٹے بیٹیوں میں فرق کیا جاتا تھا بیٹے کو باعزت رکھا جاتا تھا جبکہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا لیکن جب حضور ﷺ نے بیٹےاور بیٹی میں فرق ختم کیا تو بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جانے لگا اسی طرح نہ صرف بیٹے کے حق فراہم کیے بلکہ بیٹی کو بھی اس کے حقوق دیئے تو اس طرح اولاد کے حقوق کو پیش نظر رکھا گیا۔ دین اسلام نے اولاد کے بہت سے حقوق بیان کیے جن میں سے چند تحریر کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

1۔بیٹا اور بیٹی عام طور پر مسلمان ہونے پھر خاص پڑوسی ہونے پھر قریبی رشتہ داروں نے اور پھر بالخصوص اسی کے کنبہ میں ہونے کی وجہ سے باپ کی سب سے زیادہ خصوصی توجہ کے حقدار ہیں۔

2۔جب بیٹے یا بیٹی کی پیدائش ہو تو سب سے پہلے ان کے کان میں اذان دی جائے تاکہ شیطان کے شر سے محفوظ رہیں۔

3۔اپنے بچے کا نام رکھیں یہاں تک کہ کچے بچے کا بھی نام رکھا جائے اگر کچے بچے کا نام نہ رکھا تو وہ اللہ کے یہاں شاکی ہوگی۔اپنے بچوں کے اچھے نام رکھیں حضور ﷺ نے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا اور برے نام رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

4۔بیٹا یا بیٹی ہو دونوں کے ساتھ برابر سلوک کریں کھانے میں پہنانے میں تعلیم میں یہاں تک کہ پیار کرنے میں بھی برابر کا سلوک کریں بہتر یہ ہے کہ بیٹی کو چیز دینے میں پہل کریں کیونکہ بیٹیوں کے دل چھوٹے ہوتے ہیں۔

5۔بیٹیوں کو سلائی کڑھائی کھانا پکانا وغیرہ سکھائیں جوان ہو جائیں تو گھر میں لباس و زیور سے راستہ کریں کہ نکاح کے پیغام رغبت کے ساتھ آئیں اور جب کفو ملے تو دیر نہ کریں بیٹی کی اچھی تربیت ہی سے معاشرہ ترقی کرتا ہے بیٹی کو سورۃ نور کی تعلیم دیں بیٹی رحمت بنا کر بھیجی گئی ہے اسے رحمت ہی سمجھا جائے نہ کہ زحمت۔

دعوتِ اسلامی کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تحت گزشتہ روز شاہ کوٹ ، ضلع ننکانہ کے  گورنمنٹ ہائی اسکول میں ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے ٹیچرز سمیت دیگر اسٹاف سے ملاقات کی۔

اس موقع پر ٹیچرز کے لئے اسکول میں ہی ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نے اساتذہ کو بنیادی دینی مسائل سیکھنے کے لئے چند اہم باتیں بتائیں اور انہیں دینی کاموں میں حصہ لینے کا ذہن دیا۔مبلغِ دعوتِ اسلامی نے اسکول میں ”احکامِ روزہ کورس“ منعقد کرنے کی ترغیب دلائی جس پر تمام ٹیچرز نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ:ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


اسلام میں اولاد کے حقوق بھی مقرر ہیں آئیے حدیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ ہو:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ہر ذمہ دار سے اسکی رعایا کے بارے میں پوچھے گا کہ اس نے انکے بارے میں اپنی ذمہ داری کو نبھایا، یا ضائع کردیا، حتی کہ بندے سے اسکے اہل و عیال کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ (صحیح ابن حبان، 6/465 حدیث: 4475)

اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک، زندگی کی خوشی اور مستقبل کی امید ہیں، انسان کے گھر کی رونق اولاد سے ہے، انکی زندگی میں لذت و سرور، اولاد ہی سے ہے بلکہ شرعی طور پر اولاد ایک ایسا ذخیرہ ہیں کہ انسان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب انسان مرجاتا ہے تو اسکے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے کہ ان کا فیض انہیں پہنچتا رہتا ہے : صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو اور نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرے۔ (مسلم، ص 684، حدیث: 4223)

لیکن کسی بھی باپ و ماں کو یہ نعمت اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے بچوں کے حقوق کو ادا کریں، ذیل میں اولاد کے چند حقوق ذکر کئے جاتے ہیں:

1۔ ماں کا انتخاب: یہ وہ پہلا مرحلہ ہے جہاں سے اولاد کے حقوق شروع ہوتے ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: اپنے نطفے کیلئے اچھے رحم کا انتخاب کرو چنانچہ کفو میں اپنے مردوں کی شادی کرو اور لڑکیوں کی شادی میں بھی کفو کا لحاظ رکھو۔ (ابن ماجہ، 2/474، حدیث: 1968)

2۔ زندگی کی حفاظت: یعنی استقرار حمل کے بعد اسے ضائع کرنے یا ولادت کے بعد اسے قتل کرنے سے پرہیز کریں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-(پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے جواب دیا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا، میں نے کہا: یہ تو بہت بڑا جرم ہے، پھر اسکے بعد کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا، میں نے عرض کیا: پھر اسکے بعد کیا؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، 2/474)

3۔ رضاعت و حضانت: بچپن اور بلوغت کو پہنچنے کے مرحلے تک والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچے کے کھلانے پلانے کا انتظام کریں: وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ 2، البقرة: 233) ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کے گناہ گار ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ جن کی روزی کا ذمہ دار ہے ان کے حقوق ضائع کردے یعنی نان و نفقہ میں کوتاہی کرے۔

4۔ تعلیم و تربیت: اولاد کا ایک اہم حق یہ ہے کہ والدین انکی تعلیم وتربیت کا خیال رکھیں: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے بچے کو سات سال کی عمر میں نماز سکھاؤ اور دس سال کی عمر میں اس نماز میں کوتاہی کرنے پر انکی گوش مالی کرو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

5۔ عقیقہ اور نام: پیدائش کے بعد والدین کی سب سےاہم ذمہ داری بچے کا عقیقہ کرنااور اسکے لئے عمدہ نام کا انتخاب کرنا ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی رہتا ہے، ساتویں دن اسکی طرف سے عقیقہ کیا جائے، اس سے گندگی کو دور کیا جائے یعنی اسکے بال اتروائے جائیں اور نام رکھا جائے۔ (ابو داود، 3/141، حدیث: 2837)

اللہ کریم ہمیں شریعت کے احکامات کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہر انسان کے دوسرے پر حقوق ہوتے ہیں جیسے کہ پڑوسی کے پڑوسی پر حقوق رشتہ داروں کے حقوق مسافروں کے حقوق اسی طرح اولاد پر والدین کے حقوق اور والدین پر بھی اولاد کے حقوق ہوتے ہیں۔

1: بچوں کے اچھے نام رکھے جائیں۔ پیدائش کے بعد بچوں کے اچھے نام رکھے جائیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ﷺ نے فرمایا: اچھوں کے نام پر نام رکھو اور اپنی حاجت اچھے چہرے والوں سے طلب کرو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، 2/80، حدیث: 2329)

محمد نام رکھنے کی فضیلت: حدیث مبارکہ میں ہے: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے وہ (یعنی نام رکھنے والا والد) اور اس کا لڑکا دونوں بہشت یعنی جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، 14/ 170، حدیث: 40210)

2: جب سمجھدار ہو جائیں تو قرآن پاک پڑھائیں۔ جب اولاد سمجھدار ہو جائے تو ان کو قرآن پاک پڑھائیں اور اولاد کو ادب سکھایا جائے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: باپ پر اولاد کا حق یہ ہے کہ وہ انہیں بہترین ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

3: اولاد سے محبت کی جائے۔ اپنی اولاد سے محبت کی جائے ان کی جائز خواہشات پوری کی جائیں جناب اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو اپنے نواسہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو چومتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ میرے دس بیٹے ہیں مگر میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما حضور ﷺ نے فرمایا: بے شک جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 594)

4:بچوں سے نرمی اور بھلائی کی جائے، حضرت عبداللہ بن شہداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ کی حالت میں آپ کی گردن پر سوار ہو گئے آپ نے سجدہ طویل کر دیا لوگوں نے سمجھا شاید کوئی بات ہو گئی ہے جب آپ نے نماز پوری کر لی تو صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! آپ نے بہت طویل سجدہ کیا یہاں تک کہ ہم سمجھے کوئی بات واقع ہو گئی ہے آپ نے فرمایا میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تو میں نے جلدی کرنا مناسب نہ سمجھا تھا کہ وہ اپنی خوشی پوری کر لے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 594)

5: اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے۔ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے کسی لڑکے کی شکایت کی آپ نے فرمایا: تم نے اس پر بددعا کی ہے اس نے کہا: ہاں آپ نے فرمایا: تو نے اسے برباد کر دیا اولاد کے ساتھ نیک سلوک اور نرمی کرنی چاہیے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 594)


ضلع ننکانہ صاحب، صوبۂ پنجاب کی تحصیل شاہ کوٹ  میں قائم رفاہ انٹرنیشنل کالج (Riphah International College) میں ایک سیشن منعقد ہوا جس میں پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان اور پرنسپلز نے شرکت کی۔

دورانِ سیشن ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے ذمہ دار محمد جنید عطاری نے حاضرین کے درمیان بیان کیا جس میں انہوں نے دعوتِ اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کے متعلق گفتگو کی اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا تعارف بھی کروایا۔آخر میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نے دعا کروائی۔(رپورٹ:ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دھوبی گھاٹ گراؤنڈ، فیصل پنجاب میں دعوتِ اسلامی کے تحت عظیم الشان ”دستارِ فضیلت اجتماع“ کا انعقاد کیا گیا جس میں مدرسۃ المدینہ وجامعۃ المدینہ (بوائز) کے طلبۂ کرام، شعبہ جات کے ذمہ داران، فیصل آباد و اطراف سے آئے ہوئے علمائے کرام اورسیاسی و سماجی شخصیات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

تلاوت و نعت کے بعد اس اجتماعِ پاک میں رکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ و نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری کا سنتوں بھرا بیان ہوا جس میں انہوں نے حاضرین کی مختلف امور پر رہنمائی کی۔

دورانِ اجتماع تخصصات، درسِ نظامی، حفظ اور تجوید و قرأت مکمل کرنے والے طلبہ کی دستار بندی کی گئی۔علاوہ ازیں نگرانِ پاکستان مشاورت نے اختتامی دعا کروائی اور اسلامی بھائیوں سے ملاقات بھی کی۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار نگرانِ پاکستان مشاورت، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


اسلام میں اولاد کے بہت سے حقوق بیان کیے گئے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ ہوں۔

1۔ اولاد کی پیدائش سے بھی پہلے یہ حق ہے کہ آدمی اپنا نکاح کسی کم عمر سے نہ کرے بری نسل ضرور رنگ لاتی ہے۔

2۔ دیندار لوگوں میں شادی کرے کہ بچے پر نانا ماموں وغیرہ کے عادات و افعال کا بھی اثر پڑتا ہے۔

3۔ کالے رنگ والے لوگوں میں قرابت نہ کرے کہ کہیں ماں کا کالہ رنگ بچے کو بدنما نہ کر دے۔

4۔ جماع کی ابتداء بسم اللہ شریف سے کرے ورنہ بچے میں شیطان شریک ہو جاتا ہے۔

5۔ اس وقت شرمگاہ یعنی عورت کے مخصوص مقام کی طرف نظر نہ کرے کہ بچے کہ اندھے ہونے کا اندیشہ ہے۔

6۔ زیادہ باتیں نہ کرے کہ توتلے یا گونگے ہونے کا خطرہ ہے۔

7۔ جب بچہ پیدا ہو فوراً سیدھے کان میں اذان دے اور بائیں کان میں تکبیر کہے کہ بچہ خلل شیطان اور ام الصبیان سے محفوظ رہے گا۔ بہتر یہ ہے کہ داہنے کان میں چار مرتبہ اذان اور بائیں کان میں تین مرتبہ اقامت کہے۔

8۔ بچے کا اچھا نام رکھے یہاں تک کہ کچے بچے کا بھی جو کم دنوں کا گر جائے ورنہ اللہ کریم کے یہاں شاکی ہوگا یعنی شکایت کرنے والا ہوگا۔

9۔برا نام نہ رکھے بہتر یہ ہے کہ محمد نام رکھا جائے۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے پاک نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

اللہ کریم ہماری ہمارے والدین پیر و مرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے اور ہمیں شریعت کے احکامات اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اللھم آمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم