اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات
بنایا اور ہمیں بیشمار نعمتیں نصیب فرمائیں تو اب ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم رب
تعالیٰ کی اطاعت والے کاموں میں لگ جائیں اور اسکی نافرمانیوں والے کاموں سے خود
بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اس سے بچائیں۔ اگر ہم گناہوں میں دوسروں کی مدد کرینگے
تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوجائیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ خود قرآن پاک میں گناہ پر مدد
نہ کرنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى
الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ
6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد
کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔
آیت مبارکہ میں اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان
سےمراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے
اور عدوان سے مراد ظلم یا بدعت ہے اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ
اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔
گناہ پر مدد کرنے کی مختلف صورتیں:
کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی
گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ
دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے
اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔
گناہ پر مدد کرنے کے بجائے نیکی پر لوگوں کی مدد
کرنے سے ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا، رب تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪- (پ
6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد
کرو۔
اس آیت مبارکہ میں برسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس
کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے
جس سے شریعت نے روکا ہے نیکی اور تقویٰ میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں جیسے:
علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس و تدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد
کرنا، دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے
باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا، نیکی کی
دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے
تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہے۔
لوگوں کو
نیکی کی طرف راہ دینے پر اجر کےمتعلق حدیث مبارکہ میں ہے: رسول اللہ ﷺ کا فرمان
ہے: جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر
اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی
دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہو گا اور ان کے
گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ (مسلم، ص 1438،
حدیث: 2674)
احادیث مبارکہ میں نیکی کا حکم نہ دینے پر وعیدات
بھی بیان ہوئی ہیں جیسے ایک حدیث مبارکہ میں ہے: آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم!
جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تمہیں بہر صورت نیکی کا حکم دینا چاہیے اور
برائی سے منع کرنا چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اسے
(مدد کے لیے) پکارو گے تو تمہاری پکار مستجاب نہیں ہوگی۔ (ترمذی، 4/69، حدیث: 2176)
ہمیں چاہیے کہ ہم لوگوں کی گناہ پر مدد کرنے کے بجائے
نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں جس کا ذکر ہمیں کئی آیات مبارکہ اور احادیث
مبارکہ میں ملتا ہے۔