اللہ کریم نے صحابہ سے جنت کا وعدہ فرمالیا ہے۔چنانچہ الله پاک پاره 27 سورۃ الحدید آیت نمبر 10 میں فرماتا ہے:ترجمہ کنز الایمان:تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا،اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔

صحابی کی تعریف:حضرت علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:الصَّحَابِي:مَن لقِيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّم مُومِنًا بِهِ ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى الاسلام یعنی جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال شریف ہوا، اُن خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔(نخبۃ الفكر، ص111)

صحابہ کرام کی تعداد:اکابر محدثین کے مطابق صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعداد ایک لاکھ سے سوا لاکھ کے درمیان تھی۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے نام معلوم نہیں ، جن کے معلوم ہیں ان کی تعداد تقریباً سات ہزار ہے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص400)

صحابی سے کوئی بھی ولی بڑھ نہیں سکتا:بہارِ شریعت میں ہے:تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم بھلائی والے اور عادل ہیں۔ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر (یعنی بھلائی ) ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت (یعنی بُرا عقیدہ رکھنا) بد مذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم (یعنی جہنم کی حق دار ی)ہے کہ وہ ( بد اعتقادی ) حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بغض یعنی دشمنی ہے، کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبے کا ہو، کسی صحابی کے رتبے کو نہیں پہنچتا۔(بہارِ شریعت،1/252 ،253)آئیے!فضائلِ صحابہ کے بارے میں حدیثِ مبارک ملاحظہ کرتی ہیں۔

(1)بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں (یعنی صحابہ کرام ) پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں ( یعنی تابعین ) ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں (یعنی تبعِ تابعین )۔(مسند امام احمد،6/393،حدیث:18474)

(2)اس مسلمان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھایا مجھے دیکھنے والے یعنی صحابہ عَلَيہِمُ الرضوان کو دیکھا۔(ترمذی، 5 /461، حديث:3884)

(3) میرے صحابہ میں سے جو کسی سَر زَمین میں فوت ہوگا تو قیامت کے دن اُن لوگوں کے لیے قائد اور نور بنا کر اٹھایا جائے گا ۔ (ترمذی،5/464 ،حدیث:3891 )

(4)میرے اصحاب کو بُرا نہ کہو،اس لئے کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کے ایک مد (یعنی ایک کلو میں 40 گرام کم ) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اورنہ اس مد کے آدھے۔

(بخاری،2/522،حدیث:3673)

حضرت مولیٰ علی ،شیرِ خدا رضی اللہ عنہ نے سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 101 تلاوت فرمائی:اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ (ترجمہ کنز الایمان:بے شک وہ جن کے لئے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہو چکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں۔)پھر ارشاد فرمایا:میں انہی میں سے ہوں۔حضرات ابوبکر،عمر،عثمان،طلحہ،زبیر،سعد اور عبد الرحمن بن عوف رضی الله عنہم بھی انہی میں سے ہیں۔(تفسیر نسفی،ص727)

الله پاک پارہ 19 سورۃ النمل آیت نمبر 59 میں فرماتا ہے:قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰىؕ ﰰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ(59) ترجمۂ کنزالایمان: تم کہو سب خوبیاں اللہ کو اور سلام اس کے چنے ہوئے بندوں پر۔

صحابی ابنِ صحابی حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان کردہ آیتِ مبارکہ کے اس حصے:وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰىؕ (ترجمہ کنز الایمان:اور سلام اس کے چنےہوئے بندوں پر ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: چنے ہوئے بندوں سے نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام مراد ہیں۔(تفسیر طبری،4/10،رقم: 27060)

فرشتے صحابہ کا استقبال کریں گے:تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم اعلیٰ و ادنی ( اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں ) سب جنتی ہیں، وہ جہنم کی بھنک یعنی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے۔ محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی ،فرشتے اُن کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔(بہار شریعت،1/25)مزید الله پاک پارہ 17 سورة الانبياء:101 سے 103 میں ارشادفرماتا ہے:اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙاُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(101)لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚوَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(102)لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕهٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(103)ترجمہ کنز الایمان:بے شک وہ جن کے لیے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہو چکا وہ جہنم سے دور رکھے گے ہیں، وہ اس کی بھنک نہ سنیں گے اور اپنی من مانتی خواہشوں میں ہمیشہ رہیں گے۔انہیں غم میں نہ ڈالے گی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ اور فرشتے اُن کی پیشوائی کو آئیں گے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔

آئیے! ایک ایمان افروز حکایت ملاحظہ کرتی ہیں۔ چنانچہ

تابعی بزرگ حضرت عبد الله بن وہب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جب نبیِ اکرم ﷺ کے پیارے پیارے صحابہ کرام عَلَيْہِمُ الرِّضْوَان مُلکِ شام آئے تو ایک راہب ( یعنی عیسائی عبادت گزار )سے سامنا ہوا،راہب نے انہیں دیکھ کر کہا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری یعنی ساتھی جنہیں سولی دی گئی اور آروں سے چیرا گیا وہ بھی مجاہدے یعنی عبادت وریاضت میں اس مقام تک نہیں پہنچے،جس مقام تک حضرت محمد عربی ﷺ کے صحابہ کرام علیہم الرضوان پہنچے ہوئے ہیں۔حضرت عبد الله بن وہب رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں:میں نے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کی:( راہب نے جن کی تعریف کی تھی ) آپ اُن صحابہ کرام کے نام بتا سکتے ہیں؟تو اُنہوں نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ،حضرت معاذ بن جبل،حضرت بلال اور حضرت سعد بن عبادہ عَلَيہمُ الرضوان کا نام لیا۔(اللہ والوں کی با تیں،6/463)اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔امین ثم آمین

آل و اصحابِ نبی سب بادشاہ ہیں میں فقط ادنیٰ گدا اصحاب واہلِ بیت کا

حضورﷺ نے صحابہ کرام سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ میرے صحابہ سے محبت کرے۔(تفسیر قرطبی،6/203)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے قلوب تقویٰ و طہارت میں نہایت مذکی و مصفی تھے، اس کو قرآنِ کریم یوں بیان کرتا ہے:اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ(پ26،الحجرات:3)ترجمہ:وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ۔

خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کا عزاز و اکرام کرو کیونکہ وہ تم سے بہتر ہیں پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے۔

(مشکاة المصابیح ، 2 /413 ، حدیث : 6012)

آقا ﷺ مختلف مقامات مواقع پر اپنے صحابہ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی بھی فرمایا کرتے تھے جیسا کہ غزوۂ اُحد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کی تیر چلانے کی مہارت کو دیکھتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی ان لفظوں سے فرمائی:اِرْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّيیعنی تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں!تیر مارو۔(مسلم، ص1314، حدیث:2411)

حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:یہ جملے آقا ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے علاوہ کسی اور کو نہیں فرمائے۔(ترمذی،5/418،حدیث:3774 )


صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ہمارے میٹھے میٹھے آقا ﷺ سے بے حد محبت تھی،اسی محبت کی بنا پر وہ آقا ﷺ پر آئی ہر مصیبت خود پر لینے کی کوشش میں رہتے تھے۔جیسا کہ ایک جلیل القدر بزرگ ہستی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جن کا تعلق عشرۂ مبشرہ  سے ہے۔ان کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اسلام کی سر بلندی کے لیے شجاعت و بہادری کے کئی جوہر دیکھائے اور اپنی جان کی پروا کیے بغیر نبیِ کریمﷺ کی حفاظت کی خاطر کفار سے مقابلہ کیا۔آپ کی ہمت و شجاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:غزوۂ اُحد میں جب ہم حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ نبیِ کریم ﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے جسم پر ستر سے زائد چھوٹے بڑے زخم ہیں اور ان کی انگلیاں بھی کٹ چکی ہیں۔(بخاری،20/ 539 ، حدیث:3719)

سبحان اللہ! جب صحابہ کرام اپنے آقا و مولا ﷺ سے اتنی محبت فرمایا کرتے تھے تو آقا ﷺ کا ان سے اندازِ محبت کتنا دلکش ہو گا!آئیے!ذیل میں دی گئی احادیث کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔چنانچہ

عَنْ أَبِيْ سَعِيْدِ الْخُدْرِيِّ قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفِهِ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کا کوئی اُحد(پہاڑ)بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کے مُد کو پہنچے نہ آدھے کو۔(بخاری،2/522، حدیث:3673)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی مثال میری امت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا بغیر نمک کے درست نہیں ہوتا۔ حسن نے فرمایا:ہمارا نمک تو چلا گیا ہم کیسے درست ہوں۔(شرح السُّنہ،7/174 ، حدیث :3756)

شرحِ حدیث:یعنی جیسے نمک ہوتا ہے تھوڑا مگر سارے کھانے کو درست کردیتا ہے ایسے ہی میرے صحابہ میری امت میں ہیں تھوڑے مگر سب کی اصلاح انہی کے ذریعہ سے ہے۔ریل کا پہلا ڈبہ جو انجن سے متصل ہے وہ ساری ریل کو انجن کا فیض پہنچاتا ہے،انجن سے وہ کھینچتا ہے اور سارے ڈبے اس کے ذریعہ کھنچتے ہیں۔خواجہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ اب ہم حضرات صحابہ کا دیدار کیسے کریں،ان سے روایات کیسے لیں،ان سے حضور علیہ السلام کے حالات کیسے پوچھیں وہ تو چلے گئے۔اصلاح سے مراد ہے مزیدار یعنی ہمارے اندر وہ لذت سوزوگداز کیسے پیداہو وہ حضرات نہ رہے۔خیال رہے کہ خواجہ حسن بصری کے زمانہ میں ایک سو دس صحابہ موجود تھے مگر چونکہ اب ان کا زمانہ ختم ہورہا تھا اس لیے آپ یہ افسوس فرمارہے تھے۔( مراٰۃ المناجیح ، 8/ 343)

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی قریظہ کے پاس کون جائے گا جو ان کی خبر لائے؟ میں چل دیا۔ پھر جب میں لوٹا تو میرے لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ماں باپ جمع فرما دئیے، فرمایا: تم پر میرے ماں باپ فدا ۔ (بخاری،2/540،حدیث:3720)

سبحان اللہ!اس سے بڑھ کر خوش بختی کیا ہو گی کہ آقاﷺ اپنے صحابہ سے فرمائیں کہ تم پر میرے ماں باپ فدا!خدا کرے! ہم بھی صحیح معنوں میں عاشقاتِ رسول و عاشقاتِ صحابہ بننے میں کامیاب ہو جائیں۔

اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیینﷺ


انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ پاک کا نائب ہے اس لئے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں دین و شریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں جس طرح والدین کے ساتھ نیکی کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح اولاد کے ساتھ حسن سلوک کا حکم قرآن  و سنت میں دیا گیا ہے۔یہاں ہم اولاد کے 05 حقوق کو بیان کرنے کی سعی کریں گے۔

1۔والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا اچھا نام رکھے۔ برا نام نہ رکھے کہ بد فال ہے (برا شگون ہے) عبداللہ، عبدالرحمان، احمد وغیرہ یا عبادت و حمد کے نام یا انبیاء و اولیاء یا اپنے بزرگوں میں جو نیک گزرے ہوں ان کے نام پر نام رکھے کہ مؤجب برکت ہے خصوصاً نام پاک محمدکہ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچہ کے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔

نام محمد کی برکتیں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک کی برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اسکا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے سرکار ﷺ نے فرمایا: جس دستر خوان پر کوئی احمد یا محمد نام کا ہوتو اس جگہ پر ہر روز دو بار برکت نازل کی جائےگی۔ (مسند الفردوس، 2/323، حدیث: 6526)

2۔جب چند بچے ہوں تو جو چیز دے سب کو برابر و یکساں دے ایک کو دوسرے پر بے فضیلت ترجیح نہ دے۔ فتاوی قاضی میں ہے: حضرت اما م ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی فضل وشرف کی وجہ سے ہو لیکن اگر سب برابر ہوں تو پھر ترجیح دینا مکروہ ہے۔ (الخانیہ، 2/ 290)

فتاوی عالمگیری میں ہے : اگر بیٹا حصول علم میں مشغول ہو نہ کہ دنیوی کمائی میں تو ایسے بیٹے کو دوسری اولاد پر ترجیح دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (فتاوی ہندیہ، 4/ 391)

3۔والدین کو چاہیے کہ اولاد کو قرآن مجید پڑھائےاور دینی تعلیم سکھائے خصوصاً فرائض کا علم جن کا ہر مسلمان پر سیکھنا فرض ہے سکھایا جائےاگر باپ بچوں کو دینی تعلیم سکھائے گا تو دونوں کی دنیا و آخرت کا بھلا ہوگا۔ اسلام کی روشن تعلیمات سے منور اولاد دنیا کے ساتھ ساتھ مرنے کے بعد بھی کام آتی ہے چنانچہ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جب آدمی انتقال کرتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر تین عمل جاری رہتے ہیں: صدقہ جاریۃ اور جس علم سے نفع حاصل کیا جاتا ہو اور نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرے۔ (مسلم، ص 684، حدیث: 4223)

4۔والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے لیے دعا کرے۔ کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے خصوصاً باپ کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے دعا کرے باپ کی دعا قبول ہوتی ہے چنانچہ فرمان مصطفٰے ﷺ ہے:تین قسم کی دعائیں مقبول ہیں: 1مظلوم کی دعا۔ 2 مسافر کی دعا۔ 3 باپ کی بیٹے کے لیے دعا۔ (ابن ماجہ، 4/281، حدیث: 3862)

5۔اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی شادی اچھی جگہ پر کی جائے۔ کیونکہ اولاد کے لیے مناسب رشتے کا انتخاب بھی بہت اہم معاملہ ہے۔ اکثر لوگ رشتے کا انتخاب کرنے میں امیر گھرانے،اعلی دنیاوی تعلیم اور جدت پسندی وغیرہ کو ترجیح دیتے ہیں نیز بعض لوگ اپنے بچوں کی صرف اپنے ہی خاندان میں شادی کرنے پر بضد ہوتے ہیں اگرچہ لڑکا لڑکی رضا مند نہ ہوں باپ کو چاہیے کہ اس معاملے میں اولاد کی رائےبھی ضرور معلوم کرے اور نیک اور نماز روزے کے پابند گھرانے کوترجیح دے۔

ماہنامہ فیضان مدینہ کے معزز قارئین! ہمارے پیارے مذہب اسلام کے احکامات کی بنیاد 2 چیزوں پر ہے: 1۔حقوق اللہ 2۔ حقوق العباد۔ اسلام نے معاشرے میں رہنے والے تمام لوگ اور رشتے دار والدین اولاد بہن بھائی نوکر سیٹھ دکان دار خریدار مسلم غیر مسلم سب کے حقوق و فرائض کا التزام فرمایا تاکہ اسلام کے روشن اصولوں میں ایک پُر بہار معاشرے کا قیام عمل میں آسکے جہاں ہر ایک کے حقوق محفوظ ہوں۔

انہی میں ایک مقدس اور اہم رشتہ والدین اور اولاد کا ہے اسلام نے ان کے متعلق بھی مفصل اور اہم احکامات عطا فرمائے۔اوران کے حقوق و فرائض کی حفاظت فرما کر مسلمانوں پر احسان عظیم کیا۔ معزز قارئین والدین وہ ہستی ہیں کہ جن کی فرمانبرداری کو اللہ پاک نے اولاد پر لازم قرار دیا اور ان کا ذکر اپنے ذکر کے ساتھ کیا۔لیکن وہیں والدین کو بھی اولاد کے متعلق احکامات کا پابند کیا تاکہ کسی بھی فریق کی حق تلفی نہ ہو معاشرے کے فطری تقاضے پورے ہوتے رہیں اور معاشرے میں اعتدال قائل رہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: باپ کے ذمہ بھی اولاد کے حقوق ہیں، جس طرح اولاد کے ذمہ باپ کے حقوق ہیں۔

اولاد کے چند حقوق ہیں جن پر عمل کر کے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل ہوگی اور گھر امن و سکون کا گہوارہ بنے گا ان شاء اللہ اولاد کے حقوق یہ ہیں:

1۔تحفظ جان 2۔ کان میں اذان پکارنا 3۔ تحسنیک 4۔ عقیقہ 5۔ نومولود کا سر منڈوانا 6۔لڑکے کا ختنہ کروانا 7۔ حق رضاعت 8۔ اولاد کے درمیان عدل 9۔ رزق حلال سے پرورش 10۔ اچھی تعلیم و تربیت 11۔ نکاح اور شادی کی ذمہ داری۔ (2)

ہم ان میں سے پانچ حقوق کو مختصرا بیان کریں گے:

1۔ تحفظ جان: قرآن پاک میں ارشاد ہے: قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِؕ-قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ۠(۱۴۰) (پ 8، الانعام: 140) ترجمہ کنزالایمان) (واقعی ایسے لوگ برباد ہو گئے جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علم کے بیوقوفی سے قتل کردیا اور ان چیزوں کو جو اللہ نے ان کو روزی کے طور پر بخشی تھیں اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے حرام کر ڈالا بےشک وہ گمراہ ہو گئے اور ہدایت یافتہ نہ ہو گے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے یہ آیت زمانۂ جاہلیت کے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی لڑکیوں کو نہایت سنگ دلی سے زندہ درگور کر دیا کرتے تھے اور جاہلیت کے بعض لوگ لڑکوں کو بھی قتل کرتے تھے اور بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ کتّوں کی پرورش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے تو اللہ پاک نے آسمانی احکامات کے ذریعے ان کی حفاظت کا انتظام فرمایا اور فرمادیا کہ زندگی دینا اور لینا رب کا کام ہے والدین کو یہ حق بالکل حاصل نہیں۔اسلام سے پہلے اولاد کو قتل کرنے کی مختلف صورتیں تھیں اسلام نے تمام صورتوں کو حرام قرار دیا اور اولاد کی جان کو تحفظ بخشا۔ لہٰذا والدین کا سب سے اہم اور اول فریضہ اپنی اولاد کی زندگی کا تحفظ کرنا ہے۔

2۔ کان میں اذان پکارنا: جب بچہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان و اقامت کہی جائے۔ حدیث مبارکہ ہے: جس شخص کہ ہاں بچہ پیدا ہو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو بچہ ام الصبیان سے محفوظ رہے گا۔ (3) اذان و اقامت کہنے کا طریقہ بہتر یہ ہے کہ دہنے کان میں چار مرتبہ اذان اور بائیں کان میں تین مرتبہ اقامت کہی جائے (اگر ایک مرتبہ اذان و اقامت کہہ دی تب بھی کوئی حرج نہیں)۔ (4)

3۔ رزق حلال سے پرورش: والدین کے فرائض میں سے یہ بھی ہے کہ اولاد کی رزق حلال سے پرورش کریں ایام حمل اور رضاعت میں بھی بچے کی نشوونما حلال مال سے ہونی چاہیے۔ بچوں کی پرورش حلال مال سے کریں تاکہ بچہ بڑے ہو کر حلال حرام میں تمیز کے قابل ہو سکے۔ یاد رکھیں حرام میں خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جنت میں وہ گوشت داخل نہ ہوگا جو حرام سے پلا ہو ہر وہ گوشت جو حرام مال سے پلا ہو آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔ (5)

حلال اور حرام کے متعلق شروع سے ہی بچوں کی تربیت کریں اور ان کو حرام کے قریب بھی نہ بھٹکنے دیں۔

حدیث مبارکہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ چھوٹے سے بچے تھے تو انہوں نے صدقہ کی کھجور منہ میں ڈال لی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے منہ میں انگلی ڈال کر نکال دی یہ فرماتے ہوئے کہ صدقہ آل محمد ﷺ پر حرام ہے۔ (6)

4۔ اچھی تعلیم و تربیت: والدین کا ایک اہم فریضہ اپنے بچوں کو علم و تہذیب کی دولت سے مالا مال کرنا ہے کہ علم ایک ایسی خوبی ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائض کیا گیا۔

حدیث مبارکہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: باپ کا کوئی عطیہ بیٹے کیلیے اس سے بڑھ کر نہیں کہ وہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے۔ (7)

ایک اور مقام پہ ارشاد فرمایا اپنی اولاد کا اکرام کرو اور (اچھی تربیت کے ذریعے) ان کو حسن ادب سے آراستہ کرو۔ (8) یاد رہے اچھی تعلیم و تربیت کی اصل بنیاد دینی علم ہے کیونکہ دینی علم انسان کی ظاہری زندگی سنوارنے کے علاوہ آخرت کی زندگی کو بھی کامیاب کرتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے ہر مسلمان مرد و عورت پر علم سیکھنا فرض ہے (9) علم سے بقدر ضرورت شرعی مسائل بھی مراد ہیں لہذا ہر مسلمان پر اس کی حالت کے مطابق احکام شریعت سیکھنا فرض عین ہے۔ (10)

لہذا والدین کا فرض ہے کہ وہ خود بھی زیور علم سے آراستہ ہوں اور اپنی اولاد کو بھی اس سے مالامال کریں۔

5۔ اولاد کے درمیان عدل آج کل معاشرے میں اولاد کے درمیان کسی ایک بچے یا بچی سے ترجیحی سلوک دیکھا جاتا ہے آئیے سنتے ہیں اس کے متعلق اسلام کے کیا احکامات ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اولاد کے درمیان عدل و مساوات کو پسند فرمایا اور عدم مساوات کی حوصلہ شکنی فرمائی۔ چنانچہ ایک صحابی نے اپنے لڑکوں میں سے کسی کو ایک غلام ہبہ(تحفہ) کیا اور چاہا کہ نبی کریم ﷺ کی گواہی ہو حضور کریم ﷺ نے فرمایا کہ تونے اپنے ہر لڑکے کو ایک ایک غلام ہبہ کیا ہے؟ عرض کیا نہیں ! تو ارشاد فرمایا کہ میں ایسے ظالمانہ عطیے پر گواہ نہ بنوں گا۔ (11)

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: عطیہ میں اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو، جس طرح تم خود یہ چاہتے ہو کہ وہ سب تمھارے ساتھ احسان و مہربانی میں عدل کریں۔ (13)

اللہ پاک توفیق عطا کرے۔ آمین

معزز قارئین! اولاد ہمارا آنے والا مستقبل ہے اس پر جتنی محنت کی جائے کم ہے ہم نے اولاد کے متعلق چند حقوق سیکھنے کی سعادت حاصل کی۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس پر عمل کرنے والا بنائے اور اسلام کی روشنی میں اولاد کی بہترین تربیت کی توفیق دے۔ آمین

معاون کتب:

بہار شریعت(دعوت اسلامی)

انوار الحدیث(المدینہ العلمیہ)

والدین اور اولاد کے حقوق

عقیقے کے بارے میں سوال جواب (امیر اہلسنت)

تفسیر صراط الجنان مفتی قاسم عطاری

حوالہ جات:

2۔ والدین اور اولاد کے حقوق، ص 144

3۔ مسند ابی یعلیٰ، 6/32، حدیث: 6747

4۔ بہار شریعت، 3 /355

5۔والدین اور اولاد کے حقوق، ص 192، 193

6۔والدین اور اولاد کے حقوق، ص 193

7۔ ترمذی، 3/383، حدیث: 1959

8۔ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671

9۔مشکوۃ المصابیح

10۔ والدین اور اولاد کے حقوق، ص 201

11۔والدین اور اولاد کے حقوق، ص 189

12۔بہار شریعت

13۔بہار شریعت

اولاد انسان کے لیے ایک آزمائش اور ایک نعمت ہے۔ اولاد انسان کے لیے بیج کی طرح ہے۔ وہ اسے پالتا ہے پروان چڑھاتا ہے۔ اسے ایک بڑا کامیاب انسان بنا دیتا ہے۔ اور اسے کامیاب بناتا بناتا خود بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور پھر اس پیڑ کی چھاؤں میں سکون حاصل کرتا ہے۔ والدین کی خدمت کرنا ہر اولاد پر فرض ہے۔ جس طرح والدین کا اولاد پر حق ہے اسی طرح اولاد کا بھی والدین پر حق ہے۔

ان میں سے چند بنیادی حقوق درج زیل ہیں:

1 تربیت: اولاد کی بہترین تربیت کرنا والدین کے اہم فرائض میں سے ہے۔ اگر درخت کی صحیح سے دیکھ بھال کی جائے تو وہ اچھا پھل دے گا اور خراب دیکھ بھال سے خراب پھل۔ اسی طرح بچے بھی درخت کی طرح ہوتے ہیں بہترین دیکھ بھال سے ایک نیک اور صالح اولاد پروان چڑھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: خوش نصیب ہے وہ شحص جس نے اپنے بچوں کو نماز کی عادت ڈالی۔

اچھی عادتیں ہی اچھی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہیں۔ اور اولاد کی چال ڈھال سے ہی والدین کی پہچان ہوتی ہے۔

2 تعلیم: ہمارے ہاں ایک بات بہت عام ہے کہ لڑکیوں نے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔ حالانکہ لڑکیوں نے ہی نسل پروان چڑھانی ہوتی ہے۔ اور آنے والی نسل کو معاشرے کا بہترین فرد بنانا ہوتا ہےلڑکا لڑکی کی تعلیم میں فرق کیا جاتا ہے۔ اسلام میں تو لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم میں کوئی فرق نہیں۔ بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہاں پر نہ تو عمر کی قید ہے اور نہ ہی جنس کی لہذا اپنی اولاد کو چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی ضرور تعلیم دیں۔ تاکہ وہ معاشرے کا ایک کامیاب فرد بنیں۔

3 تحفیظ: تحفیظ دل میں ہمیشہ کے لیے ایک حزانہ ہے۔ قرآن کو یاد کرنا ایک روحانی سکون اور ثواب کا ذریعہ ہے۔ لہذا اپنی اولاد کو قرآن یاد کروائیں۔ عربی دنیا کی آسان زبان ہے۔ قرآن کو ہر چھوٹا سا چھوٹا بچا آسانی سا حفظ کر سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: قرآن کو دلوں میں محفوظ رکھو کہ وہ تمہارے لیے بہت قیمتی ہے۔

4 بچوں کی حفاظت: بچوں کی حفاظت کرنا بھی والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ بچوں کی صرف جسمانی حفاظت ہی نہیں بلکہ ان کے احساسات کی حفاظت کرنا بھی والدین کا فرض ہے۔ ہم بچوں کو physically تندروست تو بنا لیتے ہیں لیکن ان کے ذہنی سکون کا خیال نہیں رکھتے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو بڑوں کا احترام نہ کریں اور چھوٹو پر رحم نہ کریں۔

5 نفقہ: اولاد کی تمام تر جائز ضروریات کا خیال رکھنا والدین کا فرض ہے اور روزی کے ڈر سے اولاد کو نہیں مارنا چاہیے کیونکہ ہر مخلوق کو رزق دینے والی ذات الله ہی ہے۔


اولاد کے حقوق قرآن  وحدیث میں بہت بیان ہوئے۔بزرگان دین نے بھی اس موضوع پر اپنی تحاریر و تصانیف سے رہنمائی فرمائی۔ قرآن پاک میں اولاد کے حقوق بیان فرمائے گئے۔ اس سلسلے میں سورۃ لقمان میں باقاعدہ ان آیات کا نزول ہے جن میں اولاد کی بہترین تربیت کا ذکر فرمایا گیا۔ جبکہ یہاں اولاد کے چند حقوق بیان کئے جائیں گے۔

(1) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں واضح فرمایا گیا کہ اپنے ساتھ ساتھ گھر والوں کی اصلاح کی بھی کوشش لازم ہے۔ میرے شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے اسی لئے عظیم مقصد عطا فرمایاکہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔

(2)حدیث مبارکہ میں ہے۔اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ:(1)اپنے نبی ﷺ کی محبت(2)اہل بیت کی محبت(3)تلاوت قرآن۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث: 311)

(3) بچے کا اچھا نام رکھنا۔ اس کا اچھا نام رکھا جائے۔یہاں تک کہ کچے بچے کا بھی۔مطلب جو کم دنوں کا گر جائے۔ اور برا نام نہ رکھا جائے کہ بدفالی ہے۔بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام وبزرگان دین کے متبرک ناموں پہ نام رکھے جائیں۔ (اولاد کے حقوق، ص 17)

(4)ان کی دین کے مطابق تربیت کی جائے۔ جب دس برس کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر مار کر پڑھائی جائے۔جب جوان ہو جائےتواچھا رشتہ ملتے ہی نکاح کر دینا چاہیے۔ (اولاد کے حقوق، ص 26)

(5)حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سب سے مقدم یہ ہے کہ بچوں کو قرآن مجید پڑھائیں اور دین کی ضروری باتیں سکھائیں۔ (بہار شریعت،2/ 256، حصہ: 8)

ان تمام باتوں اور احکامات کو سامنے رکھ کر اگر والدین اپنی اولاد کی تربیت کریں تو ہمارے معاشرے میں دین اسلام کا بول بالا ہو جائے اور ہر گھر سے نکلنے والا بیٹا باحیا اور نکلنے والی بیٹی باحیا و باپردہ ہو گی۔ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

اللہ پاک ہمیں اور تمام والدین کو اپنی اولاد کی تربیت عین شریعت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور، پنجاب کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں دعوتِ اسلامی کے تحت مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبہ خیبرپختونخوا اور لاہور کے نگران و ذمہ دار اسلامی بھائی شریک ہوئے۔

ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی تربیت و رہنمائی کے لئے مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے 12 دینی کاموں کی سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیا اور انہیں دینی کاموں کو مزید بڑھانے کے اہداف دیئے۔(رپورٹ: محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری) 


اولاد اللہ پاک کی عطا کی ہوئی ایک نعمت ہے اولاد ماں باپ کیلئے صدقہ جاریہ بھی ہوتی ہے اور یہی اولاد ماں باپ کے لیے عذاب کا سبب بھی بن جاتی ہے اولاد اچھی ہو تو ماں باپ ہمیشہ سکھی ہوتے ہیں جبکہ یہی اولاد برائیوں میں بری صحبت میں چاہڑے تو بد نامی و ذلت کا سبب بنتی ہے اللہ پاک نے ہر شخص کے حقوق بیان فرمائے ہیں ماں باپ کے حقوق پڑوسیوں کے حقوق، رشتے داروں کے حقوق وغیرہ ہوتے ہیں اسطرح اولاد کے حقوق بھی بیان ہوئے ہیں کے ماں باپ اپنی اولاد کو کس طرح نیک بنا سکتے ہیں ان کے کیا حقوق ہیں اسکے پیش نظر اولاد کے حقوق بیان کئے جاتے ہیں۔

1۔ جب اولاد کی پیدائش ہو تو اس کی خوشی کریں چاہیے بیٹا ہو یا بیٹی۔

2۔ اس کو دینی تعلیم سکھائیں اور ان میں سب سے پہلا قرآن مجید کی تلاوت ہے۔نبی کر یم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ اپنے نبی کی محبت اہل بیت کی محبت قرآن کریم کی تعلیم۔

3۔ اولاد کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اسکا اچھا نام رکھیں کہ یہ ماں باپ کی طرف سے اولاد کا پہلا تحفہ ہوتا ہے۔

4۔ بیٹیوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کے ان کی اچھی تربیت کرے اور جب شادی کی عمر کو پہنچ جائے توان کا نکاح کر وادیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے 3 بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں ادب سکھایا، انکی شادی کی اور اچھا سلوک کیا تو اسکے لیے جنت ہے۔

5۔ اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کریں، والدین اولاد کو یہ ظاہر نہ کریں کہ ہم اپنے فلاں بیٹے یا بیٹی سے زیادہ محبت کرتے ہیں ورنہ احساس کمتری کا شکار ہوں گے اور یہ انکے لیے باعث ہلاکت ہوگا۔


جیسا کہ اللہ پاک قرآن  پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۸۳) (پ 1، البقرۃ: 83) ترجمہ: اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کراور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ و (اچھا سلوک کرو) اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو (لیکن) پھر تم میں سے چند آدمیوں کے علاوہ سب پھر گئے اور تم (ویسے ہی اللہ کے احکام سے) منہ موڑنے والے ہو۔

اس آیت میں والدین اور دیگر لوگوں کے حقوق بیان کرنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے بلکہ احادیث میں یہاں تک کہ حقوق اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کی مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: ہم میں مفلص وہ ہے جس کے پاس درہم اور ساز و سامان نہ ہو آپ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز روزہ اور زکوۃ وغیرہ اعمال لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو کسی پر تہمت لگائی تھی کسی کا مال کھایا تھا کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے ہر ایک کو ایک کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں اس کے پاس سے ختم ہو گئی تو اس کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم، ص 139حدیث:2581)

بچوں کی تعلیم و تربیت والدین پر یہ حق ہے کہ بچوں کی اچھی طرح تربیت کرے ان کو شریعت کا پابند بنائیں انہیں دینی ماحول میں رکھے گھر کے ماحول کا اور والدین کی تربیت کا بڑا اثر ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔ (بخاری، 3/298، حدیث: 4775)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو مسلمان ہوتا ہے بعد میں جس طرح کی اس کے والدین جس طرح کی تربیت کریں اس طرح کا بن جاتا ہے اسی لیے والدین کو چاہیے کہ خود بھی شریعت کے پابند رہے اور اولاد کی تربیت بھی اچھی کرے کیونکہ اخلاقی اور شرعی طور پر بھی والدین کا فرض ہے اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خود بھی اچھے اعمال کر کے اور برے اعمال سے بچ کر جہنم سے بچ جاؤ اور اپنے اہل و عیال کی اچھی تربیت کر کے ان کو بھی جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کرنی چاہیے۔

والدین بچوں کو عقیدہ توحید کی تعلیم دیں ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں ایک دن نبی پاک ﷺ کے پیچھے (سوار) تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے لڑکے! اللہ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا اللہ کا دھیان رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا اور جب سوال کرے تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے سوال کرے اور جب مدد مانگے تو اللہ پاک سے مدد مانگے اور جان لے کہ اگر امت اس بات پر جمع ہو جائیں کہ تجھے فائدہ پہنچائیں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ پاک نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ جمع ہو جائیں کہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے۔ قلم خشک ہو گئے اور صحیفے لپیٹ دیئے گئے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کو عقیدۂ توحید کی تعلیم دیں تاکہ اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف اور اس کی عبادت میں لگی رہیں۔

بچوں سے پیار و محبت کریں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: ایک بدوی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: کیا تم بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ ہم ان کو بوسہ نہیں دیتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل میں شفقت اور رحمت نکال لی ہے تو اس کا میں مالک نہیں ہوں۔ (بخاری، 4/100، حدیث: 5998)

یعلی عامری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حسن اور حسین نبی کریم ﷺ کے پاس دوڑتے ہوئے آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ساتھ لگایا اور فرمایا اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔

معلوم ہوا کہ بچوں سے پیار و محبت کرنا ان کو بوسہ دینا سنت ہے اور جو بچوں سے پیار کرتا ہے اللہ اس پر رحم کرتا ہے رسول اللہ ﷺ بچوں سے بڑا پیار کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاس کو اٹھا کر فرض نماز پڑھتے تھے۔ جب رکوع اور سجدہ کرتے تو اس کو نیچے رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اس کو اٹھا لیتے۔ (بخاری، 4/100، حدیث: 5996)

اولاد کے اخراجات باپ کے ذمے ہیں، اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ 2، البقرة: 233) ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔

جب اولاد کو دودھ پلانے کی وجہ سے مطلقہ عورت کا خرچ اولاد کے باپ کے ذمے ہیں تو اولاد کے اخراجات کا باپ یا ولی ذمہ دار ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ !میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے اپنے آپ پر خرچ کر۔ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد پر خرچ کر اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کر اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کر اس نے کہا میرے پاس اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اب تو زیادہ جانتا ہے (کہ کہاں ضرورت ہے)۔ (ابو داود، 2/184، حدیث: 1691)

اس سے معلوم ہوا کہ باپ پر اولاد کی اخراجات ضروری ہے جیسا کہ اوپر آیات اور حدیث سے معلوم ہوا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جو غنا کے بعد اور خرچ کرنے میں اہل و عیال سے آغاز کر۔ (بخاری، 1/481، حدیث: 1426)

اہل و عیال کے حقوق پورا کرنے کے بعد جو مال صدقہ کیا جائے وہ بہترین صدقہ ہے۔

جب بچیاں بالغ ہو جائیں تو والدین پردے کا حکم دیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹) (پ 22، الاحزاب: 59) ترجمہ: اے نبی! اپنی بیویوں سے اور صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادر لٹکایا کریں اس سے جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ کریم نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے وقت اپنے گھروں سے نکلے تو اپنے چہرے ڈھانپ لیں اپنے سروں کے اوپر کی جانب سے اور ایک آنکھ ظاہر کرے راستہ دیکھنے کے لیے۔

بہرحال نبی کریم ﷺ نے بیویوں بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا ہے جس سے واضح رہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے۔ جیسا کہ آج کل باور کرواتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہوا ہے۔ اس اعراض انکار اور بے پردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنی اولاد کو پردے کی تعلیم دینی چاہیے۔

جوہر ٹاؤن لاہور، پنجاب میں واقع مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں دعوتِ اسلامی کے  میٹنگ ہوئی جس میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ذمہ داران اور لاہور کے ڈسٹرکٹ و ٹاؤن نگران اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے دینی کاموں کے حوالے سے کلام کرتے ہوئے ذمہ دار اسلامی بھائیوں کوعالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں ایک ماہ کا اعتکاف کرنے اور دعوتِ اسلامی کے لئے زیادہ سے زیادہ ڈونیشن جمع کرنے کی ترغیب دلائی۔

اس کے علاوہ رکنِ شوریٰ نے اسلامی بھائیوں کی ذہن سازی کی اور انہیں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کو مزید بڑھانے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ: محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


یقینا والدین کے حقوق نہایت اعظم و اہم ہیں کہ اگر والدین کے حقوق کی ادائیگی میں انسان تمام زندگی مصروف عمل رہے تب بھی ان کے حقوق کی ادائیگی سے کما حقہ سبکدوش نہیں ہوسکتا کیونکہ والدین کے حقوق ایسے نہیں کہ چند بار یا کئی بار ادا کردینے سے انسان بڑی الذمہ ہوجائے لیکن جہاں شریعت مطہرہ نے والدین کی عزت و عظمت اور مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے انکے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا وہیں والدین پر بھی اولاد کے کچھ حقوق گنوائے ہیں۔اگرچہ ان حقوق میں سے اکثر کی ادائیگی والدین پر واجب نہیں لیکن اگر والدین اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا، انہیں سچا مسلمان بنانا، دنیا و آخرت میں انہیں کامیاب و کامران دیکھنا اور خود بھی سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو پھر ان حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد تسہیل و تخریج بنام اولاد کے حقوق سے اولاد کے چند حقوق ذکر کیے جاتے ہیں:

پہلا حق: جماع کی ابتدا بسم اللہ شریف سے کرے ورنہ بچہ میں شیطان شریک ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے قربت کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے: بسم اللہ اللّٰہمّ جنبنا الشّیطان وجنب الشّیطان ما رزقتنا یعنی اللہ کے نام سے، اے اللہ ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور جو اولاد تو ہمیں دے اسکو بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔ تو اگر اس صحبت میں انکے نصیب میں بچہ ہوا تو اسے شیطان کبھی نقصان نہ دے سکے گا۔ (بخاری، 4/214، حدیث: 6388) اس حدیث مبارکہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: یہ دعا ستر کھولنے سے پہلے پڑھے۔ پھر فرماتے ہیں: اس صحبت میں نہ شیطان شریک ہو اور نہ بچے کو شیطان کبھی بہکائے۔جیسے شیطان کھانے پینے میں ہمارے ساتھ شریک ہو جاتا ہے ایسے ہی صحبت میں بھی اور جیسے کھانے پینے کی برکت شیطان کی شرکت سے جاتی رہتی ہے ایسے ہی صحبت میں شیطان کی شرکت سے اولاد نالائق اور جناتی بیماریوں میں گرفتار رہتی ہے اور جیسے بسم اللہ پڑھ لینے سے شیطان کھانے پینے میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا ایسے ہی بسم اللہ کی برکت سے صحبت میں شیطان کی شرکت نہیں ہوتی جس سے بچہ نیک ہوتا ہے اور آسیب وغیرہ سے بھی بفضلہ محفوظ رہتا ہے۔

دوسرا حق: کان میں اذان دینا جب بچہ پیدا ہو فورا سیدھے کان میں اذان بائیں میں تکبیر کہے کہ خلل شیطان و ام الصبیان سے بچے۔ بہتر یہ ہے کہ سیدھے کان میں چار مرتبہ اذان اور بائیں کان میں تین مرتبہ اقامت کہی جائے۔ (بہار شریعت، 3/153، حصہ: 15)

ام الصبیان ایک قسم کی مرگی ہے جو اکثر بچوں کو بلغم کی زیادتی اور معدے کی خرابی سے لاحق ہوتی ہے جس سے بچوں کے ہاتھ پاوں ٹیڑھے ہوجاتے اور منہ سے جھاگ نکلنے لگ جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ، 1/221)

تیسرا حق: عقیقہ کرنا ساتویں اور نہ ہوسکے تو چودھویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے،بیٹی کے لئیے ایک، بیٹے کے لئیے دو کہ اس میں بچے کا گویا رہن(گروی) سے چھڑانا ہے۔

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں: گروی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس بچے سے پورا نفع حاصل نہ ہوگا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے اور بعض نے کہا: بچے کی سلامتی اور نشوونما اور اس میں اچھے اوصاف ہونا عقیقے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مزید فرماتے ہیں: لڑکے کے عقیقے میں دو بکرے اور لڑکی میں ایک بکری ذبح کی جائے یعنی لڑکے میں نر جانور اور لڑکی میں مادہ مناسب ہے اور لڑکے کے عقیقے میں بکریاں اور لڑکی میں بکرا کیا جب بھی حرج نہیں۔نیز اسی میں ہے: لڑکے کے عقیقے میں دو بکریوں کی جگہ ایک ہی بکری کسی نے ذبح کی تو یہ بھی جائز ہے۔

چوتھا حق: اچھا نام رکھنا انبیاء، اولیاء یا اپنے بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں انکے نام پر نام رکھے کہ موجب برکت (باعث برکت) ہے خصوصا نام پاک محمد ﷺ کہ اس مبارک نام کی بےپایاں برکت بچہ کے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لئیے اسکا نام محمد رکھے، تو وہ اور اسکا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس دستر خوان پر کوئی احمد یار محمد نام کا ہو، تو اس جگہ پر ہر روز دو بار برکت نازل کی جائے گی۔

پانچواں حق: یکساں حقوق اپنے چند بچے ہوں تو جو چیز دے سب کو یکساں و برابر دے، ایک کو دوسرے پر بےفضیلت دینی(دینی فضیلت کے بغیر)ترجیح نہ دے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینے میں کچھ حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی فضل و شرف کی وجہ سے ہو، لیکن اگر سب برابر ہوں تو پھر ترجیح دینا مکروہ ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: اگر بیٹا حصول علم میں مشغول ہو نہ کہ دنیوی کمائی میں تو ایسے بیٹے کو دوسری اولاد پر ترجیح دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔