حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت سید ذو الفقار علی ، رحمت کالونی رحیم یار خان

ہمارے پیارے آقا ﷺ کی
شانِ کریمانہ تھی کہ آپ اپنی تمام ازواج کے درمیان عدل و انصاف فرمایا کرتے
تھے،آپ کے عمل مبارک سے اُمت کو تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے لئے راہِ عمل متعین کرنی
چاہئے مگر بد قسمتی سے آج کا مسلمان اس سے یکسر غافل نظر آتا ہے۔حکیم الامت علامہ
مفتی احمد یارخان فرماتے ہیں: جب اتنا
عدل کوئی رکھ سکتا ہے جتنا حضور رکھنے میں تو ہی چند بیویاں رکھے۔آج مسلمانوں نے
چار بیویوں کی اجازت کی آیت کو پڑھ لی، مگر عدل کی آیت سے آنکھیں بند کرلی ہیں آج
جس ،قدرظلم مسلمان اپنی بیویوں پر کر رہے
ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ، نبی کی تعلیم
کیا ہے اور امت کا عمل کیا ہے۔(مراۃ المناجیح،5/82)
آئیے!حضور ﷺ کا اپنی ازواج سے محبت کے کچھ پہلو ملاحظہ کرکے
ان پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔چنانچہ
سرکارِ عالی وقار،محبوبِ ربِ غفار ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا سے بہت محبت تھی یہاں تک کہ جب آپ کا وصال ہو گیا تو پیارے آقاﷺ کثرت سے آپ کا ذکر فرماتے۔روایت میں ہے کہ آپ کی بارگاہ
اقدس میں جب کوئی چیز پیش کی جاتی تو فرماتے:اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ
وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔( الادب المفرد،ص78،حديث:232)
ایک بار حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خُویلد رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ اقدس میں
حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی،چنانچہ
اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کر نا یاد آگیا اور آپ نے
جھر جھر ی سی لی۔(بخاری، 2/565،حدیث:3821)
حضور ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:اے عائشہ!میں
تمہیں ایک بات بتاؤں؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی:حضور !فرمائیے! تو آپ ﷺ
نے فرمایا:اے عائشہ!جب تم ناراض ہوتی ہو تو بھی مجھے پتا ہوتا ہے اور جب تم راضی ہوتی
ہو تو بھی مجھے معلوم ہوتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :یا رسول اللہﷺ!
کس طرح؟حضور ﷺنے فرمایا: جب تم کبھی قسم اٹھاتی ہو تو کہتی ہو:مجھے رب محمد کی قسم!لیکن
جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو:رب ابراہیم کی قسم!۔جب تم میرا نام نہیں لیتی تو مجھے
پتہ چل جاتا ہے کہ آج معاملہ کیا ہے۔تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں:ہاں!یہی
بات ہے میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔(بخاری،3/471،حدیث:5228)
حضرت عَمروْ بن عاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی:یَارَسُولَ
اللہ ﷺ! لوگوں میں آپ کو سب سے بڑھ کر کون محبوب ہے؟ ارشاد فرمایا:عائشہ۔انہوں نے دوبارہ
عرض کی:مَردوں میں سے کون ہے؟ فرمایا: عائشہ کے والد(یعنی ابوبکر صِدّیق رَضِیَ اللہُ
عَنْہُ۔)(بخاری،3/126، حدیث:4358)
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ ایک روز نبیِ کریم ﷺ نےدیکھا کہ
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا رو رہی ہیں۔آپ نے رونے کاسبب پوچھا تو انہوں نے کہا:یا
رسول اللهﷺ!حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما نے یہ کہا ہے کہ ہم دونوں
دربارِ رسالت میں تم سے بہت زیادہ عزت دار ہیں، کیونکہ ہمارا خاندان حضور ﷺسے ملتا
ہے ،یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا:اے صفیہ!تم نے ان دونوں سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ
تم دونوں مجھ سے بہتر کیونکر ہو سکتی ہو؟ حضرت ہارون علیہ اسلام میرے باپ،حضرت موسیٰ علیہ السلام میرے چچا اور حضرت محمد ﷺ میرے
شوہر ہیں۔(ترمذی،5/474 ، حدیث:3918)
ہمارے پیارے آقا ﷺ
اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتے تھے۔آپ ﷺکبھی گھر میں
جھاڑو لگا دیتے تھے تو کبھی برتن بھی دھو دیتے۔ہمیں بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے
کہ ہمارے پیارے آقا تمام جہاں والوں کے سردار ہونے کےباوجود بھی ہر کام خود کرتے
تھے،جبکہ آج کل کے مسلمان وہ کام کرنے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ،ایسا ہر گز نہیں
ہونا چاہئے۔اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ وہ ازواجِ مطہرات کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور
ان کی زندگی کے پہلوؤں پر نظر رکھیں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔اگر ہم رسولِ پاک ﷺ
اور آپ کی ازواج کو اپنا آئیڈیل بنا لیں گی تو ان شاء اللہ گھر جنت بن جائے گا،
گھر میں جنت کا مزہ آنے لگ جائے گا، گھر میں روٹی ہویا چٹنی لیکن زندگی پر سکون ہی رہے گی۔اگر گھر میں اطمینان
و سکون نہ ہو تو پھر گھر کا ماحول بگڑ جاتا ہے،پھر عالی شان بنگلوں میں نرم بستروں
پر ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بھی نیند نہیں آتی۔پھرکیا فائدہ ایسے بنگلوں اور نرم و
ملائم بستروں کا!عورت یہ سمجھے کہ الله پاک نے شوہر کو میرے لئے بادشاہ بنایا
ہے۔اگر عورت شوہر کو بادشاہ تسلیم کرے گی تو رانی تو وہ خود بھی بن جائے گی۔الله
پاک سے دعا ہے کہ الله پاک ہمیں آپ ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرات کے نقشِ قدم پر چلنے
کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گھروں کو
امن و سکون کا گہوارہ بنا دے۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ
حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت انصر علی،فیضان عائشہ صدیقہ کالیکی منڈی حافظ آباد

نبیِ اکرم ﷺ کی اپنی ازواج کے لیے محبت آپ کی زندگی کا ایک
خوبصورت پہلو ہے،جو آپ کی شفقت، مہربانی اور عقیدت کو ظاہر کرتا ہے۔ متعدد بیویوں
کے ساتھ آپ ﷺنے ہر ایک کے لیے منفرد محبت اور دیکھ بھال کا مظاہرہ کیا،اتحاد اور
ہم آہنگی کے احساس کو فروغ دیا۔آپﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
نے آپ کے دل میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حمایت اور
صحبت کو پسند کرتے،اکثر آپ کے مشورے کی تلاش میں رہتے اور آپ کے گزر جانے کے بعد
بھی آپ کوپیار سے یاد کرتے تھے۔
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کی سب سے
چھوٹی اور پسندیدہ بیوی تھیں۔آپ نے ان کی ذہانت اور حکمت کی قدر کرتے ہوئے ان کے
ساتھ بات چیت کرنے میں گھنٹوں گزارے۔
رسول اللہ ﷺحضرت
سودہ رضی اللہ عنہا،حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا،حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور حضرت
جویریہ رضی اللہ عنہا سے بھی محبت کرتے تھے، ان سب کی انفرادی قوتوں کی قدر کرتے
تھے۔ آپ نے ہر ایک کے ساتھ معیاری وقت گزارا، اُن سب کے تحفظات سنے اور مہربانی کا
مظاہرہ کیا۔
آپ ﷺ کی محبت صرف
رومانوی نہیں تھی بلکہ روحانی بھی تھی، انہیں اپنے مشن میں شراکت دار کے طور پر دیکھ
کر آپ نے اپنی ازواج کی رائے کی قدر کرتے
ہوئے ان سے مشورہ طلب کیا۔بدلے میں آپ کی بیویاں آپ سے محبت اور احترام کرتی تھیں،
چیلنجوں میں آپ کے ساتھ کھڑی تھیں۔کیونکہ آپ ان کا سہارا، سکون اور چٹان تھے۔
نبیِ اکرم ﷺ کی اپنی
ازواج سے محبت ہمیں اپنے رشتوں میں رحمدلی،ہمدردی اور احترام پیدا کرنے کی ترغیب دیتی
ہے۔آپ کی مثال پر عمل کرنے سے،ہم اپنے پیاروں کے ساتھ مضبوط اور زیادہ پیار بھرے رشتے بنا سکتی ہیں۔

اسلامک
ریسرچ سینٹر (المدینۃ
العلمیۃ) کا
ایک ذیلی شعبہ ”شعبہ ہفتہ وار رسالہ“ بھی ہے جو علمی و تحقیقی انداز میں اور خوب
محنت و لگن سے ہفتہ وار رسائل تیار کرتا ہے جسے ہر ہفتے مدنی مذاکرے میں
پڑھنے/سننے کی ترغیب دلائی جاتی ہے۔
اسی
شعبے نے اپنی محنت و کوشش سےقرآن پاک کی تفسیر کی کتاب ”تفسیر نور العرفان“ سے چند
مدنی پھول اخذ کرکے ایک رسالہ بنام ”تفسیر نورُ العرفان سے 72 مدنی
پھول(قسط 02)“
تیار
کیا ہے۔ امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس ہفتے
اس رسالے کو پڑھنے/سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے
نوازا ہے۔
دعائے
عطار
یا ربَّ
المصطفٰے! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ”تفسیر نور العرفان سے 72 مدنی پھول
(قسط 02)“
پڑھ
یا سُن لے اُس کا دل قراٰن کے نور سے روشن فرما اور اُس کو ماں باپ سمیت بے حساب
جنت الفردوس میں داخلہ نصیب فرما۔ اٰمین
یہ
رسالہ آڈیو میں سننے اور اردو سمیت کئی زبانوں میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے
گئے لنک پر کلک کیجئے:
دل آزاری از بنت محمد یونس، جامعۃ المدینہ العزیزیہ
نورالقرآن ناصر روڈ سیالکوٹ

کفر کے بعد سب سے بڑا گناہ دل آزاری ہے خواہ مومن
کی ہو یا کافر کی، گھور کر دیکھنا، بے موقع مسکرانا،طنز کرنا، مذاق اڑانا، دل
آزاری کا باعث ہیں۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ
یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ(۲۶۳) (پ 3،
البقرۃ: 263) ترجمہ: سائل کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ
سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد اس کی دل آزاری ہو اور اللہ بےنیاز بڑے حلم والا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ
الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا
مُّبِیْنًا(۵۳) (پ 15، بنی اسرائیل:53) ترجمہ: اور میرے بندوں سے
کہہ دیں کہ وہ ایسی باتیں کہا کریں جو بہت اچھی ہو کیونکہ شیطان (بری باتوں سے )ان
میں فساد ڈلوا دیتا ہے کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے
دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری، 1/15، حدیث: 10)
2۔ بے شک کسی مسلمان کی نا حق بے عزتی کرنا سب سے
بڑا گناہ ہے۔ (ابو داود،4/353، حدیث: 4877)
3۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں
کرتا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6573)
دل آزاری از بنت محمد بشیر، جامعۃ المدینہ العزیزیہ نور القرآن
ناصر روڈ سیالکوٹ

دل آزاری مطلب کسی کا دل دکھانا۔ یہ حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔
دل آزاری کی مذمّت پر
احادیث:
1۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی
دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں) اس قسم کے اشارے کنائے سے
کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی
جائے
جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کرے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7 /177 ) اس حدیث
پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کی دل آزاری جائز نہیں۔
2۔ جس نے (بلا وجہ شرعی) کسی مسلمان کو ایذا
دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ پاک کو ایذا دی۔ (معجم
اوسط، 2/386، حدیث: 360) اس حدیث پاک سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی مسلمان کی
دل آزاری کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔
3۔ جب تم تین آدمی موجود ہو تو دو آدمی
اپنے (تیسرے) ساتھی کو چھوڑ کر آپس میں
سرگوشی نہ کریں یہاں تک کہ تم اور لوگوں سے مل جاؤ، اس لیے کہ ایسا کرنا اسے غمگین
کر دے گا۔ (بخاری، 4/185، حدیث: 6290)
ان احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی
مسلمان کی دل آزاری نہ کرے۔ لہذا ہر کسی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی وجہ سے
کبھی بھی کسی مسلمان کی دل آزاری نہ ہو کیونکہ یہ معاملہ حقوق العباد کا ہے اور
حقوق العباد اس وقت تک اللہ معاف نہیں کرے گا جب تک بندہ نہ کر دے۔ اللہ پاک ہمیں
اس گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دل آزاری کی صورتیں: دل
آزاری کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں جیسے کسی فقیر کو اس طرح پکارنا او کنگلے۔ کسی
کو کالا کہہ کر پکارنا یا کسی کو موٹا کسی کو پتلا کہہ کر پکارنا کسی کا نام
بگاڑنا یہ سب دل آزاری کی صورتیں ہیں اور
بھی دل آزاری کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں اور کوئی ایسا فعل جو کسی کی پریشانی
کا باعث بنے اس سے بچیے۔
اگر ہم سے کسی کی دل آزاری ہو جائے تو ہمیں چاہیے
کہ ہم فوراً اس گناہ سے توبہ کر لیں اور
جس کی دل آزاری کی اس سے بھی معافی مانگ لیں کہ نا جانے موت کب آ جائے اور پھر ہمیں اس کا موقع نہ مل سکے۔
اللہ پاک ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

آج کل یہ بلا بھی معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے، آدمی
کا اصل نام بہت اچھا ہوتا ہے، پھر لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کو برے ناموں سے پکارتے
ہیں۔ جس کا جو نام ہو، اس کو اسی نام سے پکارنا چاہئے، اپنی طرف سے کسی کا الٹا
نام مثلاً لمبو، ٹھنگو وغیرہ نہ رکھا جائے، عموماً اس طرح کے ناموں سے سامنے والی
کی دل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چڑتا بھی ہے، اس کے باوجود پکارنے والا جان بوجھ
کر بار بار مزہ لینے کے لئے اسی الٹے نام سے پکارتا ہے۔ میرے آقا، اعلیٰ حضرت، شاہ
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: کسی مسلمان بلکہ غیر مسلم ذمّی کو بھی شرعی حاجت کے بغیر ایسے الفاظ سے
پکارنا جس سے اس کی دل شکنی ہو، اسے ایذاء پہنچے، شرعاً ناجائز و حرام ہے۔ (فتاویٰ
رضویہ، 23/204)
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ
الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا
بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور
جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں
نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔
یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو حضرت
علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کو ایذا دیتے اور ان کی بے ادبی کرتے تھے۔ جبکہ
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے تہمت لگا
کرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف
پہنچائی۔ لیکن یہاں تفسیر کا ایک اصول یاد رکھیں کہ آیات کا شان نزول اگرچہ خاص ہو
لیکن اس کاحکم عام ہوتا ہے۔ اس اصول سے آیت کا عام معنیٰ یہ ہواکہ جولوگ کسی
مسلمان کوبلا وجہ شرعی تکلیف پہنچاتے ہیں،
وہ بہتان اورکھلے گناہ کابوجھ اٹھاتے اور اس کی سزاکے حق داربنتے ہیں۔
1۔ حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا: تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک
صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری، 2/150، حدیث:2518)
2۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے
صحابہ کرام سے سوال کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: اللہ
تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان
اور ہاتھ سے(دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟
صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد
فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانیں اور اموال محفوظ سمجھیں۔ (مسند امام
احمد، 2/654، حدیث: 6942)
3۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ
وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اس کے بارے میں ) اس قسم کے اشارے، کنائے سے کام
لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے
جو کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7/177)
4۔ حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور
سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین
و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)
5۔ وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف
پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے۔ (کنز العمال، 2/ 218،
حدیث: 7822)
6۔ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی
اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث:
3607)
مسلمانوں کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ایذا دینے کا شرعی
حکم:اعلیٰ
حضرت امام احمد رضاخان رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے
تکلیف دینا قطعی حرام ہے۔

ہم میں سے ہر ایک اس دنیا میں تنہا آتا ہے اور
اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے لیکن یہاں رہتا تنہا نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ زندگی بسر
کرتا ہے، ہماری ذات سے کبھی کسی کو راحت پہنچتی ہے تو کبھی تکلیف اگر دیگر
مسلمانوں کو ہم سے راحت پہنچے گی تو نیت خیر ہونے کی صورت میں ہمیں اس کا ثواب ملے
گا بلاوجہ شرعی تکلیف پہنچائیں گے تو عذاب کی حقداری ہے۔
1۔ بلا اجازتِ شرعی مسلمان کو تکلیف دینا کتنی بڑی
جرأت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے
بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس
نے اللہ کو ایذا دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث:3607)
اللہ و رسول کو ایذا دینے والوں کے بارے میں اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ
یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ
الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷) (پ22، الاحزاب:
57) ترجمہ: بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے
دنیا و آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
ذرا سوچئے کہ کون سا
مسلمان اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اللہ و رسول اللہ کو ایذا دے اور جہنم کے
عذاب کا مستحق قرار پائے۔
2۔ حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کتے اور
سؤر کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر
بدترین جرم ہے۔ (تفسیر مدارک، ص 950)
3۔ صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: جو شخص مسلمان کو کسی فعل یا قول
سے ایذا پہنچائے
اگرچہ آنکھ یا ہاتھ کے اشارے سے وہ مستحق تعزیر ہے ( تعزیر کسی گناہ پر بغرض تادیب
یعنی ادب سکھانے کے لیے جو سزا دی جاتی ہے اسکو تعزیر کہتے ہیں)۔ (در مختار، 6/106)
4۔ منقول ہے: دو خصلتیں ایسی ہیں کہ ان سے افضل
کوئی خصلت نہیں: اللہ پاک پر ایمان لانا اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا، جبکہ دو
خصلتیں ایسی ہیں کہ ان سے زیادہ بری کوئی خصلت نہیں: اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک
ٹھہرانا اور مسلمانوں کو تکلیف دینا۔ (المنبہات، ص3)
5۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضور تاجدار عالم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے مسلمان کو تکلیف یا دھوکا دیا وہ
ملعون ہے۔ (ترمذی، 3/378، حدیث: 1984)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا
تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ
یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (پ 26، الحجرات: 12) ترجمہ: اے ایمان
والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک
دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت
کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا
مہربان ہے۔
فرمانِ مصطفٰی ﷺ: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ
وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف یا اس کے بارے میں اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو
اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو
کسی مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7/177)
فرمانِ مصطفی: بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی
کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)
جس نے ( بلاوجہ شرعی) کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے
مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔(معجم اوسط، 2/386، حدیث:
3607)
اگر کسی مسلمان کی ناحق دل آزاری کی ہے تو توبہ کے
ساتھ ساتھ اس سے معافی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جس کی دل آزاری کی تھی وہ تلاش
کرنے کے باوجود نہیں ملتا تو ایسی صورت میں وہ اپنے لئے اور اس کے لئے ندامت کے
ساتھ مغفرت کی دعا کرتا رہے اور اللہ عزوجل کی رحمت سے یہ امید رکھے کہ اللہ
تعالیٰ صلح کی کوئی صورت پیدا فرما کر اسے آپ سے راضی کردے گا۔ اللہ تعالیٰ قیامت
کے دن اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے صلح فرمائے گا۔
اللہ ہمیں دوسروں کے حقوق ادا کرنے اور اپنی کثرت
سے عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

دل آزاری سے مراد دل دکھانے کا عمل، ظلم و ستم،
ایذا رسانی۔ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ
مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ
22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے
ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ
ڈال دیا ہے۔
شان نزول: یہ آیت ان
منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کو
ایذا دیتے اور ان کی بے ادبی کرتے تھے۔ جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں
کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے تہمت لگا کرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی۔ لیکن یہاں تفسیر کا ایک اصول
یاد رکھیں کہ آیات کا شان نزول اگرچہ خاص ہو لیکن اس کاحکم عام ہوتا ہے۔ اس اصول
سے آیت کا عام معنیٰ یہ ہواکہ جولوگ کسی مسلمان کوبلا وجہ شرعی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ بہتان اورکھلے گناہ
کابوجھ اٹھاتے اور اس کی سزاکے حق داربنتے ہیں۔
اسلامی معاشرہ ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض یہ ہے کہ
ہم دوسروں کے آرام و سکون کا ذریعہ بنیں نا کہ دوسروں کا دل دکھائیں اور انہیں تکلیف
دیں۔ کیونکہ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اسلام ہمیں اسی بات کا درس دیتا ہے
کہ ہم معاشرے میں پیار، محبت وغیرہ کا ذریعہ بنیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے
منع کیا گیا ہے۔
حدیث مبارکہ
میں ہے: تم لوگوں کو (اپنے)شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر
کرو گے۔ (بخاری،2/150، حدیث:2518)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سرکاردو عالم ﷺ نے صحابہ
کرام سے سوال کیا: کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انہوں نے عرض کی: اللہ
تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان
اور ہاتھ سے(دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟
صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد
فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانیں اور اموال محفوظ سمجھیں۔ (مسند امام
احمد،2/654، حدیث:6942)
اوپربیان کردہ احادیث کی مزید تفصیل نبی کریم ﷺ کے
ایک اور فرمان میں موجود ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، گاہک
کو دھوکا دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکان دار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ،
ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، کسی کے سودے پر سودا نہ
کرو، اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس
پر ظلم کرے، نہ اسے ذلیل ورسوا کرے اورنہ ہی حقیر جانے۔ (پھر) آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا:
تقویٰ یہاں ہے، اور(مزید یہ کہ) کسی شخص کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ
اپنے مسلمان بھائی کو برا جانے۔ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے،
اس کا خون، اس کا مال اور ا س کی عزت۔ (مسلم، ص 1064، حدیث:6541)
دوسروں کو تکلیف دینا، ناجائز و حرام اور جہنم میں
لے جانے والا کام ہے۔ مشہور تابعی مفسرحضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جہنمیوں پرخارش مسلط کر دی جائے گی۔ تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتّی کہ ان میں
سے ایک کی (کھال اور گوشت اترنے سے) ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکار کر کہا جائے
گا: اے فلاں! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا:
تو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم،2/242)
اے اللہ! ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم کبھی بھی کسی کو
تکلیف نہ دیں اے اللہ ہمارے دل میں رحم ڈال کہ ہم کسی کو تکلیف نہ دیں۔ اے اللہ!
ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد اچھے طریقے سے پورے کرنے کی توفیق عطا
فرما۔ آمین

قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ
خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ-وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ(۲۶۳)
(پ 3، البقرۃ: 263) ترجمہ: سائل کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا
اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد اس کی دل آزاری ہو اور اللہ بےنیاز بڑے حلم
والا ہے۔
فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: کسی مسلمان کی طرف یا اس کے
بارے میں اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ
بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہراساں اور خوفزدہ کر
دے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 7/177)
فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: بیشک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی
کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)
دوسروں کو تکلیف دینا، ناجائز و حرام اور جہنم میں
لے جانے والا کام ہے۔
اگر کسی مسلمان کی ناحق دل آزاری کی ہے تو توبہ کے
ساتھ ساتھ اس سے معافی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جس کی دل آزاری کی تھی وہ تلاش
کرنے کے باوجود نہیں ملتا تو ایسی صورت میں وہ اپنے لئے اور اس کے لئے ندامت کے
ساتھ مغفرت کی دعا کرتا رہے اور اللہ کی رحمت سے یہ امید رکھے کہ اللہ پاک صلح کی
کوئی صورت پیدا فرما کر اسے آپ سے راضی کردے گا۔ اللہ پاک قیامت کے دن اپنے بندوں
میں سے جس کی چاہے صلح فرمائے گا۔ کسی کے مال میں حق تلفی کی ہے مثلاً کسی کا قرض
آتا ہے وہ چکا دے اور اگر ادائیگی میں تاخیر کی ہے تو معافی بھی مانگے۔ جس سے رشوت
لی، جس کی جیب کاٹی، جس کے یہاں چوری کی، جس کا مال لوٹا ان سب کو ان کے مال
لوٹانے ضروری ہیں یا ان سے مہلت لے یا معاف کروا لے اور جو تکلیف پہنچی اس کی بھی
معافی مانگے۔ اگر وہ شخص فوت ہوگیا ہے تو وارثوں کو دے۔ اگر کوئی وارث نہ ہو تو
اتنی رقم صدقہ کرے یعنی مساکین کو دے دے۔ صدقہ کر دینے کے بعد بھی اگر صاحبِ حق نے
مطالبہ کر دیا تو دینا پڑے گا۔ (ظلم کا انجام، ص 54)

اللہ کریم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور
اسے اس بات کا درس دیا کہ وہ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے، کسی کی دل آزاری کرنے سے خود
کو محفوظ رکھے۔ دل آزاری کا معنی یہ ہے کہ کسی انسان کو اذیت پہچانا وغیرہ، آسان
الفاظ میں سمجھئے تو مختصر یہ ہے کہ وہ واقعات جو کسی کے سکون، خوشی یا توقعات کے
مخالف ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ
الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا
بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ 22، الاحزاب: 58) ترجمہ: اور
جو لوگ مسلمان مردوں اور عورتوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، بغیر کچھ کئے (غلط) انہوں
نے اپنے اوپر جھوٹے الزام اور کھلے گناہ کا بوجھ ڈال دیا ہے۔
مسلمانوں کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ایذا
دینے کا شرعی حکم: اعلى حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ الله علیہ فرماتے
ہیں: مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے۔
مسلمان مرد و عورت کو دین اسلام میں یہ حق دیا گیا
ہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے قول اور فعل کے ذریعے نا حق ایذا نہ دے یہاں اس سے
متعلق تین احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں، چنانچہ
(1)تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو، یہ ایک
صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے۔ (بخاری، 2/150،
حدیث:2518)
(2) کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ صحابہ کرام
نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس
کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔ ارشاد فرمایا: تم جانتے ہو کہ
مومن کون ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کی: الله اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ارشاد
فرمایا: مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں اور
مہاجر وہ ہے جو گناہ کو چھوڑ دے اور اس سے بچے۔ (مسند امام احمد، 2/654، حدیث: 6942)
(3) جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی
اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔ (معجم اوسط، 2/386، حدیث:
3607) یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی
بالآخر الله تعالىٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔
دل آزاری کی عموما دو اقسام ہیں: 1۔ لسانی ( یعنی
زبان کے ذریعے ایسے الفاظ استعمال کرنا جس سے دوسرے انسان کو اذیت پہنچے) 2۔ فعلی (
یعنی ایسا کام کرنا جس سے دوسرا انسان اذیت میں مبتلا ہوجائے)۔
اگر غور و فکر کیا جائے تو حقیقی اسلامی معاشرہ وہی
ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے کی راحت و آرام کا خیال رکھیں، مشکل وقت میں دوسروں کے
کام آئیں، کسی کو تکلیف نہ دیں اور اپنے باہمی تعلقات ملنساری، حسن اخلاق اور خیر
خواہی پر استوار کریں۔ اسلام انہی چیزوں کا درس دیتا ہے اور معاشرے میں نرمی،
محبت، شفقت اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھاتا اور معاشرے کو نقصان پہنچانے والے
امور مثلاً بے جا شدت اور ایذا رسانی سے منع کرتا ہے۔ آپس میں اچھے تعلقات اور صلح
صفائی سے زندگی گزارنا اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ
لوگوں کے حقوق ضائع کرکے اور انہیں تکلیف پہنچا کر کبھی اچھے تعلقات قائم نہیں کئے
جاسکتے۔
اللہ کریم ہمیں حقیقی معنوں میں اسلام کی تعلیمات
پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور دل آزاری کرنے سے ہمیشہ ہمیں محفوظ
فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبيين ﷺ

اَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا
تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ
یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (پ 26، الحجرات: 12) ترجمہ: اے ایمان
والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک
دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت
کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا
مہربان ہے۔
فرمان مصطفیٰ ﷺ: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ
کسی دوسرے مسلمان کی طرف یا اس کے بارے میں اس قسم کے اشارے کنائے سے کام لے جو اس
کی دل آزاری کا باعث بنے اور یہ بھی حلال نہیں کہ کوئی ایسی حرکت کی جائے جو کسی
مسلمان کو ہراساں یا خوفزدہ کر دے۔ (اتحاف السادة المتقين، 7/177)
فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی
کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ابو داود، 4/ 353، حدیث: 4877)
جس نے ( بلاوجہ شرعی ) کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے
مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔(معجم اوسط، 2/386، حدیث:
3607)
اگر کسی مسلمان کی ناحق دل آزاری کی ہے تو توبہ کے ساتھ
ساتھ اس سے معافی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جس کی دل آزاری کی تھی وہ تلاش کرنے کے
باوجود نہیں ملتا تو ایسی صورت میں وہ اپنے لئے اور اس کے لئے ندامت کے ساتھ مغفرت
کی دعا کرتا رہے اور اللہ کی رحمت سے یہ امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ صلح کی کوئی
صورت پیدا فرما کر اسے آپ سے راضی کردے گا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں
میں سے جس کی چاہے صلح فرمائے گا۔
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: آدمی اپنے اخلاق کی وجہ سے
ان لوگوں کا مرتبہ پالیتا ہے جو راتوں کو عبادت کرتے ہیں دن کو روزہ رکھتے ہیں۔
دوسروں کو تکلیف دینا نا جائز وحرام اور جہنم میں
لے جانے والا کام ہے۔ مشہور تابعی مفسر حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جہنمیوں پر خارش مسلط کر دی جائے گی۔ تو وہ اپنے جسم کو کھجلائیں گے حتی کہ ان میں
سے ایک کی کھال اور گوشت اترنے سے ہڈی ظاہر ہو جائے گی۔ اسے پکار کر کہا جائے گا۔ اے
فلاں! کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں۔ پکارنے والا کہے گا: تو
مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/242)