ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از ہمشیرہ
بلال حبیب،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ
یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ (پ 13، الرعد:
21) ترجمہ: اور (اہل عقل وہ ہیں) جو اس تعلق (رشتہ داری) کو برقرار رکھتے ہیں جس
کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رشتہ قرابت میں اپنی رحمت اور برکت
رکھ دی ہے وہ ان بندوں پر جو رشتہ داروں کو مٹنے نہیں دیتے رحمتوں کی بارش کرتا
ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو آدمی چاہتا ہے کہ اس کی عمر بڑھے، رزق کشادہ
ہو، بری موت سے بچے اور اس کی دعا قبول ہو اسے چاہئے کہ رشتہ قرابت کو جوڑے۔
قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی میں اقارب اور ذوی
الارحام کے حصے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور پھر تاکید کی گئی ہے کہ کسی بھی رشتے دار
کو اس کے جائز حق سے محروم نہ کیا جائے۔ ایک خاندان یا برادری کے باہمی تعلق سے
مقصود محبت،ہمدردی اور ایثار کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔
رشتہ داروں کے حقوق درج ذیل ہیں:
1۔مالی اعانت: اسلامی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی
ہے کہ اللہ رب العزت نے والدین اور عزیز و اقارب سے مالی تعاون کی بھی تاکید کی ہے۔
قرآن پاک میں ہے: وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى (پ
2، البقرۃ: 177) ترجمہ: جو اللہ کی رضا کیلئے رشتہ داروں کو مالی امداد دے۔
احادیث مبارکہ میں بھی حضور ﷺ نے قرابت داروں سے ہر
طرح کے تعاون کی تعلیم فرمائی ہے۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی
اللہ عنہ اپنا ایک باغ صدقہ کرنا چاہتے تھے۔ حضور ﷺ نے انہیں حکم فرمایا: اسے اپنے
رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔
2۔قطع تعلقی پر وعید: قرآن و حدیث میں رشتہ داروں
سے قطع تعلق کرنے والوں کی بڑی مذمت کی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ
یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی
الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(۲۵) (پ
13، الرعد: 25) ترجمہ: جو لوگ ان رشتوں کو قطع کرتے ہیں جن کے ملانے کا اللہ نے
حکم دیا ہے وہ زمین میں فساد کرتے ہیں ان کیلئے لعنت ہے اور ان کا انجام بہت برا
ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: رشتہ داری کو قطع کرنے والا
جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
3۔صلہ رحمی: اسلام صلہ رحمی کی تعلیم دیتا ہے صلہ
رحمی سے مراد رشتےداروں سے تعلق جوڑنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور (عقل مند)
لوگ ان رشتوں کو جوڑے رکھتے ہیں جن کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے۔
4۔ وراثت کا حق: اسلام نے رشتہ داروں کو وراثت میں
حصہ دار بنایا ہے قریبی رشتہ داروں کی عدم موجودگی میں دور کے رشتے دار حقدار قرار
پاتے ہیں قرآن پاک نے قریبی رشتہ داروں کو اقربا یا ذوی القربی اور دور کے رشتہ
داروں کو اولو الارحام کے الفاظ سے یاد کیا ہے قرآن مجید میں قرابت داروں کے حقوق
بڑی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ
الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪- وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ
الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَؕ-نَصِیْبًا
مَّفْرُوْضًا(۷) (پ 4، النساء: 7) ترجمہ: جو ماں باپ اور رشتہ دار
چھوڑ مریں، تھوڑا ہو یا بہت، اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی، یہ
حصے مقرر کئے ہوئے ہیں۔
5۔اقرباء پروری کی حد: اقربا کے ساتھ حسن سلوک، مالی
و روحانی تعاون کا جذبہ قابل تحسین ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ رشتہ داری
کی خاطر جائز اور ناجائز میں تمیز ہی باقی نہ رہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا
عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ
الْعُدْوَانِ۪-
(پ 6، المائدۃ:2) ترجمہ: اور نیکی اور پرہیز گاری کے معاملے میں تعاون کرو اور
گناہ اور زیادتی کے معاملات میں ہرگز تعاون نہ کرو۔
حضور اکرم ﷺ سے کسی نے دریافت کیا: اپنے خاندان سے
محبت رکھنا تعصب میں داخل تو نہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ تعصب یہ ہے کہ آدمی
اپنے خاندان کو ظلم کرنے میں مدد دے۔
ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از ہمشیرہ
محمد آصف مغل،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

ذی القربیٰ وہ لوگ ہیں جن کا رشتہ والدین کے ذریعے
ہو، انہیں ذی رحم بھی کہتے ہیں، ذی رحم تین طرح کے ہیں: ایک باپ کے رشتے دارجیسے
دادا، دادی، چچا، پھوپھی وغیرہ، دوسرے ماں کے رشتے دار جیسے نانا، نانی، ماموں، خالہ۔
تیسرے دونوں کے رشتے دارجیسے حقیقی بھائی بہن۔
ہمیں ہمارے ربّ کریم نے رشتہ داروں کے ساتھ اچّھا
سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ پارہ 21 سورۃ الرّوم کی آیت نمبر 38 میں
اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى
حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ
یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘- (پ 21، الروم: 38) ترجمہ: تم اپنے
رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو اور یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے،
جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔
پارہ 1 سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 83 میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ
ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ ترجمۂ
کنزالعرفان: اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور
مسکینوں کے۔
ذی رحم رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے حقوق
درج ذیل ہیں:
1۔ ان کو ہدیّہ و تحفہ دینا۔ اگر ان کو کسی جائزبات
میں تمہاری امداد کی ضرورت ہو تو اس کام میں ان کی مدد(Help)
کرنا۔
2۔ انہیں سلام کرنا۔ ان کی ملاقات کو جانا، ان کے
پاس اٹھنا بیٹھنا، ان سے بات چیت کرنا، ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا۔ (کتاب
الدرر الحکام،1/323)
3۔ پرد یس ہو تو خط بھیجا کرے اگر
یہ شخص پردیس میں ہے تو رشتہ داروں کے پاس خط بھیجا کرے، ان سے خط و کتابت جاری
رکھے تاکہ بے تعلّقی پیدا نہ ہونے پائے اور ہوسکے تو وطن آئے اور رشتہ داروں سے
تعلّقات (Relations)
تازہ کرلے،اس طرح کرنے سے محبّت میں اضافہ ہوگا۔(ردّالمحتار، 9/678)
4۔ رشتے دار حاجت پیش کرے تو ردّ کرد ینا گناہ ہے جب
اپنا کوئی رشتے دار کوئی حاجت پیش کرے تو اس کی حاجت پوری کرے، اس کو رد کردینا
(یعنی حیثیت ہونے کےباوجودمددنہ کرنا)رشتہ توڑناہے۔ (کتاب الدرر الحکام،1/323)
5۔ دشمنی چھپانے والے رشتے دار کو صدقہ دینا افضل
صدقہ ہے۔ بہر حال کوئی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے یا نہ کرے ہمیں اس کے ساتھ اچھا
سلوک جاری رکھنا چاہئے۔حدیث پاک میں ہے:سب سے افضل صدقہ وہ ہے جودل میں دشمنی
رکھنے والےرشتہ دار کو دیا جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دل میں دشمنی رکھنے والے رشتہ
دار کو صدقہ دینے میں صدقہ بھی ہے اوررشتہ توڑنے والے سے اچھا سلوک کرنا بھی۔ (مستدرک، 2/ 27،
حدیث:1515)
ذو رحم رشتہ داروں کے5 حقوق از بنت
محمد ریاض،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

ذو رحم سے مراد؟ مفسرشہیر، حکیم الامّت، حضر ت مفتی احمد یار
خان علیہ رحمۃ الحنّان سورۃ البقرہ کی آیت 83 کے تحت تفسیر نعیمی میں لکھتے ہیں: اور قربیٰ بمعنی قرابت ہے یعنی اپنے
اہل قرابت کے ساتھ احسان کرو، چونکہ اہل قرابت کا رشتہ ماں باپ کے ذریعے سے ہوتا ہے اور ان کا احسان بھی
ماں باپ کے مقابلے میں کم ہے اس لیے ان کا حق بھی ماں باپ کے بعد ہے، اس جگہ بھی چند ہدایتیں ہیں: ذی القربیٰ وہ لوگ ہیں جن کا رشتہ بذریعے
ماں باپ کے ہو جسے ذی رحم بھی کہتے ہیں ، یہ
تین طرح کے ہیں : ایک باپ کے قرابت دار جیسے دادا، دادی، چچا، پھوپھی وغیرہ، دوسرے
ماں کے جیسے نانا، نانی، ماموں ، خالہ،
اخیافی(یعنی جن کا باپ الگ الگ ہو اور ماں ایک ہو ایسے بھائی اور بہن کا) بھائی
وغیرہ، تیسرے دونوں کے قرابت دار جیسے
حقیقی بھائی بہن۔ ان میں سے جس کا رشتہ قوی ہوگااس کا حق مقدم۔ رسول پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جس کو یہ پسند ہو کہ اسکی عمر میں درازی اور رزق میں فراخی ہو اور
بری موت دفع ہو وہ اللہ پاک سے ڈرتا رہے اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے۔ (مستدرک،5/222،حدیث:
7362)
صلۂ رحمی کاحقیقی مفہوم: صلۂ
رحمی کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی دوسرا حسن سلوک کرے تب ہی اس سے کیا جائے، حقیقتاً
صلۂ رحمی یہ ہے کہ دوسراکاٹے اور آپ جوڑیں،وہ آپ سے بے اعتنائی(بے رخی) برتےلیکن آپ
اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کا لحاظ کریں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رشتہ جوڑنے والا وہ
نہیں جو بدلہ چکائے بلکہ جوڑنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے
جوڑ دے۔ (بخاری،4/98، حدیث: 5991)
نیکی کی تلقین: رشتہ داروں کی دینی تربیت کرتے رہنا
چاہیے اور ان کو شرعی مسائل سیکھانے چاہیے اور نیکی کی دعوت دینی چاہیے۔
مالی امداد: اگر رشتہ دار غریب ہوں تو ان کی
ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے اور وقتا فوقتا ان کی مال مدد کرتے رہنا چاہیے۔
عیادت کرنا: اگر یہ بیمار ہوں تو ان کی مزاج پرسی
کرنا اور ان کو حوصلہ و تسلی اور صبر و ہمت کی تلقین کرنا۔
غمی اور خوشی میں شریک ہونا: رشتہ داروں کی خوشی
اور غمی میں ضرور شرکت کریں خوشی کے موقع پر مبارک باد دیں اور غمی کے موقع پر صبر
کی تلقین کرنا۔
قطع رحمی سے بچنا: جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی ﷺ کو کہتے ہوئے سنا: رشتے ناطے کو کاٹنے والا
جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
محمد خلیل، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے،
بلکہ احادیث میں یہاں تک ہے کہ حقوق اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق
العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو
کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور ساز و
سامان نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،
روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اور ا س کا حال یہ ہو کہ اس نے(دنیا میں) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی
کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے ہر ایک
کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی
نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے،پھر اسے
جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ (مسلم، ص 1394،
حدیث: 2581)
جہاں دین اسلام میں دیگر لوگوں کے حقوق بیان کیے
گئے ہیں وہیں رشتہ داروں کے بھی حقوق کا بیان ہے۔ اللہ پاک پارہ 5 سورہ النساء کی
آیت نمبر 36 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ
لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی
الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ
الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا
مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا
فَخُوْرَاۙﰳ (۳۶) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ کی بندگی کرو اور اس
کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں
اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر
اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے
والا۔
خیال رہے رشتہ داروں کے کئی حقوق ہیں جن میں سے چند
یہ ہیں:
حضور جان عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: توڑنے والا جنت
میں داخل نہیں ہوگا۔ حضرت سفیان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:یعنی خونی رشتوں کو توڑنے
والا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا: ان سے حسن سلوک یہ ہے
کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی
اکرم ﷺ نےارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر
لمبی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری، 2 / 10، حدیث: 2067)
صلۂ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ
مولانا امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا
ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ
صلۂ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے۔ (بہار شریعت، 3 / 558، حصہ: 16)
رشتہ داروں کو نیکی کی دعوت: مسلمانوں کو چاہیے کہ
وہ ایمان اور نیک اعمال پر ثابت قدم رہ کر اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں، عزیز و
اقارب کو جہنم کی آگ سے بچائیں اور اس مقصد کے لئے انفرادی اور اجتماعی دونوں
طریقوں سے نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا چاہئے۔
رشتہ داروں پر صدقہ کرنا: حضرت سلمان بن عامررضی
اللہ عنہ سے مروی ہے،تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایارشتہ دار کو صدقہ دینے میں دو
ثواب ہیں ایک صدقہ کرنے کا اورایک صلہ رحمی کرنے کا۔ (ترمذی، 2 / 142، حدیث: 658)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے،سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے ا فضل صدقہ کنارہ کشی اختیار کرنے والے
مخالف رشتہ دار پر صدقہ کرنا ہے۔ (معجم کبیر، 4 / 138،
حدیث: 3923)
عزت،جان،مال کی حفاظت: ایک مسلمان کی عزت، مال اور
اس کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے، ان کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان
بھائی کی عزت کو پامال کرے، اس کے مال میں ناجائز تصرف کرے یا اس کے خون کی حرمت
کو پامال کرے۔
ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
محمد اشفاق،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

الله پاک نے قرآن پاک میں اور نبی اکرم ﷺ نے حدیث
شریف میں بار بار رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے، پارہ
21 سورۃ الروم کی آیت نمبر 38 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ
السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-
ترجمہ: تم اپنے رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو اور یہ ان لوگوں کے
لیے بہتر ہے، جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔
ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے پھر ذوی القربی رشتہ
داروں کا ہے۔ ذوالقربی وہ لوگ ہیں جن کا رشتہ والدین کے ذریعے ہو، انہیں ذی رحم
بھی کہتے ہیں۔
رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ قطع تعلقی
کرنے کی سخت ممانعت آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق
کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
اگر رشتہ داروں کی طرف سے تکلیف پہنچائی جائے تو اس
پر صبر کرنا اور تعلق قائم رکھنا بہت ثواب کا کام ہے۔ حدیث شریف میں ہے: جو تم سے
تعلق توڑے تم اس سے میل ملاپ رکھو اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کر دو۔ اور جو
تمہارے ساتھ بد سلوکی کرے تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہو۔ (مسند امام احمد، 6/148،
حدیث: 17457)
رشتہ دار اگر کوئی حاجت پیش کریں تو حاجت روائی کی
جائے۔ مفلس و محتاج رشتہ داروں کے ساتھ مالی تعاون کیا جائے۔ عام مسکین پر صدقے سے
تو ایک گنا ہی ثواب پائے گا، لیکن اگر کوئی شخص غریب رشتہ دار کو صدقہ دیتا ہے تو
اس کو دگنا ثواب و اجر ملے گا، ایک اجر تو صدقے ہی کا، دوسرا صلہ رحمی کا اجر۔
ان کی خوشیوں اور غموں میں ہمیشہ شریک رہیں۔ ہمیں
وقتاً فوقتاً ان کی خبر گیری کرنی چاہیے۔ تیمارداری کا سلسلہ بھی جاری رکھیں۔ رشتہ
داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ ان کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کریں۔
ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
غلام مصطفی،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

والدین اولاد اور شریک حیات بیوی کے حقوق کے بعد
اسلام رشتہ داروں کے حقوق پر زور دیتا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی میں انسان کا واسطہ
اہل خانہ کے بعد سب سے زیادہ انہی سے پڑتا ہے اگر خاندان کے افراد ایک دوسرے کے
حقوق اچھے طریقے سے ادا کرتے رہیں تو پورے خاندان میں محبت اور اپنائیت کی فضا
قائم ہوگی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو نفرت اور دوری پیدا ہو جائے گی اور
ائے دن کے جگڑوں سے خاندان کا سکون برباد ہو کر رہ جائے گا قرآن و حدیث دونوں میں
صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے حسن سلوک کی باربار تلقین کی گئی ہے۔
اللہ پاک قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے: فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ
السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-
(پ 21، الروم: 38) ترجمہ: تم اپنے رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو
اور یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے، جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رشتہ داروں سے تعلق
توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
قرآن کریم میں تقریباً کئی مقامات پر رشتہ داروں کو
ان کا حق دینے یا ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کا حق یہ ہے کہ
ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے، انہیں اذیت نہ دی جائے، ان سے بدسلوکی نہ کی جائے اور ان میں سے جو محتاج ہوں انکی مدد کی جائے،
ان سے خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں۔
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے ضرورت مند رشتہ
داروں کی ضروریات کا خیال رکھیں تاکہ انہیں غیروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے
تلقین کی گئی ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں خرچ کریں اس میں ترجیح اپنی رشتہ داروں
کو دیں اور پھر ان کے ساتھ جو سلوک کریں اس پر انہیں طعنے دے کر اپنا اجر و ثواب
برباد نہ کریں۔ انہیں احساس تنہائی اور احساس کم تری کا شکار نہ ہونے دیں ان کی
خوشی اور غم میں شریک ہوں رشتہ داروں کے ذریعے امداد کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اس
سے انسان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی اور کام نکل جاتا ہے جبکہ غیروں سے مدد طلب
کرنے میں اپنی ہی نہیں خاندان کی عزت بھی گھٹتی ہے۔
ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
جنید رضا، جامعۃ المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

ذی رحم رشتہ داروں وہ لوگ ہیں جن کا رشتہ والدین کے
ذریعے ہو۔ ذی رحم تین طرح کے ہیں: ایک باپ کے رشتے دار جیسے دادا، دادی،چچا،پھوپھی
وغیرہ، دوسرے ماں کے رشتہ دار جیسے نانا، نانی، ماموں، خالہ وغیرہ، تیسرے دونوں کے
رشتہ دار جیسے حقیقی بھائی بہن وغیرہ۔ ذی رحم میں جن کا رشتہ زیادہ مضبوط ہوگا ان
کا حق زیادہ ہوگا بہن بھائی کا رشتہ چچا اور ماموں سے زیادہ ہے لہٰذا پہلا حق ان کا
ہوگا۔
ذی رحم رشتہ داروں کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے 5
درج ذیل ہیں:
(1) رشتہ دار سے سلوک کی صورتیں: صلہ رحم (رشتہ داروں کے ساتھ سلوک) کی مختلف صورتیں ہیں،
ان کو ہدیہ و تحفہ دینا اور اگر ان کو کسی بات میں تمہاری اعانت (یعنی امداد) درکار ہو تو اس کام میں ان کی مدد
کرنا، انہیں سلم کرنا، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا، ان سے بات چیت کرنا، ان کے ساتھ
لطف و مہربانی سے پیش آنا۔ (درد، 1/ 323)
(2) کس کس رشتے دار سے کب کب ملے: رشتہ داروں سے
ناغہ کرکے ملتا رہے یعنی ایک دن ملنے کو جائے دوسرے دن نہ جائے اس پر اندازہ لگاکر
کہ اس سے محبت و الفت زیادہ ہوتی ہے بلکہ اقرباء سے جمعہ جمعہ ملتا رہے اور مہینے
میں ایک بار اور تمام قبیلہ اور خاندان کو ایک ہونا چاہیے جب حق ان کے ساتھ ہو (یعنی وہ حق پر ہوں) تو دوسروں سے مقابلہ اور
اظہار حق میں سب متحد ہو کر کام کریں۔
(3)وہ توڑے تو تم جوڑو: صلہ رحمی اسی کا نام نہیں
کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو، یہ چیز تو حقیقت میں مکافات یعنی ادلا بدلا ہے اس
نے تمہارے پاس چیز بھیج دی تم نے اس کے پاس بھیج دی، وہ تمہارے یہاں آیا تم اس کے
پاس چلے گئے،حقیقت میں صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو، وہ تم سے جدا ہونا
چاہتا ہے بے اعتنائی (یعنی لاپرواہی) کرتا
ہے اور تم اس کے ساتھ رشتےکے حقوق کی مراعات کرو۔
(4) رشتے دار حاجت پیش کرے تو رد کردینا گناہ ہے:
جب اپنا کوئی رشتے دار حاجت پیش کرے تو اس کی حاجت روائی کرے، اس کو رد کردینا قطع
رحم (یعنی رشتہ توڑنا ہے)۔ یاد رہے (صلہ رحمی واجب ہے اور قطع رحم حرام اور جہنم
میں لے جانے والا کام ہے)
(5)نیکی کی تلقین: ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ اگر
اس کا رشتے دار خدا اور رسول ﷺ کی نافرمانی کرے تو اسے تبلیغ کرکے پیارو محبت سے
راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں رشتہ داروں سے
صلہ رحمی کرنے اور ان کے حقوق کو کما حقہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہماری، ہمارے اہل و عیال، ہمارے پیرو مرشد کی، ہمارے اساتذہ کرام کی اور ساری امت
مسلمہ کی کامل مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
طاہر راحیلہ، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اللہ پاک نے ہمیں رشتے داروں، یتیموں اور بےسہاروں
کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ پارہ 21 سورۃ الروم کی آیت نمبر 38
میں ارشاد فرماتا ہے: فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى
حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ
یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘- ترجمہ: تم اپنے رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو اور یہ ان
لوگوں کے لیے بہتر ہے، جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔
اس آیت مبارکہ سے واضح طور پر صلہ رحمی کا حکم ثابت
ہوا کہ اللہ کریم نے رشتےداروں کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ رشتہ داروں
سے حسن سلوک کا ثواب نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اس کا ثواب ملے گا۔
صلہ رحمی کی اہمیت قرآن کریم سے واضح ہو گئی اب
جانتے ہیں کہ صلہ رحمی کہتے کسے ہیں؟ صلہ کا لغوی معنی کسی بھی قسم کی بھلائی اور
احسان کرنا (الزواجر، 2/156) اور رحم سے مراد قرابت، رشتے داری ہے (لسان العرب،1/1479)
صلہ رحمی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ
قرآن پاک میں اللہ کریم نے تقویٰ اختیار کرنے کے ساتھ ہی صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ
فرمان الٰہی ہے: وَ اتَّقُوا
اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ
الْاَرْحَامَؕ-
(پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں
کا لحاظ رکھو۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ کریم نے رشتوں کا لحاظ
رکھنے کا حکم دیا ہے رشتے داری کی اس قدر و اہمیت ہے کہ اللہ کریم نے قرآن کریم
میں کہیں رشتوں کے حقوق کا خیال رکھنے اور کہیں رشتوں کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔
آئیے اب رشتے داری کی اہمیت احادیث مبارکہ سے
ملاحظہ ہو،
احادیث مبارکہ:
(1) رشتے جوڑنا گھر والوں میں محبّت، مال میں برکت
اور عمر میں درازی ہے۔ (ترمذی،3/394، حدیث:1986)
(2)جو چاہے کہ اس کے رزق ميں وسعت دی جائے اور اس
کی موت ميں دير کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری،4/97، حديث:5985)
(3) رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 4/97، حدیث:5984)
رشتہ داروں کے حقوق خیال رکھنے کی جس طرح بہت فضیلت
ہے اسی طرح رشتے توڑنے والوں کے لیے بہت وعیدیں آئیں ہیں کہ قاطع رحم (رشتے توڑنے
والے) ان کی موجودگی میں رحمت نہیں اترتی، چنانچہ ملاحظہ ہو:
طبرانی میں حضرت اعمش سے منقول ہے، حضرت عبداللہ ابن مسعود
رضی اللہ عنہ ایک بار صبح کے وقت مجلس میں تشریف فرما تھے، انہوں نے فرمایا: میں قاطعِ رحم (یعنی رشتہ توڑنے والے) کو اللہ کی
قسم دیتا ہوں کہ وہ یہاں سے اٹھ جائے تا کہ ہم اللہ سے مغفرت کی دعا کریں
کیونکہ قاطع رحم(یعنی رشتہ توڑنے والے) پر
آسمان کے دروازے بند رہتے ہیں (یعنی اگر وہ یہاں موجود رہے گا تو رحمت نہیں اترے گی اور ہماری دعا قبول نہیں ہو گی)۔ (معجم کبیر، 9/158، رقم:8793)
صلہ رحمی کو کون سی چیز تقویت دیتی ہے ملاحظہ ہو،
چنانچہ رشتہ داروں سےملنا جلنا، تحائف دینا، حاجت روائی کرنا اور ان کے معاملے میں
بدگمانی سے بچنا سب ایسے کام ہیں جو صلۂ رحمی کو تقویت دیتے ہیں۔
صلہ رحمی کرنا اگرچہ بہت بڑی سعادت ہے لیکن اس کا
ثواب تب ہی ملے گا جب ہم اس نیکی کو دل سے سر انجام دیں گے۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رشتےداروں کے حقوق
کا خیال رکھنے اور اس کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھنے کی بھی
توفیق عطا فرمائے ہماری ہمارے والدین پیرومرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ کی
بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

وہ خوش نصیب خواتین جنہیں حضور ﷺ نے شرفِ زوجیت سے
نوازا قرآنِ کریم نے انہیں مومنوں کی مائیں
قرار دیا ہے۔خدا پاک نے اپنے پیارے رسول ﷺ کی پاک ازواج کو بہترین اوصاف مثلاً احکامِ شرع کی پاسداری، تقویٰ وپرہیزگاری،زہد و عبادت
سے نوازا ہے۔جو انہیں دنیا جہاں کی سب عورتوں سے نمایاں اور اونچے مقام پر فائز کر
دیتے ہیں۔یہ در حقیقت پیارے آقا ﷺ کی صحبت اور تربیت کا ہی اثر تھا کہ انہیں اس
قدر مقام و رتبہ حاصل ہوا اور ان کی پاکیزہ حیات کے شب و روز قیامت تک کے لوگوں کے
لیے بہترین نمونہ قرار پائے۔
سرکارِ نامدار،مدینے کے تاجدار ﷺ نے متعدد نکاح فرمائے۔اس
سلسلے میں جن پر سب کا اتفاق ہے وہ 11 صحابیات رضی اللہ عنہن ہیں جو آپ ﷺ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر
امہات المومنین کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئیں۔
ان میں سے 6تو قبیلۂ قریش کے اونچے گھرانوں کی چشم وچراغ
تھیں اور 4 کا تعلق قبیلۂ قریش سے نہیں
تھا بلکہ عرب کے دوسرے قبائل سے تعلق رکھتی تھیں اور ایک غیر عربیہ تھیں بنی اسرائیل سے تعلق تھا۔
(المواھب اللدنیہ،1/401)
حضور ﷺ کو اپنی تمام
ازواجِ مطہرات سے بے پناہ محبت تھی،آپ نے
ہر ایک کے لیے باری کے دن مقرر فرمائے اور
ہر ایک میں عدل قائم فرمایا۔
سب سے پہلی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان سے آپ کو
بے حد محبت تھی یہاں تک کہ جب آپ رضی اللہ
عنہا کا وصال ہو گیا تو پیارے آقا ﷺ کثرت سے آپ رضی اللہ عنہا کا ذکر فرماتے اور
بلند بالاشان کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا اکرام فرماتے۔روایت میں ہے
کہ جب آپ ﷺ کی بارگاہ میں کوئی چیز پیش کی جاتی تو فرماتے:اسے فلاں عورت کے پاس لے
جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی، اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ
سے محبت کرتی تھی۔
(الادب المفرد،
ص78،حدیث:232)
حضور ﷺ کو سب ازواج میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا تھیں۔آپ ﷺ پر وحی انہی کے لحاف (بستر ) میں آتی تھی۔ان کے علاوہ کسی
اور کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک حضور ﷺ کا روضہ شریف بنا جو عرش سے بھی افضل ہے۔ اس فضیلت کی وجہ سے آپ کا حجرہ ٔمبارکہ قیامت تک فرشتوں کے جھرمٹ میں رہے گا۔( فیضان امہات المومنین، ص 89)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا جو کہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی
اللہ عنہ کی شہزادی ہیں ان کو بھی ایک خاص مقام حاصل ہے۔
ازواجِ مطہرات میں سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک
نمایاں مقام حاصل تھا، آپ رضی اللہ عنہا حضور نبیِ کریم ﷺ کی محبوب ترین ازواج میں
سے تھیں۔مروی ہے کہ ایک بار حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ام المومنین حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی:خالہ جان! رسولِ کریم ﷺ کو کون سی زوجہ مطہرہ سب سے زیادہ محبوب تھیں؟فرمایا:میں اس بارے میں کچھ نہیں
جانتی۔ہاں!زینب بنتِ جحش اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کو آپ ﷺ کی بارگاہ میں خاص مقام حاصل تھا اورمیرے
خیال ہے کہ میرے بعد یہ دونوں آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔(طبقات ابن
سعد،8/91)الغرض آپ ﷺ اپنی تمام ازواجِ مطہرات سے ایک جیسا سلوک فرماتے تھے۔یہ آپ ﷺ
کی کریمانہ شان ہے کہ آپ ﷺ نے ان میں عدل فرمایا۔
وہ نسآءِ نبی طیبات وخلیق جن
کے پاکیزہ تر سارے طور و طریق
جو بہرحال نورِ
خدا کی رفیق اہلِ اسلام کی
مادرانِ شفیق
بانُوانِ طہارت
پہ لاکھوں سلام
اللہ پاک ہمیں ان کے فیضان سے مالا مال فرمائے ۔ آمین
حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت محمد عدنان ، دار الحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی

لفظِ محبت اپنے معانی اور مفہوم کے اعتبار سے اپنے دامن میں
بڑی وسعت،جامعیت اور معنویت رکھتا ہے۔ اس کے لغوی معنی اُلفت و پیار، چاہت و لگن
اور انس و عشق کے ہیں۔حضور ﷺ اپنی ازواجِ پاک سے محبت فرمایا کرتے تھے۔ذرا سوچئے
کہ وہ شخصیت جو کہ وجہِ کائنات ہیں،جن کی محبت پر ایمان کا مدار ہے،ان کی اپنی11
ازواجِ پاک رضی اللہ عنہن سے محبت فرمانا کیا پاکیزہ محبت ہے!آئیے!چند جھلکیاں
ملاحظہ کیجئے:
حضور ﷺ کی حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا سے محبت:
پیارے آقا ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا:مجھے اِن کی
محبت عطا فرمائی گئی ہے۔(مسلم ، ص 1016 ، حدیث : 6278)
رسولِ پاک ﷺ کی
اپنے ازواجِ پاک سے محبت کے تعلق سے 2 حدیثیں
پڑھئے:
(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضورِ اکرم ﷺ لوگوں میں
سب سے بڑھ کر اپنی اَزواج کے ساتھ خوش طبع تھے۔( فیض القدیر ، 5 / 229 ، تحت الحدیث
: 6865)
ہمارے پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں :تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو
اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔( ابن
ماجہ ، 2 / 478 ، حدیث : 1977)سیرتِ مبارکہ کے اس پہلو سے یہ درس ملا کہ ہر ایک کو
خاص کر زوجین کو آپس میں حُسنِ سلوک سے
پیش آنا چاہیے ۔
پیارے آقا ﷺ حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی بہت محبت فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ
حُضورِاکرم ﷺ نے سَیِّدہ فاطِمَہ زَہرا رضی اللہ عنہاسےفرمایا:اے
فاطِمَہ!کیا تم اُس سے مَحَبَّت نہیں کرو گی جس سے میں مَحَبَّت کرتا ہوں؟سَیِّدَہ
فاطِمَہ زہرارضی اللہ عنہا نےعَرْض کی:کیوں نہیں۔اِس پرحُضورِ اکرم ﷺنےفرمایا:عائشہ
سے مَحَبَّت رکھو۔(مسلم،ص1017،حدیث:2442 ملتقطاً)
آپ ﷺ اپنی ازواج کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے، اگرچہ آپ پر ان کے لئے باریاں مقرر کرنا ضروری نہیں تھا لیکن
پھر بھی آپ نے ہر ایک کے لیے باری مقرر فرمائی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں ہڈی سے
(دانتوں کے ساتھ ) گوشت اُتارتی تھی حالانکہ میں حائضہ ہوتی اور وہ ہڈی حُضُور ﷺ
کو پیش کر دیتی تو آپ اپنا دہن مبارک اسی جگہ رکھتے جس جگہ میں نے رکھا تھا اور
میں(پیالے میں)پانی پی کر حُضُور ﷺ کو(پیالہ)دیتی تو آپ( پیالے میں)اسی جگہ اپنا
لب مبارک رکھتے(یعنی پانی نوش فرماتے)جہاں سے میں نے پیا ہوتا۔(ابو داود،ص54،حدیث:259)
حضور ﷺ اپنے ازواج کے گھر کے کاموں میں مدد فرمایا کرتے تھے
۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ رَسُولِ کریم ﷺ گھر میں کیا کام کرتے تھے؟تو
آپ نے فرمایا :رَسُولِ کریم ﷺ اپنے گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے پھر جب نماز
کا وقت آجاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔( بخاری ،1 / 241 ، حدیث : 676)
حضور ﷺ نے جب حجۃ الوداع فرمایا تو آپ کے ساتھ آپ کی تمام
ازواج جو اس وقت حیات تھیں وہ سب ہی ساتھ تھیں۔( اسد الغابہ،7/ 139)
اسی طرح حضور ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تو ازواجِ مطہرات کے
درمیان قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اس کو اپنے ساتھ سفر پر لے کر جاتے۔کیا شان
ہے میرے آقاﷺ کی! کیا شان ہے خاتم النبیین ﷺکی !
مقامِ غور ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی بیویوں کو نوکرانی
سمجھتے ہیں اور انہیں اپنے پاؤں کی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں یعنی بہت زیادہ ظلم و
زیادتی کرتے اور ان کی حقارت کرتے ہیں۔ان کو چاہیے کہ اپنے پیارے آقا ﷺ کی سیرتِ طیبہ
کو پڑھیں اور اس پہ غور کریں کہ اتنی بڑی شخصیت جو کہ جانِ کائنات ہے وہ اپنی
ازواجِ پاک رضی اللہ عنہن کے ساتھ کس قدر شفقت و محبت والا سلوک فرماتے تھے!
حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت شہباز احمد،فیضانِ ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

نبیِ کریم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ہمیں ایک مثالی زندگی
گزارنے کا درس دیتا ہے۔آپ ﷺ کا طرزِ حیات ہر مسلمان کے لئے ایک روشن مینار کی حیثیت
رکھتا ہے،جو ہماری زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔خصوصاً آپ کی
ازدواجی زندگی ایک مثالی نمونہ ہے،جس میں آپ کی اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ محبت،حُسنِ
سلوک اور عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ازواجِ مطہرات یعنی نبیِ کریم ﷺ کی بیویوں نے نہ صرف آپﷺ کے ساتھ
زندگی گزاری بلکہ آپ کی تبلیغِ دین میں بھرپور حصہ بھی لیا۔آپ ﷺ نے اپنی بیویوں سے
بے پناہ محبت کی اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کا مظاہرہ کیا۔آپ ﷺ کی ازدواجی زندگی
ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محبت،احترام اور انصاف کی بنیاد پر قائم رشتے کس طرح کامیاب
اور خوشگوار ہو سکتے ہیں۔
نبیِ کریم ﷺ اپنی تمام بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کا خاص
خیال رکھتے تھے۔آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان انصاف نہ کرے، تو قیامت کے دن اس
حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہو گا۔(ترمذی،2 /375 ، حدیث : 1144)
آپ ﷺ نے اپنی
ازدواجی زندگی میں ہر بیوی کے حقوق کا خاص خیال رکھا اور کسی کے ساتھ بھی زیادتی
نہ ہونے دی۔آپ ﷺ اپنی اَزواجِ پاک سے محبت فرماتے اور اِس کا اِظہار بھی فرماتے۔چنانچہ
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں
فرمایا : مجھے اِن کی محبت عطا فرمائی گئی ہے۔(مسلم،ص1016 ،حدیث : 6278)
نبیِ کریم ﷺ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں،جن
سے آپ نے نہایت محبت کی۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبیِ کریم ﷺ کے ابتدائی دور میں
آپ کا ساتھ دیا اور آپ کے مشن کو تقویت بخشی۔آپ ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے
انتقال کے بعد بھی ان کا ذکرِ خیر فرماتے اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک
کرتے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:مجھے نبیِ کریم ﷺ کی کسی زوجہ پر اتنا
رشک نہیں آیا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر، حالانکہ میں نے ان کو نہیں دیکھا
تھا۔
(بخاری، 2/ 565،حدیث: 3818)
نبیِ کریم ﷺ اپنی بیویوں کی تعلیم و تربیت کا بھی خاص خیال
رکھتے تھے۔ نبیِ کریم ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی علمی قابلیت اور فہم و فراست
کی بہت قدر کرتے تھے۔ آپ ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو قرآن کی تعلیم دیتے اور ان
کے سوالات کے جوابات دیتے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی علمی قابلیت اور فہم و
فراست کی بنا پر بہت سی احادیث کی روایت کی ہیں، جو ان کی علمیت کو ظاہر کرتی ہیں
اور آج بھی مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبیِ کریم ﷺ کی محبت بھی بے
مثال تھی۔آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ کی فضیلت دیگر عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت
تمام کھانوں پر ہے۔(بخاری،2/445،حدیث: 3411)
اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،بیان کرتی ہیں کہ خدا کی قسم !میں نے یہ
منظر دیکھا ہے کہ(ایک روز )حبشی نابالغ لڑکے مسجد میں نیزہ بازی کر رہے تھے،حضور نبیِ
کریم ﷺ اُن کا کھیل مجھے دکھانے کے لیےمیرے لیےاپنی چادر کا پردہ کرکےمیرے حجرے کے
دروازے پر کھڑے ہوگئے(جو مسجد میں کھلتا تھا)میں آپﷺ کے کاندھے کےدرمیان سے اُن کا
کھیل دیکھتی رہی ، آپ ﷺ میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے،یہاں تک کہ(میرا جی بھر گیا)اور
میں خود ہی لوٹ آئی۔
(مسلم،ص442،حدیث:18(892))(بخاری،1/ 339،حديث:988)
حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (مقام)حَز سے واپس آرہے تھے،
میں ایک اونٹ پر سوار تھی جو دوسرے اونٹوں میں آخر میں تھا، میں نے رسول اللہ ﷺ کی
آواز سنی، آپ ﷺ ارشاد فرما رہے تھے: ہائے میری دلہن۔(مسند احمد،43/216،: 26112 )
حضور نبیِ کریم ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس قدر محبت تھی کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خوش ہوتیں تو سرکار ﷺ
بھی خوش ہوتے۔آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو عائش کہہ کر بلاتے تھے اور حمیرا بھی۔کیونکہ
آپ رضی اللہ عنہا کے گال سرخ تھے۔
حضرتِ صفیہ رضیَ اللہُ عنہَا کے اسلام
قبول کرنے کے بعدغزوۂ خیبر سے واپسی کے سفر میں جب سواری کے لئے اُونٹ قریب لایا
گیا، تورسولِ خدا ﷺ نے حضرتِ صفیہ رضیَ اللہُ عنہَا کو اپنے کپڑے سے پردہ کرایا اور زانوئے
مُبَارَک (ران) کو قریب کیا تاکہ حضرتِ صفیہ رضیَ اللہُ عنہَا اس پر پاؤں رکھ کر
اُونٹ پر سُوار ہو جائیں۔(مغازی للواقدى، 2/708) لیکن آپ نے
رسولِ پاک ﷺ کی تعظیم کے پیش نظر آپ کے زانوئے مُبَارَک پر پاؤں نہیں رکھا بلکہ
گھٹنا رکھ کر سوار ہوئیں۔(معجم كبير،303/11،حدیث:12068)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا اُن چاربہنوں
میں سے ہیں جنہیں حضور ﷺ نے اَلْاَخَوَاتُ الْمُؤْمِنَات کے دِل نشین خِطَاب سے
نوازا تھا۔(معرفۃ الصحابۃ ،6/3354،حديث:7676)
نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک اس
شخص پر رحم فرمائے جو رات کو بیدار ہوکر نماز پڑھتا ہے اور اپنی زوجہ کو نماز کے
لئے جگاتاہے اگروہ انکا ر کرتی ہے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑکتا ہے،اللہ پاک اس
عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتی ہے اور اپنے شوہر کو نماز کے لئے
جگاتی ہے اگر اس کا شوہر اٹھنے سے انکا ر کرتاہے تو اس کے چہرے پر پانی چھڑکتی
ہے۔(ابن ماجہ،2/128،حدیث:1336)
حضور
ﷺ کی اپنی ازواج سے محبت از بنت سید ابرار حسین، پاکپورہ جیل روڈ سیالکوٹ

اسلام سے قبل عورت کو
نفرت و حقارت سے دیکھا جاتا تھا،اس کی کوئی عزت، مقام و مرتبہ یا حقوق وغیرہ کچھ نہ تھے،یہ اسلام کا ہی احسان ہے کہ اس نے عورت کو حقوق عطا
فرمائے،ماں،بیٹی،بہن،بیوی کی صورت میں عزت بخشی۔
ہمارے آقا ﷺ کی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔آپ ﷺ کی حیاتِ
طیبہ کا ہر ہر پہلو ہمارے لیے قابلِ تقلید ہے۔زندگی کے دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ
بیوی سے محبت، شفقت، حُسنِ اخلاق میں بھی آپ ﷺ کا کوئی ثانی نہ تھا۔پیارے آقا ﷺ
نے بیویوں سے حُسنِ سلوک سے متعلق رہنمائی
فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:تم میں سے سب سے
بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہو اور میں اپنی
ازواج کے ساتھ تم سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہوں۔(ترمذی،5/475،حدیث: 3921)
جو لوگ عورتوں کو بالکل ناپسند کرتے یا حقیر سمجھتے ہیں انہیں
ان احادیثِ مبارکہ سے درس حاصل کرنا چاہیے
کہ وہ اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کریں،ان
سے صرف غلاموں کی طرح کام نہ لیں بلکہ ان
کے حقوق بھی پورے اداکریں۔پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: مجھے تمہاری دنیا میں سے 3 چیزیں
پسند ہیں:(1)خوشبو(2) عورتیں(3) میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔(نسائی،ص 644،حدیث:
3985)
سرکار ِعالی وقار،محبوبِ ربِّ غفار ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں کئی نکاح فرمائے،اس سلسلے میں جن پر سب کا
اتفاق ہے وہ 11 صحابیات رضی اللہ عنہن ہیں۔ان میں سے 6 قبیلہ قریش سے تھیں:حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ،حضرت ام حبیبہ،حضرت ام
سلمہ، حضرت سودہ رضی اللہ عنہن) جبکہ 4 عرب کے دیگر قبائل سے تھیں:حضرت زینب بنت
جحش،حضرت میمونہ،حضرت زینب بنت خزیمہ،حضرت جویریہ رضی اللہ عنہن۔نیز1یعنی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا
غیر عربیہ تھیں۔
آپ علیہ السلام سے پہلے بھی انبیائے کرام علیہم السلام کو عام لوگوں سے زیادہ
شادیوں کی اجازت دی گئی تھی۔چنانچہ آپ علیہ السلام کو بھی اس باب میں وسعت عطا
فرمائی گئی۔آپ علیہ السلام کے 1 سے زیادہ نکاح فرمانے میں کثیر حکمتیں تھیں مثلاً احکامِ
شریعت کی تبلیغ و اشاعت ،غلط رسومات کا خاتمہ وغیرہ۔
آپ علیہ السلام امت کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اپنی ازواجِ
مطہرات رضی اللہ عنہن کے حقوق بھی پورے ادا فرماتے اور ان سے محبت بھی فرماتے۔آپ
علیہ السلام کو ازواج میں سے سب سے زیادہ
محبوب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھی۔آقا ﷺ نے ان کے علاوہ کسی کنواری عورت سے نکاح
نہ فرمایا۔چنانچہ
1-حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہ ہوئی مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب
میرے ساتھ بسترِ نبوت پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحیِ الٰہی اترتی
رہتی ہے۔(بخاری،2 /552،حدیث: 3775)
2- حضور جانِ رحمت ﷺ کا ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سےمزاح فرمانا:
مروی ہے کہ پیارے آقا ﷺاپنی ازواج کے ساتھ تمام لوگوں سے زیادہ
خوش طبعی فرمانے والے تھے۔
(قوت القلوب،2/418)
آپ ﷺ نے حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا سے دوڑ میں مقابلہ کیا تو 1 دن وہ سبقت لے گئیں اور ایک دن آپ ﷺ
سبقت لے گئے۔حضورﷺ نے فرمایا:یہ اس کا بدلہ ہوگیا۔(ابوداود،3/42،حدیث: 2578)
3-حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کی محبت:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی
اللہ عنہا سے بھی بہت محبت تھی،آپ کے ہوتے ہوئے حضور ﷺ نے کسی اور عورت سے نکاح نہ
فرمایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی
اللہ عنہن میں سے سب سے زیادہ مجھے حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں غیرت آیا
کرتی تھی حالانکہ میں نے ان کو دیکھا بھی نہیں تھا۔غیرت کی وجہ یہ تھی کہ حضور
اکرم ﷺ بہت زیادہ ان کا ذکرِ خیر فرماتے رہتے تھےاور اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ
ﷺ جب بکری ذبح فرماتے تھے تو کچھ گوشت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے
گھروں میں ضرور بھیج دیا کرتے تھے اس سے میں چڑجایا کرتی تھی اور کبھی کبھی یہ کہہ
دیا کرتی تھی کہ نیا میں بس ایک خدیجہ ہی تو آپ کی بیوی تھیں میرا یہ جملہ سن کر
آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں!ہاں!بے شک وہ تھیں وہ تھیں۔انہی کے شکم سے تو اللہ پاک
نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔(بخاری، 2/ 565،حدیث: 3818)
4-یادِ خدیجہ الکبریٰ :
ایک بار حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنتِ خویلد رضی
اللہ عنہا نے سرکار ﷺ سے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،ان کی آواز
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت ملتی تھی، اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا
کا اجازت طلب کرنا یاد آگیا،آپ خوشی سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا :یا اللہ ! یہ توہالہ ہیں۔(بخاری،2/565 ، رقم:3821)
5-حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا پر کرم نوازی:
ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں جب تمام نبیوں کے سلطان ﷺ مسجد
میں اعتکاف فرمائے ہوئے تھے،ایک رات حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا،آپ ﷺ کی زیارت کے لیے
حاضر ہوئیں،تھوڑی دیر آپ ﷺ سے گفتگو کی پھر جب واپس جانے کےلیے کھڑی ہوئیں تو آپ ﷺ
بھی اٹھ کر ان کے ساتھ چلے اور مسجد کے دروازے تک صحبتِ بابرکت سے نوازا۔(بخاری،ص531،حدیث:
2035) (فیضانِ امہات المومنین،ص 313)