دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے، بلکہ احادیث میں یہاں تک ہے کہ حقوق اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی: ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور ساز و سامان نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ (وغیرہ اعمال) لے کر آئے اور ا س کا حال یہ ہو کہ اس نے(دنیا میں)  کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے ہر ایک کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں (اس کے پاس سے) ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے،پھر اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ (مسلم، ص 1394، حدیث: 2581)

جہاں دین اسلام میں دیگر لوگوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں وہیں رشتہ داروں کے بھی حقوق کا بیان ہے۔ اللہ پاک پارہ 5 سورہ النساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (۳۶) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا۔

خیال رہے رشتہ داروں کے کئی حقوق ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

حضور جان عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ حضرت سفیان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:یعنی خونی رشتوں کو توڑنے والا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)

رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا: ان سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نےارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (بخاری، 2 / 10، حدیث: 2067)

صلۂ رحمی کا مطلب بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے۔ (بہار شریعت، 3 / 558، حصہ: 16)

رشتہ داروں کو نیکی کی دعوت: مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایمان اور نیک اعمال پر ثابت قدم رہ کر اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں، عزیز و اقارب کو جہنم کی آگ سے بچائیں اور اس مقصد کے لئے انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا چاہئے۔

رشتہ داروں پر صدقہ کرنا: حضرت سلمان بن عامررضی اللہ عنہ سے مروی ہے،تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایارشتہ دار کو صدقہ دینے میں دو ثواب ہیں ایک صدقہ کرنے کا اورایک صلہ رحمی کرنے کا۔ (ترمذی، 2 / 142، حدیث: 658)

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے ا فضل صدقہ کنارہ کشی اختیار کرنے والے مخالف رشتہ دار پر صدقہ کرنا ہے۔ (معجم کبیر، 4 / 138، حدیث: 3923)

عزت،جان،مال کی حفاظت: ایک مسلمان کی عزت، مال اور اس کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے، ان کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی عزت کو پامال کرے، اس کے مال میں ناجائز تصرف کرے یا اس کے خون کی حرمت کو پامال کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مسلمانوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین