الله پاک نے قرآن پاک میں اور نبی اکرم ﷺ نے حدیث شریف میں بار بار رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے، پارہ 21 سورۃ الروم کی آیت نمبر 38 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘- ترجمہ: تم اپنے رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو اور یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے، جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔

ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے پھر ذوی القربی رشتہ داروں کا ہے۔ ذوالقربی وہ لوگ ہیں جن کا رشتہ والدین کے ذریعے ہو، انہیں ذی رحم بھی کہتے ہیں۔

رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ قطع تعلقی کرنے کی سخت ممانعت آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)

اگر رشتہ داروں کی طرف سے تکلیف پہنچائی جائے تو اس پر صبر کرنا اور تعلق قائم رکھنا بہت ثواب کا کام ہے۔ حدیث شریف میں ہے: جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے میل ملاپ رکھو اور جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کر دو۔ اور جو تمہارے ساتھ بد سلوکی کرے تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرتے رہو۔ (مسند امام احمد، 6/148، حدیث: 17457)

رشتہ دار اگر کوئی حاجت پیش کریں تو حاجت روائی کی جائے۔ مفلس و محتاج رشتہ داروں کے ساتھ مالی تعاون کیا جائے۔ عام مسکین پر صدقے سے تو ایک گنا ہی ثواب پائے گا، لیکن اگر کوئی شخص غریب رشتہ دار کو صدقہ دیتا ہے تو اس کو دگنا ثواب و اجر ملے گا، ایک اجر تو صدقے ہی کا، دوسرا صلہ رحمی کا اجر۔

ان کی خوشیوں اور غموں میں ہمیشہ شریک رہیں۔ ہمیں وقتاً فوقتاً ان کی خبر گیری کرنی چاہیے۔ تیمارداری کا سلسلہ بھی جاری رکھیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ ان کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کریں۔

اللہ پاک ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان میں کوتاہی کرنے سے بچائے۔ آمين