ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از ہمشیرہ
محمد آصف مغل،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
ذی القربیٰ وہ لوگ ہیں جن کا رشتہ والدین کے ذریعے
ہو، انہیں ذی رحم بھی کہتے ہیں، ذی رحم تین طرح کے ہیں: ایک باپ کے رشتے دارجیسے
دادا، دادی، چچا، پھوپھی وغیرہ، دوسرے ماں کے رشتے دار جیسے نانا، نانی، ماموں، خالہ۔
تیسرے دونوں کے رشتے دارجیسے حقیقی بھائی بہن۔
ہمیں ہمارے ربّ کریم نے رشتہ داروں کے ساتھ اچّھا
سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ پارہ 21 سورۃ الرّوم کی آیت نمبر 38 میں
اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى
حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ
یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘- (پ 21، الروم: 38) ترجمہ: تم اپنے
رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو اور یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے،
جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔
پارہ 1 سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 83 میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ
ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ ترجمۂ
کنزالعرفان: اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور
مسکینوں کے۔
ذی رحم رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے حقوق
درج ذیل ہیں:
1۔ ان کو ہدیّہ و تحفہ دینا۔ اگر ان کو کسی جائزبات
میں تمہاری امداد کی ضرورت ہو تو اس کام میں ان کی مدد(Help)
کرنا۔
2۔ انہیں سلام کرنا۔ ان کی ملاقات کو جانا، ان کے
پاس اٹھنا بیٹھنا، ان سے بات چیت کرنا، ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا۔ (کتاب
الدرر الحکام،1/323)
3۔ پرد یس ہو تو خط بھیجا کرے اگر
یہ شخص پردیس میں ہے تو رشتہ داروں کے پاس خط بھیجا کرے، ان سے خط و کتابت جاری
رکھے تاکہ بے تعلّقی پیدا نہ ہونے پائے اور ہوسکے تو وطن آئے اور رشتہ داروں سے
تعلّقات (Relations)
تازہ کرلے،اس طرح کرنے سے محبّت میں اضافہ ہوگا۔(ردّالمحتار، 9/678)
4۔ رشتے دار حاجت پیش کرے تو ردّ کرد ینا گناہ ہے جب
اپنا کوئی رشتے دار کوئی حاجت پیش کرے تو اس کی حاجت پوری کرے، اس کو رد کردینا
(یعنی حیثیت ہونے کےباوجودمددنہ کرنا)رشتہ توڑناہے۔ (کتاب الدرر الحکام،1/323)
5۔ دشمنی چھپانے والے رشتے دار کو صدقہ دینا افضل
صدقہ ہے۔ بہر حال کوئی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے یا نہ کرے ہمیں اس کے ساتھ اچھا
سلوک جاری رکھنا چاہئے۔حدیث پاک میں ہے:سب سے افضل صدقہ وہ ہے جودل میں دشمنی
رکھنے والےرشتہ دار کو دیا جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دل میں دشمنی رکھنے والے رشتہ
دار کو صدقہ دینے میں صدقہ بھی ہے اوررشتہ توڑنے والے سے اچھا سلوک کرنا بھی۔ (مستدرک، 2/ 27،
حدیث:1515)