دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنےاور رعایا کو حکمرانوں کے حکم ماننے کی تاکید کرتا ہے حاکم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں حکمرانوں کی بات سننا اور بقدر استطاعت اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے: اللہ تعالیٰ نے حکمرانوں کی اطاعت فرماں برداری کا جو حکم ارشاد فرمایا اُسے نبی کریم ﷺ نے بہت واضح کر کے لوگوں تک پہنچا دیا۔ اللہ ہمیں نیک اور اچھے پرہیز گار حکمران نصیب فرمائے اور جائز امور کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اطاعت کرنا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

صراط الجنان میں اس کی تفسیر میں لکھا ہے: اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے۔ جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو اُن کی اطاعت نہیں کی جائے گی: آیت میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے اس میں امام، امیر، بادشاہ حاکم سب داخل ہیں۔ (صراط الجنان، 2/230)

عدم بغاوت اور انکے لئے دعا: اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے، بلکہ حتی الامکان اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور انکے اصلاح و حق پر ثبات کیلئے دعا کی جائے۔

فرمان نبوی: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم انکے لئے دعا کرتے ہو، اور تمہارے حاکموں میں سے برے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں (ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا) اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھنا مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)

انکے جو حقوق ہیں انکی ادائیگی کرکے انکے ساتھ تعاون کریں حاکم کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے بچیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سنو اوراطاعت کرو اگرچہ حبشی غلام حاکم بنادیاجائے جس کاسرکشمش کی طرح ہو۔ (مراۃ المناجیح، 5/360)

مسلمانوں پر لازم ہے کہ انکے حقوق کی ادائیگی کاخیال رکھیں جب تک حاکم اللہ کی نافرمانی کاحکم نہ دےبہت سی احادیث میں حاکم کی اطاعت کرنےکی تاکیدآئی ہےاسی طرح مشکوۃ شریف کی ایک اور روایت پیش خدمت ہےکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان آدمی پرلازم ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/360)

یعنی سلطان اسلام کاجائزحکم تمہاری طبیعت کےخلاف ہویاموافق قبول کرولیکن اگروہ خلاف شرع حکم دےتواس کی فرمانبرداری نہ کی جائےاوراس بناپربغاوت بھی نہ کی جائے۔


کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لیے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر حاکم کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں اس وقت تک امن و امان قائم نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو، اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بد امنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم و محکوم کی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کے ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لیے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ رعایا پر حاکم کے حقوق درج ذیل ہیں:

(1) سننا اور ماننا: جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے، اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

(2) خیر خواہی اور نصیحت: ان کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو انہیں احسن طریقے سے آگاہ کیا جائے، انہیں صحیح اور اچھا مشورہ دیا جائے۔ اس ضمن میں ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں: فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے دین خیر خواہی کا نام ہے۔ پوچھا گیا کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی اس کے رسول، اللہ کی کتاب کی، مسلمانوں کے حاکموں کی، اور عام مسلمانوں کی۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1932)

(3) انکے ساتھ تعاون: اس معنیٰ میں کہ انکے جو حقوق و واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر اپنے حقوق پامال ہو رہے ہو تو اس کی وجہ سے اپنا دست تعاون نہ کھینچے۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں وہ ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دے تو ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ اولاً آپ خاموش رہے لیکن دوبارہ سوال کرنے پر فرمایا:تم انکی بات سنو اور مانو انکی جو ذمہ داری ہے وہ ان پرہے اور تمہاری جو ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے۔(مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

(4)عدم بغاوت اور انکے لئے دعا:اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے بلکہ حتی الامکان اس کے اصلاح کی کوشش کی جائے اور اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور ان کے اصلاح و حق پر ثبات کے لیے دعا کی جائے۔

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے: تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرے اور تم ان کے لئے دعا کرتے ہو۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804) اللہ پاک سے دعا کہ ہمارے حکمرانوں کو حق کے ساتھ نظام حکومت کی چلانے والا بنائے اور دین اسلام کو غلبہ عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

کوئی بھی معاشرہ ہو یا شعبہ اس میں پیش آنے والے معاملات کو اچھے طریقے سے چلانے کے لیے ایک حاکم کی ضرورت ضرور ہوتی ہے جس سے مذہب اسلام کے ساتھ دین و دنیا کی بھلائی ہو۔ ایک سردار کے بغیر نظام قائم نہیں رہ سکتا اور حاکم اپنی رعایا کے تعاون سے ہی بہترین نظم و ضبط قائم کر سکتا ہے۔ لیکن اگر حاکم و محکوم اپنے حقوق میں کوتاہی سے کام لیں تو معاشرہ بدامنی کی طرف جائے گا اسی کے پیش نظر دین اسلام میں حاکم اور محکوم کے ایک دوسرے پر حقوق بیان کیے گئے ہیں رعایا پر حاکم کے حقوق کیا ہیں ملاحظہ کیجیے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

آیت مبارکہ میں نبی برحق ﷺ کے بعد امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے یعنی مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔نیز آیت میں اُولِی الْاَمْرِ یعنی اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ان کی اطاعت کا حکم فرمایا گیا، اس میں امام، امیر، بادشاہ، حاکم، قاضی، علماء سب داخل ہیں۔ (صراط الجنان، 2/230)

حاکم کے حق میں حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا، چنانچہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم پر ناقص الاعضاء غلام حاکم بنادیا جائے جو تم کو اللہ کی کتاب سے چلائے اس کی سنو اور اطاعت کرو۔ (مسلم، ص 1023، حدیث: 1838)

اگر سلطان اسلام کسی حبشی غلام کو تمہارا حاکم بنادے تب بھی تم اس غلام حاکم کی فرمانبرداری کرو کہ یہ سلطان کی اطاعت ہے یا اگر بالفرض حبشی غلام سلطان بن جائے جسے مسلمان چن لیں تو اگرچہ وہ خلیفہ تو نہیں لیکن تب بھی اُس کی اطاعت کرو نیز نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔ (بخاری، 4/453، حدیث: 7137)عدل و انصاف پر شکر اور ظلم پر صبر کرنا رعایا پر لازم ہے کہ وہ امیر کی اطاعت کرے اور ظلم پر صبر رکھے کہ زمین پر بغاوت و فساد برپا نہ ہو، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بادشاہ زمین میں اللہ کا سایہ ہے جس کی طرف اللہ کے بندوں میں سے ہر مظلوم پناہ لیتا ہے تو اگر انصاف کرے تو اس کے لیے ثواب ہے اور رعایا پر شکر واجب ہے اور جب ظلم کرے تو اس پر بوجھ ہےاور رعایا پر صبر واجب ہے۔ (شعب الایمان، 6/15،حدیث:7369)

ان کی عزت کرنا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔

خیر خواہی کرنا حاکم اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جاے اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے اور دعائے خیر کی جائے، انہیں ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صحیح، سچے اور اچھے اخلاق سے مشورہ دیا جائے۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ، اپریل 2024، ص 51) چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

آخر میں اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا اور اپنے حبیب ﷺ کا اطاعت گزار بندہ بنائے ہمارے حکمرانوں کو حق کے ساتھ نظام حکومت کو چلانے والا بنائے اور دین اسلام کو غلبہ عطا فرمائے۔ آمین


کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لئے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے، شہری زندگی ہو یا دیہاتی، بغیر حاکم و امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام دُرست نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ اسی کے پیش نظر رعایا پر حاکم کے چند حقوق ذکر کئے جارہے ہیں ملاحظہ کیجئے:اللہ پاک نے اپنی کتاب قراٰنِ کریم میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔(صراط الجنان، 2/230)

حاکمِ اسلام کے حقوق:

(1)اطاعت کرنا: حاکمِ اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ حضور نبیِّ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری،2/297، حدیث: 2957)

( 2)اکرام کرنا: حاکم اسلام کی عزت و احترام کرنا ضروری ہے اس کی توہین نہ کی جائے حضور ﷺ نے حاکم کی عزت نہ کرنے کے حوالے سے فرمایا: جس نے سلطان کی اہانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا۔ (ترمذی، 4/96، حدیث: 2231) اس حدیث مبارکہ کی شرح میں ہے کہ شریعت و سنت کے پابند حاکم سے کوئی افضل نہیں ہو سکتا اس کی دعا رد نہیں کی جاتی بروز قیامت اسے قرب خداوندی نصیب ہوگا۔ (فیضان ریاض الصالحین، 5/659)

( 3)حکم کی بجا آوری: رعایا کو چاہیے کہ حاکم کے حقوق ادا کرے اور اس کے حکم کی اطاعت کرے اگر شریعت کے موافق ہے حاکم چاہے رعایہ کے حقوق ادا کرتا ہو یا نہ حضور ﷺ سے ایسے حاکم کے بارے میں پوچھا گیا جو رعایہ کے حقوق ادا نہ کرتا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ مَا حُمِلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ بے شک ان پر وہ لازم ہے جس کے وہ پابند کیے گئے ہیں اور تم پر وہ لازم ہے جس کے تم پابند کیے گئے ہو۔ (مسلم، ص 792، حدیث: 4782)

(4) حاکم سے جھگڑا نہ کرنا: علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر کوئی حاکم سے جھگڑے تو اسکی گردن اڑا دو (یہ خطاب حکمرانی میں جھگڑنے والے اور اس کی بیعت لینے والے دونوں کو شامل ہے)۔ (مرقاة المفاتيح، 7/ 260، حدیث: 3679)

(5)حکمرانوں کے عیب ظاھر نہ کرنا: حضرت زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب اپنے حقوق کے بارے میں دعا کرو تو اپنی آواز پست رکھو کیونکہ بلند آواز سے دعا کرنے میں ظالم حکمرانوں کے عیوب لوگوں پر ظاہر ہوں گے جو ان کے لیے بے عزتی کا سبب بنیں گے اور حکمران اسے اپنے لیے گالی سمجھیں گے اور یہ موجب فتنہ و فساد ہے۔ (ریاض الصالحین، 5/ 653)

(6)سلطان کی توہین نہ کرنا: حضرت سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے سلطان کی اہانت کی اللہ اسے ذلیل کرے گا۔ (ترمذی، 4/96، حدیث: 2231)

(7)اچھائی پر شکر اور بُرائی پر صبر کرنا: رسولِ اكرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حاکمِ اسلام زمین پر اللہ کا سایہ ہے اور جب وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے اجر ہے اورتم پر شکر لازم ہے اور اگر بُرا سلوک کرے تو اس کا گناہ اُس پر ہے اور تمہارے لئے صبر ہے۔ (شعب الایمان،6/15،حدیث:7369)

ہمارے پیارے پیارے آقا حضور جانِ جاناں ﷺ تو ایسے حاکم ہیں کہ چور بھی ہمارے مدنی آقا ﷺ کے دامنِ کرم میں پناہ لیتے ہیں گنہ گار بھی ان کی کملی میں چھپتے ہیں، میرے امام الشاہ الحافظ القاری امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی فرماتے ہیں:

چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا

(8)ان کی عزت کرنا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،1/187)

(9)خیر خواہی: حاکمِ اسلام کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے، انہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو صحیح، سچے اور اچھے انداز میں مشورہ دیا جائے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ان تمام اقوال اور احادیث سے معلوم ہوا کہ رعایا کو اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حکمران کی اطاعت کرنی چاہیے ہاں اگر وہ برائی کا حکم دے تو اطاعت واجب نہیں بلکہ نا جائز اور گناہ ہے اسکی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کی طرف بھی بھر پور توجہ دینی چاہیے کیونکہ رعایا کے برے اعمال کے سبب ہی برے حکمران مسلط کیے جاتے ہیں لوگ حکمرانوں کو تو برا بھلا کہتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے اگر رعایا سدھر جائیں تو حکمران بھی سدھر جائیں گے۔

اللہ ہمیں حکمرانوں سے محفوظ فرمائے اور نیک حکمران عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین

معاشرے کے امن و امان اور بقاء کے لیے حاکمِ اسلام کا وجود و رعایا کا تعاون دونوں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ امیر و حاکم کے بغیر ملک و معاشرے کا نظام درست نہیں ہو سکتا۔ لہذا حاکم کے حقوق کی آگاہی و آشنائی ضروری ہے تا کہ معاشرہ افراط و تفریط کا شکار نہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

احادیث کی روشنی میں حاکمِ اسلام کے حقوق:

1) اطاعت و فرمانبرداری کرنا حاکمِ اسلام کا کلام سُننا اور اس کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے، چاہے وہ حکم مزاج و طبیعت کے موافق ہو یا نہ ہو بشرطیکہ وہ حکم شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اگر کوئی حکم شریعت سے ٹکراتا ہو تو اس حکم کی اطاعت ہرگز جائز نہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر مسلمان(حاکم کا حکم) سننا اور اس کی اطاعت کرنا لازم ہے چاہے اسے وہ حکم پسند ہو یا نہ پسند، سوائے گناہ کے حکم کے کہ جب گناہ کا حکم دیا جائے تو اسے نہ سننا لازم ہے اور نہ ہی اس کی اطاعت کرنا لازم۔ (بخاری، 4/455، حدیث: 7144)

2) ناگوار بات پر صبر کرنا رعایا کو حاکم کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات پہنچے تو اس پر صبر کرے اور اس کی اطاعت سے نہ نکلے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ شے پہنچے تو اسے چاہئے کہ صبر کرے کیونکہ جو سلطان سے ایک بالشت بھی دور نکلا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم، ص 793، حدیث: 4790)

3) عزت و تکریم کرنا حاکم کا حق ہے کہ اس کی عزت و تعظیم کی جائے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت و توقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/187)

4) خیر خواہی کرنا حاکمِ اسلام کا حق ہے کہ ہر معاملے میں اس کے ساتھ خیرخواہی کی جائے اگر کسی چیز میں کوتاہی و لاپرواہی دکھائی دے تو نہایت عمدگی سے اُسے متنبہ(خبردار) کیا جائے اور اچھے انداز میں مشورہ دیا جائے۔ چنانچہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

اللہ رب الانام ہمیں ان حقوق پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

کسی بھی معاشرے میں زندگی کے معاملات کو صحیح طور پر چلانے کے لیے ایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے، شہری زندگی ہو یا دیہاتی،بغیر حاکم و امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام نہیں چل سکتا اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں اس وقت تک نظام قائم نہیں کر سکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو۔اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاكم اور محكوم كی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبہ حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے،اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہے کہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں۔ اللہ پاک نے اپنی کتاب قرآن پاک میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا بھی حکم ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حكم كريں تو ان کی اطاعت نہیں کریں گے۔ (صراط الجنان،2/230)

اسی طرح حدیث مباركہ میں بھی حکمرانوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اُس دن اللہ اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا،جس دن کوئی سایہ نہیں ہو گا،ان میں سے ایک عادل حکمران بھی ہے۔ (بخاری، 1/480، حدیث: 1423)

حاکم اسلام کے 2 حقوق درج ذیل ہیں:

1-اطاعت کرنا:حاکمِ اسلام کی اطاعت و فرمابرداری ہر فردِ بشر پر واجب ہے بشرطیکہ اس کا حکم شریعت کے مطابق ہو۔جیسا کہ ارشادِ رسول ﷺہے: جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔(بخاری،2/297،حدیث:2957)

2-ان کی عزت کرنا:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: سلاطین کی عزت وتوقیر کرو کیونکہ جب تک یہ عدل کریں گے یہ زمین پر اللہ پاک کی قوت اور سایہ ہوں گے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/187)

آخر میں اللہ پاک سے دعا کرتی ہوں کہ ہمیں اپنے امیر اور حکمرانوں جو شریعت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوں ان کا فرما نبردار بنا دے۔ آمین


کسی بھی ریاست کے نظام کو صحیح طور پر چلانے کے لیے حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے۔ حاکم اپنے مقصد میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اسے رعایا کی حمایت حاصل نہ ہو۔ معاشرے کا نظام بہتر طور پر چلانے کے لیے ضروری ہے کہ حاکم ورعایااپنے حقوق و فرائض کو پہنچانیں۔ اسی کے پیش نظر یہاں حاکم کے چند حقوق بیان کیے جاتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:

اطاعت کرنا: چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔

اولی الامر میں حاکم، بادشاہ، امیر اورقاضی سب داخل ہیں۔ (صراط الجنان، 2/230) اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک اور رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ حاکم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔معلوم ہوا حاکم کی اطاعت واجب ہے بشرط یہ کہ وہ خلاف شریعت کوئی حکم نہ دے۔ حدیث پاک میں ہے: اطاعت فرمانبرداری سے کام لو۔ اگرچہ تم پر ایک حبشی شخص کو حاکم مقرر کیا جائے جس کا سر انگور کی مانند ہو (چھوٹا ہو)۔ (مراۃ المناجیح، 5/360)

احترام کرنا: حاکم کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی عزت و احترام کیا جائے۔حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عظمت کے اعتراف میں یہ بات بھی شامل ہے، عمر رسیدہ مسلمان کا احترام کیا جائے،اور قرآن کے عالم کا احترام کیا جائے،تا ہم اس بارے میں انتہا پسندی اور بدتمیزی سے گریز کیا جائے اور انصاف کرنے والے حکمران کا احترام کیا جائے۔

خیر خواہی کرنا: حاکم کے ساتھ خیر خواہی کا سلوک برتا جائے۔اگر اس کے طے کردہ معاملات میں کوئی کمی نظر آئے تو احسن انداز میں اس اسے مفید مشورہ دیا جائے کیونکہ قرآن پاک میں ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- (پ 14، النحل: 125) ترجمہ: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اسی طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہے۔

بغاوت نہ کرنا: رعایا کو چاہیے اپنے حاکم کے خلاف بغیر شرعی مصلحت کے بغاوت نہ کرے۔کیونکہ کے حاکم کے خلاف بغاوت کرنا اصل میں اپنے ملک کے ساتھ بغاوت کرنا ہے اور یہ حب الوطنی کے خلاف ہے جبکہ الوطنی ایمان سے ہے۔

مرتبے کالحاظ رکھنا: عوام کا فرض ہے وہ اپنے حاکم کے مرتبے کا لحاظ رکھے۔اگرچہ وہ نرم طبیعت کا مالک ہو پھر بھی ہر وقت اس کا خوف رکھے اور اس پر جراءت کا مظاہرہ نہ کرے۔ اس کے دروازے پر آنا جانا کم رکھے۔اس سے اسی کام میں مدد لے جو اس کی ذمہ داری ہے۔خواہ مخواہ کا بوجھ اس پر نہ ڈالے۔

اللہ سے دعا ہے ہمیں حقوق العباد بالخصوص حاکم کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آج کے دور میں جہاں مال کی جتنی اہمیت ہے وہیں لوگوں کی غالب اکثریت مال کے صحیح استعمال سے آگاہ نہیں اور اس کا بے جا استعمال اکثر لوگوں کا مشغلہ ہے کہ جہاں دل چاہا جیسے چاہا مال برباد کردیا جیسے غیر ضروری اشیاء خریدنا ، صرف شوق  و دلچسپی کی چیزوں میں مال استعمال کرنا، اور شادی وغیرہ دوسری تقریبات میں بھی کئی قسم کی فضول رسم و رواج کے نام پر مال کی بربادی ہوتی ہے۔ آج کے دور میں اس کے علاوہ بھی کئی طریقوں سے فضول خرچی بڑھتی چلی جارہی ہے اور لوگوں کی غالبیت کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی حالانکہ کئی آیات مبارکہ و احادیث مبارکہ میں اسکی ممانعت آئی ہے، چند آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 26) ترجمہ کنز العرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔ تفسیر صراط الجنان میں آیت مبارکہ کے اس حصے اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن کے تحت ہے: اس سے پہلی آیت میں اللہ پاک نے ارشادفرمایا کہ فضول خرچی نہ کرو جبکہ اس آیت میں فرمایا کہ بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں کیونکہ یہ ان کے راستے پر چلتے ہیں اور چونکہ شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے، لہٰذا اُس کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ (مدارک، ص 621ملخصاً)

وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔ مفسرین نے فضول خرچی کے مختلف مَحْمَل بیان فرمائے ہیں، چنانچہ مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ اگر کل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے گھروالوں کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو یہ خرچ بے جا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بے جا اور داخلِ اسراف ہے ۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کا بھی ایسا ہی قول ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اللہ کی اطاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ قلیل بھی ہو تو اسراف ہے۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ معصیت میں خرچ نہ کرو۔ امام مجاہد نے کہا کہ اللہ کے حق میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابو قبیس پہاڑ سونا ہو اور اس تمام کو راہِ خدا میں خرچ کر دو تو اسراف نہ ہوگا اور ایک درہم معصیت میں خرچ کرو تو وہ اسراف ہے۔ (خازن، 2/62، 63)

فضول خرچی اور اسراف یہ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں، علمائے کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں، ان میں سے 11 تعریفات درج ذیل ہیں: (1) غیرِ حق میں صَرف کرنا۔ (2) اللہ کے حکم کی حد سے بڑھنا۔ (3) ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مُطَہَّر یا مُرَوّت کے خلاف ہو، اول حرام ہے اور ثانی مکروہِ تنزیہی۔ (4) طاعتِ الٰہی کے غیر میں صرف کرنا۔ (5) شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا۔ (6) غیرِ طاعت میں یا بلاحاجت خرچ کرنا۔ (7)دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا۔ (8) ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا۔ (9) حرام میں سے کچھ یا حلال کو اِعتدال سے زیادہ کھانا۔ (10) لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا ۔ (11) بے فائدہ خرچ کرنا۔

حکم : فضول خرچی اور اسراف خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔

اب آئیے اس کے متعلق ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

فرمان آخری نبی ﷺ: میانہ روی سے خرچ کرنا آدھی معیشت ہے اور لوگوں سے محبت کرنا آدھی عقل ہے اور اچھا سوال کرنا آدھا علم ہے۔ (شعب الایمان، 5/255، حدیث:6568)

حدیث پاک کے اس حصے کہ ”خرچ میں میانہ روی (اعتدال) آدھی معیشت ہے“ کی شرح میں ہے کہ خوشحال وہی شخص رہتا ہے جسے کمانے کے ساتھ خرچ کرنے کا طریقہ بھی آتا ہو کیونکہ کمانا تو سب کو آتا ہے لیکن خرچ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

اسراف کے متعلق ایک اہم وضاحت: یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ جس طرح لَا خَيْرَ فِيْ الْاِسْرَافِ یعنی اسراف (فضول خرچی) میں کوئی بھلائی و خیر نہیں ہے اسی طرح لَا اِسْرَافَ فِيْ الْخَيْرِ یعنی نیکی اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اسراف (فضول خرچی) نہیں۔

فضول خرچی کے چند اسباب ہیں:

1۔ لاعلمی و جہالت، کہ بندے کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ فضول خرچی کررہا ہے اس کے لئے ہمیں چاہیے کہ ہم دین کے فرائض کو جانیں اور کسی کام میں خرچ کرنے سے پہلے غور و فکر کرے کہ میں جس کام میں مال خرچ کر رہا ہوں کیا یہ مجھے دنیا یا آخرت میں فائدہ دے گا بھی یا نہیں؟

2۔ غرور و تکبر، اس کے لئے بندے کو چاہیے کہ وہ تکبر کے دنیاوی و اخروی نقصانات کا مطالعہ کرے اور اپنے اندر عاجزی و انکساری پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

3۔ اپنی واہ واہ کی خواہش، اس سے بچنے کے لئے بندہ اپنے اندر اخلاص پیدا کرے اور اپنا یہ ذہن بنائے کہ لوگوں سے اپنی تعریف سن کر خوش ہونا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ حقیقی خوشی تو یہ ہے کہ بندے کا رب اس سے راضی ہو جائے۔

4۔ غفلت اور لاپرواہی، کبھی انسان کو معلوم تو ہوتا ہے کہ فلاں کام فضول خرچی ہے لیکن اپنی لاپرواہی اور غفلت کے سبب وہ اس سے بچ نہیں پاتا، اس کے لئے بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر احساس پیدا کرے، دنیا میں غفلت و لاپرواہی کی بناء پر ہونے والے گناہوں پر آخرت کے مواخذے کو پیش نظر رکھے۔

نیز ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا احساس پیدا کرے ، نیز اپنا یہ مدنی ذہن بنائے کہ آج اگر میں نے نعمتوں کی ناشکری کی اور اسے فضول کاموں میں برباد کردیا تو ہوسکتا ہے کہ یہ نعمتیں مجھ سے چھین لی جائیں، لہذا میں اسراف و فضول خرچی سے بچتے ہوئے شکر کروں گا تاکہ ان میں مزید اضافہ ہو۔


اسراف کے لغوی معنی بے موقع و بے جا خرچ کرنا، برباد کرنا خرچ کرنے میں حد سے گزر جانا ہے جبکہ اصطلاح میں اس سے مراد کسی  ایسے بے مقصد یا ناجائز کام میں خرچ کرنا جس میں شرعًا، عادتًا یا مروتًا خرچ کرنا منع ہو اسراف یعنی فضول خرچی کہلاتا ہے۔

اللہ رب العالمین نے قرآن پاک میں فضول خرچی اور اسراف سے ممانعت فرمائی ہے اور اپنی ناراضگی کا بھی اظہار فرمایا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اسراف کا معنی حد سے بڑھنا ہے حد سے بڑھنا دو طرح سے ہوتا ہے: جسمانی اور روحانی۔ اسی لیے گناہ کو بھی اسراف کہتے ہیں، یہاں دونوں قسم کا اسراف مراد ہو سکتا ہے جسمانی بھی روحانی بھی اور اس کا تعلق لباس، غذا، پانی سب سےہی ہے لہذا اسراف کی بہت تفسیریں ہیں: حلال چیزوں کو حرام جاننا، حرام چیزوں کا استعمال کرنا، ضرورت سے زیادہ کھانا، پینا اور پہننا، جو دل چاہے وہ کھا پی لینا اور مضر اور نقصان چیزیں کھانا پینا وغیرہ وغیرہ۔ (تفسیر نعیمی، 8/390ملخصاً)

بے موقع اور بے محل خرچ کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 26، 27)ترجمہ: اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو، بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔

حدیث مبارکہ میں بھی فضول خرچی کی ممانعت آئی ہے، چنانچہ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: بغیر فضول خرچی اور تکبر کے کھاؤ، پیو، پہنو اور خیرات کرو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605 مفہوماً)

ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور پاک ﷺ کا حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزر ہوا اور وہ وضو کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے دیکھا اور ارشاد فرمایا: یہ اسراف کیسا؟ تو انہوں نے عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں اگرچہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہو۔(ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

موجودہ زمانے میں ہم لوگ بہت سے مواقع پر اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں کا انتہائی بے دردی سے اور بےدریغ استعمال کرتے ہیں، چنانچہ دیکھا گیا ہے انتخابات کے مواقع پر امیدوار وغیرہ بے تحاشہ دولت لٹاتے سرکاری دوروں کے مواقع پر مقتدر طبقہ فضول مال خرچ کرتا، ملکی تقریبات کے دوران ایام انتہائی دھوم دھام اور سج دھج سے منائے جاتے ہیں ذاتی تقریبات جیسے شادی بیاہ کے موقع پر جہیز کے نام پر فضول خرچی تو کہیں نئی نئی تقریبات پر فضول خرچی کہیں کھانے کے نام پر مال کا بے دریغ ضیاع کیا جاتا ہے اگر کوئی اس کا مرتکب ہوا ہو تو اپنے رب سے معافی مانگے۔

فضول خرچی اور اسراف سے ممانعت میں شریعت مطہرہ کا مطلوب اور مقصود یہ ہے کہ انسان بےمقصد اور ناجائز کاموں میں کسی بھی چیز کا استعمال نہ کرے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان خیر و بھلائی کے کاموں میں بخل اور کنجوسی کرے۔

حضرت امام مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگر تم اللہ کی فرمانبرداری میں جبل ابی قبیس کے برابر بھی سونا خرچ کرو تو اسراف نہیں اور اگر ایک صاع بھر اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرو تو یہ اسراف ہے۔

قرآن کریم اور احادیث طیبہ میں فضول خرچی کی سخت ممانعت اور مذمت بیان کی گئی ہے اور اس کے سبب معاشرے میں رونما ہونے والے بھیانک اثرات اور برے نتائج کو بھی بیان کیا گیا۔ دین اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو ہر شعبہ زندگی میں سادگی،میانہ روی و اعتدال کو پسند کرتا ہے اور فضول خرچی و عیش و عشرت سے منع کرتا ہے۔

قرآن پاک میں فضول خرچی کے لیے اسراف اور تبذیر کے الفاظ استعمال فرمائے گئے۔

اسراف اور تبذیر میں فرق: اس کے متعلق علمائے کرام کے دو قول ہیں: (1) اسراف اور تبذیر دونوں ایک ہی معنی میں ہیں ان کا معنی ناحق صرف کرنا ہے۔ (2) اسراف اور تبذیر میں فرق ہے، تبذیر خاص گناہوں میں مال برباد کرنے کا نام ہے۔

آئیے اب اسراف کے لغوی و اصطلاحی معنی کے بارے میں جانتے ہیں۔ چنانچہ اسراف کے لغوی معنی ہیں بے موقع و بے جا خرچ کرنا اور خرچ کرنے میں حد سے گزر جانا اور اصطلاح میں جس جگہ شرعا عادتا مروة خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلا فسق وفجور و گناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چوڑ دینا اسراف کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 301 تا302)

فضول خرچی کا حکم: اسراف اگر خلاف شرع ہو تو حرام ہے اور اگر خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

اسراف کی ممانعت : اللہ رب العزت نے اسراف سے ممانعت فرما کر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) (پ 15، الاسراء: 26) ترجمہ کنز العرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔

حضور جان عالم ﷺ نے بھی اسراف و فضول خرچی کی سخت ممانعت فرمائی ہے، ارشاد فرمایا: ہر اس چیز کو کھا لینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔

وضو میں اسراف: حضور سید عالم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کر رہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

اگر کوئی شخص اپنا سارا مال اس کے مصرف میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں کہلائے گا لیکن اگر کوئی ایک درہم بھی ناجائز کام میں خرچ کرتا ہے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہی ہوگا۔

فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی کہا گیا کیونکہ یہ شیطان کے رستے پر چلتا ہے اللہ پاک نے اس کو مال دیا کہ وہ اس کی اطاعت والے کاموں میں خرچ کرے اور وہ اس کے بجائے معصیت و رب تعالیٰ کی نافرمانی والے کاموں میں خرچ کر کے اللہ رب العزت کی ناشکری کرتا ہے۔

اسراف کے اسباب: بسا اوقات انسان اپنی لاعلمی وجہالت کی وجہ سے اسراف جیسے فعل حرام کا ارتکاب کر گزرتا ہے اور کبھی غرور و تکبر و تفاخر کے باعث یہ کام کرتا ہے ان اسباب پر غور کر کے ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے تو اسراف جیسے فعل حرام سے بچا جا سکتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں فضول خرچی کی عادت سے بچائے اور دین و دنیا کے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

دور حاضر ہی نہیں بلکہ ہر دور میں ذریعہ معاش کی تلاش میں لوگ نظر  آتے رہے ہیں۔ دن رات محنت و مشقت کر کے اپنی اولاد کی خواہشات اور ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اور اسی تگ و دو میں گرمیوں کی دھوپ اور سردیوں کی خنکی ہوائیں ان پر ذرا برابر بھی اثر انداز نہیں ہوتیں۔ وہ اس خیال اور اس امید پر نہیں رہتا کہ گرمیوں میں دھوپ ڈھل جائے، ٹھنڈی ہوائیں چل لیں تو کام کا آغاز کروں گا۔ بلکہ پیش نظر صرف ایک چیز ہوتی ہے اولاد کی ضروریات۔ جہاں پر کچھ غریب طبقہ محنت و مشقت سے روزی کماتا ہے وہیں ایک ایسا طبقہ بھی ہے کہ جس کو الله نے بے شمار وسائل اور نعمتوں سے نوازا ہے۔ وہ بیشک جسے چاہتا ہے جیسا چاہتا ہے نوازتا ہے ان میں سے کچھ لوگ الله کا شکر ادا کرتے ہوے ان نعمتوں کی قدر کرتے ہیں تو بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان نعمتوں کی ناشکری کرتے نظر آتے ہیں۔

ناشکری محض منہ سے یہ الفاظ ادا کرنا ہی نہیں کہ مجھے یہ نہیں چاہیے تھا مجھے یہ کیوں ملا۔ بلکہ جس طرح شکر ادا کرنے کے محتلف انداز ہوتے ہیں اسی طرح ناشکری کے بھی محتلف انداز ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک فضول خرچی کرنا ہے۔

الله پاک نے فرمایا: وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 26، 27)ترجمہ: اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو، بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔

الله کی دی ہوئی نعمتوں کو ضائع کرنا اس کی قدر نہ کرنے کے برابر ہے جو کہ ناشکری میں شمار ہوتی ہے۔ بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ جو لباس ایک مرتبہ پہن لیں اسے دوبارہ نہیں پہنا جاتا۔ اور مزید فیشن ایبل لباس خریدے جاتے ہیں۔ پہلا لباس بالکل سہی ہوتا ہے مگر اس کو نہ پہننے کی وجہ یہ ہے کہ اسے ہم نے ایک مرتبہ پہن لیا ہے اور بہت سے لوگوں نے دیکھ لیا ہے۔

اس لیے ہم اسے نہیں پہنیں گے۔ حالانکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی زندگی کو دیکھا جائے تو آپ ایک لباس کو کئی مرتبہ پہنتے تھے اور اگر لباس کہیں سے پھٹ جاتا تو اسے پیوند لگا لیتے تھے۔ مگر اس کو پہنتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کرتے تھے۔

ہمارے جوتے بھی اگر کہیں سے گندے ہو جائیں تو ہم اس کو صاف کر کے پہنتے نہیں بلکہ پھینک دیتے ہیں۔ جبکہ نبی کریم ﷺ جوتوں کو بھی پیوند لگا کر استعمال میں لاتے تھے۔

ہمیں آج کل کے دور میں ضرورت اور خواہشات میں فرق نہیں پتہ جس کی وجہ سے ہم فضول خرچی کے بہت زیادہ قریب ہو گئے ہیں۔ ضرورت میں روٹی کپڑا اور مکان آتا ہے۔ یہ انسان کی ضروریات ہوتی ہیں اور خواہشات میں بہت سی فضول چیزیں بھی شامل ہیں، جیسے ہماری بنیادی ضرورت کپڑے پہننا ہے ضروری نہیں کہ وہ مہنگے برانڈڈ کپڑے ہوں۔ مہنگے کپڑوں کی خواہش ہی فضول خرچی ہے۔ لہذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فضول خرچی سے بچیں اور اپنی روز مرہ زندگی میں اس عادت کو اپنائیں۔


جس جگہ شرعاً، عادۃ یا مروۃ خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق و فجور و گناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارو مددگار چھوڑ دینا فضول خرچی کہلاتا ہے۔ فضول خرچ صرف مال میں نہیں بہت سی چیزوں میں ہوتی ہے۔ جیسے ضرورت سے زیادہ کھانا پینا یا پہننا، جو دل چاہے وہ کھا پی لینا، پہن لینا وغیرہ،  فضول خرچ کرنا ہلاکت والا کام ہے۔

حکم: فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

قرآن کریم میں اللہ پاک فضول خرچی کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 26، 27)ترجمہ: اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو، بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی فرمایا ہے کیونکہ یہ لوگ اس کے راستے پر چلتے ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے اسلئے اس کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

فضول خرچی کے متعلق احادیث مبارکہ: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کھاؤ پیو اور خیرات کرو اور پہنو کہ جب تک فضول خرچی اور تکبر نہ ملے۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا، بولا: میں محتاج ہوں میرے پاس کچھ نہیں اور میرے پاس ایک یتیم ہے تو فرمایا اپنے یتیم کے مال سے کھاؤ نہ فضول خرچی کر کے نہ جلدی کر کے اور نہ مال جمع کرتے ہوئے۔

نبی کریم ﷺ حضرت سعد پر گزرے جب وہ وضو کر رہے تھے تو فرمایا: اے سعد یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف؟ فرمایا: ہاں۔ اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

اسراف ( فضول خرچی) میں کوئی بھلائی و خیر نہیں ہے اس طرح نیکی اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اسراف نہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 305)

ربیع الاول کے موقع پر مسلمان اپنے آقا و مولا ﷺ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے گھروں، دکانوں، محلوں اور گلیوں کو سجاتے ہیں سبز سبز پرچم لگاتے، صدقہ و خیرات کرتے، لنگر و نیاز کا اہتمام کرتے وغیرہ۔ لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اتنا مال خرچ کیا یہ سب اسراف کر دیا یاد رہے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا اسراف نہیں ہے۔

فضول خرچی کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے ایک سبب اتباعِ شہوات بھی ہے انسان اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے ہی فضول خرچی کرتا ہے انسان کو اعتدال کی حالت میں خرچ کرنا چاہیے نہ تو اتنا کم خرچ کرے کہ کنجوس بن جائے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کرے کہ فضول خرچ کرنے والا بن جائے۔

بعض اوقات انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسراف ہے لیکن اپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے فضول خرچ میں مبتلا ہو جاتا ہے وضو کا پانی استعمال کرتے ہوئے نل کھلا چھوڑ دینا، بجلی والی اشیاء کو سستی کی وجہ سے کھلا چھوڑ دینا یہ سب بھی اسراف میں شامل ہے۔

اللہ پاک ہمیں فضول خرچی جیسی بیماری سے نجات عطا فرمائے اور صحیح جگہ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔