اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہمیں بیشمار نعمتیں نصیب فرمائیں تو اب ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم رب تعالیٰ کی اطاعت والے کاموں میں لگ جائیں اور اسکی نافرمانیوں والے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اس سے بچائیں۔ اگر ہم گناہوں میں دوسروں کی مدد کرینگے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوجائیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ خود قرآن پاک میں گناہ پر مدد نہ کرنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

آیت مبارکہ میں اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سےمراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے مراد ظلم یا بدعت ہے اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔

گناہ پر مدد کرنے کی مختلف صورتیں: کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔

گناہ پر مدد کرنے کے بجائے نیکی پر لوگوں کی مدد کرنے سے ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا، رب تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔

اس آیت مبارکہ میں برسے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے نیکی اور تقویٰ میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں جیسے: علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس و تدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا، دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا، اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا، نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا، ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہے۔

لوگوں کو نیکی کی طرف راہ دینے پر اجر کےمتعلق حدیث مبارکہ میں ہے: رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہو گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ (مسلم، ص 1438، حدیث: 2674)

احادیث مبارکہ میں نیکی کا حکم نہ دینے پر وعیدات بھی بیان ہوئی ہیں جیسے ایک حدیث مبارکہ میں ہے: آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تمہیں بہر صورت نیکی کا حکم دینا چاہیے اور برائی سے منع کرنا چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اسے (مدد کے لیے) پکارو گے تو تمہاری پکار مستجاب نہیں ہوگی۔ (ترمذی، 4/69، حدیث: 2176)

ہمیں چاہیے کہ ہم لوگوں کی گناہ پر مدد کرنے کے بجائے نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں جس کا ذکر ہمیں کئی آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ میں ملتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

گناہ پر مدد کی چند صورتیں ہیں: کسی کو شرابی پینے یا جوا کھیلنے کے لیے رقم دینا پیشہ ور بھکاری ہو کچھ لینا جو فرض ہونے کے باوجود بلاعذر شرعی رمضان کا روزہ نہ رکھے یا توڑ دے اس کو کچھ کھلانا یہاں پلانا کسی کو گناہ کے آلات مثلا میوزک سسٹم خریدنے کے لیے رقم دینا چوری ڈاکہ جوئے کے ذریعے مدد کرنا کسی کو حرام کے ذریعے رقم دے کر مدد کرنا۔

گناہوں پر مدد کرنے کا شرعی حکم: گناہوں پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔ آیت مبارکہ میں ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

گناہوں پر مدد کے گناہ میں مبتلا ہونے کے اسباب: علم دین سے دوری کئی صورتوں میں لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی گناہ پر مدد کرنا ہے برے لوگوں سے دوستی اور میل جول کہ بعض اوقات آدمی مروت میں آکر گناہ کے کام میں ان کی مدد کر بیٹھتا ہے مال جمع کرنے کا لالچ دوسروں کو بے وقوف بنا کر خوش ہونا جوا کھیلنے والے برے لوگوں کے پاس اٹھنا بیٹھنا، دولت کی حرص دنیا کی محبت میں راتوں رات امیر بننے کی خواہش، اچھی تربیت نہ ہونا، شروع سے ہی اگر بچوں کی اچھی تربیت پر توجہ نہ دی جائے تو ان کو چوری وغیرہ برائیوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

گناہوں پر مدد کے گناہ سے بچنے کے لیے علم دین حاصل کیجیے بری صحبت سے بچیے اور پابند شریعت نیک پرہیزگاروں کے صحبت اختیار کیجیے، بےجا مروت سے پیچھا چھڑائیے، اپنے دل میں احترام مسلم کا جذبہ بیدار کیجیے، مال و دولت کا لالچ خود سے دور کر دیجیے کہ یہ بہت برا مرض ہے، قبر کی تنگی و حشت اور قیامت کی ہولناکیوں کو کثرت کے ساتھ یاد کیجئے ان شاءاللہ گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے گا۔

اللہ پاک ہمیں گناہوں سے بچائے اور نیکیاں کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔


انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے۔ اس لئے اسے چاہیے کہ صحیح معنوں میں الله پاک کا بندہ بننے کی کوشش کرے۔ دوسروں کو تکلیف نہ دے۔ بلکہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرے۔ لیکن مددکرنے کے حوالے سے بھی خیال رکھنا ہے کہ الله کی نافرمانی اور گناہ کے کاموں میں مدد نہیں کرنی بلکہ اچھے اور الله کی رضا والے کاموں میں مدد کرنی ہے۔

گناہ پر مدد کرنے کے بارے میں الله پاک قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دوباتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اورپرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔(2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔

بر سے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقوٰی سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔

اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سے مراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں: نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے۔ (صاوی، 2/469) حضرت نواس بن سمعان رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرم ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔ (ترمذی، 4/173، حدیث: 2396)

یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے، نیکی اورتقوٰی میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں اور اثم اور عدوان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔

علم دین کی اشاعت میں وقت، مال، درس و تدریس اور تحریر وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا،دین اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا،اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا، نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا،ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک(Social Work)اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہیں۔ گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائزہے۔

گناہ پر مدد کی صورتیں گناہ پر مدد کی چند صورتیں ہیں۔ کسی کو شراب پینے کے لئے رقم دینا جوا کھیلنے کے لیے رقم دینا جو فرض ہونے کے باوجود بلا عذر شرعی رمضان کا روزہ نہ رکھے یا توڑ دے اس کو کچھ کھلانا پلانا کسی کو گناہ کے حالات مثلا میوزک سسٹم خریدنے کے لیے رقم دینا مختلف کھیل مثلا کرکٹ، لڈو، تاش اور شترنج وغیرہ میں مدد کرنا چوری، ڈاکا زنی میں مدد کرنا وغیرہ گناہ پر مدد کرنے کی صورتیں ہیں۔

شرعی حکم: گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔

گناہ پر مدد کرنے کے گناہ سے بچنے کی صورتیں: اچھی صحبت اختیار کیجئے۔ گناہوں پر مدد کرنے کے گناہ کی معلومات حاصل کیجئے۔ علم دین حاصل کیجیے۔ بری صحبت سے بچیے۔ خوف خدا پیدا کیجئے۔ پابند شریعت اور نیک پرہیزگار لوگوں کی صحبتیں اختیارکیجیے۔، بےجا امور سے پیچھا چھرائیے۔ قبر کی تنگی و وحشت اور قیامت کی ہولناکیوں کو کثرت کے ساتھ یاد کیجیے ان شاءاللہ گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کے کا ذہن بنے گا۔

الله پاک ہمیں نیکی کے کاموں میں مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


معاشرے میں اگر نظر دورائی جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک تعداد ایسی بھی ہے جو گناہ کرنے پر دوسروں کی مدد کرتی ہے جو جو مسلمان آقا علیہ السلام کے دور انور سے دور ہورہے ہیں ایک نیکیوں سے بھی دور ہوتے جارہے پیاری اسلامی بہنوں مضمون کو بغور پڑھئے ان شاءاللہ الکریم برائیوں سے بچنے کا ذہن بنے گا قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، 2/278)

احادیث مبارکہ:

عذاب میں مبتلاہونے کا سبب: سرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی قوم میں جو شخص گناہوں میں سرگرم ہواور وہ لوگ قدرت کے باوجود اس کو نہ روکیں تواللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے انہیں عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (ابو داود، 4 / 164، حدیث: 4339)

ذمہ سے بری ہونے کی وعید: جس نے کسی ظالم کے باطل کام پر اس کی مدد کی تاکہ وہ اس کے باطل کام کے ارتکاب کی وجہ سے حق کو باطل کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ذمہ سے بری ہے۔ (معجم اوسط، 2 / 180، حدیث: 2944)

برے کام کے موجد کا انجام: اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہوگا اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہوگا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)

جھگڑے پر ناحق مدد: حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی جھگڑے پر ناحق مدد کی تو وہ تب تک اللہ تعالیٰ کے شدید غضب میں رہے گا جب تک (اس مدد کو) چھوڑ نہیں دیتا۔ (مستدرک، 5 / 135، حدیث: 7133)

گناہ پر تعاون کی بعض مثالیں: رشوتیں لے کر معاملات بدل دینا، سینما گھر بنانا،کسی کی ہمدردی میں جھوٹی گواہی دینا،برائی دیکھ روکنے پر قدرت ہونے کے باوجود نہ روکنا وغیرہ۔

ہم سب بھی خود پر غور کرلیں کہ کہیں ہم بھی تو گناہ میں تعاون کرنے والوں میں شامل تو نہیں اور اگر جواب مثبت میں ہو تو فورا سے توبہ کی ترکیب اور ممکنہ حد تک دوسروں کو گناہوں روکنے کی نیت فرمالیتی ہیں۔

گناہوں سے بچنے کا ایک نسخہ مع روحانی علاج: جب بھی گناہ کرنے کی طرف نفس و شیطان راغب کریں تو موت کے تصور میں گم ہوجانے کی عادت بنالیجیے گھپ اندھیری قبر کا قبر کی وحشت کا ذہن میں لائیے ان شاء اللہ الکریم نیکیاں کرنے گناہوں سے بچنے اور بچانے کا مدنی ذہن بنے گا۔

روحانی علاج: سورۃ الاخلاص 11 بار صبح پڑھئے۔ اگر شیطان مع اپنے لشکر کوشش کرے کہ اس سے گناہ کرائے نہ کراسکے جب تک کہ یہ خود نہ کرے۔ (الوظیفۃ الکریمۃ، ص 21)


گناہ پر مدد کا حکم گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 93) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو (2)باتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اورپرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔(2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔

آیت مبارکہ پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ گناہ پر مدد نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم اپنے معاشرے پر غور کریں تو اب بس لوگوں میں یہی بات پائے جاتی کہ گناہ کرنا ہی گناہ ہے۔ گناہ پر مدد کرنا گویا کہ کوئی عیب ہی نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر ہم قرآن و حدیث پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ گناہ پر مدد کرنا بھی عذاب کا باعث بن سکتا ہے۔ اب چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں کہ جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ گناہ پر مدد کیسے کی جاتی ہے۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

کسی کو شراب پینے یا جوا کھیلنے کے لیے رقم دینا۔ پیشہ ور بھکاریوں کو کچھ دینا۔ جو فرض ہونے کے باوجود بلا عزر شرعی رمضان کا روزہ نہ رکھے یا توڑ دے اسکو کچھ کھلانا پلانا۔ کسی کو گناہ کے آلات مثلا میوزک سسٹم خریدنے کے لیے رقم دینا۔

اب ہم اگر مذکورہ بالا صورتوں پر غور کریں تو یہ بات معلوم ہوگی کہ ان صورتوں پر تو ہمارا اکثر عمل ہوتا ہے مثلا کوئی شرابی دروازے پر مانگنے آ جائے یا پیشہ ور فقیر تو ہم انکو کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں یہ بھی گناہ پر مدد ہی ہوئی اور اس مدد کے بدلے ہمیں ثواب نہیں ملے گا بلکہ الٹا گناہ ہی ملے گا۔ لیکن اب یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمیں یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ یہ شرابی ہے یا پیشہ ور فقیر تو اس صورت میں ہم غور و فکر کیے بغیر دینے پر بھی گناہ گار ہوں گے۔ اس گناہ سے بچنے کا ہمارے پاس بہت ہی پیارا حل ہے کہ ہمیں ہمارے پیرومرشد مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نے پیاری دعوت اسلامی عطا کی ہم اپنے صدقات وغیرہ اس دعوت اسلامی کو دیں۔تاکہ ہم صدقہ وغیرہ کسی شرعی فقیر کو دے سکیں۔

نیز اس ضمن میں کئی احادیث مبارکہ بھی منقول ہیں:

رسول اللہ ﷺ نےشب معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:جہنم کے چوتھے دروازے پر یہ 3 جملے لکھے تھے خدا اس شخص کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے جو اسلام کو رسوا کرے اور اہلیبیت کو رسوا کرے اورجوظالم کی اس کے ظلم میں کرے مدد۔

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے کسی کو گمراہی کی دعوت دی اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ کا بوجھ ہوگا اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (مسلم، ص 1438، حدیث: 2674)

الله پاک ہمیں نیکی پر مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


گناہ پر مدد کا حکم: گناہ کے کام پر مدد کرنا گناہ کبیرہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔ اس آیت مبارکہ کے تحت احکام القرآن للجصاص میں ہے: اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں پر کسی کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، 3/296)

محیط برہانی میں ہے: گناہوں اور فسق و فجور کے کاموں پر مدد کرنا اور اس پر ابھارنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (محیط برہانی، 8/312)

اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹)6، المائدۃ: 78) ترجمہ کنز الایمان: جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے۔

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : آیت سے ثابت ہوا کہ نہی منکر یعنی برائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور بدی کو منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے۔ ترمذی شریف کی حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے اوّل تو انہیں منع کیا جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ علماء بھی ان سے مل گئے اور کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے، ان کے اس عصیان و تعدّی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد و حضرت عیسیٰ علیہما السّلام کی زبان سے ان پر لعنت اتاری۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 107، 108)

گناہ پر مدد کی صورتیں:

1- کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے کسی بھی قسم کا تعاون کرنا۔

2- رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا۔

3- ظالم و مجرم کے حق میں جھوٹی گواہی دینا۔

4- ظالم کے ظلم کرنے میں اسکی مدد کرنا اس کو روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا۔

5- حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں یا بینکوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا۔

نیز آج کے دور میں سوشل میڈیا بھی گناہ پر مدد کرنے کا سنگین زریعہ بنا ہوا ہے عوام الناس بے پردہ، فحاشی پھیلانے والی عورتوں اور مردوں کی میوزیکل ویڈیو کلپس نا صرف دیکھتے بلکہ اسے دیکھنے کے بعد اپنی پسند کا اظہار کرتے ہیں جس سے ان لوگوں کو حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ مالی تعاون بھی حاصل ہوتا ہے۔

الله کریم ہمیں دور پرفتن کے مہلک فتنوں سے محفوظ فرمائے، گناہوں سے بچنے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

اس آیت مبارکہ میں جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں نیکی میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اس کے ساتھ گناہ پر مدد کرنے سے منع فرمایا ہے۔

ہمیں گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے تعاون کرنا، رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، ظالم کا اس کے ظلم میں ساتھ دینا، حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، بدی کے اڈوں میں نوکری کرنا یہ سب ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائز ہے۔

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ظالم کی پاکیزگی بیان کرنا اور تعریف کرنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔(احیاء علوم الدین، 2 / 179، 180)

قرآن مجید میں ایک اور جگہ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹)6، المائدۃ: 78) ترجمہ کنز الایمان: جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے۔

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: آیت سے ثابت ہوا کہ نہی منکر یعنی برائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور بدی کو منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے اوّل تو انہیں منع کیا جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ علماء بھی ان سے مل گئے اور کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے، ان کے اس عصیان و تعدّی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد و حضرت عیسیٰ علیہما السّلام کی زبان سے ان پر لعنت اتاری۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 107، 108)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حدوداللہ میں مداہنت کرنے والا (یعنی خلاف شرع چیز دیکھے اور باوجود قدرت منع نہ کرے اس کی) اور ان میں مبتلا ہونے والے کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کشتی میں قرعہ اندازی کی،تو بعض کے حصّے میں نیچے والا حصّہ آیااور بعض کے حصّے میں اوپر والا۔پس نیچے والوں کو پانی کے لیے اوپر والوں کے پاس جانا ہوتا تھا،تو انہوں نے ا سے زحمت شمار کرتے ہوئے ایک کلہاڑ ی لی اورکشتی کے نچلے حصّے میں ایک شخص سوراخ کرنے لگا،تو اوپر والے اس کے پاس آئے اور کہا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟کہا کہ تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بغیر گزارہ نہیں۔اب اگر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تو بچا لیا او ر خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اسے چھوڑے رکھا تو اسے ہلاک کریں گے اور اپنی جانوں کو بھی ہلاک کریں گے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 108، 109)

مداہنت (یعنی برائی کو دیکھ کر قدرت کے باوجود نہ روکنا یا کسی دنیوی فائدے کی خاطر دین میں نرمی یا خاموشی اختیار کرنا)حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 109)

اللہ پاک ہمیں گناہ پر ایک دوسرے کی مدد کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


گناہ پر مدد کرنا اسلام میں ایک سخت ممنوع عمل ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں واضح طور پر اس عمل کی مذمت کی گئی ہے۔ اس بارے میں کچھ اہم قرآنی آیات اور احادیث پیش خدمت ہیں:

قرآنی آیات:

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَاۚ-وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَاؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا(۸۵) (پ 5، النساء: 85) ترجمہ: جو شخص نیکی کی سفارش کرے گا اسے اس کا کچھ حصہ ملے گا، اور جو شخص برائی کی سفارش کرے گا اسے بھی اس کا کچھ حصہ ملے گا، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

احادیث:

1۔ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ یا تو خیر کہے یا خاموش رہے۔ (بخاری، 4/240، حدیث: 6475)

2۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی بدعت یا گناہ میں معاونت کرتا ہے، وہ بھی اسی گناہ میں برابر کا شریک ہے۔

خلاصہ: اسلام میں گناہ پر مدد کرنا سختی سے منع ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی میں اس کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور گناہ اور زیادتی میں ہرگز شریک نہ ہوں۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو اللہ کی سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اعمال کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

گناہوں پر مدد کی چند صورتیں: کسی کو شراب پینے یا جوا کھیلنے کے لئے رقم دینا پیشہ ور بھکاریوں کو کچھ دینا جو فرض ہونے کے باوجود بلا عذر شرعی رمضان کا روزہ نہ رکھے یا توڑ دے اس کو کچھ کھلانا پلانا، کسی کو گناہ کے آلات مثلاً میوزک سسٹم خریدنے کے لئے رقم دینا وغیرہ۔

گناہ پر مدد کرنے کا شرعی حکم: گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔ قرآن پاک میں گناہ پر مدد کرنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

گناہوں پر مدد کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: علم دین سے دوری (کئی صورتوں میں لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی گناہ پر مدد کرنا ہے، برے لوگوں سے دوستی و میل جول کہ بعض اوقات آدمی مروت میں آکر گناہ کے کام میں ان کی مدد کر بیٹھتا ہے۔

گناہوں پر مدد کے گناہ سے بچنے کے لئے علم دین حاصل کیجئےبری صحبت سے بچئے اور پابند شریعت نیک پرہیز گار لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے، بے جا مروت سے پیچھا چھڑائیے۔

گناہ پر تعاون کرنا کیسا؟ گناه پر تعاون کی ممانعت کا حکم قرآن پاک میں بالکل واضح طور پر موجود ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

قرآن پاک کی نص قطعی موجود ہے کہ گناہ پردوسرے کی مدد کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ گناہ سے روکا جائے۔ اس حوالے سے ایک بڑی دلچسپ حدیث مبارک ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمايا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول ﷺ ! مظلوم کی تو ہم مدد کریں، لیکن کیا ظالم کی بھی مدد کریں؟ فرمایا: ہاں اور ظالم کی مدد یہ ہے کہ تم اسے ظلم سے روک دو۔ یہ ظالم کی مدد یوں ہے کہ اس کی آخرت کے لیے مفید ہے۔ تو گنہگار کی مدد یہ ہے کہ اسے گناہ سے روک دیا جائے۔ (بخاری، 3/128، حدیث :2443)اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے، جو دوستی یاری نبھانے کے چکر میں ایک دوسرے کی گناہ میں معاونت کرتے ہیں اور اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ دوستی کا حق ادا کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے ظاہری باطنی امراض اور گناہوں سے محفوظ ہمیں نیک بنائے اور نیکیوں پر استقامت عطا فرمائے۔آمین جو دوستی یاری نبھانے کے چکر میں ایک دوسرے کی گناہ میں معاونت کرتے ہیں اور اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ دوستی کا حق ادا کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے ظاہری باطنی امراض اور گناہوں سے محفوظ ہمیں نیک بنائے اور نیکیوں پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامين

گناہ پر مدد کی ممانعت کا حکم قرآن پاک میں بالکل واضح طور پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

قرآن پاک کی نص قطعی موجود ہے کہ گناہ پردوسرے کی مدد کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ گناہ سے روکا جائے اس حوالے سے ایک بڑی دلچسپ حدیث مبارک ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول ﷺ ! مظلوم کی تو ہم مدد کریں، لیکن کیا ظالم کی بھی مدد کریں؟ فرمایا: ہاں !اورظالم کی مدد یہ ہے کہ تم اسے ظلم سے روک دو۔ یہ ظالم کی مدد یوں ہے کہ اس کی آخرت کے لیے مفید ہے۔تو گنہگار کی مدد یہ ہے کہ اسے گناہ سے روک دیا جائے۔ (بخاری، 3/128، حدیث :2443)

اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے، جو دوستی یاری نبھانے کے چکر میں ایک دوسرے کی گناہ میں معاونت کرتے ہیں اور اپنے طور پر سمجھتےہیں کہ دوستی کا حق ادا کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے ظاہری باطنی امراض اور گناہوں سے محفوظ رکھے، ہمیں نیک بنائے اورنیکیوں پر استقامت عطا فرمائے۔

سرکار نامدار ﷺ نے فرمایا: بےشک نیکی کی راہ دکھانے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔ (ترمذی، 4/305، حدیث: 2679)

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی کرنے والا، کرانے والا، بتانے والا (اور) مشورہ دینے والا سب ثواب کے مستحق (یعنی حقدار) ہیں۔ (مراة المناجیح، 1/ 194)

سبحان اللہ! نیکی کی دعوت کے دینی کام میں اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ جائز طریقے پر تعاون کرنے والا بھی اجر و ثواب کا حقدار ہوتا ہے۔ اس میں حکمِ قرآنی پر عمل کی بھی نیت کی جاسکتی ہے۔ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

خاتم النبين ﷺ کا فرمان دلنشین ہے: جو ہدایت کی طرف بلائے اس کو تمام عاملین (یعنی عمل کرنے والوں) کی طرح ثواب ملے گا اور اس سے ان ( عمل کرنے والوں) کے اپنے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا۔ اور جو گمراہی کی طرف بلائے تو اس پر تمام پیروی کرنے والے گمراہوں کے برابر گناہ ہو گا اور یہ ان کے گناہوں سے کچھ کم نہ کرے گا۔(مسلم، ص 1438، حدیث: 2674)

لاکھوں نیکیاں اور لاکھوں گناہ: مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ حکم عام ہے یعنی نبی ﷺ اور ان کے صدقے سے تمام صحابہ، ائمہ مجتہدین، علماء متقدمین و متاخرین سب کو شامل ہے مثلاً اگر کسی کی تبلیغ سے ایک لاکھ نمازی بنیں تو اس مبلغ کو ہر وقت ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہو گا اور ان نمازیوں کو اپنی اپنی نمازوں کا ثواب، اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ثواب مخلوق کے اندازے سے وراء ہے۔ رب کریم فرماتا ہے: وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍۚ(۳) (پ 29، القلم: 3) ترجمہ کنز الایمان: اور ضرور تمہارے لئے بے انتہا ثواب ہے۔ ایسے ہی وہ مصنفین جن کی کتابوں سے لوگ ہدایت پارہے ہیں قیامت تک لاکھوں کا ثواب انہیں پہنچتا رہے گا، یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں: وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ(۳۹) (پ 27، النجم : 39) ترجمہ کنز الایمان: آدمی نہ پائے گا مگر اپنی کوشش۔ کیونکہ یہ ثوابوں کی زیادتی اس کے عمل کی تبلیغ کا نتیجہ ہے۔ مزید فرماتے ہیں: اس میں گمراہیوں کے موجدین مبلغین (گمراہی ایجاد کرنے اور گمراہی دوسروں کو پہنچانے والے) سب شامل ہیں تاقیامت ان کو ہر وقت لاکھوں گناہ پہنچتے رہیں گے۔ (مراۃ المناجیح، 1 / 160)

خلاصہ کلام: تاہم گناہوں کی تبلیغ کرنا گناہوں کے راستے دکھانا، گناہوں کے نئے نئے طریقے نکالنا گناہ پر مدد کرنا ہی ہے۔ شادی بیا ہ کے نام پر گناہوں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا، ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار قائم کرنا اور اس پر مختلف ریسٹورنٹ میں ڈسکاؤنٹ وغیرہ مہیا کر کے انتظامات کرنا، کالجز یونیورسٹیز میں گیٹ ٹوگیدر(get together )کا انتظام کرنا، سینما ہال وغیرہ قائم کرنا اور اس پر ایڈورٹائزمنٹ کرنا وغیرہ گناہوں پر مدد کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں کی پہچان عطا کرے، نیکیوں کی تبلیغ کا جذبہ عنایت کرے، گناہ پر مدد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور گناہ گاروں کی رہنمائی اور اصلاح کی کوشش کرنے اور گناہوں کی روک تھام کرنے کی کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


انسانوں میں گناہوں کی جانب رغبت کا میلان موجود ہے انسان کا نفس امارہ اسے ہر وقت گناہوں میں مبتلا کرنے کی کوشش میں رہتا ہے جب ایک عقل رکھنے والا انسان کسی گناہ يا غلط كام کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ وہ یہ غلط کام گناہ و زیادتی کر رہا ہے الله پاک کے فرمان سے بغاوت کر کے اس کی ناراضگی کو دعوت دے رہا ہے پیارے آقا ﷺ کے طریقے کی مخالفت کر رہا ہے اس طرح وہ اپنی دنیا و آخرت داؤ پر لگا دیتا ہے گناہ پر مدد کرنے پر جب اس کا ضمیر اس کو ندا دیتا ہے تو وہ یہ کہہ کر چپ کروا دیتا ہے کہ ابھی عمر پڑی ہے میں جلد توبہ کر لوں گا اس طرح وہ اس امید پر دل کو بہلاتا رہتا ہے اور گناہوں کی گہری دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا ہے: (1)نیکی اورپرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔(2) گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرنے کا۔

بر سے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقوٰی سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔ اثم سے مراد گناہ ہے اور عدوان سے مراد اللہ تعالیٰ کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ (جلالین، ص94) ایک قول یہ ہے کہ اثم سے مراد کفر ہے اور عدوان سے مراد ظلم یا بدعت ہےجاتا ہے۔

حضرت نواس بن سمعان رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرم ﷺ سےنیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ ﷺ نےارشادفرمایا: نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔ (ترمذی، 4/173، حدیث: 2396)

رسول اللہ ﷺ نےشب معراج کا ذکر کرتے ہوے فرمایا:جہنم کے چوتھے دروازے پر یہ 3 جملے لکھے تھے خدا اس شخص کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے جو اسلام کو رسوا کرے اور اہل بیت کو رسوا کرے اورجوظالم کی اس کے ظلم میں کرے مدد۔

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے کسی کو گمراہی کی دعوت دی اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ کا بوجھ ہوگا اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (مسلم، ص 1438، حدیث: 2674)

الله پاک ہمیں نیکی پر مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


گناہ پر مدد کرنے کا شرعی حکم گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔ قرآن پاک میں گناہ پر مدد کرنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

گناہوں پر مدد کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب علمِ دین سے دوری کئی صورتوں میں لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی گناہ پر مدد کرنا ہے برے لوگوں سے دوستی و میل جول کہ بعض اوقات آدمی مروت میں آکر گناہ کے کام میں ان کی مدد کر بیٹھتا ہے۔

گناہوں پر مدد کے گناہ سے بچنے کے لئے: علم دین حاصل کیجئے بری صحبت سے بچئے اور پابندِ شریعت نیک پرہیزگار لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے۔ بے جا مروت سے پیچھا چھڑائیے۔

گناہ پر تعاون کرنا کیسا؟ گناه پر تعاون کی ممانعت کا حکم قرآن پاک میں بالکل واضح طور پر موجود ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

قرآن پاک کی نص قطعی موجود ہے کہ گناہ پردوسرے کی مدد کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ گناہ سے روکا جائے۔ اس حوالے سے ایک بڑی دلچسپ حدیث مبارک ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمايا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مظلوم کی تو ہم مدد کریں، لیکن کیا ظالم کی بھی مدد کریں؟ فرمایا: ہاں اور ظالم کی مدد یہ ہے کہ تم اسے ظلم سے روک دو۔ یہ ظالم کی مدد یوں ہے کہ اس کی آخرت کے لیے مفید ہے۔ تو گنہگار کی مدد یہ ہے کہ اسے گناہ سے روک دیا جائے۔ (بخاری، 3/128، حدیث :2443)اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے، جو دوستی یاری نبھانے کے چکر میں ایک دوسرے کی گناہ میں معاونت کرتے ہیں اور اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ دوستی کا حق ادا کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے ظاہری باطنی امراض اور گناہوں سے محفوظ ہمیں نیک بنائے اور نیکیوں پر استقامت عطا فرمائے۔