گناہ پر مدد کی ممانعت کا حکم قرآن پاک میں بالکل واضح طور پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

قرآن پاک کی نص قطعی موجود ہے کہ گناہ پردوسرے کی مدد کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ گناہ سے روکا جائے اس حوالے سے ایک بڑی دلچسپ حدیث مبارک ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول ﷺ ! مظلوم کی تو ہم مدد کریں، لیکن کیا ظالم کی بھی مدد کریں؟ فرمایا: ہاں !اورظالم کی مدد یہ ہے کہ تم اسے ظلم سے روک دو۔ یہ ظالم کی مدد یوں ہے کہ اس کی آخرت کے لیے مفید ہے۔تو گنہگار کی مدد یہ ہے کہ اسے گناہ سے روک دیا جائے۔ (بخاری، 3/128، حدیث :2443)

اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے، جو دوستی یاری نبھانے کے چکر میں ایک دوسرے کی گناہ میں معاونت کرتے ہیں اور اپنے طور پر سمجھتےہیں کہ دوستی کا حق ادا کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے ظاہری باطنی امراض اور گناہوں سے محفوظ رکھے، ہمیں نیک بنائے اورنیکیوں پر استقامت عطا فرمائے۔

سرکار نامدار ﷺ نے فرمایا: بےشک نیکی کی راہ دکھانے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔ (ترمذی، 4/305، حدیث: 2679)

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی کرنے والا، کرانے والا، بتانے والا (اور) مشورہ دینے والا سب ثواب کے مستحق (یعنی حقدار) ہیں۔ (مراة المناجیح، 1/ 194)

سبحان اللہ! نیکی کی دعوت کے دینی کام میں اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ جائز طریقے پر تعاون کرنے والا بھی اجر و ثواب کا حقدار ہوتا ہے۔ اس میں حکمِ قرآنی پر عمل کی بھی نیت کی جاسکتی ہے۔ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

خاتم النبين ﷺ کا فرمان دلنشین ہے: جو ہدایت کی طرف بلائے اس کو تمام عاملین (یعنی عمل کرنے والوں) کی طرح ثواب ملے گا اور اس سے ان ( عمل کرنے والوں) کے اپنے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا۔ اور جو گمراہی کی طرف بلائے تو اس پر تمام پیروی کرنے والے گمراہوں کے برابر گناہ ہو گا اور یہ ان کے گناہوں سے کچھ کم نہ کرے گا۔(مسلم، ص 1438، حدیث: 2674)

لاکھوں نیکیاں اور لاکھوں گناہ: مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ حکم عام ہے یعنی نبی ﷺ اور ان کے صدقے سے تمام صحابہ، ائمہ مجتہدین، علماء متقدمین و متاخرین سب کو شامل ہے مثلاً اگر کسی کی تبلیغ سے ایک لاکھ نمازی بنیں تو اس مبلغ کو ہر وقت ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہو گا اور ان نمازیوں کو اپنی اپنی نمازوں کا ثواب، اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ثواب مخلوق کے اندازے سے وراء ہے۔ رب کریم فرماتا ہے: وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍۚ(۳) (پ 29، القلم: 3) ترجمہ کنز الایمان: اور ضرور تمہارے لئے بے انتہا ثواب ہے۔ ایسے ہی وہ مصنفین جن کی کتابوں سے لوگ ہدایت پارہے ہیں قیامت تک لاکھوں کا ثواب انہیں پہنچتا رہے گا، یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں: وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ(۳۹) (پ 27، النجم : 39) ترجمہ کنز الایمان: آدمی نہ پائے گا مگر اپنی کوشش۔ کیونکہ یہ ثوابوں کی زیادتی اس کے عمل کی تبلیغ کا نتیجہ ہے۔ مزید فرماتے ہیں: اس میں گمراہیوں کے موجدین مبلغین (گمراہی ایجاد کرنے اور گمراہی دوسروں کو پہنچانے والے) سب شامل ہیں تاقیامت ان کو ہر وقت لاکھوں گناہ پہنچتے رہیں گے۔ (مراۃ المناجیح، 1 / 160)

خلاصہ کلام: تاہم گناہوں کی تبلیغ کرنا گناہوں کے راستے دکھانا، گناہوں کے نئے نئے طریقے نکالنا گناہ پر مدد کرنا ہی ہے۔ شادی بیا ہ کے نام پر گناہوں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا، ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار قائم کرنا اور اس پر مختلف ریسٹورنٹ میں ڈسکاؤنٹ وغیرہ مہیا کر کے انتظامات کرنا، کالجز یونیورسٹیز میں گیٹ ٹوگیدر(get together )کا انتظام کرنا، سینما ہال وغیرہ قائم کرنا اور اس پر ایڈورٹائزمنٹ کرنا وغیرہ گناہوں پر مدد کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں کی پہچان عطا کرے، نیکیوں کی تبلیغ کا جذبہ عنایت کرے، گناہ پر مدد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور گناہ گاروں کی رہنمائی اور اصلاح کی کوشش کرنے اور گناہوں کی روک تھام کرنے کی کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ