گناہ پر مدد کرنے کا شرعی حکم گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے۔ قرآن پاک میں گناہ پر مدد کرنے کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

گناہوں پر مدد کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب علمِ دین سے دوری کئی صورتوں میں لوگوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ یہ بھی گناہ پر مدد کرنا ہے برے لوگوں سے دوستی و میل جول کہ بعض اوقات آدمی مروت میں آکر گناہ کے کام میں ان کی مدد کر بیٹھتا ہے۔

گناہوں پر مدد کے گناہ سے بچنے کے لئے: علم دین حاصل کیجئے بری صحبت سے بچئے اور پابندِ شریعت نیک پرہیزگار لوگوں کی صحبت اختیار کیجئے۔ بے جا مروت سے پیچھا چھڑائیے۔

گناہ پر تعاون کرنا کیسا؟ گناه پر تعاون کی ممانعت کا حکم قرآن پاک میں بالکل واضح طور پر موجود ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔

قرآن پاک کی نص قطعی موجود ہے کہ گناہ پردوسرے کی مدد کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ حکم یہ ہے کہ گناہ سے روکا جائے۔ اس حوالے سے ایک بڑی دلچسپ حدیث مبارک ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمايا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مظلوم کی تو ہم مدد کریں، لیکن کیا ظالم کی بھی مدد کریں؟ فرمایا: ہاں اور ظالم کی مدد یہ ہے کہ تم اسے ظلم سے روک دو۔ یہ ظالم کی مدد یوں ہے کہ اس کی آخرت کے لیے مفید ہے۔ تو گنہگار کی مدد یہ ہے کہ اسے گناہ سے روک دیا جائے۔ (بخاری، 3/128، حدیث :2443)اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے، جو دوستی یاری نبھانے کے چکر میں ایک دوسرے کی گناہ میں معاونت کرتے ہیں اور اپنے طور پر سمجھتے ہیں کہ دوستی کا حق ادا کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے ظاہری باطنی امراض اور گناہوں سے محفوظ ہمیں نیک بنائے اور نیکیوں پر استقامت عطا فرمائے۔