قرآن کریم اور احادیث طیبہ میں فضول خرچی کی سخت
ممانعت اور مذمت بیان کی گئی ہے اور اس کے سبب معاشرے میں رونما ہونے والے بھیانک
اثرات اور برے نتائج کو بھی بیان کیا گیا۔ دین اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو
ہر شعبہ زندگی میں سادگی،میانہ روی و اعتدال کو پسند کرتا ہے اور فضول خرچی و عیش
و عشرت سے منع کرتا ہے۔
قرآن پاک میں فضول خرچی کے لیے اسراف اور تبذیر کے
الفاظ استعمال فرمائے گئے۔
اسراف اور تبذیر میں فرق: اس کے متعلق علمائے کرام کے دو قول ہیں: (1)
اسراف اور تبذیر دونوں ایک ہی معنی میں ہیں ان کا معنی ناحق صرف کرنا ہے۔ (2)
اسراف اور تبذیر میں فرق ہے، تبذیر خاص گناہوں میں مال برباد کرنے کا نام ہے۔
آئیے اب اسراف کے لغوی و اصطلاحی معنی کے بارے میں
جانتے ہیں۔ چنانچہ اسراف کے لغوی معنی ہیں بے موقع و بے جا خرچ کرنا اور خرچ کرنے
میں حد سے گزر جانا اور اصطلاح میں جس جگہ شرعا عادتا مروة خرچ کرنا منع ہو وہاں
خرچ کرنا مثلا فسق وفجور و گناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح
خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چوڑ دینا اسراف کہلاتا ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 301 تا302)
فضول خرچی کا حکم: اسراف
اگر خلاف شرع ہو تو حرام ہے اور اگر خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 307)
اسراف کی ممانعت : اللہ
رب العزت نے اسراف سے ممانعت فرما کر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا: ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)
(پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے
اسے پسند نہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ
السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)
(پ 15، الاسراء: 26) ترجمہ کنز العرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین
اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔
حضور جان عالم ﷺ نے بھی اسراف و فضول خرچی کی سخت
ممانعت فرمائی ہے، ارشاد فرمایا: ہر اس چیز کو کھا لینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔
وضو میں اسراف: حضور
سید عالم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کر رہے تھے تو ارشاد
فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں
اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)
اگر کوئی شخص اپنا سارا مال اس کے مصرف میں خرچ
کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں کہلائے گا لیکن اگر کوئی ایک درہم بھی ناجائز
کام میں خرچ کرتا ہے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہی ہوگا۔
فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی کہا گیا
کیونکہ یہ شیطان کے رستے پر چلتا ہے اللہ پاک نے اس کو مال دیا کہ وہ اس کی اطاعت
والے کاموں میں خرچ کرے اور وہ اس کے بجائے معصیت و رب تعالیٰ کی نافرمانی والے
کاموں میں خرچ کر کے اللہ رب العزت کی ناشکری کرتا ہے۔
اسراف کے اسباب: بسا
اوقات انسان اپنی لاعلمی وجہالت کی وجہ سے اسراف جیسے فعل حرام کا ارتکاب کر گزرتا
ہے اور کبھی غرور و تکبر و تفاخر کے باعث یہ کام کرتا ہے ان اسباب پر غور کر کے ان
کو دور کرنے کی کوشش کی جائے تو اسراف جیسے فعل حرام سے بچا جا سکتا ہے۔