اسراف کی تعریف: جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص 301 تا 302)

اللہ پاک قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

فضول خرچی کرنے کا حکم: اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اورخلاف مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص307)

آج کل بہت زیادہ فضول خرچی کی جا رہی ہے ایک تو لوگ بہت زیادہ فضول خرچی کرتے ہیں اور پھر اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہمارے اخراجات پورے نہیں ہوتے سیلری کم پڑ جاتی ہے مہینے کے آخر میں تو ہمارا گزارا کرنا مشکل ہو جاتا ہے حالانکہ جب انہی لوگوں سے پوچھا جائے کہ آپ نے اپنی سیلری کو اپنی تنخواہ کو کس چیز میں خرچ کیا اگر غور کیا جائے تو بہت ساری چیزیں ایسی سامنے آتی ہیں جن پر خرچ کرنے کی حاجت نہ ہونے کے باوجود اس پر کثیر رقم خرچ کی گئی ہوتی ہے مثال کے طور پر ڈیکوریشن ہونے کے باوجود بلاوجہ ڈیکوریشن کو چینج کرنا چیز بالکل صحیح سلامت ہے اس سے گزارا بھی ہو رہا ہے اس کے باوجود اسے نیا لینا، پیسے نہ ہونے کے باوجود دکھاوے کے لیے شادی کے موقع پر بےشمار پیسے نہ ہونے کے باوجود دکھاوے کے لیے شادی کے موقع پر کثیر رقم خرچ کرنا اس جگہ جس جگہ اس کی ضرورت نہ ہو۔

بعض لوگ ہر سال اپنے گھر کے اشیاء تبدیل کرتے ہیں اپنے شوق سے حالانکہ نہ اس کی کوئی ضرورت ہوتی ہے اور نہ وہ چیز خراب بھی ہوتی ہے اس کے باوجود محض شوقیہ اپنی چیزوں کو چینج کرتے ہیں اور اس پر کثیر رقم خرچ کرتے ہیں۔

اسی طرح جب بات آئے خریداری کی تو ایک سوٹ 2000 میں مل سکتا ہے لیکن برانڈڈ لینے کے چکر میں وہی سوٹ 10 ہزار میں بھی لے لیتے ہیں حالانکہ دو ہزار کا سوٹ بھی کفایت کر سکتا ہے۔ انسان کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں۔

بعض وہ لوگ جن کے اندر بد مذہبی کا وائرس ہوتا ہے وہ لوگ خیر کے کاموں میں خرچ کرنے کو فضول خرچی کے اندر ڈال دیتے ہیں ان کو سب سے پہلے قاعدہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسراف (فضول خرچی)میں کوئی بھلائی نہیں اور خیر کے کاموں میں اسراف نہیں۔

یہ لوگ جب بات آئے تو جشن ولادت کے موقع پر ہونے والی لائٹنگ کی تو انہیں کرنٹ لگتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ سب فضول خرچی ہے حالانکہ یہی لوگ اپنے گھروں میں ہونے والی شادیوں کے موقع پر لاکھوں کی لائٹنگ کریں اور وہ فضول خرچی نہ کہلائے لیکن جب بات آئے پیارے نبی ﷺ کی جشن ولادت کے موقع پر ہونے والی لائٹنگ کی تو ان کو سمجھ نہیں آتی۔

اسی طرح جب بات ہو قربانی کی تو انہیں غریب یاد آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قربانی میں کیوں اتنا خرچ کرتے ہو اتنا پیسہ کسی غریب کو دے دو کسی کی بچی کی شادی کر دو لیکن جب یہ لوگ اپنے گھر میں ہونے والی شادیوں کے موقع پر بے جا رسوم وغیرہ پر کثیر رقم خرچ کرتے ہیں اس وقت انہیں غریبوں کے بچے یتیموں کی بچیاں یاد نہیں آتی۔

بس بات یہی ہے کہ کڑوے لوگوں کو میٹھی باتیں سمجھ نہیں آتیں جس کے دل و دماغ پر بد مذہبی کا وائرس ہو اس کو یہ پیاری باتیں سمجھ نہیں آتیں۔ اس کے برعکس وہ شخص جس کا دل محبت الہی اور محبت رسول سے سرشار ہو جس کے دل میں یاد الہی ہو جس کا سر احکامات الہیہ کے آگے سر تسلیم خم ہو تو وہ لوگ نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی بلکہ خرچ کرنے کی جگہ خرچ کرتے ہیں اور ایسی جگہ جہاں خرچ کرنے کی ضرورت نہ ہو وہاں فضول خرچے کر کے اپنے مال کو برباد نہیں کرتے۔

انسان کو چاہیے کہ وہ کفایت شعاری اپنائے کتنی پیاری بات ہے: کفایت شعاری خوشحال زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ اور فضول خرچی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ مشہور کہاوت ہے ضرورت تو فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے لیکن خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہو پاتی۔

اللہ تعالی مسلمانوں کو فضول خرچی سے بچنے اور کفایت شعاری اپنانے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

ڈویژن ذمہ دار شعبہ اسپیشل پرسن ڈیپارٹمنٹ ساہیوال اور صوبائی ذمہ دار FGRFسمیت دیگر ذمہ داران نے 20جنوری 2025 کو ساہیوال سٹی میں اسپیشل ایجوکیشن برائے نابینا افراد میں PRO شیر عمران اور DEO اسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ساہیوال سے ملاقات کی ۔

اس موقع پر نابینا بچوں میں صوبائی ذمہ دار FGRF نے مدنی حلقہ لگایا جس میں صبر کے موضوع پر بیان کیا اور آخر میں دعا کی جبکہ نابینا بچوں میں کچھ تحائف پیش کرتے ہوئے DEO شہباز صاحب کو آخری نبی کی پیاری سیرت کتاب اور PRO شیر عمران صاحب کو آقا کا مہینا رسالہ تحائف پیش کیا۔(محمد زبیر عطاری اسپیشل پرسن ڈیپارٹمنٹ ساہیوال ڈویژن )


جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

احدیث مبارکہ:

1۔ کھاؤ پیو، صدقہ و خیرات کرو، اور پہنو ہر وہ لباس جس میں اسراف و تکبر (فضول خرچی اور گھمنڈ) کی ملاوٹ نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

2۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کا حضرت سعد کے پاس سے گزر ہوا اور وہ وضو کر رہے تھے تو آپﷺ نے دیکھا اور ارشاد فرمایا: یہ اسراف کیسا؟ تو انہوں نے عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! اگرچہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

3۔ وضو کیلئے ایک شیطان ہے جسے ولہان کہا جاتا ہے، لہٰذا تم پانی کے بارے میں وسوسوں سے بچو۔ (ابن ماجہ، 1/252، حدیث: 421)

3۔ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں فقیر ہوں میرے واسطے کچھ بھی مال وغيره موجود نہیں ہے اور ایک یتیم بچے کا میں ولی بھی ہوں۔ آپ نے فرمایا تم اپنے یتیم کے مال میں سے کچھ کھا لیا کرو ليكن تم فضول خرچی نہ کرنا اور تم حد سے زیادہ نہ کھانا اور نہ تم دولت اکٹھا کرنا۔

5۔ مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی نے تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند فرمائی ہیں: ایک بے فائدہ گفتگو دوسرے مال ضائع کرنا اور تیسرے بہت مانگنا۔

7۔ آدمی کو گناہ گار بنا دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ اپنی یا اپنے متعلقین کی روزی کو ضائع کر دے۔

8۔ کچھ لوگ الله تعالیٰ کے مال کو بے جا اڑاتے ہیں، انہیں قیامت کے دن آگ ملے گی۔

اسراف کا حکم: اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

انسان کو یہ تو معلوم ہوتاہے کہ فلاں کام میں خرچ کرنا اسراف ہے لیکن بعض اوقات اپنی غفلت اور لاپرواہی کی بناء پر اسراف میں مبتلا ہوجاتا ہے، وضو کا پانی استعمال کرنے میں نل کھلا چھوڑدینا، گھر، آفس وغیرہ میں بجلی پر چلنے والی اشیاء کو سستی کی وجہ سے کھلاچھوڑدینا بھی اسی سبب کا نتیجہ ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے اندر احساس پیدا کرے، دنیا میں غفلت ولاپرواہی کی بنا پر ہونے والے گناہوں پر آخرت کے مواخذے کو پیش نظر رکھے اور اپنی اس غفلت ولا پرواہی کو دور کرے، نیز اپنے دل میں ربّ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا احساس پیدا کرے، نیز اپنا یہ مدنی ذہن بنائے کہ آج اگر میں نے نعمتوں کی ناشکری کی تو ہوسکتا ہے مجھ سے یہ نعمتیں چھین لی جائیں، لہٰذا میں ان نعمتوں پر اسراف سے بچتے ہوئے شکر کروں گا تاکہ ان میں مزید اضافہ ہو۔

اللہ پاک اور اسکے پیارے حبیب  ﷺ نے ہمیں اعتدال اور میانہ روی کا حکم ارشاد فرمایا جن چیزوں سے منع فرمایا ان میں سے ایک فضول خرچی بھی ہے قرآن پاک میں کئی مقامات پر نصوص قرآنیہ میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ الله رب العزت ارشاد فرماتا ہے: كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔

اسراف کی تعریف: جس جگہ شرعاً، عادتاً یا مروتا خرچ کرنا منع ہو مثلاً فسق و فجور اور گناہ کے کاموں میں خرچ کرنا، اجنبیوں پر خرچ کرنا اور اپنے اہل وعیال کو بے سہارا چھوڑ دینا وغیرہ۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 301 تا 302)

اسراف کا حکم: اسراف اور فضول خرچی خلافِ شرع ہو تو حرام اور خلافِ مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں فضول خرچی کی ممانعت:

1۔ کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

2۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں !اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

3۔ فرمان آخری نبی ﷺ: قیامت کے دن انسان کے قدم نہ ہٹیں گے حتیٰ کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا: اس کی عمرکے بارے میں کہ کن کاموں میں بسر کی۔ اس کی جوانی کے متعلق کہ کس طرح گزاری۔ اس کے مال کے حوالے سے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ اپنے علم پر کتنا خرچ کیا۔

5۔ آ دمی کے اسلام کے حسن سے ہے کہ وہ فضول چیزوں کو چھوڑ دے۔ (ترمذی، 4/142، حدیث: 2324)

فضول خرچی اپنے معنی کے اعتبار سے زندگی کے ہر قسم کے معاملے میں مقررکردہ حد سے تجاوز کرنے اور مخصوص دائرہ کار سے آگے بڑھنے کانام ہے، لیکن اصل میں اس کا مطلب اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں حد سے تجاوز کرنے پر کیا جاتا ہے۔

قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث نبویہ میں فضول خرچی کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں انسانوں کی معاشرتی اور اجتماعی زندگی پر ہونے والے برے اثرات و نتائج کوبیان کیا گیا ہے۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو انسان کی ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف یہ کہ منع کرتا ہے بلکہ اس کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت بھی کرتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں فضول خرچی، بخل تمام ممنوعہ اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے زندگی کے ہر معاملے میں سنت رسول مقبول ﷺ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ نے ہمیں بعض چیزوں سے منع فرمایا ہے اور قرآن و احادیث میں ان کی مذمت ارشاد فرمائی ہے۔ ان میں سے ایک فضول خرچی بھی ہے بہت سی نصوص قرآنیہ میں اس کی ممانعت آئی ہے۔

اسراف کی تعریف: جہاں شرعاً، عادتاً یا مروتا خرچ کرنا منع ہو مثلاً فسق و فجور اور گناہ کے کاموں میں خرچ کرنا، اجنبیوں پر خرچ کرنا اور اپنے اہل وعیال کو بے سہارا چھوڑ دینا وغیرہ۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 301 تا 302)

اسراف کا حکم: اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

قرآن کریم کی روشنی میں فضول خرچی:

1-اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

2-ایک اور جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) (پ 15، الاسراء: 26) ترجمہ کنز العرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔

ترجمہ کنزالایمان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو اور فضول نہ اڑا

3-اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷) (پ 19، الفرقان: 67) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں فضول خرچی:

1۔ کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

2۔ آقا ﷺ نے وضو کرنے میں بھی اسراف کرنے سے منع فرمایا: ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کا گزر حضرت سعد رضی الله عنہ کے پاس سے ہوا اور وہ وضو کر رہے تھے تو آپ نے دیکھا اور فرمایا: یہ اسراف کیسا؟ تو انہوں نے عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ تو سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! اگرچہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

3۔ حضرت ابن عباس نے ارشاد باری تعالیٰ ”اور تم جو چیز بھی خرچ کرو وہ اس کا بدل دے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے“ کے بارے میں فرمایا: اسکا مطلب ہے فضول خرچی نہ ہو اور نہ ہی بخل ہو۔

فضول خرچی کے نقصانات اور ان کے علاج:

1۔ الله پاک کی ناراضگی: فضول خرچی کا پہلا نقصان یہ ہے کہ یہ الله پاک کی ناراضگی کا سبب ہے اس لئے چاہیے کہ الله پاک کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اس کے حرام کردہ کاموں سے بچا جائے اور فضول خرچی نہ کی جائے۔

2-افلاس کا خدشہ: اگر مال خرچ کرنے کے معاملے میں احتیاط نہ کی جائے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ مالدار آدمی مفلس ہو جائے اس لئے چاہیے کہ مال خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کی جائے۔

3-رزق حرام کمانے کی ترغیب: لوگ دوسروں کو دکھانے کےلئے بہت مال خرچ کرتے ہیں اور اس عمل کے دوران حلال اور حرام کے فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور لوگوں پر اپنے مال کی دھاک بٹھانے کے لئے حرام مال کمانے سے گریز نہیں کرتے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ حلال مال کمائے اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو اور اپنے مال کو درست مصرف میں استعمال کرنا چاہیے۔

اللہ پاک ہمیں تمام منع کردہ کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے فضول خرچی اور بخل جیسے گناہوں سے بچائے اور زندگی کے ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 


فیضان مدینہ کراچی میں جاری امامت کورس میں18جنوری2025 کو  مولانا شفقت اللہ مدنی نگران مجلس امامت کورس کی حاضری ہوئی امامت کورس کے اسلامی بھائیوں کی نیک اعمال کرنے کی تربیت فرمائی اور نمایاں کارکردگی والے اسلامی بھائیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تحائف تقسیم کیئے ۔ (رپورٹ :محمد شہزاد عطاری مدنی)


جہاں ہمارا معاشرہ بہت سی برائیوں میں مبتلا ہے وہی فضول خرچی جیسے گناہ میں بھی گرفتار ہے  عام مشاہدہ ہے کہ ایک تعداد ایسی ہے کہ وہ یوں اندھا دھند مال خرچ کررہے ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کا احساس تک ہی نہیں ہوتا کہ وہ فضول خرچی جیسی گناہ میں مبتلا ہوچکے ہیں اسکا لغوی معنی بے جاخرچ کرنا۔

فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اورخلاف مروت جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بےیارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔

اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اورخلاف مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 26، 27)ترجمہ: اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو، بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔ یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، 3 / 172)

کھاؤ اور پیو، گوشت ہو خواہ چکنائی ہو اور اسراف نہ کرو۔ (بغوی، 2 / 131)

کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے فضول خرچی کرنے والوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جو ناحق خرچ کرتے ہیں وہ فضول خرچ ہیں۔

حلال مال میں فضول خرچی کی گنجائش نہیں۔ یعنی حلال مال اس لائق نہیں کہ اسے فضول خرچی کرکے برباد کردیا جائے، اس کی قدر و منزلت کرنی چاہیے یا حلال مال میں فضول خرچی کی گنجائش نہیں وہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ اس میں فضول خرچی کی جائے۔

اسکے اسباب میں لاعلمی اور جہالت، غرور و تکبر، شہرت کی خواہش غفلت اور لاپرواہی وغیرہ شامل ہیں۔

اے عاشقان رسول ﷺ آئیے ہم سب بھی غور کرتے ہیں کہیں ہم بھی فضول خرچی جیسے گناہ میں مبتلا تو نہیں اور اگر ہیں تو گزشتہ گناہوں کی توبہ کرکے آئندہ نا کرنے کا پختہ عزم کرتی ہیں اوراسکے اسباب کو دور کرنے کیلیے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ باطنی بیماریوں کے بارے معلومات کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور اعتدال نصیب فرمائے۔ آمین یارب العالمین


اپنا مال ایسی جگہ پہ خرچ کرنا کہ جہاں پہ صرف کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو یا خرچ کرنے کا مقصد ریاکاری کرنا ہو یا غفلت کی وجہ سے مال خرچ ہو رہا ہو تو یہ سب فضول خرچی میں آتا ہے۔

فضول خرچی کی تعریف: جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق و فجور و گناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل و عیال کو بےیار و مددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتا ہے۔ اسے تبذیر بھی کہتے ہیں۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/28)

اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اورخلاف مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/28)

كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔

اسراف سے متعلق ایک اہم اصول یاد رکھنا چاہیے کہ اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی میں کوئی اسراف نہیں۔ اس لیے ميلاد شریف کے موقع پر جو چراغاں کرتے ہیں وہ اسراف میں نہیں آئے گا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ ہر اس چیز کو کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

2۔ نبی کریم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں !اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

3۔ کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

اسراف کے اسباب یہ ہیں: لا علمی و جہالت، غرور و تكبر، حب مدح، حب جاه اور غفلت و لاپرواہی۔

قارئین کرام! اگر ایک جانب آج کل کے مسلمان رزق ضائع کرتے ہیں تو دوسری جانب بہت سے مسلمان تنگدستی کی وجہ سے فاقوں کا شکار ہیں اس لیے ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ فاقے ہماری روٹی ضائع کرنے کے سبب ہی تو نہیں براہ مدینہ آج ہی سے توبہ کر لیں کیوں کہ بروز حشر ایک ایک ذرے کا حساب ہونا ہے۔

صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے


پیسہ ضائع کرنا ایک وسیع اور تباہ کن عادت ہے جو کسی کی مالی بہبود، تعلقات اور ماحول پر دور رس اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ فضول اشیاء پر بے سوچے سمجھے خرچ کرنا، زبردستی خریداریاں، اور اسراف کی وجہ سے وسائل کی کمی واقع ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں مالی دباؤ، پریشانی اور ضروری ضروریات کو پورا کرنے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ فضول خرچی کے اثرات زندگی کے مختلف پہلوؤں پر محسوس کیے جا سکتے ہیں، ذاتی مالیات سے لے کر ماحول اور مجموعی طور پر معاشرے تک۔

لاپرواہی سے خرچ کرنا قرض کے ایک شیطانی چکر کا باعث بن سکتا ہے، کریڈٹ سکور کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اور مالی تحفظ کو کم کر سکتا ہے۔ مزید برآں، یہ صارفیت کی ثقافت کو بھی برقرار رکھ سکتا ہے، جو ماحولیاتی انحطاط، وسائل کی کمی اور سماجی عدم مساوات میں معاون ہے۔ مادی اثاثوں کی مسلسل تلاش اور تازہ ترین رجحانات زندگی میں واقعی اہم چیزوں سے عدم اطمینان، ناخوشی اور منقطع ہونے کے احساس کو فروغ دے سکتے ہیں۔

مزید برآں، فضول خرچی بھی تعلقات پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے، کیونکہ مالی تناؤ اور پریشانی خاندانی بندھنوں، دوستیوں اور رومانوی شراکتوں کو تناؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ صارفیت کی توقعات کو برقرار رکھنے کا دباؤ ناکافی، کم خود اعتمادی، اور خود قدری کے مسخ شدہ احساس کا باعث بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ، پیسے کے ضیاع کے وسیع تر سماجی اثرات بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ ڈسپوزایبلٹی، فضول خرچی اور استحصال کی ثقافت کو برقرار رکھتا ہے۔ سستی، تیز، اور ڈسپوزایبل مصنوعات کی مسلسل مانگ ایسی صنعتوں کو چلاتی ہے جو لوگوں اور کرہ ارض پر منافع کو ترجیح دیتی ہیں، جس سے ماحولیاتی انحطاط، وسائل کا استحصال اور سماجی ناانصافی ہوتی ہے۔

اپنی خرچ کرنے کی عادات کو ذہن میں رکھ کر اور ہوش میں آکر مالی فیصلے کرنے سے، ہم فضول خرچی کے نقصانات سے بچ سکتے ہیں اور اس کے بجائے کفایت شعاری، دانشمندی اور پائیداری کی ثقافت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ مادی املاک پر تجربات کی قدر کرتے ہوئے، بامعنی رشتوں میں سرمایہ کاری کرکے، اور ماحولیاتی اور سماجی ذمہ داری کو ترجیح دے کر، ہم اپنے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک زیادہ پورا کرنے والا، مساوی، اور پائیدار مستقبل بنا سکتے ہیں۔

غیر حق میں خرچ کرنا فضول خرچی یعنی اسراف کہلاتا ہے، یعنی جس جگہ ضرورت نہ ہو وہاں بے جا خرچ کرنا۔

وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

قیامت کے دن انسان کے قدم نہیں بڑھیں گے حتی کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا: اس کی عمر کے بارے میں کہ کن کاموں میں بسر کی۔ اس کی جوانی کے متعلق کہ کس طرح گزاری اس کے مال کے حوالے سے کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔

اسراف کے متعلق مختلف احکام: اسراف شرع میں مذموم ہے۔ دو صورتوں میں اسراف نا جائز و گناہ ہے: ایک یہ کہ کسی گناہ کے کام میں خرچ و استعمال کریں، دوسرے بے کار میں مال ضائع کریں۔ (3) واضح رہے کہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا مثلاً عید میلاد النبی کے موقع پر گھروں، گلیوں اور محلوں کو سجانا، چراغاں کرنا فضول خرچی نہیں۔ علماء فرماتے ہیں: اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اسراف نہیں۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 174)

فضول خرچی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب یہ ہیں: غرور متکبر ( ایسا شخص دوسروں پر اپنی برتری جتانے کے لئے بےجا دولت خرچ کرتا ہے۔ علم دین سے دوری اپنی واہ واہ کی خواہش غفلت و لا پرواہی و شہرت کی خواہش وغیرہ۔

فضول خرچی سے بچنے کے لیے: اسراف کے انجام پر غور کریں کہ نعمت کی بے قدری کرنے کی وجہ سے اگر وہ نعمت ہم سے چھین لی گئی تو کیسی مشکل پیش آئے گی۔

علمِ دین حاصل کریں تاکہ جہالت کے سبب ہونے والے اسراف سے محفوظ رہیں۔

عاجزی اختیار کیجئے۔

موت کو کثرت سے یاد کیجئے ان شا اللہ دل سے دنیا کی محبت دور ہوگی اور گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے گا۔


اسراف کی تعریف: جس جگہ شرعاً عادتاً یا مروتا خرچ کرنا منع ہو،مثلا فسق و فجور گناہ والی چیزوں پر خرچ کر نا اجنبی لوگوں پر ایسے خرچ کرنا کہ اپنے اہل و عیال کو بےیار و مددگار چھوڑ دینا اسراف ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص301 تا 302)

وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کھاؤ اور پیو صدقہ و خیرات کرو اور پہنو ہر وہ لباس جس میں فضول خرچی اور تکبر نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے فضول خرچی، عیش و عشرت، اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کے شدید مذمت کرتا ہے۔ فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبیہ کی گئی ہے اور ایسا کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔

اسلام مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کھانے کے لیے سونے یا چاندی کے برتنوں کا استعمال مردوں کے لیے ریشمی کپڑے شادی وغیرہ کے موقع پر خواتین کا بے جا اسراف سب فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں جو قطعا حرام ہے اور جن کی مذمت ہمیں نبی پاک ﷺ کی متعدد احادیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔

اسراف کی مختلف صورتیں: شیخ طریقت امیر اہل سنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کی مایہ ناز تصنیف فیضان سنت پر ہے مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ تفسیر نعیمی میں فرماتے ہیں : اسراف کی بہت تفسیریں ہیں: حلال چیزوں کو حرام جاننا۔ حرام چیزوں کو استعمال کرنا۔ ضرورت سے زیادہ کھانا پینا یا پہننا۔ جو دل چاہے وہ کھا پی لینا۔ دن رات میں بار بار کھاتے پیتے رہنا جس سے معدہ خراب ہو جائے بیمار پڑ جائیں۔ ہر وقت کھانے پینے کے خیال میں رہنا کہ اب کیا کھاؤں گا آئندہ کیا پیوں گا۔ غفلت کے لیے کھانا۔ گناہ کرنے کے لیے کھانا۔ اچھا کھانے پینے پہننے کا عادی بن جانا کبھی معمولی چیز کھا پی نہ سکے۔ غرض یہ کہ اس لفظ میں بہت سے کام داخل ہیں۔ (تفسیر نعیمی، 8/390)

اسراف اور فضول خرچی اگر شریعت کے خلاف ہو تو حرام حرام ہے اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

اللہ کریم ہمیں اسراف سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


غیر حق میں صرف (خرچ) کرنا اسراف ہے، اسے تبزیر بھی کہتے ہیں۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:   وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

فرمان مصطفیٰ ﷺ: قیامت کے دن انسان کے قدم نہ ہٹیں گے حتی کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا : (1) اس کی عمر کے بارے میں کہ کن کاموں میں بسر کی۔ (2) اس کی جوانی کے متعلق کہ کس طرح گزاری۔ (3) اس کے مال کے حوالے سے کہ کہاں سے کمایا۔ (4) اور کہاں خرچ کیا۔ (5)اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔

اسراف کے متعلق احکام: اسراف شرع میں مذموم (برا) ہی ہو کر آیا ہے۔ دو صورتوں میں اسراف ناجائز و گناہ ہے ایک یہ کہ کسی گناہ کے کام میں خرچ و استعمال کریں، دوسرے بےکار محض مال ضائع کریں۔ واضح رہے کہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا مثلاً عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر گھروں، گلیوں اور محلوں کو سجانا، چراغاں کرنا اسراف نہیں۔ علما فرماتے ہیں: اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اسراف نہیں۔

اسراف کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب:

غرور و تکبر (ایسا شخص دوسروں پر برتری چاہنے کیلئے بے جا دولت خرچ کرتا ہے)۔

علم دین سے دوری (مختلف کاموں میں اسراف کے مختلف پہلو ہوتے ہیں لہذا جب آدمی کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کام کے متعلق شرعی احکام کا علم نہ ہونے کے صورت میں اس کا اسراف اور اس کے علاؤہ دوسرے گناہوں میں پڑنے کا قوی احتمال ہوتا ہے)۔

اپنی واہ واہ کی خواہش (دوسروں سے داد وصول کرنے کیلئے پیسے کا بےجا استعمال ہمارے معاشرے میں عام ہے)۔

غفلت و لاپرواہی (کئی بار آدمی محض اپنی غفلت و لاپرواہی کے سبب اسراف میں مبتلا ہو جاتا ہے)۔

شہرت کی خواہش (بے حیائی پر مشتمل فنکشن اور اس طرح کی دیگر خرافات میں خرچ کی جانے والی رقم کا اصل سبب شہرت کی طلب ہی ہوتا ہے)۔

اسراف سے بچنے کیلئے: اسراف کے انجام پر غور کیجئے کہ نعمت کی بے قدری کرنے کی وجہ سے اگر وہ نعمت ہم سے چھین لی گئی تو کیسی مشکل پیش آئے گی۔ علم دین حاصل کیجئے تاکہ جہالت کے سبب ہونے والے اسراف سے محفوظ رہیں۔ عاجزی اختیار کیجئے۔ موت کو کثرت سے یاد کیجئے، ان شاءاللہ! دل سے دنیا کی محبت دور ہوگی اور گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے گا۔