جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

احدیث مبارکہ:

1۔ کھاؤ پیو، صدقہ و خیرات کرو، اور پہنو ہر وہ لباس جس میں اسراف و تکبر (فضول خرچی اور گھمنڈ) کی ملاوٹ نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

2۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کا حضرت سعد کے پاس سے گزر ہوا اور وہ وضو کر رہے تھے تو آپﷺ نے دیکھا اور ارشاد فرمایا: یہ اسراف کیسا؟ تو انہوں نے عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! اگرچہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

3۔ وضو کیلئے ایک شیطان ہے جسے ولہان کہا جاتا ہے، لہٰذا تم پانی کے بارے میں وسوسوں سے بچو۔ (ابن ماجہ، 1/252، حدیث: 421)

3۔ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں فقیر ہوں میرے واسطے کچھ بھی مال وغيره موجود نہیں ہے اور ایک یتیم بچے کا میں ولی بھی ہوں۔ آپ نے فرمایا تم اپنے یتیم کے مال میں سے کچھ کھا لیا کرو ليكن تم فضول خرچی نہ کرنا اور تم حد سے زیادہ نہ کھانا اور نہ تم دولت اکٹھا کرنا۔

5۔ مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی نے تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند فرمائی ہیں: ایک بے فائدہ گفتگو دوسرے مال ضائع کرنا اور تیسرے بہت مانگنا۔

7۔ آدمی کو گناہ گار بنا دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ اپنی یا اپنے متعلقین کی روزی کو ضائع کر دے۔

8۔ کچھ لوگ الله تعالیٰ کے مال کو بے جا اڑاتے ہیں، انہیں قیامت کے دن آگ ملے گی۔

اسراف کا حکم: اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

انسان کو یہ تو معلوم ہوتاہے کہ فلاں کام میں خرچ کرنا اسراف ہے لیکن بعض اوقات اپنی غفلت اور لاپرواہی کی بناء پر اسراف میں مبتلا ہوجاتا ہے، وضو کا پانی استعمال کرنے میں نل کھلا چھوڑدینا، گھر، آفس وغیرہ میں بجلی پر چلنے والی اشیاء کو سستی کی وجہ سے کھلاچھوڑدینا بھی اسی سبب کا نتیجہ ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے اندر احساس پیدا کرے، دنیا میں غفلت ولاپرواہی کی بنا پر ہونے والے گناہوں پر آخرت کے مواخذے کو پیش نظر رکھے اور اپنی اس غفلت ولا پرواہی کو دور کرے، نیز اپنے دل میں ربّ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا احساس پیدا کرے، نیز اپنا یہ مدنی ذہن بنائے کہ آج اگر میں نے نعمتوں کی ناشکری کی تو ہوسکتا ہے مجھ سے یہ نعمتیں چھین لی جائیں، لہٰذا میں ان نعمتوں پر اسراف سے بچتے ہوئے شکر کروں گا تاکہ ان میں مزید اضافہ ہو۔