اسراف کی تعریف: جس
جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ
والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے
یارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص 301 تا 302)
اللہ پاک قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)
(پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے
اسے پسند نہیں۔
فضول خرچی کرنے کا حکم: اسراف
اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اورخلاف مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص307)
آج کل بہت زیادہ فضول خرچی کی جا رہی ہے ایک تو لوگ
بہت زیادہ فضول خرچی کرتے ہیں اور پھر اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہمارے اخراجات
پورے نہیں ہوتے سیلری کم پڑ جاتی ہے مہینے کے آخر میں تو ہمارا گزارا کرنا مشکل ہو
جاتا ہے حالانکہ جب انہی لوگوں سے پوچھا جائے کہ آپ نے اپنی سیلری کو اپنی تنخواہ
کو کس چیز میں خرچ کیا اگر غور کیا جائے تو بہت ساری چیزیں ایسی سامنے آتی ہیں جن پر خرچ
کرنے کی حاجت نہ ہونے کے باوجود اس پر کثیر رقم خرچ کی گئی ہوتی ہے مثال کے طور پر
ڈیکوریشن ہونے کے باوجود بلاوجہ ڈیکوریشن کو چینج کرنا چیز بالکل صحیح سلامت ہے اس
سے گزارا بھی ہو رہا ہے اس کے باوجود اسے نیا لینا، پیسے نہ ہونے کے باوجود دکھاوے
کے لیے شادی کے موقع پر بےشمار پیسے نہ ہونے کے باوجود دکھاوے کے لیے شادی کے موقع
پر کثیر رقم خرچ کرنا اس جگہ جس جگہ اس کی ضرورت نہ ہو۔
بعض لوگ ہر سال اپنے گھر کے اشیاء تبدیل کرتے ہیں
اپنے شوق سے حالانکہ نہ اس کی کوئی ضرورت ہوتی ہے اور نہ وہ چیز خراب بھی ہوتی ہے
اس کے باوجود محض شوقیہ اپنی چیزوں کو چینج کرتے ہیں اور اس پر کثیر رقم خرچ کرتے
ہیں۔
اسی طرح جب بات آئے خریداری کی تو ایک سوٹ 2000 میں
مل سکتا ہے لیکن برانڈڈ لینے کے چکر میں وہی سوٹ 10 ہزار میں بھی لے لیتے ہیں
حالانکہ دو ہزار کا سوٹ بھی کفایت کر سکتا ہے۔ انسان کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں
پھیلانے چاہئیں۔
بعض وہ لوگ جن کے اندر بد مذہبی کا وائرس ہوتا ہے
وہ لوگ خیر کے کاموں میں خرچ کرنے کو فضول خرچی کے اندر ڈال دیتے ہیں ان کو سب سے
پہلے قاعدہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسراف
(فضول خرچی)میں کوئی بھلائی نہیں اور خیر کے کاموں میں اسراف نہیں۔
یہ لوگ جب بات آئے تو جشن ولادت کے موقع پر ہونے
والی لائٹنگ کی تو انہیں کرنٹ لگتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ سب فضول خرچی ہے حالانکہ
یہی لوگ اپنے گھروں میں ہونے والی شادیوں کے موقع پر لاکھوں کی لائٹنگ کریں اور وہ
فضول خرچی نہ کہلائے لیکن جب بات آئے پیارے نبی ﷺ کی جشن ولادت کے موقع پر ہونے
والی لائٹنگ کی تو ان کو سمجھ نہیں آتی۔
اسی طرح جب بات ہو قربانی کی تو انہیں غریب یاد آ
جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قربانی میں کیوں اتنا خرچ کرتے ہو اتنا پیسہ کسی غریب کو
دے دو کسی کی بچی کی شادی کر دو لیکن جب یہ لوگ اپنے گھر میں ہونے والی شادیوں کے
موقع پر بے جا رسوم وغیرہ پر کثیر رقم خرچ کرتے ہیں اس وقت انہیں غریبوں کے بچے
یتیموں کی بچیاں یاد نہیں آتی۔
بس بات یہی ہے کہ کڑوے لوگوں کو میٹھی باتیں سمجھ
نہیں آتیں جس کے دل و دماغ پر بد مذہبی کا وائرس ہو اس کو یہ پیاری باتیں سمجھ
نہیں آتیں۔ اس کے برعکس وہ شخص جس کا دل محبت الہی اور محبت رسول سے سرشار ہو جس
کے دل میں یاد الہی ہو جس کا سر احکامات الہیہ کے آگے سر تسلیم خم ہو تو وہ لوگ نہ
فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی بلکہ خرچ کرنے کی جگہ خرچ کرتے ہیں اور ایسی جگہ
جہاں خرچ کرنے کی ضرورت نہ ہو وہاں فضول خرچے کر کے اپنے مال کو برباد نہیں کرتے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ کفایت شعاری اپنائے کتنی
پیاری بات ہے: کفایت شعاری خوشحال زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ اور فضول خرچی
بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ مشہور کہاوت ہے ضرورت تو فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے لیکن
خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہو پاتی۔