اپنا مال ایسی جگہ پہ خرچ کرنا کہ جہاں پہ صرف کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو یا خرچ کرنے کا مقصد ریاکاری کرنا ہو یا غفلت کی وجہ سے مال خرچ ہو رہا ہو تو یہ سب فضول خرچی میں آتا ہے۔

فضول خرچی کی تعریف: جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق و فجور و گناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل و عیال کو بےیار و مددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتا ہے۔ اسے تبذیر بھی کہتے ہیں۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/28)

اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اورخلاف مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، 2/28)

كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔

اسراف سے متعلق ایک اہم اصول یاد رکھنا چاہیے کہ اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی میں کوئی اسراف نہیں۔ اس لیے ميلاد شریف کے موقع پر جو چراغاں کرتے ہیں وہ اسراف میں نہیں آئے گا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ ہر اس چیز کو کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

2۔ نبی کریم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں !اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

3۔ کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

اسراف کے اسباب یہ ہیں: لا علمی و جہالت، غرور و تكبر، حب مدح، حب جاه اور غفلت و لاپرواہی۔

قارئین کرام! اگر ایک جانب آج کل کے مسلمان رزق ضائع کرتے ہیں تو دوسری جانب بہت سے مسلمان تنگدستی کی وجہ سے فاقوں کا شکار ہیں اس لیے ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ فاقے ہماری روٹی ضائع کرنے کے سبب ہی تو نہیں براہ مدینہ آج ہی سے توبہ کر لیں کیوں کہ بروز حشر ایک ایک ذرے کا حساب ہونا ہے۔

صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے