غیر حق میں صرف (خرچ) کرنا اسراف ہے، اسے تبزیر بھی
کہتے ہیں۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ لَا
تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)
(پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے
اسے پسند نہیں۔
فرمان مصطفیٰ ﷺ: قیامت کے دن انسان کے قدم نہ ہٹیں گے حتی
کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا : (1) اس کی عمر کے بارے میں کہ
کن کاموں میں بسر کی۔ (2) اس کی جوانی کے متعلق کہ کس طرح گزاری۔ (3) اس کے مال کے
حوالے سے کہ کہاں سے کمایا۔ (4) اور کہاں خرچ کیا۔ (5)اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔
اسراف کے متعلق احکام: اسراف
شرع میں مذموم (برا) ہی ہو کر آیا ہے۔ دو صورتوں میں اسراف ناجائز و گناہ ہے ایک
یہ کہ کسی گناہ کے کام میں خرچ و استعمال کریں، دوسرے بےکار محض مال ضائع کریں۔ واضح
رہے کہ بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا مثلاً عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر گھروں،
گلیوں اور محلوں کو سجانا، چراغاں کرنا اسراف نہیں۔ علما فرماتے ہیں: اسراف میں
کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اسراف نہیں۔
اسراف کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب:
☆غرور
و تکبر (ایسا شخص دوسروں پر برتری چاہنے کیلئے بے جا دولت خرچ کرتا ہے)۔
☆علم
دین سے دوری (مختلف کاموں میں اسراف کے مختلف پہلو ہوتے ہیں لہذا جب آدمی کسی کام
کا ارادہ کرتا ہے تو اس کام کے متعلق شرعی احکام کا علم نہ ہونے کے صورت میں اس کا
اسراف اور اس کے علاؤہ دوسرے گناہوں میں پڑنے کا قوی احتمال ہوتا ہے)۔
☆اپنی
واہ واہ کی خواہش (دوسروں سے داد وصول کرنے کیلئے پیسے کا بےجا استعمال ہمارے
معاشرے میں عام ہے)۔
☆غفلت
و لاپرواہی (کئی بار آدمی محض اپنی غفلت و لاپرواہی کے سبب اسراف میں مبتلا ہو
جاتا ہے)۔
☆شہرت
کی خواہش (بے حیائی پر مشتمل فنکشن اور اس طرح کی دیگر خرافات میں خرچ کی جانے
والی رقم کا اصل سبب شہرت کی طلب ہی ہوتا ہے)۔
اسراف سے بچنے کیلئے: اسراف کے انجام پر غور کیجئے
کہ نعمت کی بے قدری کرنے کی وجہ سے اگر وہ نعمت ہم سے چھین لی گئی تو کیسی مشکل
پیش آئے گی۔ علم دین حاصل کیجئے تاکہ جہالت کے سبب ہونے والے اسراف سے محفوظ رہیں۔
عاجزی اختیار کیجئے۔ موت کو کثرت سے یاد کیجئے، ان شاءاللہ! دل سے دنیا کی محبت
دور ہوگی اور گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے گا۔