
فضول خرچی الله کی نعمت کی ایک طرح سے ناشکری ہے کہ
الله تعالیٰ نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہے اور اس کو ضروری کاموں کی بجائے لا
یعنی اور غیر ضروری کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔
اسراف کی تعریف: جس
جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ
والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے
یارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔
قرآن کریم میں بھی فضول خرچی کے متعلق وعید آئی
ہیں۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)
(پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے
اسے پسند نہیں۔
صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم
الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن
العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: حضرت مترجم قدّس سرّہ یعنی اعلیٰ حضرت امام
اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اسراف کا ترجمہ
بےجا خرچ کرنا فرمایا، نہایت ہی نفیس ترجمہ ہے۔ اگر کُل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے
عیال کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو سدی کا قول ہے کہ یہ خرچ بےجا ہے اور
اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بےجا اور داخلِ اسراف ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد
فرماتا ہے: كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) (پ
8، الاعراف: 31)
ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے
پسند نہیں۔
حضرت عبدﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو
کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ
اسراف کیسا؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں !اگرچہ
تم بہتی نہر پر ہو۔(ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ہر اس چیز کو
کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 306،307)
ارشاد فرمایا: کھاؤ، پیؤ، صدقہ کرو اور اور پہنو لیکن فضول خرچی اور
تکبر سے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)
یہ حدیث کھانے، پینے اور لباس میں اسراف کی حرمت پر
دلالت کرتی ہے اور بغیر دکھاوے اور شہرت کے صدقہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اسراف کا
حقیقی معنی ہے: ہر فعل و قول میں حد سے تجاوز کرنا۔ تاہم خرچ کرنے کے معاملے میں
حد سے گزرنے میں اسراف کے لفظ کا استعمال زیادہ مشہور ہے۔
یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ: کھاؤ اور پیو لیکن اسراف نہ کرو!
اس میں بڑائی اور تکبر کی حرمت کا بھی بیان ہے۔ نیز
اس میں انسان کے اپنے نفس کے تئیں بہتر تدبیر اختیار کرنے کے فضائل اور دنیا و آخرت
کے لحاظ سے روحانی اور جسمانی مصالح کا بیان ہے۔ کسی بھی شے میں اسراف جسم اور
معیشت دونوں کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے اور زیاں کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں
انسانی روح کو ضرر پہنچتا ہے، کیونکہ یہ عموماً جسم کے تابع ہوتی ہے۔ تکبر سے بھی
روح کو ضرر لاحق ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس میں خود پسندی آتی ہے اور آخرت
کیلئے بھی یہ نقصان دہ ہے۔
اسراف کاحکم: اسراف اور
فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 307)
اللہ کریم ہمیں اسراف سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین

شاپنگ سے واپسی کے بعد اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ
آپ نے بہتر انداز سے شاپنگ نہیں کی، جہاں خرچ کرنا تھا وہاں نہیں کیا گیا یا کم
کیا گیا، اور جہاں پر بالکل بھی ضرورت نہ تھی وہاں آپ نے خاصی رقم ضائع کردی، در
اصل یہ سب آپ کی اپنی ہی غلطیوں سے ہوتا ہے خصوصی طور پر خواتین ایسی غلطیاں زیادہ
کرتی ہیں۔ انہیں مارکیٹ میں پہنچ کر یہ یاد ہی نہیں رہتا ہے کہ انہیں کیا ضروری
خریدنا ہے اور کیا ہے جو ضرور نہیں لیکن اس وقت انہیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا
اور وہ ساری رقم ضائع کرنے کے بعد گھر آکر پچھتاتی ہیں یہاں چند ہدایات پیشِ خدمت ہیں
کہ جن پر عمل کر کے اس قسم کے مسائل سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے:
ضروریات کی پہچان دراصل ضروریات اور خواہشات میں
خاصہ فرق ہوتا ہے اور جس دن آپ کی ضروریات اور خواہشات میں فرق پتہ چل گیا تو اس
دن سے آپ ایک اچھی اور سمجھ دار شاپر بن جائیں گی، دراصل مارکیٹ میں پہنچ کر
ضروریات کا خیال نہ آنے کی وجہ مارکیٹ میں دستیاب نت نئی چیزیں فیشن اور میک اپ کے
جدید انداز ہیں اگر سمجھ داری سے غور کیا جائے تو یہ آپ کی ضرورت نہیں بلکہ خواہش
ہے لہذا اسے ضروریات کے بعد پورا کریں تا کہ آپ کو کسی قسم کا نقصان نہ اٹھانا
پڑے۔
اگر آپ کا خیال ہے کہ سنتی مصنوعات سے آپ کا وقار
کم ہو جائے گا تو ایسا خیال اپنے دل سے نکال دیں، کیوں کہ معیار کوالٹی سے بنتا
ہے، قیمت سے نہیں، مارکیٹ میں کئی جگہ سیل کا بورڈ آویزاں ہوتا ہے، اس قسم کی
رعایتی مصنوعات خریدنے میں اگرچہ آپ کو اچھی چیزیں تلاش کرنے میں تھوڑ از یاد ہوقت
لگ جاتا ہے لیکن اس کے فوائد آپ کی سوچ سے بھی زیادہ ہیں۔
وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ
الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15،
الاسراء: 26، 27)ترجمہ: اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو،
بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
قرآن میں اللہ پاک فرماتا ہے: یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) (پ 8، الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے آدم کی
اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد
سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔
فضول خرچی سے گریز کریں کچھ لوگوں کو فضول خرچی کی
عادت ہوتی ہے جب ہمارے اخراجات آمدنی سے بڑھ جائیں تو یہ ہمارے لئے خطرے کا اشارہ
ہوتے ہیں کہ اب ہمارے اخراجات کو کنٹرول کرنا ہوگا اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کرنا
ہوگی کہ رخنہ کہاں پیدا ہو رہا ہے۔ خریداری کرتے وقت ہمیں ہمیشہ اپنی ذہانت اور
عقل سلیم سے کام لینا چاہئے۔ صرف وہ اشیاء خریدیں جن کی آپ کو حقیقت میں ضرورت ہے۔
صرف اس بناء پر کہ فلاں نے کوئی شے خریدی ہے تو اس سے مقابلہ کرنے کی خاطر آپ وہی
شے خریدنے سے اجتناب کریں۔ ایک اور وجہ جس کی بناء پر ہماری محنت کی کمائی غیر
ضروری طور پر خرچ ہو جاتی ہے وہ لاپرواہی ہے جس سے رقم ضائع ہو جاتی ہے۔ اگر ہم
احتیاط برتیں تو یقینی طور پر اپنے اخراجات گھٹا سکتے ہیں۔
آخر میں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں
فضول خرچی جیسے برے فعل سے ہمیشہ محفوظ فرمائے۔

اسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجا ئز ہے اور علماء کرام
نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں، ان میں
سے11تعریفات درج ذیل ہیں : {1} غیرحق میں صرف کرنا {2} اللہ تعالٰی
کے حکم کی حد سے بڑھنا {3} ایسی
بات میں خرچ کرنا جو شرع مطہر یا مروت
کے خلاف ہو، اوّل(یعنی خلاف شریعت خرچ
کرنا) حرام ہے اور ثانی(یعنی خلاف مروت
خرچ کرنا) مکروہ تنزیہی۔ {4} طاعت
الٰہی کے غیر میں صرف کرنا {5} شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا {6} غیر
طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا {7} دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا {8} ذلیل
غرض میں کثیر مال خرچ کردینا {9} حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا {10} لائق
وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف
کردینا {11} بے
فائدہ خرچ کر نا۔
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ
الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) (پ 15، الاسراء: 26) ترجمہ کنز
العرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول
خرچی نہ کرو۔ یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔
یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
سے تبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص
اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مصرف میں خرچ
کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور
اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، 3 / 172)
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا
اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 27)ترجمہ: بے
شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ فضول خرچی نہ
کرو جبکہ اس آیت میں فرمایا کہ بیشک فضول
خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں کیونکہ یہ ان کے راستے پر چلتے ہیں اور چونکہ شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے،
لہٰذا اس کا راستہ اختیار نہیں کرنا
چاہیے۔ (مدارک، ص 621 ملخصاً)
حکم : اسراف اور
فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اورخلاف مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 307)
حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے
پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ !
کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں! اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 1/254،
حدیث: 425)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ہر اس چیز کو
کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)
الله کریم ہمیں اسراف و فضول خرچی سے بچنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

اسراف یعنی فضول خرچی کا لغوی معنی ہے کہ بے موقع
بے جا خرچ کرنا، بر باد کرنا، خرچ کرنے میں حد سے گزر جاتا ہے۔
جبکہ
اصطلاح میں اس سے مراد کسی ایسے بے مقصد یا ناجائز کام میں خرچ کرنا، جس میں شرعا یا
عادتا یا مروتا خرچ کرنا منع ہو۔ فضول خرچی اور اسراف خلاف شریعت امور میں ہو تو
حرام، اور خلاف مروت کاموں میں ہوتو مکردہ تنریہی ہے۔
اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) (پ 8،
الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور
حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔
حدیث مبارکہ کی رو سے :حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سےروایت
ہے کہ حضور کریم ﷺ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کر رہے
تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا : کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟
فرمایا: ہاں! اگر چہ تم بہتی نہر پر ہو۔(ابن
ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے : وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا
اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 26، 27)ترجمہ: اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو، بے شک بے جا خرچ کرنے
والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
آیات مذکورہ میں اسراف یعنی فضول خرچی کا مفہوم بتانے کیلئے اللہ پاک نے دو قسم کے الفاظ
بیان فرمائے ہیں۔ ایک اسراف دوسر ا تبذیر۔ بعض علماء کے نزدیک دونوں الفاظ کا
مفہوم ایک ہے۔ یعنی فضول خرچی، البتہ بعض دوسرے علماء کے نزدیک اس میں فرق ہے:
اسراف کا مفہوم یہ ہے کہ جائز اور مباح کاموں میں ضرورت سے بڑھ کرنا مناسب اور غلط
طریقے سے خرچ کرنا اور تبذیر کا مفہوم یہ
ہے کہ ناجائز اور گناہ کے کاموں میں مال خرچ کرنا۔
نبی پاک ﷺ فرماتے ہیں: کھاؤ پیو، صدقہ کرو اور پہنو لیکن
فضول خرچی اور تکبرسے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)
اسراف کی مختلف صورتیں: شیخ
طریقت امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی
دامت برکاتہم العالیہ کی مایہ ناز تصنیف فیضان سنت صفحہ 25 پر ہے کہ مفتی احمدیار
خان تفسیر نعیمی جلد 7 صفحہ 390 پر فرماتے ہیں: اسراف کی بہت سی قسمیں ہیں: حلال
چیزوں کو حرام جاننا، حرام چیزوں کو استعمال کرنا ضرورت سے زیادہ کھانا پینا یا
پہننا، غفلت کے لیے کھانا، گناہ کرنے کے لیے کھانا، دن رات میں کھاتے پیتے رہنا،
مضر اور نقصان دہ چیزیں کھانا پینا، جو دل چاہے وہ کھا پی لینا یا پہن لینا، حرام
و ناجائز کاموں میں مال کا استعمال حلال جاننا وغیرہ وغیرہ۔
یہ اسراف کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں اب اسراف
کے اسباب و علاج کی طرف روشنی ڈالی جاتی
ہے۔
اسباب و علاج: فضول خرچی کا
پہلا سبب لا علمی اور جہالت ہے۔ بندہ شرعی معلومات کے بغیر جب کسی کام میں مال خرچ
کرتا ہے تو اس میں فضول خرچی کے کئی پہلو ہوتے ہیں لیکن اسے اپنی جہالت کی وجہ سے
احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ کسی بھی کام میں مال خرچ کرنے سے
پہلے علمائے کرام اور مفتیان کرام سے شرعی رہنمائی حاصل کرے، اس سلسلے میں
دارالافتاء اہل سنت سے رابطہ کرنا بھی بہت مفید ہے۔
اسراف کا دوسرا سبب غرور و تکبر ہے۔ بسا اوقات دو
دوسروں پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے بے جا دولت خرچ کی جاتی ہے۔ اس کا علاج یہ
ہے کہ بندہ غرور و تکبر کے نقصانات پر غور و فکر کرے اور اس سے بچنے کی کوشش کرے، متکبر
شخص الله کو سخت نا پسند ہے۔
خود رسول اللہ ﷺ نے متکبر شخص کے لیے ناپسندیدگی کا
اظہار فرمایا، احادیث میں متکبر کو بدترین شخص قرار دیا گیا ہے، متکبر کو کل بروز
قیامت ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے دل میں تھوڑا سا بھی تکبر ہوگا وہ
جنت میں داخل نہ ہو سکے گا۔

الله کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا
تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)
(پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے
اسے پسند نہیں۔
صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم
الدین مراد آبادی رحمۃ الله علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے
ہیں: حضرت مترجم قدّس سرّه یعنی اعلی حضرت امام اہلسنت رحمۃ الله علیہ نے اسراف کا
ترجمہ بے جا خرچ کرنا فرمایا۔
اسراف و فضول خرچی کی تعریف: جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا
منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں
پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔
(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 301 تا 302 )
اسراف کاحکم :اسراف اور
فضول خرچی خلاف ِشرع ہو تو حرام اورخلافِ مروت ہوتو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 302)
روایت ہے حضرت سفیان ثوری سے فرماتے ہیں کہ گزشتہ
زمانہ میں مال نا پسند تھا لیکن آج مال مؤمن کی ڈھال ہے اور فرمایا اگر یہ اشرفیاں
نہ ہوتیں تو یہ بادشاہ ہم کو رومال بنا لیتے اور فرمایا کہ جس کے پاس کچھ دولت ہو
تو وہ اسے سنبھالے کیونکہ یہ زمانہ وہ ہے کہ اگر کوئی محتاج ہو جاوے تو پہلی جو
چیز خرچ کرتا وہ اس کا دین ہے فرمایا کہ حلال مال میں فضول خرچی کی گنجائش نہیں۔
روایت ہے حضرت عمر و ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے
وہ اپنے دادا سے روایت فرماتے ہیں فرما یا رسول اللہ ﷺ نے کہ کھاؤ پیو اور خیرات
کرو اور پہنو کہ جب تک فضول خرچی اور تکبر نہ ملے۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)اس
کا مطلب بھی وہ ہی ہے کہ ہر طیب و حلال چیز کھاؤ پہنو بشر طیکہ تکلف اور تکبر سے
خالی ہو، دل ٹھیک رکھو۔
نبی ﷺ حضرت سعد پر گزرے جب وہ وضو کر رہے تھے تو
فرمایا اے سعد یہ اسراف کیسا؟ (فضول خرچی) عرض کیا کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟
فرمایا ہاں۔ اگر چہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)
حضرت سعد یا تو ضرورت سے زیادہ پانی بہا رہے تھے،
یا بجائے تین کے چار پانچ بار اعضاء دھو رہے تھے، یا اعضاء کی حدود میں زیادتی کر
رہے تھے ان سب سے منع فرما دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وضو میں یہ تمام باتیں منع
ہیں اور ان کا کرنا جرم۔ (مراۃ المناجیح، 1/427)
فضول خرچی کے کئی نقصانات ہو سکتے ہیں، چند درج ذیل
ہیں:
1۔ مالی نقصانات: فضول خرچی سے پیسے کی بدسرفرازی
ہوتی ہے، جس سے آپ کے مالی حالات متاثر ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ پیسے کو بے معنی چیزوں
پر خرچ کریں تو اس سے آپ کی سرمایہ کاری اور بچت بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔
2۔ وقت کا ضائع ہونا: فضول خرچی کرنے سے آپ کا
قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے، جو کہ آپ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں لگا سکتے تھے۔
3۔ تناؤ: بعض اوقات، فضول خرچی آپ کو دباؤ اور تناؤ
میں ڈال سکتی ہے، کیونکہ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ نے بے فائدہ میں وقت یا پیسے
خرچ کیے ہیں۔
4۔ ترقی میں رکاوٹ: فضول خرچی کرنے سے آپ کی ترقی
پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے، کیونکہ آپ کے پاس ان وقت یا پیسے کا ضیاع ہوتا ہے جو
آپ اپنے خود کے ترقی اور پیشہ ورانہ پرفارمنس میں لگا سکتے تھے۔
5۔ معاشرتی اثرات: فضول خرچی سے آپ کے دوسروں کے
ساتھ معاشرتی رشتے بھی متاثر ہوسکتے ہیں، کیونکہ دوسروں کے ساتھ وقت یا پیسے کی
غرض سے بے فائدہ میں خرچ کرنے سے ان کے نظر میں آپ کی قدر کم ہوسکتی ہے۔
6۔ معاشرتی زخم: اگر فضول خرچی آپ کی اپنے ذاتی
ضمیر پر بھی برا اثر ڈالے، تو یہ آپ کے لئے معاشرتی زخم بھی بن سکتی ہے۔ اس سے آپ
کا احترام اور ذاتی اعتماد بھی کم ہوسکتا ہے۔

آج کل اس کا عام رواج پڑتا جا رہا ہے اگر ہم اردگرد ماحول پر نظر دہرائے تو ہمیں
معلوم ہو کہ یہ کس قدر بڑھتا جا رہا ہے شادی کے معاملات میں غور کریں تو حد درجہ
کا اسراف ہوتا ہے، عام دعوتوں پر بھی اتنا کھانے کا اسراف ہوتا ہے کہ الامان و
الحفیظ، پھر اسی طرح اگر ہم غور کریں تو اس کی عام مثالیں ہمیں نظر آئیں گی۔
قرآن پاک میں بھی اسراف سے بچنے کی ترغیب دلائی گئی
یہاں تک کہ اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا جیسے کہ اللہ پاک کا
فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى
حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) (پ
15، الاسراء: 26) ترجمہ کنز العرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور
مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
سے تبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص
اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مصرف میں خرچ
کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور
اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، 3/ 172)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمّت بیان کی
گئی ہے کہ
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ حضرت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ
وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد!
یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں
!اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ (ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ہر اس چیز کو
کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ306، 307)
اسراف کاحکم: اسراف اور
فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلافِ مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات،صفحہ307)
اسراف ایک
سبب معاشرے میں اپنی واہ واہ کروانا بھی ہوتا ہے۔ اسکا علاج یہ ہے کہ بندہ لوگوں
سے تعریفی کلمات سننے کی خواہش کو اپنی
ذات سے ختم کرے اور یہ مدنی ذہن بنائے کہ لوگوں میں معزز ہونا کوئی معنی نہیں
رکھتا بلکہ سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے۔ نیز
بندہ حب جاہ کے اسباب و علاج کامطالعہ کرے۔
اسی طرح اسراف کے دیگر اسباب پر غور کر کے اسکا
علاج کیا جائے اگر ہر کوئی اپنی اصلاح کرنے والا بن جائے تو معاشرے میں اسراف کے
ساتھ ساتھ دیگر گناہوں کا خاتمہ بھی ہو
جائے گا۔ ان شاءاللہ الکریم
اللہ پاک ہمیں اسراف سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
اور تمام اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
فضول خرچی ازبنت میاں محمد یوسف قمر،
جامعۃ المدینہ پاکپورہ جیل روڈ سیالکوٹ

دین اسلام افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ہر شعبہ ہائے
زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا اور فضول خرچی کی مذمّت فرماتا
ہے، چنانچہ اللہ فرماتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ
لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)
(پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے
اسے پسند نہیں۔
اسراف کی تعریف: جس
جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق و فجور و گناہ
والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل و عیال کو بے
یار و مددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص301 تا
302)
اسراف کا حکم: اسراف اور
فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 307)
متعدد احادیث مبارکہ میں بھی فضول خرچی کی ممانعت
آئی ہے:
1) نبی آخر الزماں ﷺ نے فرمایا: کھاؤ پیو اور خیرات
کرو اور پہنو کہ جب تک فضول خرچی اور تکبر نہ ملے۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)
2) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ہر اس چیز کو کھا
لینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (ابن ماجۃ، 4/ 49، حدیث: 3352)
اسراف کے معنیٰ: علماء
کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں،ان میں سے 11 تعریفات درج ذیل ہیں:
(1)غیر حق میں صرف کرنا۔ (2) اللہ کے حکم کی حد سے بڑھنا۔ (3) ایسی بات میں خرچ کرنا جو
شرع مطہّر یا مروّت کے خلاف ہو، اول حرام ہے اور ثانی مکروہ تنزیہی۔ (4) طاعت
الٰہی کے غیر میں صرف کرنا۔ (5)شرعی حاجت
سے زیادہ استعمال کرنا۔ (6) غیر طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا۔ (7)دینے میں حق کی
حد سے کمی یا زیادتی کرنا۔ (8) ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا۔ (9) حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ
کھانا۔ (10) لائق وپسندیدہ بات میں لائق
مقدار سے زیادہ صرف کردینا۔ (11) بے فائدہ خرچ کرنا۔ (تفسیر صراط الجنان، 5/ 447)
اسراف کی مختلف صورتیں: مفتی
احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: اسراف کی بہت تفسیریں ہیں : (1)حلال
چیزوں کو حرام جاننا (2)حرام چیزوں کو استعمال کرنا(3) ضرورت سے زیادہ کھانا پینا
یا پہننا (4)جو دل چاہے وہ کھا پی لینا پہن لینا (5)دن رات میں بار بار کھاتے پیتے
رہنا جس سے معدہ خراب ہو جائے، بیمار پڑ جائے(6) مضر اور نقصان دہ چیزیں کھانا
پینا (7) ہر وقت کھانے پینے پہننے کے خیال میں رہنا کہ اب کیا کھاؤں گا؟ آئندہ کیا
پیوں گا؟ (8)غفلت کیلئے کھانا(9)گناہ کرنے کیلئے کھانا (10)اچھے کھانے پینے، اعلیٰ
پہننے کاعادی بن جانا کہ کبھی معمولی چیز کھا پی نہ سکے (11)اعلیٰ غذاؤں کو اپنے
کمال کانتیجہ جاننا۔ غرضیکہ اس ایک لفظ میں بہت سے احکام داخل ہیں۔ (تفسیر نعیمی،
8/390)
اللہ ہمیں فضول خرچی سے بچنے اور میانہ روی اختیار
کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
ظفر اقبال،فیضان عائشہ صدیقہ مظفر پورہ سیالکوٹ

حقوق العباد میں ایک حق رشتہ دار سے اچھا سلوک ہے۔ اس
سے مراد یہ ہے کہ اگر ہمارے کسی رشتہ دار کو کسی قسم کی پریشانی اور تکلیف ہے تو
ہم اس کی پریشانی کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ان کا خیال رکھیں اور ان کی
خاطر داری کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی
الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ
السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ
كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (۳۶) (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ
کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ
داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے
ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے
والا بڑائی مارنے والا۔
رشتہ داری میں سب سے قریبی ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ ہمیں
اپنے والدین سے ایسا سلوک کرنا چاہیے کہ ہم ان کے آگے اف تک نہ کریں اور ان کا
خیال رکھیں۔ ارشاد ہوتا ہے: وَ وَصَّیْنَا
الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ- (پ 20، العنكبوت:8) ترجمہ: اور
ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں اچھائی کا حکم دیا ہے۔
صلہ رحمی: صلہ رحمی سے
مراد ہے اچھا سلوک اس سے مراد ہر ایک سے اچھا سلوک ہے اس میں والدین، پڑوسی، رشتہ
دار وغیرہ سب شامل ہیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: رحم (رشتہ داری) عرش کے ساتھ لٹکا ہوا ہے اور کہتا ہے جو مجھے
ملائے گا اللہ اسے ملا کے رکھے گا اور جو مجھے کاٹ دے گا اللہ اسے کاٹ دے گا۔ (مسلم،
ص 1062، حدیث: 6519)
عرش سے لٹکا ہوا ہےکا مطلب یہ ہے کہ وہ عرش کا پایا
پکڑے ہوئے اپنے توڑے جانے سے بارگاہ کبریا کی پناہ کا طلبگار ہے اور اس نے اپنے حق
میں اللہ سے جو سنا ہے اس کے مطابق خبردار کر رہا ہے کہ اگر مجھ کو جوڑو گے یعنی
میرے حقوق کو ادا کرو گے تو اللہ کی تم پر رحمت ہوگی اور اگر تم مجھ کو توڑو گے تو
اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دور کر دے گا۔
ام المومنین سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا
بیان کرتی ہیں: انہوں نے ایک کنیز کو نبی اکرم ﷺ سے اجازت لیے بغیر آزاد کر دیا، جب
نبی اکرم ﷺ ان کی باری کے دن ان کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی، یا رسول
اللہ! کیا آپ جانتے ہیں میں نے اپنی کنیز کو آزاد کر دیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کیا تم نے ایسا کر دیا، انہوں نے عرض کی: جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تم اگر اس کو
اپنے ماموں کو دے دیتی تو یہ تمہارے لیے اجر کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہوتا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: تم اپنی نسبوں میں اس قدر سیکھو کہ جس کے ذریعے تم اپنے ناطے داروں کے
ساتھ حسن سلوک کر سکو کیونکہ ناطہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اقرباء میں باہمی
محبت و انس کا سبب مال میں کثرت و برکت کا ذریعہ اور درازی عمر کا باعث بنتا ہے۔
مطلب یہ
ہے کہ تم اپنے باپ، دادا، ماؤں، دادیوں، نانیوں، ان کی اولاد اور دیگر اعزاء و
اقرباء کی پہچان رکھو ان کے ناموں سے باخبر رہو اور ان کے حالات سے واقفیت رکھو۔
ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
فیاض احمد، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا، ان کے ساتھ حسن سلوک
کرنا،اپنی ہمت کے بقدر ان کے ساتھ تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا،ان کے ساتھ بہتر
تعلقات قائم رکھنا اوران کی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات سے سرشار رہنا شریعت
اسلامیہ میں صلہ رحمی کہلاتاہے اور رشتہ داروں کے ساتھ بدخلقی و بدسلوکی کے ساتھ
پیش آنے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے۔
اسلام رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھے برتاؤ
کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ سورہ النحل میں رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید
کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ
وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ
الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۹۰) (پ
14، النحل: 90) ترجمہ: بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے
اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی
سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔
رشتہ دار مفلس و محتاج ہوں اور کمانے کی طاقت نہ
رکھتے ہوں تو حسب استطاعت ان کی مالی مدد کرتے رہنا اسی طرح ان کی خوشی و غمی میں
ہمیشہ شریک رہنا، صلہ رحمی کرنا اور کبھی بھی ان کے ساتھ قطع تعلق نہ کرنا اسلام
کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔
1۔ حدیث مبارکہ میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے
والا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ
نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ (باغ) اپنے غریب اقارب کو دے دو، پس انہوں
نے وہ حضرت حسان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو دے دیا (جو ان کے چچا زاد
بھائی تھے)۔ (مسلم، ص 389، حدیث:2316)
3۔ رشتے جوڑنا گھر والوں میں محبّت، مال میں برکت
اور عمر میں درازی ہے۔ (ترمذی، 3/394، حدیث: 1986)
4۔ جو چاہے کہ اس کے رزق ميں وسعت دی جائے اور اس
کی موت ميں دير کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری، 4/97، حديث:5985)
5۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ
اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے۔ (بخاری،
4/136، حدیث: 6138)
ایک شخص نے کہا: یارسول اللہ میرے بعض رشتہ دار
ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں لیکن وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں ان کے
ساتھ نیکی کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ متحمل و برد
باری سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ جہالت آمیز سلوک کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: اگر تو تم ویسا ہی کرتے ہو جیسا کہہ رہے تو گویا کہ تم ان لوگوں کو گرم
ریت کھلا رہے ہو یعنی تمہارے حسن سلوک کے جواب میں ان کی بد سلوکی ان کیلیے وبال
بن جائے گی اور جب تک تم اسی طرح کرتے رہو گے، اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ان لوگوں
کے شر سے بچاؤ کے لیے ایک مدد گار مقرر رہے گا۔ (مسلم، ص 1062، حدیث: 6525)
رشتہ داروں سے ملنا جلنا، تحائف دینا، حاجت روائی
کرنا اور ان کے معاملے میں بدگمانی سے بچنا سب ایسے کام ہیں جو صلہ رحمی کو تقویت
دیتے ہیں۔
ذو رحم رشتہ داروں کے5 حقوق از بنت
طارق محمود،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

رشتہ دار کے لئے عربی میں لفظ اقرب استعمال ہوتا ہے
جس کی جمع اقارب یا اقرباء ہے اور اس کے معنیٰ
قریبی یا نزدیکی کے ہیں اصطلاحاً رشتہ دار یا اقرب اے مراد وہ لوگ ہیں جن کا والدین اولاد
اور زوجین کے بعد ہمارے ساتھ قریبی تعلق ہوتا ہے جیسے چچا،ماموں،خالہ،پھوپھی وغیرہ۔
ان سے حسن سلوک یہ ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ
رحمی کرے اور قطع تعلقی سے بچے اسلام ہمیں صلہ رحمی کی تعلیم دیتا ہے۔ صلہ رحمی سے
مراد قریبی رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا ہے۔ مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ کی روشنی میں
ان کے حقوق پیش خدمت ہیں:
1۔ فرمان آخری نبی ﷺ: بدلہ لینے والا صلہ رحمی کرنے
والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے
جوڑے۔ (بخاری، 4/98، حدیث: 5991)
2۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: مسکینوں پر صدقہ کرنے سے
ایک صدقہ کا ثواب ملتا ہے جبکہ رشتہ دار پر صدقہ کرنے سے دو صدقوں کا ثواب ملتا ہے۔
(ترمذی، 2 / 142، حدیث: 658)
3۔ حضرت ابو طلحہ نے اپنا پسندیدہ باغ صدقہ کرنے کا
ارادہ کیا اور بارگاہ رسالت میں عرض کی یارسول الله! یہ باغ اللہ کی راہ میں فقراء
اور مساکین کے لئے ہے تو رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارا اجر لازم ہو گیا اب
اسے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ (مسلم، ص 388، حدیث:2315)
4۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کو یہ بات اچھی لگتی
ہے کہ اس کا رزق فراح ہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کیا کرے۔
(بخاری، 4/97، حدیث: 5985)
5۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:رشتہ کاٹنے
والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اسلام ہمیں ان کے
ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے علاوہ ان کی
مالی مدد کرنے کی بھی تاکید فرمائی گئی ہے لہٰذا مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ
اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے ان کے ساتھ شفقت اور مہربانی کا
برتاؤ کرے اور ہر موقع پر ان کی خیر خواہی کرے خوشی و غمی میں ان کے ساتھ شریک ہو
ان ے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرے مصیبت کے وقت ان کے کام آئے اگر کوئی بیمار ہو
جائے تو اسکی عیادت کے لئے جائے ہر دکھ درد مصیبت میں ان کی روحانی اخلاقی اور
مالی مدد کی جائے اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جائے۔
الله پاک سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو آپس میں
میل جول کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان کے ساتھ احسن انداز میں رہنے کی
توفیق سے نوازے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
ذو رحم رشتہ داروں کے5حقوق از بنت سجاد
حسین،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

اللہ پاک نے خاندانی وسسرالی رشتہ داریوں کو اپنی
نعمت بتایا ہے جس سے انسانوں کو نوازا ہے اور یہ حکم دیا ہےکہ تم رشتہ داریوں کو
جانو پہچانو اور ان رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک اور نیک برتاو کرتے رہو اور اللہ
تعالی نے ان رشتہ داروں سے بگاڑ اور قطعی تعلق کو حرام فرمایا ہے اور حکم دیا ہے
کہ ان رشتہ داریوں کو نہ کاٹو۔ یعنی ایسا مت کرو کہ بھائیوں اور بہنوں وغیرہ سے اس
طرح کا بگاڑ کر لو کہ یہ کہہ دو کہ تم میری بہن نہیں اور میں تمہارا بھائی نہیں
اور یہ کہہ کر بلکل رشتہ داری کا تعلق ختم کر لو۔ ایسا کرنے کو قطعی رحم اور رشتہ
کاٹنا کہتے ہیں۔ (جہنم کے خطرات، ص 96)
یہ شریعت میں حرام اور بڑا سخت گناہ کا کام ہے اور
اس کی سزا جہنم کا درد ناک عذاب ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ
وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ(۲۲) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ
فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(۲۳) (پ 26، محمد:22،
23)ترجمہ کنز الایمان:تو کیا تمہارے یہ لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے
تو زمین میں فساد پھیلاو اور اپنے رشتے کاٹ دو یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت
کی اور انہیں حق سے بہرا کر دیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں رشتہ داروں کے حقوق ملاحظہ
فرمائیے۔
(1) حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ
میں نے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں اور
میں رحمن ہوں، میں نے رشتوں کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام سے اس کے نام کومشتق کیا
ہےتو جو شخص رشتہ ملائے گا میں اس کو ملاؤں گا اور جو اس کو کاٹ دے گا میں اس کو
کاٹ دوں گا۔ (ترمذی،3/363، حدیث: 1914)
(2) حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی نے کہا میں نے رسول ﷺ
کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس قوم پر رحمت نہیں نازل ہوتی جس قوم میں کوئی رشتہ
داریوں کو کاٹنے والا موجود ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، 3/61، حدیث: 4931)
(3) کبھی کبھی اپنے رشتہ داروں کے یہاں آتے جاتے
بھی رہیں انکی خوشی اور غمی میں ہمیشہ شریک رہیں۔ اگر رشتہ داروں کی طرف سے کوئی
تکلیف بھی پہنچ جائے،تو اس پر صبر کرنا اور پھر بھی ان سے میل جول اور تعلق کو
برقرار رکھنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔ (جنتی زیور، ص 61)
(4) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رشتہ کاٹنے والا جنت
میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
(5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے نسب ناموں کو جان لو تا کہ اس کی وجہ سے تم اپنے
رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ یقین جانو کہ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنا
یہ گھر والوں میں محبت اور مال میں زیادتی، اور عمر میں درازی کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/394،
حدیث: 1986)
ان حدیثوں سے سبق ملتا ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ
نیک سلوک کرنے کا کتنا بڑا اجرو ثواب اور دنیا و آخرت میں اس کے فوائد و منافع کس
قدر زیادہ ہیں اور رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی اور ان سے تعلق کاٹ لینے کا گناہ
کتنا بڑا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان مردوعورت پر لازم ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق
ادا کرنے اور ان کے ساتھ اچھا برتاو اور نیک سلوک کرنے کا خاص طور پر دھیان رکھے۔
یاد رکھیں! شریعت کے احکام پر عمل کرنا ہی مسلمان
کے لیے دونوں جہانوں میں صلاح و فلاح کا سامان ہے۔شریعت کو چھوڑ کر کبھی بھی کوئی
مسلمان دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل نہیں کر سکتا۔
ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از ہمشیرہ
جواد احمد، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

صلہ کے لغوی معنیٰ ہیں:کسی بھی قسم کی بھلائی اور
احسان کرنا (الزواجر، 2/156) جبکہ رحم سے مراد قرابت اور رشتہ داری ہے۔ (لسان
العرب،1/1479)
صلۂ رحم کا معنیٰ رشتے کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ
والوں کے ساتھ نیکی اور (حسن) سلوک کرنا۔ (بہار شریعت، 3/558) لہٰذا رشتہ داروں سے
خندہ پیشانی سے ملنا، مالی مشکلات میں ان کی مددکرنا،دکھ سکھ میں شرکت کر کے ان کی
دلجوئی کا سامان کرنا یہ سب صلۂ رحمی میں شامل ہے۔
صلہ رحمی کی اہمیت قرآن کی رو سے صلۂ رحمی کی
اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ قرآن پاک میں اللہ کریم نے تقویٰ اختیار کرنے
کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کا حکم دیا ہے۔چنانچہ فرمان الٰہی ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ
تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ- (پ 4،
النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ
سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔
ذو رحم رشتوں کے حقوق: ان کو کسی بات میں تمہاری
اعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کرنا، انہیں سلام کرنا، ان سے ملاقات کو
جانا، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا ، ان سے بات چیت کرنا، ان سےعدل و انصاف کرنا ، ان پر خرچ کرنا ، ہدیہ
و تحفہ دینا ، وراثت میں سے پورا پورا حصہ دینا ، اچھے سلوک سے پیش آنا۔
رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کو یہ پسند ہو کہ
عمر میں درازی اور رزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ پاک سے ڈرتا رہے
اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے۔ (مستدرک،5/222، حدیث: 7362)
صلہ رحمی کی اہمیت: حضرت
ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم حضور نبی کریم ﷺ کی
خدمت میں حاضر تھے،قبیلہ بنو سلمہ سے ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! کیا میرے
والدین کے مجھ پر ایسے بھی حق ہیں جو مجھے ان کے انتقال کے بعد ادا کرنے چاہئیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں انکے لئے مغفرت و بخشش و رحمت کی دعا کرتے رہنا، انکا اگر کسی
سے عہد معاہدہ ہو تو اسے پورا کرنا ان کے تعلق سے جو رشتے ہوں انکا لحاظ رکھنا اور
انکا حق ادا کرنا اور انکے دوستوں کا احترام و اکرام کرنا۔
یاالٰہی! رشتہ داروں سے کروں حسن سلوک قطع رحمی سے بچوں اس میں
کروں نہ بھول چوک
ان سب کے علاوہ بھی ذو رحم رشتوں کے بہت زیادہ حقوق
ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ذو رحم رشتوں سے صلہ رحمی کرنے انکے حقوق ادا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور قطع تعلقی سے بچائے۔ آمین