ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از ہمشیرہ
جواد احمد، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
صلہ کے لغوی معنیٰ ہیں:کسی بھی قسم کی بھلائی اور
احسان کرنا (الزواجر، 2/156) جبکہ رحم سے مراد قرابت اور رشتہ داری ہے۔ (لسان
العرب،1/1479)
صلۂ رحم کا معنیٰ رشتے کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ
والوں کے ساتھ نیکی اور (حسن) سلوک کرنا۔ (بہار شریعت، 3/558) لہٰذا رشتہ داروں سے
خندہ پیشانی سے ملنا، مالی مشکلات میں ان کی مددکرنا،دکھ سکھ میں شرکت کر کے ان کی
دلجوئی کا سامان کرنا یہ سب صلۂ رحمی میں شامل ہے۔
صلہ رحمی کی اہمیت قرآن کی رو سے صلۂ رحمی کی
اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ قرآن پاک میں اللہ کریم نے تقویٰ اختیار کرنے
کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کا حکم دیا ہے۔چنانچہ فرمان الٰہی ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ
تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ- (پ 4،
النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ
سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو۔
ذو رحم رشتوں کے حقوق: ان کو کسی بات میں تمہاری
اعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کرنا، انہیں سلام کرنا، ان سے ملاقات کو
جانا، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا ، ان سے بات چیت کرنا، ان سےعدل و انصاف کرنا ، ان پر خرچ کرنا ، ہدیہ
و تحفہ دینا ، وراثت میں سے پورا پورا حصہ دینا ، اچھے سلوک سے پیش آنا۔
رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کو یہ پسند ہو کہ
عمر میں درازی اور رزق میں فراخی ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ پاک سے ڈرتا رہے
اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے۔ (مستدرک،5/222، حدیث: 7362)
صلہ رحمی کی اہمیت: حضرت
ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم حضور نبی کریم ﷺ کی
خدمت میں حاضر تھے،قبیلہ بنو سلمہ سے ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! کیا میرے
والدین کے مجھ پر ایسے بھی حق ہیں جو مجھے ان کے انتقال کے بعد ادا کرنے چاہئیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں انکے لئے مغفرت و بخشش و رحمت کی دعا کرتے رہنا، انکا اگر کسی
سے عہد معاہدہ ہو تو اسے پورا کرنا ان کے تعلق سے جو رشتے ہوں انکا لحاظ رکھنا اور
انکا حق ادا کرنا اور انکے دوستوں کا احترام و اکرام کرنا۔
یاالٰہی! رشتہ داروں سے کروں حسن سلوک قطع رحمی سے بچوں اس میں
کروں نہ بھول چوک
ان سب کے علاوہ بھی ذو رحم رشتوں کے بہت زیادہ حقوق
ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ذو رحم رشتوں سے صلہ رحمی کرنے انکے حقوق ادا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور قطع تعلقی سے بچائے۔ آمین