فضول خرچی الله کی نعمت کی ایک طرح سے ناشکری ہے کہ الله تعالیٰ نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہے اور اس کو ضروری کاموں کی بجائے لا یعنی اور غیر ضروری کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔

اسراف کی تعریف: جس جگہ شرعاً، عادۃً یا مروۃً خرچ کرنا منع ہو وہاں خرچ کرنا مثلاً فسق وفجور وگناہ والی جگہوں پر خرچ کرنا، اجنبی لوگوں پر اس طرح خرچ کرنا کہ اپنے اہل وعیال کو بے یارومددگار چھوڑ دینا اسراف کہلاتاہے۔

قرآن کریم میں بھی فضول خرچی کے متعلق وعید آئی ہیں۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: حضرت مترجم قدّس سرّہ یعنی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اسراف کا ترجمہ بےجا خرچ کرنا فرمایا، نہایت ہی نفیس ترجمہ ہے۔ اگر کُل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے عیال کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو سدی کا قول ہے کہ یہ خرچ بےجا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بےجا اور داخلِ اسراف ہے۔

ایک اور مقام پر اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) الاعراف: 31) ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔

حضرت عبدﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جب وہ وضو کررہے تھے تو ارشاد فرمایا: اے سعد! یہ اسراف کیسا؟ عرض کیا: رسول اللہ ﷺ ! کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ فرمایا: ہاں !اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔(ابن ماجہ، 4/49، حدیث: 3352)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ہر اس چیز کو کھالینا جس کا دل کرے یہ اسراف ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 306،307)

ارشاد فرمایا: کھاؤ، پیؤ، صدقہ کرو اور اور پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605)

یہ حدیث کھانے، پینے اور لباس میں اسراف کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور بغیر دکھاوے اور شہرت کے صدقہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اسراف کا حقیقی معنی ہے: ہر فعل و قول میں حد سے تجاوز کرنا۔ تاہم خرچ کرنے کے معاملے میں حد سے گزرنے میں اسراف کے لفظ کا استعمال زیادہ مشہور ہے۔

یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ: کھاؤ اور پیو لیکن اسراف نہ کرو!

اس میں بڑائی اور تکبر کی حرمت کا بھی بیان ہے۔ نیز اس میں انسان کے اپنے نفس کے تئیں بہتر تدبیر اختیار کرنے کے فضائل اور دنیا و آخرت کے لحاظ سے روحانی اور جسمانی مصالح کا بیان ہے۔ کسی بھی شے میں اسراف جسم اور معیشت دونوں کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے اور زیاں کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی روح کو ضرر پہنچتا ہے، کیونکہ یہ عموماً جسم کے تابع ہوتی ہے۔ تکبر سے بھی روح کو ضرر لاحق ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس میں خود پسندی آتی ہے اور آخرت کیلئے بھی یہ نقصان دہ ہے۔

اسراف کاحکم: اسراف اور فضول خرچی خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 307)

اللہ کریم ہمیں اسراف سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین