ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
ظفر اقبال،فیضان عائشہ صدیقہ مظفر پورہ سیالکوٹ
حقوق العباد میں ایک حق رشتہ دار سے اچھا سلوک ہے۔ اس
سے مراد یہ ہے کہ اگر ہمارے کسی رشتہ دار کو کسی قسم کی پریشانی اور تکلیف ہے تو
ہم اس کی پریشانی کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ان کا خیال رکھیں اور ان کی
خاطر داری کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی
الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ
السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ
كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (۳۶) (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ
کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ
داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے
ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے
والا بڑائی مارنے والا۔
رشتہ داری میں سب سے قریبی ہمارے والدین ہوتے ہیں۔ ہمیں
اپنے والدین سے ایسا سلوک کرنا چاہیے کہ ہم ان کے آگے اف تک نہ کریں اور ان کا
خیال رکھیں۔ ارشاد ہوتا ہے: وَ وَصَّیْنَا
الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ- (پ 20، العنكبوت:8) ترجمہ: اور
ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں اچھائی کا حکم دیا ہے۔
صلہ رحمی: صلہ رحمی سے
مراد ہے اچھا سلوک اس سے مراد ہر ایک سے اچھا سلوک ہے اس میں والدین، پڑوسی، رشتہ
دار وغیرہ سب شامل ہیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: رحم (رشتہ داری) عرش کے ساتھ لٹکا ہوا ہے اور کہتا ہے جو مجھے
ملائے گا اللہ اسے ملا کے رکھے گا اور جو مجھے کاٹ دے گا اللہ اسے کاٹ دے گا۔ (مسلم،
ص 1062، حدیث: 6519)
عرش سے لٹکا ہوا ہےکا مطلب یہ ہے کہ وہ عرش کا پایا
پکڑے ہوئے اپنے توڑے جانے سے بارگاہ کبریا کی پناہ کا طلبگار ہے اور اس نے اپنے حق
میں اللہ سے جو سنا ہے اس کے مطابق خبردار کر رہا ہے کہ اگر مجھ کو جوڑو گے یعنی
میرے حقوق کو ادا کرو گے تو اللہ کی تم پر رحمت ہوگی اور اگر تم مجھ کو توڑو گے تو
اللہ تمہیں اپنی رحمت سے دور کر دے گا۔
ام المومنین سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا
بیان کرتی ہیں: انہوں نے ایک کنیز کو نبی اکرم ﷺ سے اجازت لیے بغیر آزاد کر دیا، جب
نبی اکرم ﷺ ان کی باری کے دن ان کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی، یا رسول
اللہ! کیا آپ جانتے ہیں میں نے اپنی کنیز کو آزاد کر دیا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کیا تم نے ایسا کر دیا، انہوں نے عرض کی: جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تم اگر اس کو
اپنے ماموں کو دے دیتی تو یہ تمہارے لیے اجر کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہوتا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: تم اپنی نسبوں میں اس قدر سیکھو کہ جس کے ذریعے تم اپنے ناطے داروں کے
ساتھ حسن سلوک کر سکو کیونکہ ناطہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اقرباء میں باہمی
محبت و انس کا سبب مال میں کثرت و برکت کا ذریعہ اور درازی عمر کا باعث بنتا ہے۔
مطلب یہ
ہے کہ تم اپنے باپ، دادا، ماؤں، دادیوں، نانیوں، ان کی اولاد اور دیگر اعزاء و
اقرباء کی پہچان رکھو ان کے ناموں سے باخبر رہو اور ان کے حالات سے واقفیت رکھو۔