ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
فیاض احمد، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا، ان کے ساتھ حسن سلوک
کرنا،اپنی ہمت کے بقدر ان کے ساتھ تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا،ان کے ساتھ بہتر
تعلقات قائم رکھنا اوران کی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات سے سرشار رہنا شریعت
اسلامیہ میں صلہ رحمی کہلاتاہے اور رشتہ داروں کے ساتھ بدخلقی و بدسلوکی کے ساتھ
پیش آنے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے۔
اسلام رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھے برتاؤ
کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ سورہ النحل میں رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید
کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ
وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ
الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۹۰) (پ
14، النحل: 90) ترجمہ: بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے
اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی
سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔
رشتہ دار مفلس و محتاج ہوں اور کمانے کی طاقت نہ
رکھتے ہوں تو حسب استطاعت ان کی مالی مدد کرتے رہنا اسی طرح ان کی خوشی و غمی میں
ہمیشہ شریک رہنا، صلہ رحمی کرنا اور کبھی بھی ان کے ساتھ قطع تعلق نہ کرنا اسلام
کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔
1۔ حدیث مبارکہ میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے
والا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ
نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ (باغ) اپنے غریب اقارب کو دے دو، پس انہوں
نے وہ حضرت حسان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو دے دیا (جو ان کے چچا زاد
بھائی تھے)۔ (مسلم، ص 389، حدیث:2316)
3۔ رشتے جوڑنا گھر والوں میں محبّت، مال میں برکت
اور عمر میں درازی ہے۔ (ترمذی، 3/394، حدیث: 1986)
4۔ جو چاہے کہ اس کے رزق ميں وسعت دی جائے اور اس
کی موت ميں دير کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری، 4/97، حديث:5985)
5۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ
اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے۔ (بخاری،
4/136، حدیث: 6138)
ایک شخص نے کہا: یارسول اللہ میرے بعض رشتہ دار
ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں لیکن وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں ان کے
ساتھ نیکی کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ متحمل و برد
باری سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ جہالت آمیز سلوک کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: اگر تو تم ویسا ہی کرتے ہو جیسا کہہ رہے تو گویا کہ تم ان لوگوں کو گرم
ریت کھلا رہے ہو یعنی تمہارے حسن سلوک کے جواب میں ان کی بد سلوکی ان کیلیے وبال
بن جائے گی اور جب تک تم اسی طرح کرتے رہو گے، اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ان لوگوں
کے شر سے بچاؤ کے لیے ایک مدد گار مقرر رہے گا۔ (مسلم، ص 1062، حدیث: 6525)
رشتہ داروں سے ملنا جلنا، تحائف دینا، حاجت روائی
کرنا اور ان کے معاملے میں بدگمانی سے بچنا سب ایسے کام ہیں جو صلہ رحمی کو تقویت
دیتے ہیں۔