اسراف کے لغوی معنی بے موقع و بے جا خرچ کرنا،
برباد کرنا خرچ کرنے میں حد سے گزر جانا ہے جبکہ اصطلاح میں اس سے مراد کسی ایسے بے مقصد یا ناجائز کام میں خرچ کرنا جس
میں شرعًا، عادتًا یا مروتًا خرچ کرنا منع ہو اسراف یعنی فضول خرچی کہلاتا ہے۔
اللہ رب العالمین نے قرآن پاک میں فضول خرچی اور
اسراف سے ممانعت فرمائی ہے اور اپنی ناراضگی کا بھی اظہار فرمایا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)
(پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے
اسے پسند نہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱) (پ
8، الاعراف: 31)
ترجمہ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤاور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے
پسند نہیں۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اسراف کا معنی حد سے بڑھنا ہے حد سے بڑھنا دو طرح سے ہوتا ہے: جسمانی اور روحانی۔ اسی
لیے گناہ کو بھی اسراف کہتے ہیں، یہاں دونوں قسم کا اسراف مراد ہو سکتا ہے جسمانی
بھی روحانی بھی اور اس کا تعلق لباس، غذا، پانی سب سےہی ہے لہذا اسراف کی بہت
تفسیریں ہیں: حلال چیزوں کو حرام جاننا، حرام چیزوں کا استعمال کرنا، ضرورت سے
زیادہ کھانا، پینا اور پہننا، جو دل چاہے وہ کھا پی لینا اور مضر اور نقصان چیزیں
کھانا پینا وغیرہ وغیرہ۔ (تفسیر نعیمی، 8/390ملخصاً)
بے موقع اور بے محل خرچ کرنے والوں کو شیطان کے
بھائی کہا گیا ہے۔ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ
15، الاسراء: 26، 27)ترجمہ: اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو،
بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
حدیث مبارکہ میں بھی فضول خرچی کی ممانعت آئی ہے،
چنانچہ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: بغیر فضول خرچی اور تکبر کے کھاؤ، پیو، پہنو
اور خیرات کرو۔ (ابن ماجہ، 4/162، حدیث: 3605 مفہوماً)
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور پاک ﷺ
کا حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزر ہوا اور وہ وضو کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے
دیکھا اور ارشاد فرمایا: یہ اسراف کیسا؟ تو انہوں نے عرض کیا: کیا وضو میں بھی
اسراف ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں اگرچہ تم بہتے ہوئے دریا پر ہو۔(ابن ماجہ،
4/49، حدیث: 3352)
موجودہ زمانے میں ہم لوگ بہت سے مواقع پر اللہ پاک کی
عطا کردہ نعمتوں کا انتہائی بے دردی سے اور بےدریغ استعمال کرتے ہیں، چنانچہ دیکھا
گیا ہے انتخابات کے مواقع پر امیدوار وغیرہ بے تحاشہ دولت لٹاتے سرکاری دوروں کے
مواقع پر مقتدر طبقہ فضول مال خرچ کرتا،
ملکی تقریبات کے دوران ایام انتہائی دھوم دھام اور سج دھج سے منائے جاتے ہیں ذاتی
تقریبات جیسے شادی بیاہ کے موقع پر جہیز کے نام پر فضول خرچی تو کہیں نئی نئی
تقریبات پر فضول خرچی کہیں کھانے کے نام پر مال کا بے دریغ ضیاع کیا جاتا ہے اگر
کوئی اس کا مرتکب ہوا ہو تو اپنے رب سے معافی مانگے۔
فضول خرچی اور اسراف سے ممانعت میں شریعت مطہرہ کا
مطلوب اور مقصود یہ ہے کہ انسان بےمقصد اور ناجائز کاموں میں کسی بھی چیز کا
استعمال نہ کرے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان خیر و بھلائی کے کاموں میں بخل
اور کنجوسی کرے۔