آج کے دور میں جہاں مال کی جتنی اہمیت ہے وہیں لوگوں کی غالب اکثریت مال کے صحیح استعمال سے آگاہ نہیں اور اس کا بے جا استعمال اکثر لوگوں کا مشغلہ ہے کہ جہاں دل چاہا جیسے چاہا مال برباد کردیا جیسے غیر ضروری اشیاء خریدنا ، صرف شوق  و دلچسپی کی چیزوں میں مال استعمال کرنا، اور شادی وغیرہ دوسری تقریبات میں بھی کئی قسم کی فضول رسم و رواج کے نام پر مال کی بربادی ہوتی ہے۔ آج کے دور میں اس کے علاوہ بھی کئی طریقوں سے فضول خرچی بڑھتی چلی جارہی ہے اور لوگوں کی غالبیت کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی حالانکہ کئی آیات مبارکہ و احادیث مبارکہ میں اسکی ممانعت آئی ہے، چند آیات مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- (پ 15، الاسراء: 26) ترجمہ کنز العرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔ تفسیر صراط الجنان میں آیت مبارکہ کے اس حصے اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن کے تحت ہے: اس سے پہلی آیت میں اللہ پاک نے ارشادفرمایا کہ فضول خرچی نہ کرو جبکہ اس آیت میں فرمایا کہ بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں کیونکہ یہ ان کے راستے پر چلتے ہیں اور چونکہ شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے، لہٰذا اُس کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ (مدارک، ص 621ملخصاً)

وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ8، الانعام: 141) ترجمہ کنز الایمان: اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔ مفسرین نے فضول خرچی کے مختلف مَحْمَل بیان فرمائے ہیں، چنانچہ مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ اگر کل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے گھروالوں کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو یہ خرچ بے جا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بے جا اور داخلِ اسراف ہے ۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کا بھی ایسا ہی قول ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اللہ کی اطاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ قلیل بھی ہو تو اسراف ہے۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ معصیت میں خرچ نہ کرو۔ امام مجاہد نے کہا کہ اللہ کے حق میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابو قبیس پہاڑ سونا ہو اور اس تمام کو راہِ خدا میں خرچ کر دو تو اسراف نہ ہوگا اور ایک درہم معصیت میں خرچ کرو تو وہ اسراف ہے۔ (خازن، 2/62، 63)

فضول خرچی اور اسراف یہ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں، علمائے کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں، ان میں سے 11 تعریفات درج ذیل ہیں: (1) غیرِ حق میں صَرف کرنا۔ (2) اللہ کے حکم کی حد سے بڑھنا۔ (3) ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مُطَہَّر یا مُرَوّت کے خلاف ہو، اول حرام ہے اور ثانی مکروہِ تنزیہی۔ (4) طاعتِ الٰہی کے غیر میں صرف کرنا۔ (5) شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا۔ (6) غیرِ طاعت میں یا بلاحاجت خرچ کرنا۔ (7)دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا۔ (8) ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا۔ (9) حرام میں سے کچھ یا حلال کو اِعتدال سے زیادہ کھانا۔ (10) لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا ۔ (11) بے فائدہ خرچ کرنا۔

حکم : فضول خرچی اور اسراف خلاف شرع ہو تو حرام اور خلاف مروت ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔

اب آئیے اس کے متعلق ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

فرمان آخری نبی ﷺ: میانہ روی سے خرچ کرنا آدھی معیشت ہے اور لوگوں سے محبت کرنا آدھی عقل ہے اور اچھا سوال کرنا آدھا علم ہے۔ (شعب الایمان، 5/255، حدیث:6568)

حدیث پاک کے اس حصے کہ ”خرچ میں میانہ روی (اعتدال) آدھی معیشت ہے“ کی شرح میں ہے کہ خوشحال وہی شخص رہتا ہے جسے کمانے کے ساتھ خرچ کرنے کا طریقہ بھی آتا ہو کیونکہ کمانا تو سب کو آتا ہے لیکن خرچ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

اسراف کے متعلق ایک اہم وضاحت: یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ جس طرح لَا خَيْرَ فِيْ الْاِسْرَافِ یعنی اسراف (فضول خرچی) میں کوئی بھلائی و خیر نہیں ہے اسی طرح لَا اِسْرَافَ فِيْ الْخَيْرِ یعنی نیکی اور بھلائی کے کاموں میں کوئی اسراف (فضول خرچی) نہیں۔

فضول خرچی کے چند اسباب ہیں:

1۔ لاعلمی و جہالت، کہ بندے کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ فضول خرچی کررہا ہے اس کے لئے ہمیں چاہیے کہ ہم دین کے فرائض کو جانیں اور کسی کام میں خرچ کرنے سے پہلے غور و فکر کرے کہ میں جس کام میں مال خرچ کر رہا ہوں کیا یہ مجھے دنیا یا آخرت میں فائدہ دے گا بھی یا نہیں؟

2۔ غرور و تکبر، اس کے لئے بندے کو چاہیے کہ وہ تکبر کے دنیاوی و اخروی نقصانات کا مطالعہ کرے اور اپنے اندر عاجزی و انکساری پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

3۔ اپنی واہ واہ کی خواہش، اس سے بچنے کے لئے بندہ اپنے اندر اخلاص پیدا کرے اور اپنا یہ ذہن بنائے کہ لوگوں سے اپنی تعریف سن کر خوش ہونا کوئی اچھی بات نہیں بلکہ حقیقی خوشی تو یہ ہے کہ بندے کا رب اس سے راضی ہو جائے۔

4۔ غفلت اور لاپرواہی، کبھی انسان کو معلوم تو ہوتا ہے کہ فلاں کام فضول خرچی ہے لیکن اپنی لاپرواہی اور غفلت کے سبب وہ اس سے بچ نہیں پاتا، اس کے لئے بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر احساس پیدا کرے، دنیا میں غفلت و لاپرواہی کی بناء پر ہونے والے گناہوں پر آخرت کے مواخذے کو پیش نظر رکھے۔

نیز ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا احساس پیدا کرے ، نیز اپنا یہ مدنی ذہن بنائے کہ آج اگر میں نے نعمتوں کی ناشکری کی اور اسے فضول کاموں میں برباد کردیا تو ہوسکتا ہے کہ یہ نعمتیں مجھ سے چھین لی جائیں، لہذا میں اسراف و فضول خرچی سے بچتے ہوئے شکر کروں گا تاکہ ان میں مزید اضافہ ہو۔