ذو رحم رشتہ داروں کے 5 حقوق از بنت
غلام مصطفی،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
والدین اولاد اور شریک حیات بیوی کے حقوق کے بعد
اسلام رشتہ داروں کے حقوق پر زور دیتا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی میں انسان کا واسطہ
اہل خانہ کے بعد سب سے زیادہ انہی سے پڑتا ہے اگر خاندان کے افراد ایک دوسرے کے
حقوق اچھے طریقے سے ادا کرتے رہیں تو پورے خاندان میں محبت اور اپنائیت کی فضا
قائم ہوگی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو نفرت اور دوری پیدا ہو جائے گی اور
ائے دن کے جگڑوں سے خاندان کا سکون برباد ہو کر رہ جائے گا قرآن و حدیث دونوں میں
صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے حسن سلوک کی باربار تلقین کی گئی ہے۔
اللہ پاک قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے: فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ
السَّبِیْلِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ٘-
(پ 21، الروم: 38) ترجمہ: تم اپنے رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کو ان کا حق دو
اور یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے، جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رشتہ داروں سے تعلق
توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
قرآن کریم میں تقریباً کئی مقامات پر رشتہ داروں کو
ان کا حق دینے یا ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کا حق یہ ہے کہ
ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے، انہیں اذیت نہ دی جائے، ان سے بدسلوکی نہ کی جائے اور ان میں سے جو محتاج ہوں انکی مدد کی جائے،
ان سے خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں۔
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے ضرورت مند رشتہ
داروں کی ضروریات کا خیال رکھیں تاکہ انہیں غیروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے
تلقین کی گئی ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں خرچ کریں اس میں ترجیح اپنی رشتہ داروں
کو دیں اور پھر ان کے ساتھ جو سلوک کریں اس پر انہیں طعنے دے کر اپنا اجر و ثواب
برباد نہ کریں۔ انہیں احساس تنہائی اور احساس کم تری کا شکار نہ ہونے دیں ان کی
خوشی اور غم میں شریک ہوں رشتہ داروں کے ذریعے امداد کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اس
سے انسان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی اور کام نکل جاتا ہے جبکہ غیروں سے مدد طلب
کرنے میں اپنی ہی نہیں خاندان کی عزت بھی گھٹتی ہے۔