قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:    وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ (پ 13، الرعد: 21) ترجمہ: اور (اہل عقل وہ ہیں) جو اس تعلق (رشتہ داری) کو برقرار رکھتے ہیں جس کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے رشتہ قرابت میں اپنی رحمت اور برکت رکھ دی ہے وہ ان بندوں پر جو رشتہ داروں کو مٹنے نہیں دیتے رحمتوں کی بارش کرتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو آدمی چاہتا ہے کہ اس کی عمر بڑھے، رزق کشادہ ہو، بری موت سے بچے اور اس کی دعا قبول ہو اسے چاہئے کہ رشتہ قرابت کو جوڑے۔

قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی میں اقارب اور ذوی الارحام کے حصے مقرر کر دیئے گئے ہیں اور پھر تاکید کی گئی ہے کہ کسی بھی رشتے دار کو اس کے جائز حق سے محروم نہ کیا جائے۔ ایک خاندان یا برادری کے باہمی تعلق سے مقصود محبت،ہمدردی اور ایثار کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔

رشتہ داروں کے حقوق درج ذیل ہیں:

1۔مالی اعانت: اسلامی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے والدین اور عزیز و اقارب سے مالی تعاون کی بھی تاکید کی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى (پ 2، البقرۃ: 177) ترجمہ: جو اللہ کی رضا کیلئے رشتہ داروں کو مالی امداد دے۔

احادیث مبارکہ میں بھی حضور ﷺ نے قرابت داروں سے ہر طرح کے تعاون کی تعلیم فرمائی ہے۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اپنا ایک باغ صدقہ کرنا چاہتے تھے۔ حضور ﷺ نے انہیں حکم فرمایا: اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔

2۔قطع تعلقی پر وعید: قرآن و حدیث میں رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والوں کی بڑی مذمت کی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(۲۵) (پ 13، الرعد: 25) ترجمہ: جو لوگ ان رشتوں کو قطع کرتے ہیں جن کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ زمین میں فساد کرتے ہیں ان کیلئے لعنت ہے اور ان کا انجام بہت برا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: رشتہ داری کو قطع کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)

3۔صلہ رحمی: اسلام صلہ رحمی کی تعلیم دیتا ہے صلہ رحمی سے مراد رشتےداروں سے تعلق جوڑنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور (عقل مند) لوگ ان رشتوں کو جوڑے رکھتے ہیں جن کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے۔

4۔ وراثت کا حق: اسلام نے رشتہ داروں کو وراثت میں حصہ دار بنایا ہے قریبی رشتہ داروں کی عدم موجودگی میں دور کے رشتے دار حقدار قرار پاتے ہیں قرآن پاک نے قریبی رشتہ داروں کو اقربا یا ذوی القربی اور دور کے رشتہ داروں کو اولو الارحام کے الفاظ سے یاد کیا ہے قرآن مجید میں قرابت داروں کے حقوق بڑی تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔

لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪- وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَؕ-نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا(۷) (پ 4، النساء: 7) ترجمہ: جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں، تھوڑا ہو یا بہت، اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی، یہ حصے مقرر کئے ہوئے ہیں۔

5۔اقرباء پروری کی حد: اقربا کے ساتھ حسن سلوک، مالی و روحانی تعاون کا جذبہ قابل تحسین ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ رشتہ داری کی خاطر جائز اور ناجائز میں تمیز ہی باقی نہ رہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ:2) ترجمہ: اور نیکی اور پرہیز گاری کے معاملے میں تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے معاملات میں ہرگز تعاون نہ کرو۔

حضور اکرم ﷺ سے کسی نے دریافت کیا: اپنے خاندان سے محبت رکھنا تعصب میں داخل تو نہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ تعصب یہ ہے کہ آدمی اپنے خاندان کو ظلم کرنے میں مدد دے۔