سید محب علی (درجہ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی، پاکستان)
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کے اصول و ضوابط پہلے بھی
موجود تھے مگر ان پر عمل آہستہ آہستہ ختم ہو چکا تھا جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو
اس عالمگیر مذہب اور بندوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبر دارنے پڑوسیوں کے حقوق کی
اہمیت کو مزید بارہ چاند لگا دیئے کیونکہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا
بہترین عمل ہے جسکی تعلیم خود ہمار ا رب کریم ہمیں ارشاد فرما رہا ہے:
چنانچہ پارہ پانچ سورہ نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے: ترجمۂ
کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور
پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی
غلام سے ۔
نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر تو کامل مسلمان
ہو جائے گا۔( شعب الایمان باب فی اکرام الجار)پڑوسی کی اقسام :پڑوسی کی تین اقسام
ہیں: ایک جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار بھی ہو اسکے تین حق ہیں ۔ حق جوار، حق
مسلم، حق قرابت ۔ دوسرا جو پڑوسی مسلم ہو، اسکے دو حقوق میں حق جوار اور حق مسلم۔
تیسرا جو پڑوسی کا فر ہو اسکا ایک حق ہے۔ حق جوار۔( بہار شریعت )
پڑوسیوں کے عام حقوق: (1) پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے(2) ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے (3)
انکے حالات کے بارے میں زیادہ سوالات نہ کرے (4) جب وہ بیمار ہو تو انکی عبادت
کرے۔(5) مشکل وقت میں انکا ساتھ دے (6) انکی لغزشوں کو معاف کرے (7) اگر انکے عیوب
اس پر ظاہر ہو تو انہیں چھپائے (8) اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آجانے تو فوراً مدد کرے۔
(9) خوشی میں ان کو مبارکباد دیں۔ (10) ان کی خوشی میں شرکت کرے۔ (احیاء العلوم ،
جلد 2)
پورا گھرانہ مسلمان ہو گیا: حضرت بایزید بسطامی کا ایک غیر مسلم پڑوسی سفر میں گیا اسکے
بال بچے گھر رہ گئے رات کو اسکا بچہ روتا تھا آپ نے اسکی بیوی سے پوچھا کہ پر کیوں
روتا ہے ؟ وہ بولی گھر میں چراغ نہیں ہے بچہ اندھیرے میں گھبراتا ہے۔ اس دن سے آپ
روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کرتے اور اسکے گھر بھیج دیا کرتے جب وہ غیر
مسلم سفر سے آیا تو اسکی بیوی نے یہ واقعہ سنایا وہ غیر مسلم بولا کہ جس گھر میں با
یزید کا چراغ آگیا وہاں اندھیرا کیوں رہے وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔(رسالہ پڑوسیوں
کے حقوق)
40 گھروں پر خرچ کیا کرتے: حضرت سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر اپنے پڑوس کے گھروں میں سے
دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے، 40۔40 گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے عید کے
موقع پر انہیں قربانی کا گوشت اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر 100 غلام آزاد کیا
کرتے تھے۔
خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ اور پڑوسیوں کے حقوق: آپ رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے پڑوسیوں
کا بہت خیال رکھا کرتے ان کی خبر گیری فرماتے اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو
اسکے جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہو جاتے تو
آپ تنہا اسکی قبر کے پاس تشریف فرما ہو کر اس کے حق میں مغفرت و نجات کی دعا
فرماتے اور اسکے اہل خانہ کو صبر کی تلقین کرتے اور انہیں تسلی دیا کرتے ۔ (رسالہ
پڑوسیوں کے حقوق)
پڑوسیوں کے ساتھ بد سلوکی کی وعیدوں پر مشتمل
فرمان مصطفے ٰ: بہت سے پڑوسی قیامت کے دن اپنے پڑوسیوں کا دامن پکڑیں گے۔
پڑوسی عرض کرے گا یارب عزوجل اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ پر اپنا در وازہ بند کر رکھا
تھا اور اپنی ضرورت سے زائد چیزیں مجھ سے روکی تھیں۔ (پڑوسی کے حقوق)
دیکھا آپ نے کہ اسلام کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں
والدین اور رشتے داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ
ہمیں اپنے قریبی اور دور کے ہمسایوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چا ہیے ۔الحمد اللہ
قراٰنِ کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت انکے
ساتھ حسن سلوک بجالانے اور انکے حقوق کی بجا آوری کا ذہن دیا گیا ہے۔ اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں ہمسایوں اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے حقوق کو مکمل
کرتے اور ان کو تکلیف پہچانے سے محفوظ فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جامی رضا (درجۂ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
پڑوسیوں کے بھی حقوق ہمارے پیارے دین میں بیان ہوئے ہیں
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا فرمان ہے: مسجد کے دروازے پر جا کر یہ اعلان کیا جائے کہ سُن لو 40 گھر پڑوس
میں داخل ہیں۔ (معجم کبیر ،19/73، حدیث:143) معلوم ہوا کہ چاروں طرف کے 40 گھر
ہمارے پڑوس میں شامل ہیں اور ان کے جو حقوق ہیں وہ ہمیں ادا بھی کرنے چاہئیں، پڑوسیوں
کے چند حقوق درج کئے جا رہے ہیں ملاحظہ کیجئے:
(1) سب سے پہلا حق
ہے کہ جب کبھی پڑوسی مدد مانگے تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے اس پر کوئی مشکل
آجائے تو اس کی مدد کرنی چاہئے ۔
(2) دوسرا حق ہے کہ جب بھی پڑوسی کو پیسے کی ضرورت ہو تو اسے پیسے
دیں وہ کسی پریشانی میں ہو تو اسے قرض دے کر اپنا حق ادا کرو۔
(3) تیسرا حق یہ ہے کہ جب کبھی وہ محتاج ہو تو اس کی محتاجی کو
دور کر کے اپنا حق ادا کرو۔
(4) چو تھا حق یہ ہے کہ جب پڑوسی بیمار ہو تو اس کی
عیادت کے لئے اس کے گھر جاؤ اس کی عیادت کرو اور حوصلہ دے کر اپنا حق ادا کرو۔
(5) جب پڑوسی کو
کوئی بھلائی پہنچے تو اسے مبارک باد دو وہ خوش ہو تو آپ اس کی خوشی میں شامل ہو کر
اپنا حق ادا کرو ۔
(6) جب کبھی پڑوسی
کو کوئی غم ہے تو اس کی تعزیت کرو اسے صبر کی تلقین کرکے اپنا حق ادا کرو۔
(7) جب کبھی پڑوس
میں کوئی مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا کر اپنا حق ادا کرو اور ایسا کوئی کام
نہ کرو جس سے پڑوسی کو کوئی تکلیف پہنچے ، اس کا احساس کرتے ہوئے اپنا حق ادا کرو۔
(8) جب اپنے گھر میں
کچھ اچھا کھانا بناؤ تو اپنے پڑوسی کو بھی بھیج کر اپنا حق ادا کرو۔
(9) اگر کچھ فروٹ وغیرہ گھر میں لاؤ تو پڑوسی کو بھی دو
اگر نہ کر سکو تو اسے چھپا کر کھاؤ۔
(10) جب پڑوسی
کو ہو یہ نہ کر سکو تو اپنے بچوں کو روکو کہ وہ پڑوسی کے بچوں کو دیکھا کر نہ
کھائیں۔
یہ ایک پڑوسی کے حقوق ہیں جو کہ حدیث مبارکہ میں ذکر کئے
گئے ہیں مسلمان کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کا خیال کرے پڑوسی کے حقوق ادا کرئے، پڑوسی
سے بھی محبت کرے، پڑوسی کے بچوں پر شفقت کرتے، پڑوسی سے اچھے اخلاق سے پیش آئے، حدیث
پاک میں فرمایا گیا ہے: مؤمن مؤمن کے لیے عمارت کی مثل ہے جس کا بعض حصہ بعض کو
مضبوط کرتا ہے۔
لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو حوصلہ دے کر
انہیں مضبوط کرنے والے بنیں نہ کہ ان سے دشمنی کرنے والے ۔ اللہ پاک ہمیں پڑوسیوں
کے حقوق ادا کرنے والا بنادے۔ اٰمین
تنویر احمد (درجۂ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور، پاکستان)
ایک اچھا پڑوسی باعث سعادت اور موجب برکت ہے اور برا پڑوسی
باعث شقاوت اور موجب نحوست ہے۔ فرمان مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم : اپنی
تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی اور اس کے
احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ اس کو جزو ایمان اور داخلہ جنت کی شرط،
اللہ اور اس سول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کا معیار قرار دیا ہے، آپ
پڑوسی کو اذیت دینا گناہ کبیرہ اور اس عمل سوء (برے عمل) کا ارتکاب کرنے والے کو
جہنمی قرار دیا ۔ حدیث مبارکہ کی رُو سے پڑوسی تین طرح کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کے
تین حق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق
ہے۔
تین حقوق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور
رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا
قرابت داری کا ہوگا۔ اور دو حقوق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم
دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ اور ایک
حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف
پڑوسی ہونے کا حق ہے(شعب الایمان، 12/105) قراٰنِ پاک میں فرمان باری تعالیٰ:ماں باپ سے بھلائی کرواور
رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ
کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی پڑوسی کے حقوق کے اہمیت بیان
کرتے ہوئے ان ادائیگی کا تاکیدی حکم فرمایا گیا ہے، خواہ وہ پڑوسی رشتہ دار ہو،
اجنبی ہو ، مسلمان ہو یا کافر ہو۔
ايک شخص نے شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ ميں حاضر ہو کر اپنے پڑوسی کی شکايت کی تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے ارشاد فرمایا:جاؤ صبر کرو۔ پھر وہ 2يا3مرتبہ
حاضر ہوا تو دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا:جاؤ اپنے گھر کا سامان راستے پر ڈال دو۔ تو اس نے ايسا ہی کيا،
لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے اس سے معاملہ پوچھتےتو وہ انہيں اپنے پڑوسی کی حرکتوں کے
بارے ميں بتا ديتا، لہذا وہ اس پر لعنت بھيجنے لگتے کہ اللہ پاک اسے سزا دے اور
بعض لوگ اسے بددعائيں ديتےتو اس کا پڑوسی اس کے پاس آيا اور کہنے لگا: واپس لوٹ آؤ
آئندہ تم مجھ سے کوئی ايسی چيز نہ ديکھو گے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ ( سنن ابی داؤد
،کتاب الادب ، باب فی حق الجوار ، الحدیث، ص1600، حدیث:5183)
(1) پڑوسیوں کا پہلا حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے جانی و مالی
مدد مانگیں تو ان کی مدد کریں۔ اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ ر
کھیں ۔
(2) پڑوسیوں کا دوسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر ضرورت کے پیش
نظر وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے یہاں ایک مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ اگر
پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہوں تو اس پڑوسی کوقرض دینے سے انکار کیا
جاسکتا ہے ۔ ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے ، ورنہ قرض کے
بجائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔
(3 )پڑوسیوں کا جو تھا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو
جاتے ہیں تو اس کی عیادت اور بیمار پرسی کی جائے اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ
وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھے۔
(4) پڑوسیوں کا تیرا بنیادی حق یہ ہے کہ جب فقر اور محتاج
کی حالت کو پہنچ جائے پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی
حیثیت کے پیش نظر تو اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
(5) پڑوسیوں کا پانچوں حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی غمیکا
موقع آئے مثال کے طور پر فونگی ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے تو ان
کے ساتھ اظہار ہمدردی کرے ۔
(6) پڑوسیوں کا چھٹا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ فوت ہو جائے
تو اس کے نماز جنازہ میں شرکت کی جائے ہاں اگر فوت ہونے والے پڑوسی کے عقائد درست
نہ ہوں تو نماز جنازہ میں شرکت سے اجتناب کیا جائے۔
(7) پڑوسیوں کا ساتواں بنیادی حق یہ ہے کہ گھر میں کھانا
تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی
خوشبو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں پڑوسیوں
کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
محمد انس رضا (درجۂ خامسہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا اور ان پر
حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کو بھی لازم دیا لہذا ہمیں حقوق اللہ کے
ساتھ حقوق العباد کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے۔ جسکی ادائیگی کر کے ہم اللہ اور اس
کے رسول کی رضا حاصل کر سکتے ہیں چنانچہ اس ضمن میں قرآنی ، آیت واحادیث اوربز
رگوں کے اقوال درج ذیل ہیں: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ
بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ
الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا
مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ
داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے
ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ 5، النسآء:36)
(1) پڑوسیوں کےحقوق
کے بارے احادیث:
روایت ہے حضرت ابن مسعود سے فرماتے ہیں ایک شخص نے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے عرض کیا یارسول اللہ میں کیسے جانوں جب کہ میں بھلائی کروں یا جب کہ میں
برائی کروں تو نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسیوں
کو یہ کہتے سنو کہ تم نے بھلائی کی تو واقعی تم نے بھلائی کی اور جب تم انہیں کہتے
سنو کہ تم نے برائی کی تو واقعی تم نے برائی کی۔(مراۃ المناجیح، ابن ماجہ)
(2) حضرت انس فرماتے
ہیں ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کی
شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ (مراة المناجيح،جلد6، حديث :4963 )
(3) حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں
لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے (مسلم بخاری، مراۃ المناجيح،حدیث:2964)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے تحت مفتى احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اگر تمہاری دیوار میں تمہارا پڑوسی کیل،
کھونٹی وغیرہ گاڑنا چاہے اور تمہارا اس میں کوئی نقصان نہ ہو تو بہتر ہے کہ اسے
منع نہ کرو۔ (مراۃ المناجیح،ج4، حدیث:1964)
ایک انسانی جامعیت کی
روشنی میں پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت سمجھنا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہمارے
معاشرتی اور اخلاقی ارتقا کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی پڑوسیوں
کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو ان حقوق کا احترام کرنے کی
تربیت دی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تحت پڑوسیوں کے حقوق کا احترام کرنا ضروری ہے۔
رسول کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمسایوں کے حقوق کی بہت اہمیت ذکر فرمائی ہے۔ اُمِّ
المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:پڑوسیوں کے (حقوق) کے بارے میرے پاس جبریل امین اتنی بار تشریف لائے کہ
مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث (حق دار)
قرار دیا جائے گا۔ (بخاری شریف، کتاب الأدب، باب الوصاة بالجار،ج5،ص2239،
حدیث:5669)اس حدیث مبارک سے اندازہ کیجئے کہ شریعت میں پڑوسی کی قدر و منزلت اور
اس کا کس قدر احترام ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر
دیں تو ہمارا معاشرہ جنّت کا نمونہ بن جائے۔ یہاں کچھ اہم حقوق درج ذیل ہیں:
(1) حقِ زندگی اور امن: پڑوسی کو امن و امان سے رہنے کا حق ہے۔ کسی بھی طرح کے تشدد یا تجاوز کے بغیر
ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔
(2) حقِ حریتِ فکر: اسلامی روایات میں بھی پڑوسی کے ساتھ برابری کے ساتھ سلوک کا انصاف کرنے کی
تربیت دی گئی ہے۔
(3) حقِ خوشی اور خوشی: ان کے خوش رہنے کا حق ہے اور ہمیشہ ان کی خوشی کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان کے
ساتھ رفاقت اور دوستی کرنا ایک اچھا رویہ ہے۔
(4) پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک:ایک مسلمان کو اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے درج
ذیل اہم اصولوں کا پیروی کرنا چاہئے: ۱۔مدد و اعانت: پڑوسی کے مسائل اور پریشانیوں میں ان کی مدد
کرنا اور ان کے حل تلاش میں ان کا ساتھ دینا ایک انسانی رویہ ہے۔
۲۔ محبت اور احترام: اپنے
پڑوسی کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آنا چاہئے۔ ان کے حقوق کا خیال رکھنا اور
انہیں برابری سے احترام دینا چاہیے۔
۳۔ خصوصی مواقع پر تحفے دینا: ایک
دوسرے کے خوشیوں میں حصہ لینا اور خصوصی مواقع پر تحفے دینا، پڑوسی کے ساتھ رابطہ
برقرار رکھنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔
۴۔ زبانی اور اخلاقی رویہ:
پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہوئے، ان کے ساتھ اچھی زبان اور اخلاقی رویہ رکھنا
بہت اہم ہے۔
۵۔ تعاون اور مدد: ضرورت پڑنے
پر اپنے پڑوسی کو تعاون اور مدد فراہم کرنا، ان کا ساتھی بننے کا ایک اچھا طریقہ
ہے۔
پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک بہترین اخلاقی اور انسانی فطرت ہے۔ ایک مسلمان کے
لئے پڑوسیوں کے حقوق کا احترام کرنا ان کی انسانیت اور دینی مسئلوں کے لحاظ سے بہت
اہم ہے۔ اسلامی روایات میں پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بہت سارے مثالیں
ملتی ہیں جو ہمیں ان حقوق کی اہمیت سمجھاتی ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا
سلوک کرکے ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہمارے اخلاقی اور معاشرتی ترقی کے لئے مثبت
اثرات پیدا کرتا ہے۔
سید حدیر الحسن (درجۂ رابعہ
جامعۃُ المدینہ شاہ ابو البرکات مغل پورہ لاہور، پاکستان)
اسلام ایک بہت ہی پیارا دین ہے اس کی بے شمار خصوصیات و
محاسن ہیں اُنہی خصوصیات میں سے ایک کمال خصوصیت وہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور
ان کا احساس کرنا بھی ہے اس لیے شریعت مطہرہ نے مسلمانوں پر دوسرے مسلمانوں
بھائیوں کے لیے کئی حقوق لازم کئے ہیں ان حقوق میں پڑوسیوں کے حقوق بھی شامل ہیں
ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کے معاشرے کو پُر امن اور خوشحال بنانے کے لیے جو چیز
سب سے زیادہ مؤثر قرار پاتی ہے وہ اپنے علاقے و محلے کے حضرات کے ساتھ حسن سلوک سے
پیش آنا اور ان کی خیر خبر رکھ کر ان کی حسب استطاعت اعانت (یعنی مدد) کرنا بھی
ہے۔
چنانچہ اللہ پاک
پڑوسیوں سے حسن سلوک کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ
الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ
بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے
بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے
ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء: 36)
احادیث نبویہ:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث طیبہ میں بھی بہت تفصیل کے
ساتھ پڑوسیوں کے حقوق کو بیان فرما کر ان کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے اللہ پاک
کے پیارے حبیب معلم کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے حقوق بیان
کرتے ہوئے فرماتے ہیں:إِنْ مَرِضَ عُدْتَهُ، وَإِنْ مَاتَ شَيَّعْتَهُ،
وَإِنِ اسْتَقْرَضَكَ أَقْرَضْتَهُ، وَإِنْ أَعْوَزَ سَتَرْتَهُ ترجمہ:اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے
تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار
ہوجائے تو اس کے عیب کی پَردہ پوشی کرو۔(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد 19، ص419، حدیث
: 1014 مطبوعہ ابن تیمیہ قاھرہ)
پڑوسیوں کو تکلیف نہ دیں:سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا : مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا
يُؤْذِي جَارَهُ ترجمہ:جو شخص اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے
وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔(صحیح البخاری کتاب الادب باب من یؤمن باللہ
۔۔۔الخ حدیث 6018 صفحہ 1108 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
محترم اسلامی بھائیوں یاد رہے تکلیف پہچانا کئی طرح ہوسکتی
ہے اونچی آواز سے اپنے گھر میں ٹیلی ویژن لگانے سے بھی ہوسکتی ہے اگرچہ کوئی نعت
یا مدنی چینل ہی لگایا ہو لیکن اتنی بلند آواز سے لگایا ہو کہ جس سے ساتھ والے گھر
کے پڑوسی کی نیند خراب ہو یا پھر کوئی مریض ہو جس کو اس کے سبب تکلیف پہنچے الغرض
ہر ایسی چیزوں سے احتراز ضروری جن سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچے۔
پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ پاک عنہما سے روایت ہے کہ
حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَا زَالَ
جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ ترجمہ:مجھے حضرت جبریل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک
کی ہمیشہ وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں گمان کرنے لگا کہ یہ اسے وراثت میں بھی
شریک ٹھہرا دیں۔(صحیح مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب باب الوصیۃ بالجار
والاحسان الیہ، حدیث: 6265، صفحہ 1013 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
پڑوسیوں کا خیال رکھیں:حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ پاک عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ہاشمی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرماتے ہیں:لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ
جَائِعٌ ترجمہ: وہ شخص مؤمن نہیں جو خود شکم سیر ہو اور اسکا پڑوسی
بھوکا ہو۔(الادب المفرد للبخاری ، باب لا یشبع دون جارہ ، حدیث: 112 مطبوعہ قدیمی
کتب خانہ کراچی)
محترم اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنو ! اگر خدا نخواستہ آپ
سے کبھی بھی اپنے کسی پڑوسی کے حقوق میں کوتاہی ہوگئی ہو یا اس کی حق تلفی ہوئی ہو
تو جلد از جلد ان سے معافی مانگ لیں یاد رکھیں پڑوسیوں کے حقوق کے کا معاملہ بھی
حقوق العباد سے ہے حقوق العباد کے متعلق میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حقوق العباد میں بھی ملک دیّان عزوجل نے اپنے دار العدل
کا یہی ضابطہ رکھا ہے کہ جب تک وُہ بندہ معاف نہ کرئے معاف نہ ہوگا۔ (فتاویٰ
رضویہ، جلد 24 ،صفحہ 460 مکتبہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
لہذا جلد از جلد معاف مانگ لیں اور اگر کوئی اور آپ سے
معافی مانگے تو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اس مسلمان بھائی کو بھی معاف
کر دیں۔اللہ پاک ہمیں شریعت مطہرہ کے احکام کو درست طریقہ سے سمجھنے اور اس پر عمل
کرنے اور ساتھ ہی دوستوں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد افضل عطاری (درجۂ سادسہ
جامعۃُ المدینہ فیضان احمد رضا نارتھ کراچی ، پاکستان)
اسلام میں پڑوس کو بھی عزت دی جاتی ہے پڑوسیوں کی بھی حقوق
ہوتے ہیں آئے کچھ پڑھتے ہیں کہ حق پڑوس کیا ہے کیا حق ہے پڑوسیوں کا ؟ حق پڑوس کے
حوالے سے ارشاد امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ملاحظہ کیجئے چنانچہ فرماتے ہیں
یاد رکھئیے حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے
بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے
کیونکہ ایسا بھی ہوتا ھیکہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکالیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس
کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا لہذا صرف
تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہےکہ اس کے ساتھ نرمی اور
اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔( احیاء العلوم ، اداب الالفت ، ج2، ص 267 )
معزز قارئین! ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن
سلوک سے پیش آئے اگر وہ کسی آزمائش میں مبتلا ہو مثلا اس کا بچہ گم ہوجائے اس کے
ہاں فوتگی یا ڈکیتی ہوجائے مکان یا چھت گرجائے آگ لگ جائے یا وہ لائٹ پانی بیماری
روزگار گھریلو ناچاکی یا جھوٹے مقدمے جیسے مسائل سے دو چار ہو تو ہمیں فورا اپنی
طاقت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرتے ہوئے اسے مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوشش
کرنی چاہئے کیونکہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی
تعلیم خود ہمارا رب کریم ہمیں ارشاد فرمارہا ہے: چناچہ پارہ 5 سورہ نساء کی ایت نمبر
36 میں ارشاد باری تعالی ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ
داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے
ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
اس ایت مقدسہ کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ قریب کے
ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور
رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور
کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف
پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الایت:
ج 36 ، ص 275)
آخری نبی کا فرمان،
حق پڑوس کے حوالے سے: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تمہیں
معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ جب وہ تم سے مدد مانگے
مدد کر و ، اور جب قرض مانگے تو قرض دو ، اور جب محتاج ہو تو اُسے دو ، اور جب
بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد ، جب مصیبت پہنچے تو تعزیت
کرو، مرجائے جنازے کے ساتھ جاو، بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اُس کی ہوا
روک دو ، اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو ، میوے
خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو، اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چُھپا کر مکان میں لاؤ ،
تمہارے بچے اسے لیکر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا ، تمہیں معلوم ہے
کہ پڑوسی کا کیا حق ہے قسم ہے اُس کی جس کی قبضہ قدرت میں میری جان ہے مکمل طور پر
پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں وہی ہے جن پر اللہ کی مہربانی ہے حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہیں یہاں تک کہ
لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث کردیں گیں۔
پھر حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی 3 قسم کے ہیں بعض کے تین حق ہیں
بعض کے دو اور بعض کا ایک حق ہے جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو اس کے تین حق
ہیں۔1۔ حق جوار، حق اسلام اور حق قرابت مسلم۔ 2 پڑوسی کے دو حق ہیں حق جوار اور حق
اسلام 3 ۔اور غیر مسلم کا صرف ایک حق جوار ہے۔ ( شعب الایمان ، باب فی اکرام الجار
، ج7، ص83، 84،حدیث: 9560 )
ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی اپنے پڑوسیوں کا خیال کرے اُن کے
حقوق ادا کریں اُنہیں تکلیف ایذا نہ دیں اللہ ہم سب کو پڑوسیوں کا حق ادا کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ امین
نجم الثاقب (درجۂ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ کراچی، پاکستان)
تمام
تعریفیں اس پروردگا ر عالم کے لیے جس نے انسانوں کو پیدا کیا اور ان کے حقوق بھی
متعین کیے ، یہ اللہ کریم کا بہت بڑاکرم ہے کہ اس نے انسانوں کو جینے کا سلیقہ
سکھایا اورآپس میں مل جل کررہنے کا اعلیٰ ضابطۂ حیات دیا تاکہ ہر انسان کو اس کی
اپنی زندگی جینے کا پورا پورا حق مل سکے ،اسلام
حسین و خوشگوار ماحول اور الفت بھرے معاشرے کا درس دیتا ہے بلکہ جابجا اس کی تعلیم
و تاکید کرتا ہے ظاہر ہے کہ ہر شخص کے لیے معاشرے کا پہلا فرد اس کا پڑوسی ہے۔ آپ
اسلام کا درس دیکھئے کہ اگر پڑوسی کافر بھی ہو اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم
دی ہے ۔
پڑوسی تین طرح کے ہیں ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک حق ہے اور
دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں اور تیسرا وہ پڑوسی جس کے تین حق ہیں۔ ایک حق والا
پڑوسی وہ غیرمسلم پڑوسی ہے جس سے کوئی قرابت و رشتہ داری نہیں اس کے لیے صرف پڑوسی
ہونے کا حق ہے، اور دو حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی بھائی
بھی ہو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے اور دوسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے
ہے، اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو مسلمان بھی ہو اور رشتہ دار بھی
ہو تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے دوسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہے
اور تیسرا حق قرابت و رشتہ داری کی وجہ سے ہوگا۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انسان کو اپنے والدین،
عزیز واقارب اور اپنے پڑوسیوں کیساتھ حْسنِ سلوک سے پیش آنے اور انکے حقوق کو
احسن طریقے سے ادا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ
وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ
ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں
اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی
باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
لہذا انسان کو ہر وقت ایسے کام کرنے چاہیے جو اس کے رب کو
ناراض نہ کرے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کسی طرح کوتاہی نہ
کرے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے مختلف مواقع پر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے ۔
ایک موقع پر حضور نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ
کرام نے عرض کی: يا رسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ ارشاد فرمايا: جس کی برائيوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری شریف،
6016)ایک دوسرے مقام پر حضور اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو
اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔( بخاری شریف)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت
ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھے پڑوسی کے ساتھ
اچھا سلوک کرنے کی ہمیشہ یوں تاکید کرتے رہے کہ گمان ہوا کہ وہ عنقریب پڑوسی کو
وارث بنا دیں گے۔ (بخاری: 5670، مسلم:2624)
پڑوسیوں کو ایذا دینے والا جہنمی ہے:حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا،یارسول
اللہ! فلاں عورت اپنی نماز،روزہ اور خیرات کی کثرت کے باعث مشہور ہے ،مگر وہ اپنے
پڑوسی کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے۔ رحمت عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جہنمی ہے ،اسی
شخص نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ! فلاں عورت کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ روزےکم رکھتی
ہے،صدقات وخیرات میں بھی کمی کرتی ہے اور نماز بھی کم پڑھتی ہے ،مگر اپنے پڑوسیوں
کو دکھ نہیں پہنچاتی۔ رحمت عالم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جنت میں ہے ۔ (ابن حبان: 5734،
مسند احمد 440، شعب الایمان للبیہقی)
محبت بڑھانے کا طریقہ:پڑوسیوں میں محبت اور تعلقات کا بہترین ذریعہ ہدیوں اور
تحفوں کا لین دین ہے آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم خود بھی اس کی تعلیم فرماتے اور اپنی زوجہ محترمہ کو اسکی
تاکید فرمایا کرتے تھے۔آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے
ہدیہ و صدقہ کو حقیر نہ سمجھے خواہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو ۔ (متفق علیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ: میں نے کہا: اے اللہ
کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
! میرے دو پڑوسی ہیں، تو میں دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ ارشاد فرمایا:
ان دونوں میں سے جس کا گھر تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری شریف، 2259)
کامل مؤمن اور نیک مؤمن کون ہے؟:حضور نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس شخص کو مؤمن قرار دیا جو اپنے ساتھ اپنے
پڑوسی کے کھانے پینے کا بھی پورا خیال رکھے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا ’’مؤمن وہ نہیں ہوتا جو
خود تو سیر ہو جائے اور اس کا ہمسایہ(اس کے پڑوس میں) بھوکا رہے۔ (بخاری
شریف،2828)
ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت ميں داخل ہوجاؤں؟
تو رسولُ اللہ نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے
نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے
پوچھو اگر وہ تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی
ہو۔(شعب الایمان،9567)
بعض پڑوسی ایسےہوتے ہی کہ ان سے جیسا مرضی اچھا سلوک کر لیں
مگر وہ اپنی عادت سے مجبور ہوں گے ، مگر اسلام ہمیں نیک اور اچھا انسان بننے کا
درس دیتا ہےاور اُس برے پڑوسی کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا درس دیتا ہے اور مؤمن کا
مصدر ایمان، امن سے ماخوذ ہے اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ مفسد اور شر
پسند نہیں ہوسکتا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مؤمن اپنے پڑوسی کو ایذا نہیں
دیتا، اس پر ظلم نہیں کرتا، اس پر بہتان نہیں لگاتا، اسکی عزت وآبرو پر حملہ نہیں
کرتااور نہ صرف یہ کہ مؤمن پڑوسی اسکے شر سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے
بھی اسکی شرافت، امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ وہ امن وسلامتی کا
پیکر ہوتا ہے، ہمیں چاہئےکہ معاشرے کو پر سکون اور اَمن و سلامتی کا گہوارہ بنانے
کے لیے ”پڑوسیوں“ کے متعلق جو احکامات اسلام نے ہمیں بتائے ہیں ان پر عمل کیا جائے۔
اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو پڑوسیوں کے
حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے۔ آمین یارب العالمین
توقیر خٹک عطاری (درجہ ثانیہ
مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان عطار اٹک، پاکستان)
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انسان کو اپنے والدین،
عزیز واقارب اور اپنے پڑوسیوں کیساتھ حْسنِ سلوک سے پیش آنے اور انکے حقوق کو
احسن طریقے سے ادا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی
تعلیمات و ہدایات میں ہمسایوں کے ساتھ تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے نیک پڑوسی باعث
سعادت اور موجب برکت ہے اور بْرا پڑوسی باعث شقاوت اور موجبِ نحوست ہےحضور نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے
اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ اس کو جزو ایمان اور داخلہ
جنت کی شرط ،اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا معیار قرار دیا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کو
اذیت دینا کبیرہ گناہ اوراس عملِ سوء (بْرے عمل) کا ارتقاب کرنے والے کو جہنمی
قرار دیا ہے۔حدیث مبارکہ کی رُو سے پڑوسی تین طرح کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کے تین
حق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے۔
تین حقوق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور
رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا
قرابت داری کا ہوگا۔ اور دو حقوق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم
دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہوگا۔ اور ایک
حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے (جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف
پڑوسی ہونے کا حق ہے(شعب الایمان، 12/105)
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد مبارکہ ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور
ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے
اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)اسی طرح
احادیث مبارکہ میں بھی پڑوسی کے حقوق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حقوق کی ادائیگی کا
تاکیدی حکم فرمایا گیا ہے،خواہ وہ پڑوسی رشتہ دار ہو،اجنبی ہو،مسلمان ہو یا کافر۔۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب”ادب المفرد“ میں حضرت
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبیِّ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض
کیا،یارسول اللہ ! میرا پڑوسی مجھے ایذا(تکلیف) دیتا ہے،تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا
جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں پھینک دو ، وہ گیا اور اپنا سامان راستے میں
پھینک دیا،لوگ اسکے پاس جمع ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ
میرا ہمسایہ مجھے تنگ کرتا رہتا ہے،میں نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ذکر کیا
تو آپ نے مجھے سامان راستے میں ڈالنے کا حکم دیا،تو لوگ کہنے لگے اے اللہ اس
(اذیت دینے والے انسان ) پر لعنت کر،اسکو ذلیل کر،اس آدمی کو جب پتا چلا تو وہ
آیا اور کہنے لگا اپنے گھر واپس چلے جاؤ،میں تجھے اب نہیں ستاؤں گا۔ (کتاب
الادب المفرد بخاری ،ص 42،ابوداؤد، کتاب النوم، ج4، ص504)
نیک پڑوسی باعثِ سعادت اور موجب برکت ہے اور بْرا پڑوسی
باعث شقاوت اور موجبِ نحوست ہے، چنانچہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ چار چیزیں نیک بختی
کا سبب ہیں : نیک بیوی، کشادہ مکان، نیک پڑوسی، اچھی اور فرمانبر داری سواری جو
اپنے سوار کو تکلیف نہ پہنچائے اور چار چیزیں باعث شقاوت اور موحبِ نحوست ہیں:بُرا
پڑوسی ،بْری عورت ،بْری سواری اور تنگ مکان۔ (ابن حبان، کتاب النکاح 4021)
پڑوسیوں کے بنیادی حقوق: شعب الایمان للبیہقی میں حدیث پاک کی روشنی میں پڑوسی کے کئی حقوق بیان کیے
گئے ہیں: 1۔ پڑوسیوں کا پہلا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے جانی یا مالی مدد
مانگیں تو (اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر) ان کی مدد کریں۔
2۔ پڑوسیوں کا دوسرا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر (ضرورت کے پیش
نظر) وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔ یہاں بھی یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر
پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہو تو ایسے پڑوسی کو قرض دینے سے انکار
کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے ورنہ قرض کے
بجائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔
3۔ پڑوسیوں کا تیسرا بنیادی حق یہ ہے کہ جب فقر اور محتاجی
کی حالت کو پہنچ جائے (پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی
حیثیت کے پیش نظر) تو اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
4۔ پڑوسیوں کا چوتھا بنیادی حق یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو
جائے تو اس کی عیادت اور بیمارپُرسی کی جائے۔ اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ
وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھا
جائے ہاں اس کی ضرورت کو سمجھا جائے۔
5۔ پڑوسیوں کا پانچواں بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں
کوئی خوشی کا موقع آئے(مثال کے طور پر ان کے ہاں اولاد ہونا، امتحان میں پاس
ہونا، روزگار کا مل جانا، شادی بیاہ) تو ان کو مبارک باد دینا۔ یہاں بھی یہ بات
یاد رکھیں کہ اگر وہ پڑوسی خوشی کے موقع پر غیر شرعی یا غیر اخلاقی پروگرام کرتا
ہے تو اس میں بالکل شرکت نہ کی جائے اور نہ ہی اس موقع پر مبارک باد دی جائے تاکہ
اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔
6۔پڑوسیوں کا چھٹا بنیادی حق یہ ہے کہ جب ان کے ہاں کوئی
غمی (دکھ،تکلیف)کا موقع آئے (مثال کے طور پر فوتگی ہو جائے، ان کے ہاں چوری ہو
جائے، ایکسیڈنٹ ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے) تو ان کے ساتھ اظہار
ہمدردی کرنا۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم کے اندر ایک
عجیب و غریب واقعہ نقل کیا ہے کہ کسی کے گھر میں چوہوں کی کثرت ہو گئی تو کسی نے
بلی پالنے کا مشورہ دیا کہ اس طرح چوہے تمہارے گھر سے فرار ہوجائیں گے تو گھر والے
نے کہا کہ ’’مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے میرے گھر سے نکل
کر میرے پڑوس کے گھر میں چلے جائیں گے اور میں جو چیز اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہی
چیز اپنے پڑوسی کے لیے پسند کرنے لگوں؟ یقیناً یہ واقعہ بھی قابلِ نصیحت ہے،کاش کہ
ہم عمل کرنے کی کوشش کریں۔
دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں پڑوسیوں
کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ عامر عباس عطاری(درجۂ
ثالثہ، جامعۃُ المدینہ جی-11، اسلام آباد، پاکستان)
ہمسائیگی کو عربی زبان میں ”جوار“ کو کہا جاتا ہے اور پڑوسی
کو ”جار“ کہتے ہیں۔ اسلام سب سے پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن
معاشرہ پیدا کرنے کے لیے انسانی زندگی کو کوئی انفرادی اور اجتماعی پہلو ایسا نہ
چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ رہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ
واسطہ ہر ایک کو کو اپنے ہمسایہ یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس
کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمسایوں کے ساتھ حسن معاشرت خوشگوار رہن
سہن اور بودوباشی کے لیے بھی صرف ترغیب نہیں کی بلکہ اس کے حدود مقرر کر کے
تقریباً ایک معاشرتی۔ نظام بنا کر باہمی خوشگوار تعلقات پر زور دیا ۔
اس سلسلے میں یہ
بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہمسائیگی کا حق صرف اپنے دائیں بائیں بسنے والے
پڑوسی نہیں بلکہ اسکی وسعت کو اور پھیلاؤ بہت زیادہ ہے سب سے پہلے حق قریب پڑوسی کا
ہے اور بعد میں دور والے کا ہے۔ روایت ہے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں
کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے یہاں تک بھی فرمایا کہ جو اللہ تعالٰی اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے
مہمان کا احترام کرے اور جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی
کو نہ ستائے اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ
رہے۔ ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا
ہو وہ صلہ رحمی کرے (مسلم ، بخاری)نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کے گیارہ حق ارشاد فرمائے ہیں:
1۔ جب اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہو اسکی مدد کرو 2۔ اگر
معمولی قرض مانگے دے دو3۔اگر وہ غریب ہو تو اسکا خیال رکھو 4۔وہ بیمار ہو تو مزاج
پرسی بلکہ ضرورت ہو تو تیمارداری کرو5۔اگر وہ مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ۔ 6۔ اس
کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت کرو 7۔اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شرکت کرو
8۔اپنا مکان اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اسکی ہوا روک دو مگر اسکی اجازت سے۔ 9- گھر میں
پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیہ بھیجتے رہو ، نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ
ہونے دو، تمھارے بچے اسکے بچوں کے سامنے نہ کھائیں۔
10- اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو 11۔اپنے گھر کی
چھت پر ایسے نہ چڑھو کہ اسکی بے پردگی ہو۔ قسم اس کی جس کے قبضہ میری جان ہے۔
پڑوسی کے حقوق وہ ہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے (مرقات) کہا جاتا ہے
ہمسایا اور ماں جایا برابر ہونے چاہیے۔ افسوس مسلمان یہ باتیں بھول گئے قراٰنِ
کریم میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا۔ بہر حال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا
کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگتے رہا کریں۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ، جلد
ششم باب دعوت کا بیان ، صفحہ نمبر52)
عمر صدیق عطّاری(دورۂ حدیث،
مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ فیصل آباد ، پاکستان)
اسلامی تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں
دیتیں کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے پڑوس میں بچے بھوک و پیاس سے
بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو
وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر،ج 12،ص119، حدیث: 12741) پڑوسیوں سے حُسنِ سلوک
تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے ان کی
زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف
پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو
وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، ص 43، حدیث: 73) دوسری روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی
اُس نے اللہ پاک کو ايذا دی، نیز جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے
جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کی۔(الترغیب
والترہیب،ج3،ص286، حدیث: 3907)
ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے
میل جول نہ رکھیں، دُکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں پیدا
ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک،
ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، اَمْن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک
ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے دیگر اسلامی
بھائیوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا
ایسا درس دیا کہ اگر اُس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں
اور اِس کے نتیجے میں ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے
جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار
ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی: يارسولَ اللہ!
وہ کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمايا: جس کی برائيوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔(بخاری،ج4،ص104،
حدیث: 6016)
اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص
کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا،
چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت
ميں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے
نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ
تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب
الایمان،ج 7،ص85، حدیث: 9567)
پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت
کرو، اگر قرض مانگےتو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ
پوشی کرو۔( معجمِ کبیر،ج19،ص419، حدیث: 1014) ایک اور روایت میں یوں ارشاد فرمایا:
اگر وہ تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو،
کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں؟ پڑوسی کا حق کم لوگ ہی ادا کرتے ہیں
جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔(الترغیب والترہیب،ج3،ص243، حدیث:3914 )
ايک اور روايت ميں فرمایا: اگر وہ تنگدست ہوجائے تو اسے
تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اُسے مصیبت پہنچے تو اس سے
تعزيت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغير اس
کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہَوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ
پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خريد کر لاؤ تو
اسے بھی اس ميں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ايسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ
اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔ (شعب
الایمان،ج7،ص83، حدیث: 9560)
بسا اوقات پڑوسی سے کتنا ہی اچھا سلوک کیاجائے وہ احسان
ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی
اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ
سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی
نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َ نے فرمایا:اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت
فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف
دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت
فرمائے۔(معجمِ کبیر،ج2،ص152، حدیث: 1637)
مُعَاشَرے کو پُر
سکون اور اَمْن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے
احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے
لگے گا۔
محمد مرید حسین عطاری (درجہ
سادسہ جامعۃُ المدینہ پیراگون سٹی لاہور، پاکستان)
اسلام ایک
دین فطرت ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایسی روشن تعلیمات دیتا ہے کہ جن پر عمل کر کے
انسان دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔ چونکہ زندگی گزارنے کیلئے انسان کا
تعلق دوسرے انسانوں کے ساتھ رہتا ہے اسی وجہ سے دین اسلام انسانوں کے مختلف حقوق
بیان فرمائے ہیں جن میں پڑوسیوں کے حقوق بھی شامل ہیں چناچہ الله پاک ارشاد فرماتا
ہے:
ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور
محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور
اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)
پڑوسی کی اقسام :پڑوسی کی تین اقسام ہیں: ایک جو پڑوسی مسلم
ہو اور رشتہ دار بھی ہو اسکے تین حق ہیں ۔ حق جوار، حق مسلم، حق قرابت ۔ دوسرا جو
پڑوسی مسلم ہو، اسکے دو حقوق میں حق جوار اور حق مسلم۔ تیسرا جو پڑوسی کا فر ہو اسکا
ایک حق ہے۔ حق جوار۔( بہار شریعت )اُمِّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل علیہ اسلام مجھے پڑوسی کے
متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہو کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے
(صحیح بخاری )
امام بیہقی حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہُ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ
پڑوسی کا کیا حق ہے؟ جب مدد مانگے تو مدد کرو، جب قرض مانگے تو قرض دو، جب محتاج
ہو تو اسے دو، جب بیمار ہو تو عیادت کرو، مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو ، تو جب مرجائے
تو جنازے کے ساتھ جاؤ، جب خیر پہنچے تو مبارک باد دو۔ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں
باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور
دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5،
النسآء:36)حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کر اللہ پاک کے
نزدیک پڑوسیوں میں بہتر وہ ہے جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔
پیارے اسلامی بھائیو! ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کے
ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور بلا مصلحت شرعی ان کے احترام میں کمی نہ کرے امیراہل سنت
بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتھم
العالیہ اپنے رسالہ احترام مسلم کے صفحہ 17 پر ایک حدیث مبارکہ نقل فرماتے ہیں کہ
ایک شخص نے حضور سراپائے نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں عرض کی
یار سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وہ پر سال مجھے یہ کیونکر معلوم ہو کہ میں نے
اچھا کیا یا نہیں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب تم پڑوسیوں کو کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو
بے شک تم نے اچھا کیا اور جب پڑوسیوں کو کہتے سنو کہ تم نے برا کیا تو بے شک تم نے
برا کیا ۔(ابن ماجہ، 4/479، حدیث: 4223)
آج پڑوسیوں کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا، عاشقان رسول کی
دینی تحریک دعوت اسلامی سے وابستہ ہو جائیے عاشقان رسول کے مدنی قافلے میں سفر کی
سعادت اور ہر ماہ نیک اعمال کا رسالہ پر کر کے جمع کرانے کا معمول بنا لیجئے ان
شاء الله بطفیل مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کی اہمیت اور احترام
دل میں بڑھے گا۔