حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بے شمار احادیث مبارکہ میں پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں لیکن یہاں تو یوں ہوتا ہے کہ بالکل برابر مکان ہونے کے باوجود سالہا سال تک ملاقات کی نوبت تک نہیں آتی۔ ایک دوسرے سے جان پہچان تک نہیں ہوتی ۔ جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ جبرئیل اس کثرت کے ساتھ میرے پاس پڑوسیوں کے بارے میں احکامات لیکر آئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ دار نہ بنا دیا جائے۔ (ترمذی، باب ما جاء فی حق الجوار، حدیث:1) یعنی جب ایک پڑوسی مر جائے تو اسکے باقی ماندہ مال میں جس طرح اسکے عزیز و اقارب وراثت میں شریک ہوتے ہیں کہیں اس کے ساتھ پڑوسیوں کا حصہ بھی مقرر نہ ہو جائے ۔

پڑوسیوں کی اقسام:پڑوسیوں کی مندرجہ ذیل دو اقسام ہیں: پہلی قسم:پڑوسیوں کی پہلی قسم ہے ” الجارذی القربی“ یعنی وہ پڑوسی جو بالکل قریب ہو سب سے اہم حق ان پڑوسیوں کا ہے۔ دوسری قسم:” والجار الجنب“ یعنی وہ پڑوسی جس کے ساتھ گھر ملا ہوا نہ ہو لیکن وہ قریب ہی ہو، مثال کے طور پر اسی محلے میں ہو یا گلی میں دو چار گھر چھوڑ کر ہو۔پڑوسیوں کے کافی حقوق بیان کیے جاتے ہیں جن میں سے پانچ حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

(1) اگر کوئی پڑوسی محتاج ہو تو اس کی محتاجی اپنی ہمت و طاقت کے مطابق دور کرنی چاہیے اور ضروریات زندگی میں مدد کرنے کی سعی کرنی چاہیے کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔عن ابو شریح الخزاعی قال النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّممن کان یؤمن بالله والیوم الآخر فلیکرم جارہ ، ترجمہ حضرت ابو شریح الخزاعی روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو الله اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے پس اسے چائیے کہ وہ پڑوسی کے ساتھ اکرام (احسان) کے ساتھ پیش آئے ۔(موطا امام مالک، کتاب صفتہ النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )

لہذا محتاج اور مظلوم مسلمان کی مدد کرنی چاہیے کہ حدیث پاک میں مظلوم کی مدد کا حکم بھی دیا گیا ہے چنانچہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک فرماتا ہے: مجھے میری عزت و جلال کی قسم ! میں جلدی یا دیر میں ظالم سے بدلہ ضرور لوں گا اور اُس سے بھی بدلہ لوں گا جو باوجود قدرت مظلوم کی مدد نہیں کرتا ۔ ( معجم اوسط ، ج 1، ص 20، حدیث:36 )

شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدى رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: مسلمان کی مدد، مدد کرنے والے کے حال کے اعتبار سے کبھی فرض ہوتی ہے کبھی واجب تو کبھی مستحب ہوتی ہے (نزھۃ القاری ، ج 3 ، ص 665)

گویا پڑوسیوں کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کے حالات سے باخبر ہو کہ بوقت ضرورت اس کی مدد کر کے اچھے پڑوسی ہونے کا حق ادا کیا جا سکے۔

(2) اگر پڑوسی کبھی قرض مانگے تو اسے قرض دیا جائے اور اگر ایسی صورت تو نہ ہو مگر ویسے ہی کسی ضرورت کے لیے مانگ رہا ہو تو قرض دینا حسنِ سلوک کا تقاضا ہو گا اور یہ شرعا مستحب ہے۔ قرض دینے کی فضیلت کے بارے الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۴۵) ترجمہ کنز الایمان:ہے کوئی جو اللہ کو قرض حسن دے تو اللہ اس کے لئے بہت گنا بڑھا دے اور اللہ تنگی اور کشائش کرتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پھر جانا۔ (پ2،البقرۃ:، آیت 245)

لہذا تنگدست قرض دار کی مدد کرنی چاہیے کہ اسلام نے حاجت مند مسلمان کو قرض دینے کی نہ صرف ترغیب دلائی ہے بلکہ مقروض کے ساتھ حسن سلوک اور تنگدست کی مدد کرنے پر اجرو ثواب کی بشارت بھی عطا فرمائی ہے چنانچہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے تنگدست کو مہلت دی یا اس کے قرض میں کمی کی، اللہ پاک اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس سائے کے علا وہ کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ (ترمذی، ج3، ص52، حدیث:1310)

(3) اگر پڑوسی کے گھر میں کوئی خوشی کا سماں ہو تو دل جوئی کی نیت رکھتے ہوئے اس کی خوشی میں شریک ہونا چاہئے مسلمان کی دل جوئی کرنے پر فرمان مصطفی ٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے: اللہ پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے۔(معجم كبير ، ج 11، ص59، حديث: 11079)

(4) اگر پڑوسی کو کوئی تکلیف و پریشانی پہنچے تو اس سے تعزیت کی جائے۔ تعزیت کا معنی ہے تسلی دینا یعنی اگر اسکی تکلیف کو دور کرنا ممکن نہ ہو تو اس کو تسلی دی جائے اس کے غم میں شریک ہوا جائے، مثلا کوئی فوت ہو جائے تو اسے زبانی طور پر تسلی دیکر ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔ کسی کا دل غم میں ڈوبا ہوا ہو تو اسے ایسے جملے کہے جائیں جس سے اسکے دل کو سکون اور ٹھنڈک محسوس ہو اسی کا نام تعزیت ہے۔

لہذا مسلمان کی پریشانی دور کریں کہ انسان پر بسا اوقات مختلف پریشانیاں آتی ہیں، کبھی بیماری تو کبھی قرضداری، کبھی انسان مختلف قسم کی تکالیف میں پریشان نظر آتا ہے تو اگر ایسی صورت حال میں ہم کسی مسلمان کی پریشانی دُور کر سکتے ہوں تو اچھی نیتوں کے ساتھ اُس کی پریشانی دور کر کے اجرو ثواب کا حقدار بننا چاہیے ، فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کرے گا اللہ پاک قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا۔ (مسلم، ص1069، حدیث:6578)

(5) اگر پڑوسی بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کی جائے کہ سرورِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اسکی عیادت کرو۔ لیکن یہ تیمارداری اس طرح ہو کہ اس بیمار کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ کیونکہ مسلمان کی تیمارداری کرنا بھی بہت باعث اجر وثواب والا عمل ہے۔

مریض کی عیادت پر مشتمل اسلامی تعلیمات اس بات پر دلالت کرتے ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کسی بھی حال میں تنہا نہیں چھوڑا۔ پھر یہ دین کی پراثر تعلیمات ہی ہیں کہ جن میں عیادتِ مریض کو اخلاقیات میں اعلیٰ درجہ دینے کے ساتھ ساتھ اس میں کئی اخروی فوائد بھی رکھے گئے ہیں۔

میری تمام عاشقان رسول سے التماس ہے کہ ان حقوق کی خود بھی پاسداری کریں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں کہ ہر وہ کام جس سے پڑوسیوں کو تکلیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے وہ سب کام حقوق العباد کے خلاف ہیں۔ لہذا ایسے کاموں سے گریز کریں۔

الله پاک ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے اور انہیں پورا کرنے کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


روزمرہ کے مختلف معاملات میں جن افراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے۔ پڑوسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کرے خوشی غمی میں اس کا ساتھ دے، اس کی طرف سے تکلیف پہنچے تو صبر کرے ، وہ مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کرے، وہ بیمار ہوتو اس کی عبادت کرے ، اس کی عزت و آبر و کی حفاظت کرے۔ پڑوسی کے مزید پانچ حقوق بیان کئے جا رہے ہیں:

(1) پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے: حضرت سیدنا ابو شریح خزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو الله پاک اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے اور اللہ پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنے اور اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (مسلم ، کتاب الایمان ، باب الحث على اكرام الجار ۔۔)

(2) پڑوسی کو اذیت نہ دینا: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی گئی : فلاں عورت دن میں روزہ رکھتی ہے اور رات میں قیام کرتی ہے اور اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے ایذا پہنچاتی ہے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں، وہ جہنمی ہے۔ (مستدرک، کتاب البر والصلۃ ، باب ان اللہ لا یعطی الایمان الامن الحب، 5/231، حدیث 8375)

(3) پڑوسی کے لیے سالن میں شوربہ زیادہ بناؤ: حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ابوزر جب تم شوربہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔ ایک اور روایت میں ان ہی سے مروی ہے فرماتے ہیں: بے شک میرے خلیل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے وصیت فرمائی کہ جب تم شور بہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو، پھر اپنے پڑوسی کے گھر والوں کو دیکھو اور انہیں اس میں سے بھلائی کے ساتھ (کچھ) شوربہ دے دو۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب الوصيۃ بالجار، صفحہ 413، حدیث 2625)

(4) حقیر نہ سمجھنا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتوں ! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی دی ہوئی چیز کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الادب، حدیث: 6017)

(5) مدد کرنا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہ رہا ہوں ؟ پڑوسی کا حق کم وہی لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر الله کا رحم کرم ہوتا ہے (الترغیب والترہیب، حدیث: 3914 )


بفضل اللہ واحسانہ عزوجل جس نے اپنے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےذریعہ ملت حنفیہ کی عطا کے ساتھ ہمیں زندگی کا ضابطہ سکھایا ۔ دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر قباحت و خصلت طیبہ کی تعیین بھی کی گئی ہے ۔ اسی طرح اسلام میں ہر کسی کا حق ایک دوسرے پر رکھا ہے ۔ جس سے وہ اپنے درمیان ہر ہونے والی مشکلات و مصائب میں نصرت کریں ۔ اسی مناسبت سے حقوق العباد میں پڑوسی کے بھی حقوق ہوتے ہیں تو ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں، دُکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، اَمْن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں قرب و جوار میں بسنے والے دیگر مسلمانوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا کہ اگر اُس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ اسی مناسب سے چند حقوق پڑھئے:

(1) قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے (کے ساتھ بھلائی کرو)۔ (پ5، النسآء:36)

(2) حدیث شریف میں ہے: رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : حضرت جبرائیل مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ ،ص1413،حدیث:2664)

(3) ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو ؟ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ ہم لوگ اﷲعزوجل کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کے جذبے میں یہ کررہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس کویہ بات پسند ہو کہ وہ اﷲ و رسول عزوجل و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرے۔ یا اﷲ و رسول عزوجل اس سے محبت کریں تو کو لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایاجائے تو وہ امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (شعب الایمان ، باب فی تعظیم النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،ج2، ص201، حدیث:1533)

(4) رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔( شعب الایمان، 3/225 ، حدیث: 3389)چند مدنی پھول عرض کئے جاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی نیت کرلیجئے:(۱)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امدادبھی کرتا رہے۔(۲)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری ، ان کی خیر خواہی اور بھلائی میں ہمیشہ لگا رہے۔(۳)کچھ تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، ص1413، حدیث:2625)(٤)پڑوسی کے مال عزت آبرو کے معاملے میں بہت احتیاط برتے ان کی پردہ پوشی کرے، اپنی نگاہوں کو پڑوسی کی عورتوں سے دیکھنے سے خاص طور پر بچائے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے والا بنائے ۔اٰمین

(5) وہ مؤمن نہیں ہوسکتا: نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: يارسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: جس کی برائيوں سے اس کاپڑوسی محفوظ نہ رہے۔(بخاری،ج4،ص104، حدیث: 6016)

(6) اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا، چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت ميں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنےپڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نيک کہيں تو تم نيک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان،ج 7،ص85، حدیث: 9567)

(7) اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتیں کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے پڑوس میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر،ج 12،ص119، حدیث: 12741)

(8) پڑوسیوں سے حُسنِ سلوک تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے ان کی زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، ص 43، حدیث: 73)

(9) دوسری روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ کو ايذا دی، نیز جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،ج3،ص286، حدیث: 3907)

(10)پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگےتو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔( معجمِ کبیر،19/419، حدیث: 1014)

(11) ایک اور روایت میں یوں ارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں؟ پڑوسی کا حق وہی لوگ ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔(الترغیب والترہیب،ج3،ص243، حدیث:3914 )

(12) ايک اور روايت ميں فرمایا: اگر وہ تنگدست ہوجائے تو اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اُسے مصیبت پہنچے تو اس سے تعزيت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغير اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہَوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خريد کر لاؤ تو اسے بھی اس ميں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ايسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔ (شعب الایمان،ج7،ص83، حدیث: 9560)

(13) بسا اوقات پڑوسی سے کتنا ہی اچھا سلوک کیاجائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،ج2،ص152، حدیث: 1637)

مُعَاشَرے کو پُر سکون اور اَمْن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیےپڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔

ہر کسی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو نفسانی خواہشات وہر قباحت سے بچاتے ہوئے اللہ پاک اور تمام مخلوق کے حقوق کا بھی خیال رکھے ۔ چونکہ حق تلفی بھی گناہ ہے اپنے پڑوسیوں سے ہمدردی خوش اخلاقی ان کے تمام حقوق کی پاسداری کرنے اور ہمیں رازداری و حقوق کا پاس رکھنے کیلئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے نیز تمام برئیوں سے اجتناب کرکے اللہ ورسول عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر برائی سے محفوظ رکھے اور ہمیں اسلامی اسلوب کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


قرآن و حدیث میں پڑوسیوں کے بہت سے حقوق بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند ملاحظہ ہوں: الله تعالی فرماتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

صحیح بخاری ومسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : خدا کی قسم ! وہ مؤمن نہیں، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، عرض کی: کون یا رسول الله ؟ فرمایا: جس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں ( یعنی جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتا ہے)۔ (صحیح بخاری کتاب الادب، باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ، الحدیث : 4014 ، ج4، ص 104 )

حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں تین بار فرمانا تاکید کے لئے ہے لا یؤمن میں کمال ایمان کی نفی ہے، یعنی مؤمن کامل نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا ، حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی وضاحت پہلے ہی نہ فرمادی ، بلکہ سائل کے پوچھنے پر بتایا ، تاکہ سننے والوں کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے جوبات انتظار کے بعد معلوم ہو وہ بہت دلنشین ہوتی ہے، اگرچہ ہر مسلمان کو اپنی شر سے بچانا ضروری ہے مگر پڑوسی کو بچانا نہایت ہی ضروری کہ اس سے ہر وقت کام رہتا ہےاور وہ ہمارے اچھے اخلاق کا زیادہ مستحق ہے۔ (مراۃ المناجیح ، جلد 6، صفحہ 555) پڑوسیوں کو تکلیف دینے کی مختلف صورتیں : اس حدیث پاک میں پڑووسیوں کو تکلیف دینے پر وعید بیان ہوئی ہے چنانچہ پڑوسیوں کو تکلیف دینے کی مختلف صورتیں درج ہیں:

1۔ اس کے دروازے کے سامنے کچرا ڈال دینا

2۔ اس کے دروازے کے پاس شور کرنا

3۔ وقت بے وقت کیل وغیرہ ٹھونکنا

4۔ اس کے گھر میں جھانکنا

5۔ اونچی آواز سے ٹیپ ریکار ڈ یا ڈیک وغیرہ چلانا چاہیے نعتیں ہیں کیوں نہ چلائیں اس کی آواز اپنے تک محدود رکھئے ۔

6۔ اپنے گھر کا فرش دھونے کے بعد پانی پڑوسیوں کے گھر کےسامنے چھوڑ دینا

7۔ ان کے بچوں کو جھاڑنا ، مارنا ۔ وغیرہ

دعا ہے کہ الله پاک ہمیں ان تمام باتوں سے بچائے اور پڑوسیوں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، امین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! روز مرہ کے مختلف معاملات میں جن اَفراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے ، پڑوسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، اسی لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور بزرگانِ دِین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے حُسن سلوک کی وجہ سے کئی غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے ، ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ بھلائی کرے ، خوشی غمی میں اُس کا ساتھ دے ، اس کی طرف سے تکلیف پہنچے تو صبر کرے ، وہ مصیبت میں مبتلا ہوتو اس کی مدد کرے ، وہ بیمار ہوتو اس کی عیادت کرے ، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔

پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو ان کا ہم پر بہت بڑا حق ہے اگر وہ نسب میں ہم سے قریب ہو اور مسلمان بھی ہوتو اس کے تین حق ہیں (1)پڑوسی کا حق(2)قرابت داری کا حق(3)اور اسلام کا حق۔ اسی طرح اگر وہ قریبی ہے لیکن مسلمان نہیں ہے اس کے دو حق ہیں ایک پڑوسی ہونے کا حق اور دوسرا قرابت داری کا اور رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اسکا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا حق، اللہ  اور اُس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُمت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور ان کے حقوق کی معلومات حاصل کی جائے اور ادا کیے جائیں۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے :﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

(1) قریب اور دور کے ہمسائے:اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے  اپنی عبادت کرنے  اور کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دینے کے بعد والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ  بھلائی کرنے کا حکم دیا اور ان کے بعد قریب اور دور دونوں طرح کے  پڑوسیوں سے  بھلائی اور اچھا سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایاہے،ان پڑوسیوں کے بارے میں دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے ’’مکتبۃ المدینہ‘‘ کی مطبوعہ 495 صفحات پر مشتمل کتاب صراط الجنان جلد2 صفحہ201 پر تفسیراتِ احمدیہ کے حوالے سے لکھا ہے : قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔

(2)نیز اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت یعنی(آخرت کے دن) پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہیے۔(مسلم کتاب الایمان) اللہ پاک اور اُس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو،قرض طلب کرے تو اُسے قرض دو،خوشی میں ہوتو مبارک باد دو،مصیبت زدہ ہوتو تسلی دو،اسے اسلام میں پہل کرو،بات نرمی سے کرو،اُس کے دین اور دنیا کی درستگی میں اُس کی رہنمائی کرو،اُسکے عُیوب کی تلاش میں نہ رہو،اُس کی لغزشوں سے درگزر کرو، اس کی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اُس کو اِیذَا نہ دو یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اورحسن سلوک کے ذیل میں آتی ہیں۔

(3) اپنے پڑوسی کے ساتھ خواہ کتنا بھی احسان کرو اُس کو زیادہ سمجھو کیونکہ اُس کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اللہ پاک کی طرف سے اَجر عَظْیم اور بلند درجات حاصل ہوتے ہیں  رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وحی الہٰی کی تعمیل میں پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید فرمائی ہےکہ:آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے: جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میں برابر تاکید اور تلقین کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان(خیال)کیا کہ وہ اسے یقیناً وارث قرار دے دیں گے۔ (مسلم، کتاب الادب)

(4)ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے اُسکے ساتھ بھلائی کرے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرے ۔  رسول  اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اُس کا شوربہ زیادہ کرلیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔(مسلم، کتاب البر والصلہ)

(5)حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ  رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! فلاں  عورت نماز وروزہ، صدَقہ کثرت سے کرتی ہے مگر اپنے پڑوسیوں  کو زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جہنّمی ہے۔(مُسْنَد اَحمَد،ج4، مسند ابی ھریرہ، ص 635 ، الحدیث : 9926)

ہر مسلمان عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق پڑوسن کے یہاں ھدیہ بھیجتے رہنا چاہیے۔ یہاں تک کہ وہ معمولی چیز کا ھدیہ بھیجنے میں بھی تامل نہ کرے۔ اسی طرح کسی پڑوسن کے یہاں سے آئے ہوئے معمولی ھدیہ کو بھی حقیر نہ جانے بلکہ اسے خوش دلی سے قبول کرے اور ہدیہ دینے والی کا شکریہ ادا کرے اس سے نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور غصہ دور ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتی ہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوشگوار ہو جاتے ہیں۔

(6)ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر حق یہ ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔نیز رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن اُس کے(ھدیہ)کوحقیر نہ سمجھے اگرچہ( اُسکا بھیجا ہوا ھدیہ) بکری کا کھر ہی ہو۔(بخاری، کتاب الادب)

(7)رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہو سکتا اللہ کی قسم! وہ مؤمن نہیں ہو سکتا،اللہ کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا:اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اُس کی شرارتوں سے مخفوظ نہ ہو۔(بخاری ،کتاب الادب)

آج کل اپنے پڑوسیوں کو طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے ، کبھی ڈسٹ بن سے کچرے کی تھیلی اُٹھاکر چُپکے سے اس کے دَروازے کے آگے رکھ کر بھاگ جاتے ہیں ، کبھی اس کے دَروازے کے آگے پانی بہا کر تکلیف دیتے ہیں ، اگر چند منزلہ عمارت ہے تو آرام  کے وقت میز کُرسیاں گھسیٹ کر آرام میں خَلل ڈالتے ہیں یا بچے زور زور سے شور شرابا کرتے ہوئے کھیلیں گے ، چیزیں پھینکیں گے تو دِیگر گھر والے انہیں روکیں گے نہیں اور دوسری منزل والے کی آنکھ کھل جائے گی ، کبھی اس بے چارے کا پانی بند کر دیں گے تو کبھی بارش کے پانی کا رُخ اس کی طرف کر دیں گے ، کوئی چیز جھاڑیں گے تو دھول مٹی اس بے چارے کے گھر میں جانے دیں گے ، نہ جانے پڑوسیوں کو کیسی کیسی تکلیفیں دیں گے اور جب وہ بے چارہ فریاد لے کر آئے گا تو اس کی کوئی شِنوائی بھی نہیں ہوگی۔ غور کر لیجیے! پڑوسی کو تکلیف دینے کی کتنی بڑی خرابی اور بَدنصیبی ہے۔

پڑوسیوں کو تکلیف دینا:اور ایک روایت میں فرمایا گیا جو اللہ اور یوم آخرت (یعنی آخرت کے دن )پر ایمان رکھتا ہوتو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔(بخاری) ایک شخص کے گھر میں چوہے ہو گئے وہ اس کو تنگ کرتے تھے۔ کسی نے مشورہ دیا آپ بلی پال لو ، اس نے کہا : بلی پالنے سے چوہے میرے گھر سے بھاگ کر میرے پڑوسی کے گھر میں چلے جائیں گے!میں یہ نہیں کر سکتا ، چوہے میرے گھر میں ہی ٹھیک ہیں۔ جہاں اِس قدر اچھی سوچ والے ہیں وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی بَلا دوسروں پر ڈالنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں سامنے والا کل کے بجائے آج مرجائے  مگر ہماری جیب بھری رہے اور ہم سکون سے رہیں۔

(8)پڑوسی کا بہت زیادہ حق ہوتا ہے اور پڑوسی صرف وہی نہیں ہوتا جو گھر کے برابر میں رہتا ہے پڑوسی کے بارے میں بھی قیامت کے دِن سُوال ہوگا کہ پڑوس کا حق ادا کیا یا نہیں؟ ان پڑوسیوں کو بھی آرام پہنچانا ہے ، یا نہیں کہ خود پھیل کر بیٹھ جائیں اور برابر والے کو جگہ ہی نہ ملے ، عموماً رش میں ایسا ہوتا ہے خوب پھیل کر بیٹھتے اور ٹانگیں پھیلا لیتے ہیں۔ کاش یہ جَذبہ نصیب ہوجائے کہ ہم خود تکلیف اُٹھالیں لیکن اپنے بھائی کو آسانی پہنچائیں اگر ایسا کریں گے تو دُنیا و آخرت میں آسانیاں نصیب ہوں گی۔اِن شآءَ اللہ

(9)اپنے پڑوسیوں  کا خیال رکھنا چاہئے، پڑوسیوں کے حقوق بَہُت زیادہ ہیں ، مؤمن کا مصدر ایمان، (اَمَنْ) سے ماخوذ ہے جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ مُفسد (فساد پھلانے والا)اور شَرْ پسند نہیں ہوسکتا۔اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ مؤمن اپنے پڑوسی کو اِیذَا نہیں دیتا،اس پر ظلم نہیں کرتا،اس پر بہتان(تُہمت)نہیں لگاتا،اُس کی عزت وآبرو پر حملہ نہیں کرتا۔

بلکہ وہ اَمن وسلامتی کا پیکر ہوتا ہے نہ صرف یہ کہ مؤمن پڑوسی اُس کے شر، دست درازی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے بھی اسکی شرافت، امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں۔جو شخص اپنی شرارتوں سے پڑوسی کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی فتنہ انگیزی سے اسکا چین چھین لیتا ہو وہ مؤمن نہیں یعنی کامل مؤمن نہیں ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں بھی پڑوسیوں کے حقوق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! روزمرہ کے مختلف معاملات میں جن افراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے۔ ‏پڑوسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏صحابہ ٔ کرام علیہم الرضوان اور بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی ‏کرے، خوشی غمی میں اس کا ساتھ دے ،اس کی طرف سے تکلیف پہنچے تو صبر کرے وہ مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی ‏مدد کرے۔ وہ بیمار ہوتی اس کی عبادت کرے اس کی عزت و آبر و حفاظت کرے۔

پڑوسی کے پانچ حقوق (1) پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے۔ حضرت سیدنا ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کیا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو الله پاک اور ‏آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے اور اللہ پاک اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے ‏چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنے اور جو اللہ پاک اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا ‏خاموش رہے ۔ (مسلم کتاب الایمان )

‏(2) پڑوسی کو اذیت نہ دینا ۔ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ‏عرض کی گئی : فلاں عورت دن میں روزہ رکھتی ہے اور رات میں قیام کرتی ہے اور اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے ایذا ‏ پہنچاتی ہے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں، وہ جہنمی ہے۔ (مستدرک، کتاب البر والصلة، باب ان اللہ لا یعطی الایمان الامن ‏الحب 5/231، حدیث: 8375‏)

پڑوسی کے لیے سالن میں شوربہ زیادہ بناؤ: حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا! ‏اے ابوذر جب تم شوربہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔ ایک اور روایت میں ان ہی سے مروی ہے فرماتے ہیں: بے شک میرے خلیل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ‏مجھے وصیت فرمائی کہ جب تم شور بہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو، پھر اپنے پڑوسی کے گھر والوں کو دیکھوں اور انہیں اس میں سے بھلائی ‏کے ساتھ (کچھ) شوربہ دے دو۔‏(مسلم، کتاب البر والصلة والاداب، باب الوصية بالجارو‏ الاحسان اللہ ،ص 413 حدیث: 2625‏)

‏(5) حقیر نہ سمجھنا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتوں ! ‏کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی دی ہوئی چیز کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری کتاب الادب، باب الاتحقرن جارة ‏لجار تھا ،104‏،حدیث: 6017)‏

مدد کرنا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو کیا تم ‏سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہ رہا ہوں ؟ پڑوسی کا حق ہے کم لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر الله کا رحم و کرم ہی ہوتا ہے۔ (الترغیب ‏والترھیب ، ص 243‏،حدیث 3914‏)


روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے ۱؎ اور جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے ۲؎ اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے۳؎ ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے ۴؎ (مسلم،بخاری)۔ ۱؎ مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے، بعض حضرات خود مہمان کے آگے دسترخوان بچھاتے اس کے ہاتھ دھلاتے ہیں یہ اسی حدیث پر عمل ہے، بعض لوگ مہمان کے لیے بقدر طاقت اچھا کھانا پکاتے ہیں وہ بھی اس عمل پر ہے جسے کہتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان کا ہے جیسے باپ اپنے بیٹے سے کہے کہ اگر تو میرا بیٹا ہے تو میری خدمت کر،مہمان کی خاطر مؤمن کی علامت ہے۔خیال رہے کہ پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں تکلف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی بھی مہمانی ہوتی ہے بعد میں صدقہ ہے۔(مرقات)

یعنی اس کو تکلیف دینے کے لیے کوئی کام نہ کرے۔

فرمایا نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسی کے گیارہ حق ہیں: (1)جب اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہو اس کی مدد کرو(2)اگر معمولی قرض مانگے دے دو(3)اگر وہ غریب ہو تو اس کا خیال رکھو(4)وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تیمارداری کرو(5)مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ(6)اس کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت کرو(7)اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شریک رہو(8)اپنا مکان اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اس کی ہوا روک دو مگر اس کی اجازت سے(9)گھر میں پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیۃً بھیجتے رہو نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو، تمہارے بچے اس کے بچوں کے سامنے نہ کھائیں(10)اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو(11)اپنے گھر کی چھت پر ایسے نہ چڑھو کہ اس کی بے پردگی ہو۔ قسم اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے پڑوسی کے حقوق وہ ہی ادا کرسکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔(مرقات)کہا جاتا ہے ہمسایا اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں۔افسوس! مسلمان یہ باتیں بھول گئے۔ قراٰنِ کریم میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا بہرحال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگئے۔

۳؎خیر سے مراد یا اچھی بات ہے خواہ واجب ہو یا فرض یا سنت یا مستحب ہر مباح بات ہے۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ مباح بات بھی زیادہ نہ کرے تاکہ ناجائز بات میں نہ پھنس جائے۔ تجربہ ہے کہ زیادہ بولنے سے اکثر ناجائز باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ جو خاموش رہا وہ سلامت رہا جو سلامت رہا وہ نجات پا گیا۔ فی صدی پچانوے گناہ زبان سے ہوتے ہیں اور پانچ فی صدی گناہ دوسرے اعضاء سے۔ مطلب یہ ہے کہ مؤمن کامل وہ ہے جو بھلی بات منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ خیال رہے کہ بات ہی ایمان ہے، بات ہی کفر، بات ہی مقبول ہے، بات ہی مردود۔

۴؎ یعنی اپنے ذی رحم قرابتداروں کے حقوق ادا کرے۔ ذی رحم وہ عزیز ہے جس کا رشتہ ہم سے نسبی ہو۔ محرم وہ ہے جس سے نکاح کرنا حرام ہو،لہذا داماد محرم ہے ذی رحم نہیں اور چچا زاد بھائی ذی رحم ہے محرم نہیں اور سگا بھائی بھتیجا ذی رحم بھی ہے اور محرم بھی، یہاں ذی رحم عزیز مراد ہیں خواہ محرم ہوں یا نہ ہوں اگرچہ ساس، سسر، بیوی کے حقوق بھی ادا کرنا ضروری ہے مگر ان کو صد رحمی نہیں کہتے۔ یہ حدیث،طبرانی،ترمذی جامع صغیر وغیرہ میں اور طریقوں سے وارد ہوئی ہے جس میں علامات ایمان اور بہت چیزیں ارشاد ہوئیں۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4243)

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے الله کی قسم نہیں مؤمن ہوتا الله کی قسم مؤمن نہیں ہوتا الله کی قسم مؤمن نہیں ہوتا ۱؎ عرض کیا گیا کون یارسولُ الله فرمایا وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو ۲؎ (مسلم،بخاری)

۱؎ تین بار فرمانا تاکید کے لیے ہے،لا یؤمن میں کمال ایمان کی نفی ہے یعنی مؤمن کامل نہیں ہوسکتا نہیں ہوسکتا نہیں ہوسکتا۔

حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی وضاحت پہلے ہی نہ فرمادی بلکہ سائل کے پوچھنے پر بتایا تاکہ سننے والوں کے دل میں یہ بات بیٹھ جاوے جو بات انتظار اور پوچھ گچھ کے بعد معلوم ہو وہ بہت دلنشین ہوتی ہے اگرچہ ہر مسلمان کو اپنی شر سے بچانا ضروری ہے مگر پڑوسی کو بچانا نہایت ہی ضروری کہ اس سے ہر وقت کام رہتا ہے وہ ہمارے اچھے اخلاق کا زیادہ مستحق ہے، رب تعالٰی فرماتاہے: الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ ۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4962 )

وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهٗ بَوَائِقَهُ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۱؎ یعنی صالحین اور نجات پانے والوں کے ساتھ وہ جنت میں نہ جاوے گا اگرچہ سزا پاکر بہت عرصہ کے بعد وہاں پہنچ جاوے لہذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ "من قال لا الہ الا الله دخل الجنۃ

افسوس کہ یہ سبق آج بہت سے مسلمان بھول گئے اب تو ان کے تیر کا پہلا شکار ان کا پڑوسی ہی ہوتا ہے۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 حدیث:4963)

روایت ہے حضرت عائشہ اور ابن عمر سے وہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرمایا کہ مجھے جناب جبریل پڑوسی کے متعلق مجھے حکم الٰہی پہنچاتے رہے حتی کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنادیں گے(مسلم،بخاری)۔

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنے دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے(مسلم،بخاری)۔ 


اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہیکہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور انکے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ ﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی ۔ (پ5، النسآء:36)

حدیث مبارکہ

(1) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً قَالَ قَالَ رسولُ الله مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْم الآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِي فَلْيُكرِ مُ ضَيْفَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الأخير فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمتُ ترجمہ حضرت ابو ہریره سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور یوم آخرت پر، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے، اور جو اللہ پاک پر ایمان رکھتا ہو اور یوم آخرت پر ، وہ اپنے مہمان کی تعظیم کرے، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور یومِ آخرت پر ، اسے چاہیے کہ نیک بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ (مسلم: 427 سنن ابن ماجہ : 3672 ،سنن دارمی:2036، مسند احمد : 7571)

حدیث کی تشریح: اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کا مطلب یہ ھیکہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ ھیکہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو، قرض طلب کرے تو اسے قرض دو خوشی میں ہو تو مبارک باد ،دو مصیبت زدہ ہو تو تسلی دو، اسے سلام میں پہل کرو، بات نرمی سے کرو، اس کے دین و دنیا کی درستگی رہنمائی کرو، اس کے عیوب کی تلاش میں نہ رہو، اس کی لغزشوں سےدرگزر کرو، اسکی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اسکو ایذا نہ دو۔ یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کے ذیل میں آتی ہیں ۔

حدیث نمبر (2) ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی کے اوپر حق یہ ہے کہ اسے کسی طرح کی بھی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِثْبٍ عن سَعِيدٍ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ أَنَّ النَّبِيَّ لا قَالَ وَاللهِ لا يُؤْمِنُ وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللهِ لَا يُؤْمِنُ قِيلَ وَمَنْ يَا رسولُ الله قَالَ الَّذِى لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ تَابَعَهُ شَبَابَةُ ترجمہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ کی قسم ! وہ ہرگز مؤمن نہیں ہے، اللہ کی قسم ! وہ ہر گز مؤمن نہیں ہے، اللہ کی قسم ! وہ ہرگز مؤمن نہیں ہے، عرض کیا گیا: کون یا رسولَ الله ؟! آپ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کے شر اور ہلاکت آفرینی سے محفوظ نہیں ہے۔(صحیح مسلم:46،مسند احمد: 8227)


الله عزوجل قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی۔ (پ5، النسآء:36)

لفظ "جار" کی لغوی تحقیق: جار " جوار" سے بنا ہے جس کے معنی "امان " کے ہیں۔ پڑوس میں رہنے والا۔

پڑوسی کی اقسام: پڑوسی کی 2 قسمیں ہیں۔

(1) وه پڑوسی جو پڑوس میں رہتا ہو اور رشتہ دار بھی ہو ۔

(2) وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہ ہو۔

احادیث مبارکہ:

حدیث نمبر (1) حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ پاک عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل مجھے پڑوسیوں سے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کے مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی وارث بنادیا جائے گا۔

حدیث نمبر (2) ( بہترین ہمسایہ )حضرت عبد الله بن عمر و بن عاص سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کے نزدیک بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوست کا خیر خواہ ہو اور بہترین ہمسایہ وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کا خیر خواہ ہو۔

حدیث نمبر (3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنا پیٹ تو پھر لے اور جبکہ اس کا پڑوسی بھوکا ہے۔

حدیث نمبر (4) امام بخاری نے الادب میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ کتنے ہی پڑوسی ہوں گے جو قیامت کے روز پڑوسی کے ساتھ چمٹے ہوئے ہوں گے پڑوسی عرض کر رہا ہوگا: اے میرے رب اس نے مجھ پر اپنا دروازہ بند کر دیا تھا اور اس نے میرے ساتھ حسن سلوک نہ کیا۔

حدیث کی روشنی میں پڑوسیوں حقوق:

حدیث نمبر (5) حضرت معاویہ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یار سول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرے پڑوسی کا مجھ پر کیا حق ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:

(1)اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ۔

(2) اگر مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو۔

(3) اگر تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو ۔

(4) اگر بے حال ہو تو اس پر ستر کرو ۔

(5) اگر اس کو کوئی اچھائی پہنچے تو اس کو مبارک باد دو۔

(6) اگر اس کو کوئی اذیت پہنچے تو اس کی تعزیت کرو اپنے گھر کی عمارت اس سے بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے ۔(المعجم الکبیر ، 19/ 419)

پڑوسی کا اطلاق: علامہ ابی مالکی نے لکھا ہے کہ جس شخص کا گھر یا دکان تمہارے گھر یا دکان سے متصل ہو وہ تمہارا پڑوسی ہے بعض علما نے چالیس گھروں تک اتصال کا اندازہ کیا ہے۔

حدیث نمبر (6) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک دن مجلس نبوی میں کسی شخص نے عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! فلاں عورت کا زیادہ نماز، روزے اور کثرت صدقہ و خیرات کی وجہ سے بڑا چرچا ہے لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ وہ دوزخ میں جائے گی پھر ا س شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ فلاں عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم روزے رکھتی ہے بہت کم صدقہ و خیرات کرتی ہے اور بہت کم نماز پڑھتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس کا صدقہ و خیرات چند ٹکڑوں کے آگے نہیں بڑھتا لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :وہ عورت جنت میں جائے گی۔ 


الحمد اللہ شریعت مطہرہ جو ہمارے ہر معاملے میں ہماری اصلاح کرتی رہتی ہے چاہے وہ نکاح کے ہوں یا پھر طلاق کے یا پھر بالغ ہونے سے لے کر موت تک کے۔ ہمارا اس وقت جو موضوع ہے یعنی main topic ہے(پڑوسیوں کے حقوق) آج ہم اپنے پڑوسیوں کی اتنی دل آزاریاں کرتیں ہیں وہ خود ہم سےبدظن ہو جاتے ہیں اگر وہ پڑوسی غیر مسلم ہو تو وہ ہمارے دین اسلام سے بد ظن ہو جاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو دین اسلام یہ سکھاتا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ یہ سلوک کرو یعنی یہ برتاؤ کرو۔ بلکہ نہیں ! دین اسلام تو مسلمان کو یہ سکھاتا ہے کہ اس کا کردار تو ایسا ہونا چاہیے کہ اسے دیکھ کر غیر مسلم مسلمان ہو جائے آئیں اب ہم یہ سنتے ہیں کہ پڑوسیوں کے حقوق کیا ہیں؟

حقِ پروس کیا ہے؟: حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی رحمۃُ اللهِ علیہ فرماتے ہیں: یاد رکھئے ! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو بر داشت (Tolerate) کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے۔ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا، حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا، لہذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔ (احیاء العلوم، كتاب اداب ... الخ، 2/267)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں اگر وہ کسی آزمائش میں مبتلا ہو مثلاً اس کا بچہ گم ہو جائے، اس کے یہاں فوتگی یا ڈکیتی ہو جائے، مکان یا چھت گر جائے، آگ لگ جائے یا وہ لائٹ، پانی، بیماری، روز گار، گھریلو ناچاکی یا جھوٹے مقدمے جیسے مسائل سے دوچار ہو تو ہمیں فوراً اپنی طاقت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرتے ہوئے اسے مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی تعلیم خود ہمارا رب کریم ہمیں ارشاد فرما رہا ہے۔ چنانچہ پارہ 5 سور کا نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36) اس آیت مقدسہ کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمديہ، النساء، تحت الآيۃ: 36، ص 275)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اسلام کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتے داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے ہمسائیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہئے۔ قراٰنِ کریم کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت، ان کے ساتھ حسن سلوک بجالانے کا ذہن دیا گیا ہے۔ آئیے ! اس ضمن میں ایک بہت ہی پیاری حدیث پاک سے حاصل ہونے والے مدنی پھولوں کو اپنے دل کے مدنی گلدستے میں سجانے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ نبی کریم رؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ جب وہ تم سے مدد مانگے، مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور مر جائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو اور میوے خرید و تو اس کے پاس بھی ہدیہ کروں اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہو گا۔ تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ پاک کی مہربانی ہے۔ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث کر دیں گے ۔ پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پڑوسی 3 قسم کے ہیں، بعض کے 3 حق ہیں، بعض کے 2 اور بعض کا ایک حق ہے۔ جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو ، اس کے 3 حق ہیں۔ حق جو ار اور حق اسلام اور حق قرابت۔ مسلم پڑوسی کے 2 حق ہیں، حق جو ار اور حق اسلام اور غیر مسلم پڑوسی کا صرف ایک حق جوار ہے۔(شعب الایمان، باب في اكرام الجار ،7/83، حدیث :9520)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! بیان کردہ حدیث پاک سے ہر عقلمند شخص اچھی طرح یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق کی بجا آوری، ان کی خبر گیری و حاجت روائی کرنے ، ان کی دلجوئی کرنے ، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے ، انہیں خوش رکھنے اور انہیں تکلیف (Trouble ) نہ پہنچانے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں کہ اگر آج مسلمان صحیح معنی میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں اور ان کے مطابق عمل پیرا ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی معنی میں مدنی انقلاب برپا ہو جائے اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے، مگر افسوس! کہ جیسے جیسے ہم زمانہ نبوی سے دور ہوتے جارہے ہیں دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ اب پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں بھی پستی کے گہرے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں، ایک ہی گلی، محلے میں سالہا سال گزر جانے کے باوجود اپنے پڑوسی کی پہچان، اس کی موجودگی اور حق پڑوس سے غفلت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز سے ملنے آئے اور ہم سے اس گھی یا محلے میں رہنے والے اپنے کسی عزیز کا پتا معلوم کرے تو ہم بغلیں جھانکتے اور سر کھجاتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں بالکل خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے ، اس کا نام کیا ہے، کام کیا کرتا ہے، ہم تو بس اپنی مستی میں ایسے مست رہنے والے ہیں کہ پڑوس میں میت ہو جائے، کوئی بیمار ہو یا کسی پریشانی کا شکار ہو جائے تو ہمیں تعزیت و عیادت کرنے یا اسے دلاسہ دینے کی بھی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔

ہاں ! مالداروں، سیٹھوں، افسروں، وزیروں، صاحب منصب لوگوں ، مخصوص دوستوں ، برادری والوں یا ایسے پڑوسی کہ جن سے ہمیں اپنا کام نکلوانا ہو ان کے یہاں تو ہم خوشی غمی کے مواقع پر پیش پیش نظر آتے یا انہیں اپنے یہاں کی تقریبات (Functions) میں بلاتے ہیں، مگر غریب پڑوسیوں کی خیر خواہی کرنا یا ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا ہم اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، بعض نادان تو اس قدر بے جس ہوتے ہیں کہ گھر کے اندر موجود بھوک و پیاس، بیماری یا آزمائش میں مبتلا بھائیوں، بہنوں حتی کہ والدین تک کو ہی نہیں پوچھتے تو اندازہ لگائیے کہ وہ گھر کے باہر والے پڑوسیوں کا کیا خیال رکھیں گے اور کیا ان کے حقوق ادا کریں گے۔ پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کئی بزرگوں نے نہ صرف خود پڑوسیوں کے حقوق ادا فرمائے ، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ

پڑوسیوں کے عام حقوق: حجۃُ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی(رحمۃُ اللہ علیہ) پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے، ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے، جب وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرے مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے، مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے، خوشی میں ان کو مبارک باد دے ، ان کی خوشی میں شرکت کرے ، ان کی لغزشوں کو معاف کرے، اپنے گھر کی چھت پر سے ان کے گھر میں مت جھانکے ، ان کی دیوار پر شہتیر رکھ کر ان کے پر نالے میں پانی گرا کر اور ان کے صحن میں مٹی وغیرہ ڈال کر انہیں تکلیف نہ پہنچائے، ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرے جو کچھ وہ اپنے گھر لے جارہے ہوں اس پر نظر نہ گاڑے، اگر ان کے عیوب اس پر ظاہر ہوں تو انہیں چھپائے ، اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو فوراً ان کی مدد کرے، پڑوسیوں کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت (Safety) کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کرے، ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے ، ان کی (عورتوں) کے سامنے نگاہیں نیچی رکھے ، ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے، دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو (تو) اس میں ان کی رہنمائی کرے۔ (احیاء العلوم، 2/ 772)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے اسلاف کرام کو خدائے رحمن نے جہاں دیگر بہت سی خوبیوں سے آراستہ فرمایا، وہیں یہ عظیم الشان وصف بھی ان کی مبارک طبیعتوں میں راسخ تھا کہ یہ حضرات پڑوسیوں کے معاملے میں انتہائی محتاط تھے ، پڑوسیوں کو اسلام میں کیا مقام و مرتبہ حاصل ہے ، ان کے کیا حقوق ہیں؟ ان کی جانب سے ملنے والی تکلیفوں کے جواب میں ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہئے یہ حضرات ان تمام چیزوں کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر طور پر جانتے تھے ، ہم تو پڑوسیوں کا بُرا چاہنے والے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے قائل ہیں جبکہ یہ اللہ والے پوری زندگی حقوقُ اللہ اور حقوقُ العباد کی رعایت کرنے بالخصوص پڑوسیوں کے حقوق کی بجا آوری ، ان کی خیر خواہی، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا عملی مظاہرہ فرماتے تھے۔ آئیے بطورِ ترغیب اس بارے میں بزرگانِ دین کی چند ایمان افروز حکایات سُن کر ان سے حاصل ہونے والے مدنی پھولوں پر عمل کی نیت کرتے ہیں، چنانچہ

غیر مسلم مسلمان ہو گیا: حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک مکان کرایہ پر لیا۔ اس مکان کے بالکل متصل ایک غیر مسلم کا مکان تھا۔ وہ بغض و عناد کی بنیاد پر پرنالے کے ذریعے گندا پانی اور غلاظت آپ کے کاشانہ عظمت میں ڈالتا رہتا، مگر آپ خاموش ہی رہتے۔ آخر کار ایک دن اُس نے خود ہی آکر عرض کی، جناب ! میرے پر نالے سے گزرنے والی نجاست کی وجہ سے آپ کو کوئی شکایت تو نہیں؟ آپ نے نہایت نر می (Softness) کے ساتھ فرمایا: پر نالے سے جو گندگی گرتی ہے اس کو جھاڑودے کر دھوڈالتا ہوں۔ میں نے کہا، آپ کو اتنی تکلیف ہونے کے باوجود غصہ نہیں آتا؟ فرمایا آتا تو ہے مگر پی جاتا ہوں کیونکہ (پارہ 4 سورۂ آل عمران آیت نمبر 134 میں) خدائے رحمن کا فرمانِ محبت نشان ہے: وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) ترجَمۂ کنزالایمان : اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ۔

جواب سن کر وہ یہودی مسلمان ہو گیا ۔ (تذکِرۃُ الاولیاء ص45) 


دعوتِ اسلامی  کے شعبہ مدنی قافلہ کے تحت 9 نومبر 2023ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم جامعۃ المدینہ بوائز کے طلبائے کرام میں امیر قافلہ کورس کا سلسلہ ہوا ۔

مبلغین دعوت اسلامی حفیظ اللہ عطاری اور حسنین عطاری نے اسلامی بھائیوں کو امیر قافلہ کو کیسا ہونا چاہیے،انفرادی کوشش کے مدنی پھول،مدنی قافلے کا عملی جدول ،پریکٹیکل علاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت کا طریقہ سکھایا اور انہیں مدنی قافلوں میں سفر کرنے کی ترغیب دلائی جس پر 12 طلبائے کرام نے 12 ماہ کے مدنی قافلہ میں سفر کرنے کی نیت کی اور تنظیمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا عزم کیا۔ ( رپورٹ: حسنین عطاری، کانٹینٹ : رمضان رضاعطاری)


مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں شعبہ میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کا ماہانہ مدنی حلقہ منعقد ہوا جس میں رکن شوری حاجی محمد اطہر عطاری نے اپنے مدنی پھولوں سے نوازا اور شعبہ میڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں 12 دینی کاموں کو مزید ترقی دینے کا ذہن دیا نیز مدنی قافلوں میں سفر کرنے کی دعوت بھی پیش کی جس پر سب نے دینی کاموں میں تعاون کرنے کی اچھی اچھی نیتیں کیں۔

اس مدنی حلقے میں ڈسٹرکٹ وٹاؤن ذمہ داران کےساتھ ڈاکٹرز صاحبان کی بھی شرکت تھی۔(رپورٹ: حمزہ علی عطاری سٹی ذمہ دار میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کراچی، کانٹینٹ : رمضان رضاعطاری)