دعوتِ اسلامی  کے شعبہ ماہنامہ فیضان مدینہ کے زیرِ اہتمام اوتھل میں مدنی مشورہ ہوا جس میں شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے نگران مجلس مولانا مہروز عطاری مدنی نے تحصیل اوتھل کے ذمہ داران کو ماہنامہ فیضان مدینہ کی بکنگ کے حوالے سے ذہن دیا جس پر انہوں نے نیک خیالات کا اظہار کیا۔

٭دوسری جانب شعبہ ماہنامہ فیضان مدینہ کے نگران مجلس مولانا مہروز عطاری مدنی نے اوتھل میں علما، شخصیات اور صحافیوں سے ملاقاتیں کیں۔

دورانِ ملاقات ماہنامہ فیضان مدینہ کی بکنگ کے حوالے سے گفتگو ہوئی جس پر علما و شخصیات نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔شخصیات میں ڈسٹرکٹ لسبیلہ کے وائس چیئرمین چیف ٹرائیل سردار غلام فاروق شیخ، علامہ مولانا غلام حیدر نعیمی۔ سیاسی شخصیت پیر قادر شاہ جیلانی۔ تاجر شخصیت اکرم خاصخیلی ۔صحافی محمد حنیف چنا ،صحافی عبدالحمید شاہین چنا ودیگر موجود تھے ۔ آخر میں نگران مجلس نے شخصیات کو ماہنامہ فیضان مدینہ کے شمارے تحفے میں پیش کئے۔(رپورٹ :رمضان رضا عطاری)


اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے جس میں نہ صرف اللہ پاک کے حقوق اور اس کی عبادت کرنے کے طور طریقے کو بیان کیا گیا ہے بلکہ معاشرتی آداب و اخلاق کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے حقوق کی تعلیم بھی موجود ہے۔ چنانچہ قراٰنِ مجید میں پڑوسیوں کے حقوق کا بیان سورہ نسآء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد باری تعالٰی ہے: ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (پ5، النسآء:36) اس آیتِ مبارکہ میں بہت ہی واضح طور پر اللہ پاک کے حق کے ساتھ ساتھ نہ صرف والدین بلکہ پڑوسی خصوصاً دور تک کے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم موجود ہے۔

نیز آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی پڑوسیوں کے حقوق کو بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے۔

حضور نبی کریم روف رحیم علیہ الصّلٰوۃ والتّسلیم نے ارشاد فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ (پھر خود ہی آپ نے ارشاد فرمایا کہ)

(1) جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو

(2) جب قرض مانگے قرض دو

(3) جب محتاج ہوں تو اسے دو

(4 )جب بیمار ہو تو عیادت کرو

(5) جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو

(6) اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو

(7 )اور مر جائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ

(8) اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو

(9) اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو ، مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو

(10) میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا۔

تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں وہی ہیں جن پر اللہ پاک کی مہربانی ہے ۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہے ،یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث کر دیں گے ۔پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ پڑوسی تین (3) قسم کے ہیں ۔بعض کے تین (3) حق ہیں ۔بعض کے دو (2) حق ہیں اور بعض کا ایک (1) حق ہے۔

(1)جو پڑوسی مسلمان ہو اور رشتہ دار بھی ہو ،اس کے تین حق ہیں (۱)حقِ پڑوس (۲) حقِ اسلام (۳) حقِ قرابت (رشتہِ داری)

(2) صرف مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں۔ (۱) حقِ پڑوس (۲) حقِ اسلام

(3) اور غیر مسلم (کافر) پڑوسی کا صرف ایک حق ہے ۔ (۱) حقِ پڑوس (شعب الایمان، باب فی اکرام الجار،7/83، حدیث: 9560)

کیا حقِ پڑوس صرف یہی ہے؟ : حجّۃ الاسلام حضرت سیّدنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللّٰہ علیہ حقِ پڑوس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یاد رکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے ، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے ۔کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا ہے ، حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا ، لہٰذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے ۔(احیاء العلوم ، کتاب آداب الالفت ۔الخ 2/267)

لہٰذا! ہمیں بھی اپنے پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیفوں پر صبر کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے بزرگانِ دین کی زندگی کی طرف نظر کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح اپنے پڑوسیوں کے حق کو پورا کیا کرتے تھے ۔چنانچہ

پورا گھرانہ مسلمان ہو گیا: حضرت بایزید بسطامی رحمۃُ اللہ علیہ کا ایک غیر مسلم پڑوسی سفر میں گیا ،اس کے بال بچے گھر رہ گئے ، رات کو اس کا بچہ روتا تھا ،تو آپ نے (اس کی بیوی سے) پوچھا کہ بچہ کیوں روتا ہے ؟ وہ بولی گھر میں چراغ نہیں ہے۔ بچہ اندھیرے میں گھبراتا ہے ۔اس دن سے آپ روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کرتے اور اس کے گھر بھیج دیا کرتے ،جب وہ غیر مسلم سفر سے واپس آیا تو اس کی بیوی نے اس کو یہ واقعہ سنایا ،تو وہ غیر مسلم بولا کہ جس کے گھر میں بایزید کا چراغ آگیا ،وہاں اندھیرا کیوں رہے وہ سب کے مسلمان ہو گئے ۔ (مرآۃ المناجیح 6/573 ملخصاً)

لہٰذا! ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا اور انہیں پورا کرنا چاہیے ۔ اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو صحیح طریقے سے اور مکمل طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الحمد للہ! اللہ پاک کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور بہت ہی پیارا دین اسلام عطا فرمایا اور اس دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمیں اپنا محبوب عطا فرمایا ۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں کفرو شرک کے اندھیروں کو ہم سے دور فرمایا وہیں ہمیں ایک اچھے انسان کی پہچان کے بارے میں بتایا اور ایک اچھے انسان کی پہچان اس پر اس کے حقوق کی ادائیگی سے ہوتی ہے اور جس طرح ایک مسلمان پر اس کے والدین بہن بھائی اور دیگر کہ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح ایک انسان پر اس کے اپنے پڑوسیوں کے حقوق بھی ہوتے ہیں۔

جیسا کہ احادیث مبارکہ میں اللہ پاک کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے۔

پڑوسی کے پانچ حروف کی نسبت سے پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہوں اور اللہ پاک کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔ (سنن ترمذی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وراثت میں شریک ٹھہرا دیں گے۔ (سنن ترمذی )

یونہی ایک اور مقام پر پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کا سمجھانے کے لیے اپنے صحابہ سے ارشاد فرمایا : حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے ابوذر جب تو سالن پکاؤ تو اس کے شوربہ کو زیادہ کرلو اور اپنے پڑوسی کی خبر گیری کرو۔(صحیح مسلم 6678)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (صحیح بخاری 6018)

ایک مقام پر نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اس خوبصورت فرمان سے قریبی پڑوسی کی اہمیت بتائی چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے دو پڑوسی ہیں میں ان دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (صحیح البخاری 2259)

عزیز دوستو! دیکھا آپ نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کس طرح پڑوسیوں کے حقوق ہمیں بتائے تاکہ ہم ان پر عمل کر سکیں ۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یہ مبارک فرامین ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسانی کے احترام وقار اور مساوات پر مبنی ہے قراٰن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ قراٰنِ کریم میں شرف انسانیت و ضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیقِ آدم علیہ السّلام کے بعد اللہ پاک نے فرشتوں کو سیدنا آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم علیہ السّلام کو فضیلت و بلندی عطا کی، اسلامی تعلیمات میں حقوقُ العباد کا خاص خیال رکھا گیا۔ کتاب و سنت میں تمام حقوق العباد، حقوق الوالدین، حقوق اولاد، حقوق زوجین اور پڑوسی کے حقوق کے بارے میں تفصیلی احکامات موجود ہیں۔ زیر نظر موضوع پڑوسیوں کے حقوق کو کتاب و سنت اور اسلاف کی سیرت کی روشنی میں مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔

قراٰن کی روشنی میں: پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جس کی تعلیم اللہ رب العزت نے ہمیں ارشاد فرمائی۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی۔ (پ5، النسآء:36) آیت کی تفسیر: اس آیت مقدسہ کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا قریبی پڑوسی سے مراد وہ ہے جو پڑوسی اور رشتہ دار دونوں ہو اور دور کے پڑوسی سے مراد جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو۔ (تفسیر احمدیہ ، النسآء ، تحت الآیۃ : 36، ص 225)

سبحان اللہ! اسلام کتنا پیارا مذہب ہے، جو نہ صرف خونی رشتوں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ اپنے قریبی اور دور کے ہمسائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

حدیث کی روشنی میں: حدیث مبارکہ میں بھی کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک بجا لانے کا ذہن دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک بہت ہی پیاری حدیث مبارکہ ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم کو معلوم ہے کہ پڑوسیوں کا کیا حق ہے؟ پھر ارشاد فرمایا: جب وہ تم سے مدد مانگے تو مدد کرو، اور جب قرض مانگے تو قرض دو، جب محتاج ہوں تو اسے کچھ دو، بیمار ہوں عیادت کرو، جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو، اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اور مر جائیں تو جنازے کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو، اور اپنی ہانڈی سے اس کو تکلیف نہ دو مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو، اور میوے خریدو تو اسے بھی ہدیہ کرو، اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے لے کر باہر نہ نکلے کہ پڑوسی کے بچوں کو تکلیف ہوگی۔ تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا حق کیا ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں اور وہ وہی ہیں جن پر اللہ کی مہربانی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور پڑوسیوں کے متعلق مسلسل نصیحت فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے گمان کیا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گئے۔

پھر حضور نے ارشاد فرمایا:پڑوسی تین قسم کے ہیں: بعض کے تین بعض کے دو اور بعض کا ایک حق ہے۔(1) جو پڑوسی مسلم اور رشتہ دار ہوا سکے تین حق ہیں:(الف)حق جوار (پڑوسی) (ب)حق اسلام (ج) حق قرابت

(2) مسلم پڑوسی کے دو حق ہیں: حق جوار اور حق اسلام۔

(3) غير مسلم کا صرف ایک حق ہے: حق جوار۔(شعب الایمان الجار،7/83،حدیث9560)

سبحان اللہ! پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں، اگر آج مسلمان صحیح معنی میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی انقلاب برپا ہو جائے۔

پڑوسیوں کے عام حقوق : حجۃُ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی(رحمۃُ اللہ علیہ) پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(1)پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے۔ (2) ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کریں۔(3)جب وہ بیمار ہوں تو عیادت کرے۔ (4) مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے اور انکا ساتھ دے۔(5)خوشی میں شرکت کرکے مبارکباد دے۔ (6) ان کی غلطیوں اور عیبوں پر مطلع ہو تو درگزر اور نرمی سے کام لیں۔(7) ان کے خلاف غلط بات نہ سنے۔(8)ان کی عورتوں کے سامنے نگاہیں نیچی رکھے۔ (9) ان کی اولاد سے نرمی سے گفتگو کرے۔ (احیاء العلوم، 2/772)

ہمارے اسلاف اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک: حضرت بایزید بسطامی (رحمۃُ اللہ علیہ) کا ایک غیر مسلم پڑوسی سفر میں گیا۔ اس کے بال بچے گھر رہ گئے۔ رات کو اس کا بچہ روتا تھا۔ آپ نے (اسکی بیوی سے) پوچھا کہ بچہ کیوں روتا ہے؟ وہ بولی گھر میں چراغ نہیں ہے۔ بچے اندھیر میں گھبراتا ہے۔ اس دن سے آپ روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کرتے اور اس کے گھر بھیج دیا کرتے جب وہ غیر مسلم سفر سے واپس آیا تو اسکی بیوی نے یہ واقعہ سنایا وہ غیر مسلم بولا کہ جس گھر میں بایزید کا چراغ آگیا وہاں اندھیرا کیوں رہے۔ وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ (مرآۃ المناجیح، 6/ 573)

40 گھروں پر خرچ کیا کرتے : حضرت سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر رحمۃُ اللہ علیہ اپنے پڑوس کے گھروں میں دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے چالیس چالیس گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ عید کے موقع پر انہیں قربانی کا گوشت اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر سو غلام آزاد کیا کرتے تھے۔ (المستطرف ، 1/276)

پڑوسیوں کے ساتھ بد سلوکی پر وعید: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بہت سے پڑوسی قیامت کے دن اپنے پڑوسیوں کا دامن پکڑ لیں گئے مظلوم پڑوسی، عرض کرے گا یا رب اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ پر اپنا دروازہ بند کر رکھا تھا اور اپنی ضرورت سے زیادہ چیزیں مجھ سے روکی تھیں۔ (کنزالعمال كتاب الصحبۃ، 5/23)

بارگاہِ رسالت میں ایک شخص نے عرض کی یار سول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں نے فلاں قبیلے کے محلہ میں رہائش اختیار کی ہے مگر ان میں سے جو مجھے سب سے زیادہ تکلیف دیتا ہے، وہ میرا سب سے قریبی پڑوسی ہے تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت علی (رضی اللہ عنہم) کو بھیجا وہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر زور زور سے یہ اعلان کرنے لگے کہ بے شک 40 گھر پڑوس میں داخل ہیں اور جس کے شر سے اس کا پڑوسی خوف زدہ ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (معجم الکبیر ، 19/73، حدیث: 143)

ایک اور حدیث پاک میں ہے جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی بیشک اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بیشک اس نے اللہ سے لڑائی کی۔ (كنز العمال، کتاب المحبۃ، 5/25، حدیث: 24922)


13نومبر 2023 ء بروز سوموار(پیر) فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز کی جہلم برانچ میں مدرسین کا ماہانہ مدنی مشورہ ہوا جس میں جہلم برانچ وہوم مدرسین نے شرکت کی ۔

تعلیمی امور ذمہ دار حافظ جواد عطاری نے نیو طلبہ کوپڑھانےکےتعلق سے اوردیگرتعلیمی معاملات میں بہتری اورطلبہ کی نفسیات کےمطابق پڑھانے کےحوالےسےمدنی پھول دئیےاور ساتھ ساتھ تجوید وقرأت کےتعلق سےآگےبڑھنےکاذہن دیا۔ اس موقع پر شرکا نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔ (رپورٹ: محمد وقار یعقوب عطاری مدنی،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو۔ ان کا ہم پر بہت بڑا حق ہے اگر وہ نسب میں ہم سے قریب ہو اور مسلمان بھی ہو تو اسکے تین حق ہیں: پڑوسی کا حق قرابت داری کا حق اور اسلام کا حق ۔ اور رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اس کا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا حق۔ اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہیکہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور انکے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (پ5، النسآء:36)

نیز رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہئے ۔(مسلم کتاب الایمان )

اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کا مطلب یہ ھیکہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ ھیکہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو، قرض طلب کرے تو اسے قرض دو، خوشی میں ہو تو مبارک باد ،دو مصیبت زدہ ہو تو تسلی دو، اسے سلام میں پہل کرو، بات نرمی سے کرو، اس کے دین و دنیا کی درستگی ، رہنمائی کرو، اس کے عیوب کی تلاش میں نہ رہو، اس کی لغزشوں سے درگزر کرو، اس کی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اس کو ایذا نہ دو۔ یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کے ذیل میں آتی اس کی میں ہے ۔

پڑوسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے۔ اپنے پڑوسی کے ساتھ خواہ کتنا بھی احسان کرو اس کو زیادہ نہ سمجھو کیونکہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اللہ کی جانب سے اجر عظیم اور بلند درجات حاصل ہوتے ہیں۔ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وحی الہی کی تعمیل میں پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید فرمائی ھیکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے :جبرئیل مجھے پڑوسی کے بارے میں برابر تاکید و تلقین کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اسے یقیناً وارث قرار دے دیں گے ۔ (مسلم کتاب الادب)

ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ھیکہ جہاں تک ہو سکے اس کے ساتھ بھلائی کرے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس کا شوربہ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو ۔(مسلم کتاب البر والصلہ )

نیز رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کوئی: پڑوسن اپنی پڑوسن یا اس کے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ(اس کا بھیجا ہوا ھدیہ ) بکری کا کھر ہی ہو۔ (بخاری کتاب الادب )


شعبہ ہفتہ وار اجتماع دعوت ِاسلامی کی جانب سے 12 نومبر 2023ء بروز اتوار میکلوڈ گنج میں مدنی مشورے کا سلسلہ ہوا۔ اس مدنی مشورے میں تحصیل منچن آباد میں منعقد ہونے والے ہفتہ وار اجتماعات(منڈی صادق گنج ، باریکا ، منچن آباد ، اور میکلوڈگنج) کی چار رکنی مجلس کے ذمہ داران نے شرکت کی ۔

ڈویژن ذمہ دار محمد شوال عطاری نے ہفتہ وار اجتماع کی تعداد اور انتظامات کی مضبوطی کے حوالے سے گفتگوکی اور تحصیل مشاورت کے نگران اسلامی بھائی نے بھی رہنمائی کی ۔(رپورٹ :رمضان رضا عطاری)


اللہ کا احسان کہ اس نے ہمیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا۔ اللہ نے ہم پر بہت سے احکامات نافذ فرمایا ہے ان میں سے ایک حکم اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو بھی ادا کرنا ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔ صرف فرمایا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کر کے دکھایا ہے اور ہمیں بھی یہی تعلیم ارشاد فرمائی کہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔

ابن مسعود سے روایت ہے فرماتے ہیں ایک شخص نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی میں کیسے جانو کہ جب میں بھلائی کروں یا جب میں برائی کروں، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے بھلائی کی تو تم نے واقعی بھلائی کی اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برائی کی تو واقعی تم نے برائی کی۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 6 حدیث، 4988)

ہمیں تو اپنے سارے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر ہمیں معلوم بھی تو ہو کہ اچھے کام یا برے کام کی علامت کیا ہے۔ یہاں کام سے مراد معاملات ہیں عقائد و عبادات میں کسی بھی بہت سے اچھا برا کہنے کا اعتبار نہیں معاملات میں اچھائی یا برائی کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پڑوسی تمہیں اچھا نہیں یا برا کہیں ۔

جہاں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کیا جاتا ہے اور جنت میں جانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے وہی پڑوسیوں کے حقوق ادا نہ کرنا، انکو پریشان کرنا جہنم میں جانے کا حق دار بھی بن سکتا ہے ۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔

نیک صالحین اور نجات پانے والے کے ساتھ جنت میں جائے گا اگرچہ سزا پا کر بہت عرصہ کے بعد وہاں پہنچ جائے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے آج کے ہمارے مسلمان بھول چکے ہیں اب تو ان کے شر کا پہلا شکار پڑوسی ہوتا ہے۔

جہاں ہم اپنے معاملات کو اچھے انداز میں پورا کرتے ہیں اسی طرح اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق بیان فرمائیں ہے:

(1) اپنے پڑوسی کی مدد کریں (2) غریب ہو تو اس کا خیال رکھیں یا قرض مانگے تو قرض دیں۔ (4) پھل فروٹ لائیں تو اس میں سے پڑوسی کو بھی دیں ۔ (5) اپنی عمارت اس سے اونچی نہ کر لیں کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائیں ، اللہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو پورا کرنے کی توفیق عطا فر مائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دعوتِ اسلامی  کے معاونت برائے اسلامی بہنیں ڈیپارٹمنٹ کے زیرِ اہتمام 11 نومبر2023ء کو حویلیاں ڈویژن ہزارہ میں مدنی مشورہ منعقد تھا جس میں ڈویژن نگران اور ڈویژن ذمہ دار معاونت برائے اسلامی بہنیں نے شرکت کی ۔

مدنی مشورے میں فیضان صحابیات میں اسلامی بہنوں کا دینی کام بڑھانے کے حوالے سے مشاورت ہوئی جس میں نگران مجلس غلام الیاس عطاری نے فیضان صحابیات کی تعداد میں اضافہ، گلی گلی مدرسۃالمدینہ گرلز کی پلاننگ اور معاونت ذمہ داران کے دینی کام اور آئندہ کے اہداف پر گفتگو کی۔(رپورٹ :رمضان رضا عطاری)


عاشقانِ رسول  کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے تحت 10 نومبر 2023ء کو نارتھ ناظم آباد کراچی میں کفن دفن کورس کاانعقاد کیاگیا جس میں بطحہ مسجد کے نمازی اور انتظامیہ نے شرکت کی ۔

شعبہ کفن دفن ایسٹ ڈسٹرکٹ ذمہ دارعزیر عطاری نے اسلامی بھائیوں کو غسلِ میت دینے اورکفن کاٹنے/ پہنانے کا طریقہ سکھایا نیز تدفین سے متعلق دینِ اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔ (کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں  کے حوالے سے ساہیوال ڈویژن میں مدنی مشورہ ہوا جس میں صوبائی ذمہ دار ڈاکٹر عدنان عطاری وڈویژن ذمہ دار محمد فہیم عطاری نے ڈسٹرکٹ ذمہ دار اور محافظ اوراق مقدسہ کا مشورہ لیا۔

مدنی مشورے میں ذمہ داران نے اسلامی بھائیوں سے سابقہ دینی کاموں کے اہداف کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور نیو اہداف دیئے نیز اچھی کارکردگی پر اسلامی بھائیوں کو تحفے بھی پیش کئے۔(رپورٹ: حافظ نسیم عطاری سوشل میڈیا آف ڈیپارٹمنٹ پاکستان،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دین اسلام دین حق ہے اور یہ ہماری ہر معاملہ میں رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ دینی معاملہ ہو، دنیاوی معاملہ ہو یا معاشرتی معاملہ ہو۔ اگر ہم معاشرتی معاملات میں نظر کریں تو مختلف طبقہ ہوتے ہیں جن کے ہم پر حقوق ہوتے ہیں ان میں سے ایک طبقہ پڑوسیوں کا بھی ہوتا ہے۔ اچھے پڑوسی اللہ پاک کی طرف سے بڑی نعمت ہیں۔ اللہ پاک اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق بھی ذکر فرمائے ہیں:

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسیوں کے(حقوق کے) بارے میں میرے پاس جبریل علیہ السّلام اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث سے وارث قرار دے دیا جائے گا ۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب،باب الوصاۃ بالجار)

ویسے تو پڑوسیوں کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے چند تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:۔

(1)ان کی مدد کرنا: پڑوسیوں کا ایک بنیادی حق یہ بھی ہے کہ جب وہ آپ سے جانی یا مالی مدد مانگیں تو اپنی استطاعت اور پڑوسیوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھ کر ان کی مدد کریں۔

(2) ان کی عزت کرنا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن کو تسلیم کرنے والا ہے اسے چاہیے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرے۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب )

(3) پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچانا: پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا۔ عرض کی گئی کہ کون؟ فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔(صحیح البخاری،کتب الادب )

(4) خوشی یا غمی میں شریک ہونا: پڑوسیوں کے ہاں اگر کوئی خوشی کا موقع ہو تو انہیں مبارکباد دینا یا اگر کوئی غمی کا موقع ہو تو ان سے تعزیت کرنا۔

(5) پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی اور تحائف کا تبادلہ: ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس کے ساتھ بھلائی کرے۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: اور تحفہ تحائف کا تبادلہ ہے۔ (سورۃ النساء)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس کا شوربہ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔(صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ و الآداب)

(6) پڑوسی کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھنا: ہمیں چاہیے کہ اگر ہمیں ہمارا پڑوسی کوئی تحفہ دے تو اسے قبول کرلیں اسے حقیر نہ جانیں۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن (یا اس کے ھدیہ کو)حقیر نہ سمجھے اگرچہ(اس کا بھیجا ہوا ھدیہ ) بکری کا کھر ہی ہو۔(صحیح البخاری،کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا)

ان تمام احادیث سے اندازہ کیجیے کہ شریعت میں پڑوسی کی کس قدر عزت و منزلت اور اس کا کس قدر احترام ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کردیں تو ہمارا معاشرہ کتنا خوبصورت اور پُرامن معاشرہ بن جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بالخصوص پڑوسیوں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم