محمد سجاد علی (درجہ خامسہ
جامعۃُ المدينہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان )
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی
نوع انسان کے احترام و قار اور مساوات پر مبنی ہے قراٰنِ کریم کی رو سے اللہ پاک
نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا فرمائی ہے۔ قراٰنِ کریم
میں شرفِ انسانیت كو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ تخلیق آدم (علیہ الصلاة
والسلام) کے وقت فرشتوں کا حضرتِ آدم (علیہ الصلاة والسلام) کو سجدہ کروا کر انسان
کو تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی گئی ۔اسلامی تعلیمات میں حقوقُ العباد کا خاص خیال
رکھا گیا ہے ۔ انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب
سے زیادہ واسطہ و تعلق ہر وقت ہر ملاقات، لین دین کا سابقہ ہمسایوں اور پڑوسیوں سے
بھی ہوتا ہے اور اس کی خوش گواری اور ناخوشگواری کا زندگی کے چین و سکون اور اخلاق
کے اصلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے پڑوسیوں سے
حسنِ سلوک کے بارے میں اللہ پاک فرماتا ہے۔
﴿وَ
الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے
اور کروٹ کے ساتھی۔ (پ5، النسآء:36) قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا
ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر
سے ملا ہوا نہ ہو۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور
جو پڑوسی ہونے کے ساتھ رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ۔ یا پڑوسی ہونے کے ساتھ
جو مسلمان ہو وہ قریب کا ہمسایہ اور جو عکس ہو وہ دور کا ہمسایہ ( تفسیرات احمديہ ،تحت
ھذہ الآیۃ ،ص275)
اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی بڑی تاکید آئی ہے ۔
چنانچہ ام المؤمنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے قال رسولُ
الله صلى الله عليه وسلم : ما زال جبريل يوصيني بالجار، حتى ظننت أنه سيورِّثه ترجمہ: تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا۔ جبرئیل امین علیہ السّلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے،
یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، با
الوصاة بالجار 4/104 ،حدیث :6014)
ایک جگہ ارشاد
فرمایا: يا أبا ذَرٍّ إذا طَبَخْتَ مَرَقَةً، فأكْثِرْ ماءَها،
وتَعاهَدْ جِيرانَكَ ترجمہ : اے ابوذر (رضی اللہ عنہ ) ! جب تمھارے گھر میں شوربا پکایا
جائے تو اس کا پانی زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔ (مسلم ،
باب الوصية بالجار والاحسان إليه حديث 2625)
وہ حدیث مبارکہ جس
میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق تفصیلاً بیان فرمائے ۔
آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا:جانتے ہو کہ پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ جب وہ تم سے مدد طلب کرے تو تم اس کی
مدد کرو ۔ جب وہ تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو۔ اگر وہ ضرورت مند ہو تو اس کا
خیال کرو۔ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ۔ اسے کوئی خوشی نصیب ہو تو مبارکباد دو۔ اسے
کوئی مصیبت پہنچے کو تسلی دو۔ وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں جاؤ۔ اپنی عمارت اتنی
اونچی نہ بناؤ جو اس تک ہوا پہنچنے میں رکاوٹ ہو مگر یہ کہ اس سے اجازت حاصل
کرلو۔اگر تمہارے گھر کوئی خوشبودار چیز ہو جس کی مہک اس کے گھر تک پہنچے تو اسے
بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو۔ اگر کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس کے گھر بھی کچھ نہ
کچھ بھیجو۔ اگر ایسا نہ کر سکو تو پھل چھپا کر لاؤ اور تمہارا بچہ پھل لے کر باہر
نہ نکلے تاکہ اس کے بچے کا دل نہ دکھے۔ (الترغیب والترھیب، 3/357 ، و مجمع
الزوائد، 8/165)
اتنے فضائل جو قراٰنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں آئے۔ ان پر
نظر ڈالنے کے بعد ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر پڑوسی برا ہو اور وہ برا سلوک کرتا ہو
تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ہمیں بھی اس کے ساتھ برا سلوک کرنا چاہیے۔
دیکھیئے بسا اوقات "پڑوسی" سے کتنا ہی اچھا سلوک
کیا جائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے۔ ایسے میں اسلام برے کے
ساتھ برا بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ صبر اور حسین تدبیر کے ساتھ اس برے پڑوسی
کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا ہے ۔ اور اس برے سلوک پر صبر کرنے والے کو
رضائے الہی کی نوید سناتا ہے۔
جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: الله پاک تین طرح کے لوگوں سے محبت فرماتا ہے ان میں سے ایک وہ ہے جس کا
برا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اس کے تکلیف دینے پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ پاک اس
کی زندگی یا موت کے ذریعے کفایت فرمائے۔( معجم کبیر ،2/112 حدیث : 152)
معاشرے کو پر سکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے
پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور
جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔
اللہ پاک اپنے حبیب
کے صدقے ہم کو اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صفی الرحمٰن عطاری(درجہ خامسہ
مرکزی جامعۃُ المدینہ جوہر ٹاؤن لاہور،پاکستان )
اسلام اللہ
پاک کے نزدیک سب سے مقبول و معزز دین ہے اور دین اسلام ہی دینِ فطرت ہے اور انسان
کے لئے ایک مکمل ضابطۂ حیات اور سفر و حضر میں مثلِ مشعلِ راہ ہے انسان کی زندگی
کے تمام معاملات اور لوازمات کو ہر لحاظ سے اس میں بیان کیا گیا ہے۔
اس دین کی بے شمار و لامحدود خصوصیات میں سے ایک نمایاں
خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں حقوق العباد کو بڑے التزام سے بیان کیا گیا تاکہ
معاشرہ پر امن رہے اور تاکید کے ساتھ ان کی پاسداری کا حکم بھی دیا ہے۔
والدین کے اولاد کے متعلق اولاد کے والدین کے متعلق زوجین
کے باہم اتفاق و اتحاد وغیرہ کے متعلق حقوق ترغیب و ترھیب کے ساتھ انتہائی نفیس
طریقے سے بیان ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ایک مسلمان کو اس کے رہن ، سہن اور اس کے
پڑوسی کی اہمیت و حقوق کو بھی انتہائی احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے کیونکہ
انسان تادمِ حیات کہیں نہ کہیں رہائش اختیار کرتا ہے اور جہاں بھی یہ سکونت اختیار
کرے گا تو کسی نہ کسی کا پڑوس تو ضرور ملے گا۔ پڑوسیوں کے متعلق اللہ پاک قراٰنِ
پاک کی سورۃُ النساء کی آیت نمبر 36 میں فرماتاہے: ﴿وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ
وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ
ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی
عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور
رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس
بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (پ5،
النسآء:36)
تفسیرِ احمدیہ میں الْجَارِ الْجُنُبِ وَ
الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ کے تحت لکھا ہے
کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو ور دور کے
ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو
یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی
ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب
کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات
احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: 36، ص275)
یاد رکھیئے! کسی
بھی مقام پر رہائش اختیار کرنے سے قبل وہاں کے پڑوس کے متعلق ضرور معلومات لے لی
جائے کیونکہ اس کی تعلیم پڑوسیوں میں سے بہترین پڑوسی سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ہمیں ارشاد فرمائی ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: التمسوا
الجار قبل الدار، والرفيق قبل الطريق یعنی گھر سے
پہلے پڑوسی اور راستہ سے پہلے ہم سفر تلاش کرو۔ (کنزالعمال)
رہائش اختیار کرتے
وقت اچھے پڑوسیوں کا انتخاب کیا جائے کہ سعادت مندی ہے سرکار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مردِ مسلم کے لیے دنیا میں یہ بات سعادت میں سے ہے، کہ
اس کا پڑوسی صالح ہو ۔(المستدرک،کتاب البر والصلۃ، باب ان اللہ لایعطی الإیمان الا
من یحب،5/232،حدیث: 7386)
اور برے پڑوسیوں سے
اللہ پاک کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ پڑوسیوں کے اچھا برا ہونے کا اثر صاحب خانہ
اور اس کے تمام اہل خانہ پر پڑتا ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی
برے پڑوسی کے بارے میں یوں دعا مانگتے ۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا فرمائی! اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا
ہوں رہنے کے گھر میں برے پڑوسی سے، اس لیے کہ گاؤں کا پڑوسی بدلتا رہتا ہے۔( ابن
ابی شیبہ، کتاب الادب)
اور ارشاد فرمایا : مستقل جائے قیام میں برے پڑوسی سے اللہ
پاک کی پناہ مانگو۔( کنزالعمال، کتاب الصحبۃ ، فصل في الترهيب عن صحبۃ السوء )
اسی طرح حضرت لقمان
رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بیٹے کو کچھ یوں نصیحت فرمائی : فرمایا: اے میرے بیٹے!
میں نے پتھر اور لوہا اٹھایا ہے، مگر برے پڑوسی سے زیادہ وزنی (یعنی تکلیف دہ) چیز
کوئی نہیں دیکھی۔ ( شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، آثار
وحکایات فی فضل الصدق۔۔۔ الخ، 4/ 231، روایت: 4891)
البتہ کسی بھی جگہ رہائش اختیار کرنے کے بعد اپنے پڑوسیوں کا
خیال ضرور رکھا جائے اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ حدیث پاک ہے ۔
پڑوسیوں کی اقسام: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی تین قسم کے اور
تین درجے کے ہوتے ہیں ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک ہی حق ہو اور وہ (حق کے لحاظ سے)
سب سے کم درجہ کا پڑوسی ہے، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوں اور تیسرا وہ جس
کے تین حق ہوں۔ تو ایک حق والا وہ مشرک (غیر مسلم) پڑوسی ہے جس سے کوئی رشتہ داری
بھی نہ ہو (تو اس کا صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے) اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے، جو
پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم (یعنی دینی بھائی) بھی ہو، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی
وجہ سے ہو گا اور دوسرا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے، جو
پڑوسی بھی ہو، مسلم بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو۔ تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا
ہو گا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا اور تیسرا رشتہ داری کا ہو گا۔ (حليۃ الاولياء
،5/235)
لہذا پڑوسی جیسا بھی ہو اس کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتے
رہنا چاہیے اور ان کا خیال رکھنا چاہیے اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جا
سکتا ہے ۔
کہیں پڑوسیوں کو
وارث نہ بنا دیا جائے: چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ اِبنِ عُمَر رضی اللہُ
عنہما سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
باقرینہ ہے: حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلام مجھے پڑوسی کے بارے میں وصِیَّت کرتے
رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وراثت کا حقدار بنا دیں گے۔
(صحیح البخاری، کتاب الادب ،باب الوصاۃ بالجار، ص1500، حدیث:6015)
ان کے ساتھ حسنِ
سلوک کیا جائے اور ان کے حقوق کی پاسداری کے متعلق ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے ۔ حدیثِ
پاک میں ہے للجار حقٌّ یعنی: پڑوسی کا
بہت بڑا حق ہے۔ (کنزالعمال، کتاب الصحبة، فصل فی حق الجار)
اس مناسبت سے یہاں
پڑوسیوں کے چند حقوق احادیث کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں جن کو پورہ کرنا سعادت
مندی کا ذریعہ جبکہ ان سے دست برداری بہت بڑی محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔
پڑوسیوں کے عام
حقوق بزبانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اپنی تمام تر
ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی کی عام ضروریات کی طرف بھی خاص توجہ رکھنی چاہیے
کیونکہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نزدیک پڑوسوں کی کیا اہمیت
تھی اور آپ نے کس اہتمام سے ان کو بیان بھی فرمایا اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے
لگایا جا سکتا ہے ۔
(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے فرمایا: تمھیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ یہ
کہ جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے
دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت
پہنچے تو تعزیت کرو اور مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت
بلند نہ کرو، کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں
سے کچھ اسے بھی دو اور میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا
ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے
بچوں کو رنج ہوگا۔ تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ
میں میری جان ہے! پوری طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں ، وہی ہیں جن
پر اللہ (پاک) کی مہربانی ہے۔ (شعب الإیمان ، باب في اکرام الجار، 7/83،حدیث: 9560
)
(2)پڑوسیوں کے ساتھ کھانے کا ایثار: گھر میں جب کوئی چیز
پکائی جائے تو اپنے پڑوسیوں کو بھی اس میں سے کچھ نہ کچھ بھیج دینا چاہیے کہ سب سے
بڑھ کر ایثار فرمانے والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان
ہے: جب کوئی شخص ہانڈی پکائے تو شوربا زیادہ کرے اور پڑوسی کو بھی اس میں سے کچھ
دے۔ (المعجم الأوسط ‘‘ ، باب الراء،2/379،حدیث: 3591 )
(3)پڑوسیوں کے بچے کو بھی خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ: اگر پڑوسیوں
کا بچہ کھبی گھر آئے تو اسے خالی ہاتھ واپس لوٹانے کی بجائے کچھ نہ کچھ دے دیا
جائے ۔ کہ اس سے باہم محبت میں اضافہ ہو گا جیسا کہ سرکارِ عالی وقارصلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ جب تمہارے
پاس پڑوسی کا بچہ آئے اس کے ہاتھ میں کوئی چیز رکھ دو چونکہ ایسا کرنے سے محبت
بڑھتی ہے۔(کنزالعمال،کتاب الصحبة، فصل فی حق الجار)
(4)چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتا چہرہ: اپنی کمائی
میں سے کچھ نہ کچھ پڑوسیوں کی معاونت کرنی چاہیے ۔سرکار عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
جس نے اس نیّت سے دنیا کی کمائی کی کہ حلال مال حاصل کرے لوگوں کی محتاجی سے بچے،
گھر والوں کی ضروریات بخیر و خوبی پوری کرے اور پڑوسی کے ساتھ مہربانی کرے تو اللہ
پاک اسے قیامت کے دن اس طرح اٹھائے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مانند
چمکتا ہوگا۔ (کنز العمال ،الفصل الأول في فضائل الكسب الحلال)
(5)پڑوسیوں کے احترام کا حکم: اسی طرح پڑوسیوں کی دل سے عزت
کرنا کمالِ ایمان سے ہے ۔ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ
كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهٗ یعنی جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے
مہمان کا احترام کرے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج:6 حدیث:4243)
(6) پڑوسیوں کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کی فضیلت:
یاد رکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے
بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی پڑوسی کے حقوق میں
شامل ہے بسا اوقات پڑوسی کے ساتھ جتنا بھی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان ماننے کے
بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی اجازت
نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کی
ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی نوید
بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ
پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا
”پڑوسی“ اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس
کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،2/152، حدیث: 1637)
(7) سب سے بہتر پڑوسی: عبداﷲ بن عَمْرْو رضی اللہ عنہما سے
روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کے
نزدیک ساتھیوں میں وہ بہتر ہے، جو اپنے ساتھی کا خیر خواہ ہو اور پڑوسیوں میں اللہ
(پاک) کے نزدیک وہ بہتر ہے، جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔ (سنن الترمذي ،کتاب
البر والصلۃ، باب ماجاء في حق الجوار،3/379،حدیث: 1951)
پڑوسیوں کے معاملہ میں ہمارے اسلاف کا کیا طرزِ عمل تھا جس
کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:
خواجہ پیا کا
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک: حضرت سَیِّدُنا خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے
پڑوسیوں کا بہت خیال رکھا کرتے ،ان کی خبر گیری فرماتے، اگر کسی پڑوسی کا انتقال
ہو جاتا تو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے ، اس کی تدفین کے بعد جب لوگ
واپس ہو جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہوکر اس کے حق میں مغفرت
ونَجات کی دُعا فرماتے نیز اس کے اہلِ خانہ کو صبر کی تلقین کرتے اور انہیں تسلّی
دیا کرتے ۔ (معین الارواح ،ص 188،بتغیر)
پڑوس کے چالیس
چالیس گھروں کا بھی خیال کرنے والے بزرگ: فی زمانہ تو اپنے گھر کے ساتھ متصل
پڑوسیوں کا خیال رکھنا بھی دشوار سے دشوار ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ حضرتِ سیِّدُنا
عبداللہ بن ابی بکر رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے پڑوس کے گھروں میں سے دائیں بائیں اور
آگے پیچھے کے چالیس چالیس گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے،عید کے موقع پر
انہیں قربانی کا گوشت(Meat) اور کپڑے
بھیجتے اور ہر عید پر سو100 غلام آزاد کیا کرتے تھے۔(المستطرف ،1/276)
پڑوسیوں تکلیف پہنچانے کی عام مثالیں: جہاں پڑوسیوں کے ساتھ
حسنِ سلوک سعادتِ دارین کا سبب ہے وہی ان کے ساتھ بدسلوکی اللہ و رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی اور بربادئ دارین کا سبب ہے لیکن افسوس لوگ اس سے
یکسر غافل ہیں کیونکہ آج کل کی صورتِ حال یہ ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو طرح طرح سے تنگ
کیا جاتا ہے ، کبھی ڈسٹ بن سے کچرے کی تھیلی اُٹھا کر چپکے سے اس کے دَروازے کے
آگے رکھ کر بھاگ جاتے ہیں ، کبھی اس کے دَروازے کے آگے پانی بہا کر تکلیف دیتے
ہیں ، اگر چند منزلہ عمارت ہے تو آرام کے وقت میز کُرسیاں گھسیٹ کر آرام میں
خَلل ڈالتے ہیں یا بچے زور زور سے شور شرابا کرتے ہوئے کھیلیں گے ، چیزیں پھینکیں
گے تو دِیگر گھر والے انہیں روکیں گے نہیں اور دوسری منزل والے کی آنکھ کھل جائے
گی ، کبھی اس بے چارے کا پانی بند کر دیں گے تو کبھی بارش کے پانی کا رُخ اس کی
طرف کر دیں گے ، کوئی چیز جھاڑیں گے تو دھول اس بے چارے کے گھر میں جانے دیں گے ،
نہ جانے پڑوسیوں کو کیسی کیسی تکلیفیں دیں گے اور جب وہ بے چارہ فریاد لے کر آئے
گا تو اس کی کوئی شنوائی بھی نہیں ہو گی غور کر لیجیے! پڑوسی کو تکلیف دینے کی
کتنی بڑی خرابی اور بَدنصیبی ہے۔
ان فرامینِ مصطفٰی کو پڑھئے اور پڑوسیوں کے حقوق کے معاملے
میں اللہ سے ہر دم ڈرتے رہیے۔
(1)پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانے والا مؤمن نہیں: سرکار مدینہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تکمیل ایمان کا دار و مدار پڑوسیوں کو تکلیف نہ
پہنچانے پر رکھا۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ مؤمن
نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ۔ عرض کی گئی، کو ن
یا رسولَ اللہ ! ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) فرمایا: وہ شخص کہ اس کے پڑوسی
اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ (صحیح البخاري ،کتاب الأدب، باب اثم من لایأ من
جارہ بوائقہ،4/104،حدیث: 6016)
اس حدیث پاک میں
میر ے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار قسم اِرشاد فرمائی اور
تاکیداً فرمایا کہ وہ مؤمن نہیں ہے۔ اِس کا مَطلب ہے جو شخص پڑوسیوں کو تکلیف دے
اور وہ اس سے محفوظ نہ ہوں تو یہ شخص کامل اِیمان والا نہیں ہے۔
(2)پڑوسی کو تکلیف دینے والا گویا اللہ پاک کو ایذا دینے
والا ہے: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے ”پڑوسی“ کو
تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو
ايذا دی، نیز جس نے اپنے ”پڑوسی“ سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے
مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،3/286، حدیث:
3907)
(3)نماز روزہ بھی کام نہ آئے:
پڑوسیوں کو ایذا
دینے والی عورت کے متعلق جب سوال ہوا تو فرمایا:۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے
عرْض کیا، یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! فلاں عورت نماز و روزہ،
صدَقہ کثرت سے کرتی ہے مگر اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے۔ سرکارِ
مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جہنّم میں ہے۔(مُسْنَد
اَحمَد، 4/635، حدیث:9926)
(4)پڑوسیوں کو دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں: سرکارِ عالی
وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کسی نے کسی مسلمان کو اس کے گھر
والوں کے بارے اور اپنے پڑوسی کو دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (کنزالعمال ، کتاب
البر، فصل في الأخلاق والأفعال المذمومة،حدیث:7830)
(5) جنت سے محرومی کی وعید : مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس
کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔(کنزالعمال، کتاب الصحبت، فصل فی حق الجار
)
(6)پڑوسی کی خیر خبر نہ لینے والا پڑوسی : قیامت کے دن
پڑوسی اپنے پڑوسی سے چمٹ جائے گا اور کہے گا: اے میرے پروردگار اس سے سوال کر اس
نے میرے اوپر اپنا دروازہ کیوں بند کیا اور اپنا کھانا کیوں مجھ سے روکے رکھا۔
(کنزالعمال، کتاب الصحبت، فصل فی حق الجار)
(7)وہ ایمان دار نہیں: اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں ایسے
شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے ”پڑوس“
میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار
نہيں۔(معجمِ کبیر،ج12/119، حدیث: 12741)
قراٰنِ کریم و
آحادیث طیبات کے فرامین اور بزرگانِ دین کے طرزِ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں
چاہئے کہ ہم بھی اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کریں۔ اور پڑوسیوں کی ناراضیوں سے ہر دم
بچتے رہیں تاکہ اس معاشرے میں محبت کی فضا قائم رہے۔
اللہ پاک ہمیں بھی
دینِ اسلام اور شریعتِ مطّہرہ کے عین مطابق اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے
کی توفیق عطا فرمائے، دنیا و آخرت میں بہتر پڑوس عطا فرمائے۔
پڑوسی خُلد میں یارَب بنا دے
اپنے پیارے کا
یہی ہے آرزو میری یِہی دِل سے
دعا نکلے( وسائل بخشش)
فیصل یونس (درجہ دورۃُ الحدیث
جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ جوہڑ ٹاؤن لاہور،پاکستان )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! روز مرہ کے مختلف معاملات میں
جن افراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے، اللہ پاک نے رشتہ
داروں اور دوستوں ،ساتھیوں کے علاوہ پڑوسیوں سے بھی نیک اور اچھے برتاؤ کا حکم دیا
ہے۔ چنانچہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا یہ جنت میں لے جانے والا عمل ہے اور ان کے
ساتھ بدسلوکی و ایذا رسانی کرنا حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے
۔پڑوسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسی لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق
بیان کیے گئے ہیں، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم، صحابہ کرام علیہمُ الرضوان اور بزرگان دین کی سیرت کا
مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے حُسن سلوک کی وجہ سے کئی
غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ
بھلائی کرے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ کی بندگی کرو
اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور
یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور
راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے (پ 5، النسآء : 36)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جبریل (علیہ السّلام) مجھے پڑوسی کے بارے میں مسلسل تاکید کرتے رہے یہاں
تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث ہی بنادیں گے۔( بخاری ، کتاب الادب،
4/104، حدیث : 6015)
سرکار مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر !جب تم شور بہ پکاؤ تو
اس کا پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔( مسلم، كتاب البر والصلة
والآداب، باب الوصية بالجار و الاحسان ، ص 1413، حدیث:2625)
حدیث پاک میں سالن کے دیگر اجزاء کے بجائے شوربہ بڑھانے کا
فرمایا گیا کیونکہ شوربہ بڑھانا ہر ایک کے لئے آسان ہوتا ہے جبکہ گوشت اور مصالحہ
وغیرہ بڑھانا سب کے لیے آسان نہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ مستحب کاموں میں سے جو آسان
ہو اسے کرنے کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ بندہ آسانی سے عمل کر کے زیادہ اجر و ثواب
کما سکے ۔
مذکورہ حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لذت پر الفت و محبت
کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ شور بے میں گھی اور مصالحہ بڑھانے کے بجائے صرف پانی
بڑھانے سے اگر چہ اس کا مزہ کم ہو جائے گا لیکن پڑوسیوں کو دینے کی برکت سے ان کے
ساتھ تعلقات اچھے ہو جائیں گے اور باہمی محبت بڑھے گی کیونکہ تحفہ دینے سے آپس میں
محبت بڑھتی ہوتی ہے۔ افسوس ہمارے معاشرے میں صورت حال اس کے بر عکس ہے الفت و محبت
پر مزے کو ترجیح دی جاتی ہے۔(فیضان ریاض الصالحین، 3/481 تحت الحدیث 304،مکتبۃ
المدینہ)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ
اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے۔ " اگلی حدیث
پاک میں فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ
احسان کرنا چاہیے۔(مسلم کتاب الایمان ، باب الحث علی اکرام الجار و
الضیف۔۔۔الخ،ص43،حدیث:47،48)
علامہ محمد بن عَلان شافعی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے
ہیں: ” مصنف یعنی امام نووی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ان دونوں احادیث کو جمع کر کے
اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ کامل ایمان اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک
دونوں چیزوں کو جمع نہ کیا جائے یعنی پڑوسی کو اذیت دینے سے بھی بچا جائے اور اپنی
قدرت کے مطابق اس کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا جائے۔(دليل الفالحين ، باب في حق الجار
والوصيۃ،2/140 ،تحت الحديث : 310)
اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسیوں کا احساس کرنے ،اور انہیں ہدیہ
دینے، اور انہیں تکلیف و اذیت پہنچانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد شعیب شفیق ( درجہ سادسہ
جامعۃُ المدینہ فیضان حسن جمال مصطفی لانڈھی کراچی،پاکستان )
کامیاب زندگی گزارنے اور آخرت کے اچھے گھر کے حصول کے لئے
ایک اہم چیز اخلاقِ حسنہ بھی ہیں کہ آدمی اپنے کردار اور اخلاق سے معاشرے میں
پہچانا جاتا ہے اور ہمارا اسلام تو باقاعدہ ہمیں معاشرے میں رہنے کے اصول بیان
کرتا ہے جن میں سے ایک چیز پڑوسی کے حقوق بھی ہیں۔
یوں تو پڑوسیوں کے کئی حقوق ہیں لیکن یہاں بعض بیان کیے
جاتے ہیں:
(1) تکلیف نہ دینا: پڑوسی کے حقوق سے ہے آپ انہیں کسی بھی
طرح پریشان نہ کریں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:خدا کی
قسم وہ مؤمن نہیں، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں۔ عرض کی گئی
کون یا رسولَ اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) فرمایا:وہ شخص کہ اس کے پڑوسی
اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں۔( صحیح البخاری، کتاب الأدبب،باب اثم من لایأ من
جارہ بوائقہ، 4/ 104،حدیث: 4014 )
(2) مدد کرنا: پڑوسی کے حقوق سے ہے کہ جب اسے مدد کی ضرورت
ہو تو اس کی مدد کرو کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کے
نزدیک ساتھیوں میں بہتر وہ ساتھی ہے جو اپنے ساتھی کا خیر خواہ ہو اور پڑوسیوں میں
اللہ کے نزدیک وہ بہتر ہے جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔(بہار شریعت،حصہ،16)
(3) تحفہ دینا: پڑوسی کے حقوق سے یہ بھی ہے کہ اس سے موالات
رکھیں جائیں اور انہیں تحفہ دیا جائے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا:اے عائشہ پڑوسی کا بچہ آجائے تو اس کے ہاتھ پر کچھ رکھ دو کہ اس سے باہم
محبت بڑھے گی۔(بہار شریعت،حصہ،16)
(4) عزت کرنا : پڑوسی کے حقوق سے ہے کہ اس کی عزت کی جائے
کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:جو شخص اللہ (پاک) اور
پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کا اِکرام کرے۔(بہار
شریعت،حصہ،16)
(5) عیادت کرنا: پڑوسی کے حقوق سے ایک بات یہ بھی ہے جب
کبھی وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کی جائے کیونکہ ایک حدیث پاک میں نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے پڑوسی کا حق بیان فرمایا کہ آپ علیہ السّلام نے
فرمایا: اور جب بیمار ہو عیادت کرو۔(بہار شریعت،حصہ16)
اس بیان کے بعد ہمیں چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھیں
ان کے خوشی و سوگ میں شریک ہوں اور انہیں ستائے نہیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسیوں
سے اچھا برتاؤ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد وقار یونس(درجہ سادسہ
جامعۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم کراچی پاکستان)
جہاں پڑوسی سے حسن سلوک کا حکم ہے وہیں یہ بھی ہے کہ ہم اس
کو اپنے شر سے محفوظ رکھیں اس کو اپنی ذات سے کوئی تکلیف و آزمائش نہ ہونے دیں چنانچہ
اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی کا فرمان ہے: اللہ کی قسم! وہ مؤمن نہیں ہو
سکتا،اللہ کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے
پوچھا گیا:اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون؟ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اُس کی شرارتوں سے مخفوظ نہ
ہو۔(بخاری ،کتاب الادب،8/10، حدیث:6016)
پڑوسی ایک دوسرے کی
خوشیوں میں شریک ہوں اور آپس میں غم با بانٹنے سے رابطے مضبوط ہوتے اور پڑوسیوں کا
یہ حق ہے کہ ہم ان کی خوشی اور غم کے مواقعوں میں شریک ہوں اس بات کو حدیث مبارکہ
میں اس انداز سے بیان کیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: جب تم کوئی سالن پکاؤ تو
اس میں پانی زیادہ رکھو پھر اپنے پڑوسیوں کو دیکھو تو اس سے کچھ ان کو دے دو (
صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب الوصیۃ ،حديث: 2625 )
(1، 2، 3) پڑوسی کو اپنے شر سے محفوظ رکھنا، خوشی غمی میں
شریک ہونا : ضرورت کے وقت کام آنا :انسان ہونے کے ناطے ہمیں روزانہ کی بنیاد پر
ایک دوسرے کی حاجت ہوتی ہے بہترین انسان وہ ہے جو ضرورت کے وقت کام آئے یہی تقاضا
پڑوسیوں کا بھی ہوتا ہے اور یہ ان کا حق ہے چنانچر امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : پڑوسی کا یہ
حق ہے کہ دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں ہماری ضرورت ہو اس میں ان کی راہنمائی
کرے۔( حیاء العلوم ،مترجم ، ج 2،ص 72)
پڑوسی کی ایذا پر صبر کرنا : حجّۃ الاسلام حضرت سیّدنا امام
محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ
حقِ پڑوس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یاد رکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی
کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے ، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف
کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے ۔کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص
اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا ہے ،
حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا ، لہٰذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر
ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش
آئے ۔(احیاء العلوم ، کتاب آداب الالفت ۔الخ 2/267)
ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق مجھے
اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمانے اور بروز قیامت اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا پڑوس نصیب
فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
حافظ محمد حسین عطاری (درجۂ
رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن و جمال مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
الحمدللہ اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے
ایک نعمت اچھے اور نیک پڑوسی کے ملنے کا بھی ہے جس طرح ہم پر والدین، اساتذہ، رشتہ
دار، اور دوستوں کے حقوق ہیں۔ اسی طرح ہم پر پڑوسیوں کے بھی حقوق ہیں اور ان پر
عمل کرنا ہم پر لازم ہے۔
پڑوسیوں کی عزت کرنا اور احترام کرنا یہ ان کا سب سے بڑا حق
ہے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا یہ بھی ان کا حق ہے اور ان کے ساتھ کسی
قسم کی بدتمیزی زیادتی نہ کی جائے یہ بھی ان کا حق ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا میں
نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے دو پڑوسی ہیں ان میں
سے میں کسے ہدیہ دیا کروں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کا
دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو ۔(مشکوۃ المصابیح جلد 3 ،حدیث : 1936)
اس حدیث سے چند چیزیں معلوم ہوئی ایک یہ کہ پڑوسیوں کو ہدیہ
دینا سنت ہے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ پڑوسی کا قرب دروازے سے ہوتا ہے نہ کہ
چھت اور دیوار سے۔ اگر ایک شخص کے مکان کی دیوار اور چھت تو ہمارے مکان سے ملی
ہوئی ہو مگر دروازہ دور ہو اور دوسرے شخص کی نہ چھت ملی ہوئی ہو اور نہ ہی دیوار
مگر دروازہ قریب ہو تو یہ پڑوسی زیادہ قریب ہے کیونکہ دروازے کی وجہ سے ملاقات
ہوتی رہتی ہے اور ایک دوسرے کے درد و غم میں شرکت کا زیادہ موقع ملتا ہے۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ پڑوسی قرب کی وجہ سے حقدار ہے
حضرت عمر بن شدید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سے اس فرمان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اس کی تفسیر میں شفعہ فرمایا یعنی
پڑوسی قرب میں ہونے کی وجہ سے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا
پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔(مشکوۃ المصابیح جلد 6 ،حدیث : 4963)
افسوس یہ ہے کہ آج ہم حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے اس فرمان پر بالکل بھی عمل نہیں کرتے بلکہ اب تو حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہمارا
پہلا شکار ہی ہمارا پڑوسی ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے
فرمایا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک بہترین
ساتھی وہ ہے جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہو اور اللہ پاک کے نزدیک بہترین ساتھی
پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھا ہو۔(مشکوۃ المصابیح جلد 6 ،حدیث : 4987)
عبادت کی درستگی کے بعد پڑوسیوں کے بھی حقوق ہیں کیونکہ وہ
ہر وقت آپ کے ساتھ ہی رہتا ہے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے ان کے بچوں کو
اپنی اولاد کی طرح سمجھنا چاہیے ان کی عزت و ذلت کو اپنی عزت و ذلت سمجھنا چاہیے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن وہ نہیں جو خود سیر ہو جائے
اور اس کے برابر میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔(مشکوۃ المصابیح جلد 6 ،حدیث : 4991)
اگر اسے اپنے پڑوسی کی بھوک اور محتاجی کی خبر ہو پھر بھی
یہ اسے پورا نہ کرے تو تب تو یہ بے مروت ہے اور اگر خبر نہیں ہو تو یہ بہت لاپرواہ
ہے مؤمن کو چاہیے کہ اپنے محلہ داروں کی حالات سے واقف ہو اور اگر کسی کی حاجت
مندی کا پتہ چلے تو ان کی حاجت کو پورا کرے۔
اللہ پاک سے دعا ہے جو میں نے لکھا اس کو اپنی پاک بارگاہ
میں قبول فرمائے اور اس میں جو غلطی ہو گئی ہو اسے اپنی رحمت کے صدقے معاف فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
غلام یاسین (درجہ خامسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان غوث الاعظم حیدرآباد ، پاکستان)
ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے
میل جول نہ رکھیں، دُکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں پیدا
ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک،
ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، اَمْن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک
ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے دیگر اسلامی
بھائیوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا
ایسا درس دیا کہ اگر اُس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں
اور اِس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان
و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔
وہ مؤمن نہیں ہوسکتا
: نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی
قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ کرام علیہمُ
الرّضوان نے عرض کی: يارسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کی برائيوں سے اس کا ”پڑوسی“ محفوظ نہ
رہے۔(بخاری،4/104، حدیث: 6016)
اسلام میں ”پڑوسی“ کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے
کا معیار اس کے ”پڑوسی“ کو مقرر فرمایا، چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ!
مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نيک بن
جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے
”پڑوسیوں“ سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہيں تو تم نیک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو
تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان، 7/85، حدیث: 9567)
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار
نہیں دیتے کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے ”پڑوس“ میں بچے بھوک و پیاس
سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود
شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر، 12/119،
حدیث: 12741)
”پڑوسیوں“ سے حُسنِ
سلوک تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے
ان کی زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف
نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، ص 43، حدیث: 73) دوسری روایت میں آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے ”پڑوسی“ کو تکلیف دی بے شک اُس نے
مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو ايذا دی، نیز جس نے
اپنے ”پڑوسی“ سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے
شک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،3/286، حدیث: 3907)
”پڑوسی“ کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت
ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ
عیب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔( معجمِ کبیر،19/419، حدیث: 1014)
ایک اور روایت میں
یوں ارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو
تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں؟ ”پڑوسی“ کا حق کم
لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔(الترغیب
والترہیب،3/243، حدیث:3914 ) ايک اور روایت میں فرمایا: اگر وہ تنگدست ہوجائے تو
اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اُسے مصیبت پہنچے تو اس
سے تعزيت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغير
اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہَوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف
نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خريد کر لاؤ تو
اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ايسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ
اور ”پڑوسی“ کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔
(شعب الایمان،7/83، حدیث: 9560)
بسا اوقات ”پڑوسی“ سے کتنا ہی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان
ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی
اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے ”پڑوسی“ کے ساتھ حُسنِ
سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی
نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا
”پڑوسی“ اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس
کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،2/152، حدیث: 1637) مُعَاشَرے
کو پُر سکون اور اَمْن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے ”پڑوسیوں“ کے متعلق اسلام
کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ
سمجھنے لگے گا۔
پڑوسی کے چند حقوق: قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے (کے ساتھ بھلائی کرو)۔(پ5،النساء:36)
اور حدیث شریف میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا کہ : حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے
میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو
اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب الوصیۃ
بالجاروالاحسان الیہ ، حدیث:2664،ص 1413)
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن
کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو۔ ؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض
کیا کہ ہم لوگ اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کے جذبے
میں یہ کر رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ
جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت
کرے۔ یا اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے محبت کریں اس کو لازم ہے
کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایا جائے تو وہ
امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(شعب الایمان ، باب فی
تعظیم النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ... الخ ، 2/201،حدیث: 1533)
اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا
رہ جائے۔( شعب الایمان، 3/225 ، حدیث: 3389)
چند مدنی پھول عرض کئے جاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی نیت
کرلیں۔
(1)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت ضرورت ان
کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔
(2)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری ، ان کی خیر خواہی اور بھلائی
میں ہمیشہ لگا رہے۔
(3)کچھ تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے
کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم
لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔(صحیح مسلم، کتاب
البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، ص1413، حدیث:2625)
(4)پڑوسی کے مال عزت آبرو کے معاملے میں بہت احتیاط برتے ان
کی پردہ پوشی کرے ۔ اپنی نگاہوں کو پڑوسی کی عورتوں سے دیکھنے سے خاص طور پر بچائے
۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے
والا بنائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
محمد حسن رضا(درجہ ثالثہ جامعۃُ
المدینہ فیضان ابو عطار کراچی ، پاکستان)
قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: پاس کے
ہمسائے اور دور کے ہمسائے (کے ساتھ بھلائی کرو)۔ (پ5،النساء:36)
اور حدیث شریف میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا کہ : حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھ کو ہمیشہ
پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ
شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔(صحیح مسلم ، کتاب البر
والصلۃ ، باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ ، حدیث:2664،ص1413)
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام
علیھم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر
دیکھ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں
کرتے ہو ؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ ہم لوگ اللہ پاک کے
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کے جذبے میں یہ کر رہے ہیں۔ یہ سن کر
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ
اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرے۔ یا اللہ و رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے محبت کریں اس کو لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ
بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایا جائے تو وہ امانت ادا کرے اور اپنے
پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔( شعب الایمان ، 2/201،حدیث:1533)
اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا
رہ جائے۔( شعب الایمان، 3/225 ، حدیث: 3389)
چند مدنی پھول عرض کئے جاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی نیت کر
لیں۔
(1)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت
ضرورت ان کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔
(2)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری ، ان کی خیر خواہی اور بھلائی
میں ہمیشہ لگا رہے۔
(3)کچھ تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے
کہ ’’ جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ
تاکہ تم لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔(صحیح
مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، رقم ۲۶۲۵،ص۱۴۱۳)
(4)پڑوسی کے مال عزت آبرو کے معاملے میں بہت احتیاط برتے ان
کی پردہ پوشی کرے ۔اپنی نگاہوں کو پڑوسی کی عورتوں سے دیکھنے سے خاص طور پر بچائے
۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے
والا بنائے ۔۔۔ آمین ۔
عبید رضا (درجۂ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ کراچی، پاکستان)
الحمدللہ ہم پر اللہ رب العزت کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے
ہمیں مسلمان بنایا اور دینِ اسلام اتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین
رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے
قریبی اور دور کے پڑوسیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے۔ کئی احادیثِ مبارکہ
میں کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی
بجاآوری کا ذہن دیا گیا ہے آئیے! اس ضمن میں ایک بہت ہی پیاری حدیث پاک سنتے ہیں:
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ (پھر خود ہی ارشاد فرمایا) کہ جب وہ تم سے
مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے پوچھو اور اس
کا خیال کرو اور جب بیمار ہو تو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو
اور جب مصیبت پہنچے تو اسے صبر دلاؤ اور مر جائے تو جنازے کے ساتھ جاؤ اور بغیر
اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے اور اپنی ہانڈی کی خوشبو سے اس
کو ایذا نہ دو بلکہ اس میں سے کچھ اس کے لئے بھی حصہ نکالو اور اگر کوئی پھل خریدو
تو اسے بھی ہدیہ دو اور اگر کسی وجہ سے ایسا نہ کر سکو تو اس سے چھپا کر استعمال
کرو بلکہ تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا تمہیں
معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے!
مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ پاک کی
مہربانی ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت
فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگوں کو گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے ۔
حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں : بعض کے تین حق ہیں بعض کے
دو اور بعض کا ایک حق ہے، جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو اس کے تین حق ہیں۔حق
جوار اور حق اسلام اور حق کے قرابت، مسلم پڑوسی کے دو حق ہیں، حق جوار اور حق
اسلام اور غیر مسلم پڑوسی کا صرف ایک حق جوار ہے۔ (شعب الایمان،باب فی اکرام الجار
)
بیان کردہ حدیثِ پاک سے ہر عقلمند شخص اچھی طرح یہ اندازہ
لگا سکتا ہے کے پڑوسیوں کے حقوق کی بجاوری ان کی خبرگیری و حاجت روائی کرنے، ان کی
دل جوئی کرنے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے انہیں خوش رکھنے اور انہیں تکلیف نہ
پہنچانے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں کہ اگر آج مسلمان صحیح معنی
میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور ان کے متعلق عمل پیرا ہو
جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی مدنی انقلاب برپا ہو جائے مگر
افسوس کہ جیسے جیسے ہم زمانہ نبوی سے دور ہوتے جا رہے ہیں دیگر معاملات کے ساتھ
ساتھ پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں بھی پستی کے گہرے گھڑے میں گرتے جا
رہے ہیں ۔ ایک ہی گلی، محلے میں سالہا سال گزر جانے کے باوجود اپنے پڑوسی کی
پہچان، اس کی موجودگی اور حقِ پڑوس سے غفلت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص
اپنے کسی عزیز سے ملنے آئے اور ہم سے اسی گلی یا محلے میں رہنے والے اپنے کسی عزیز
کا پتہ معلوم کرے تو ہم بغلیں جھانکتے اور سر کھجاتے ہیں کیونکہ ہمیں بالکل خبر
نہیں ہوتی کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے۔ اس کا کیا نام ہے کیا کام کرتا ہے ہم تو
بس اپنی مستی میں مست رہنے والے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں میت ہو جائے، کوئی بیمار ہو
یا کسی پریشانی کا شکار ہوجائے تو ہمیں تعزیت و عیادت کرنے کی توفیق بھی نصیب نہیں
ہوتی۔
ہاں مالداروں، صاحبِ منصب لوگوں، مخصوص دوستوں، برادری
والوں یا ایسے پڑوسی کہ جن سے ہمیں اپنا کام نکلوانا ہو ان کے یہاں تو ہم خوشی اور
غم کے مواقع پر پیش پیش نظر آتے یا انہیں اپنے ہاں تقریبات میں بلاتے ہیں مگر غریب
پڑوسیوں کی خیر خواہی کرنا یا ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا ہم اپنی شان کے خلاف
سمجھتے ہیں۔
اللہ پاک ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کسی قسم کا رنج یا
تکلیف پہنچانے سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین
ذیشان عمران (درجۂ رابعہ
جامعۃُ المدینہ فیضان حسن جمال مصطفی کراچی ، پاکستان)
انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے
علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق بلکہ ہر وقت ملاقات، لین دین کا ہمسایوں اور
پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور اس کی خوشگواری و ناخوشگواری کا زندگی کے چین وسکون
اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ تو چند پڑوسیوں
کے حقوق درج ذیل ہیں۔
ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے
اسکے ساتھ بھلائی کرے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اسکا شوربہ زیادہ کرلیا کرو اور
اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔ ( مسلم، كتاب البر والصلۃ ) نیز رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن یا اسکے ھدیے کو حقیر نہ
سمجھے اگرچہ اسکا بھیجا ہوا ہدیہ بکری کا کھر ہی ہو۔ ( بخاری، کتاب الادب )
ہر مسلمان عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق پڑوسن کے یہاں ھدیہ
بھیجتے رہنا چاہئے یہاں تک کہ وہ معمولی چیز کا ہدیہ بھیجنے میں بھی تامل نہ کرے
اسی طرح کسی پڑوسن کے یہاں سے آئے ہوئے معمولی ہدیہ کو بھی حقیر نہ جانے بلکہ اسے
خوش دلی سے قبول کرے اور ھدیہ دینے والی کاشکریہ ادا کرے اس سے نہ صرف یہ کہ ایک
دوسرے کے خلاف کینہ اور غصہ دور ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتی
ہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوجاتے ہیں ۔
اللہ اور اسکے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امت
کو جن باتوں کا حکم دیا ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور
انکے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ
وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ
ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے
بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے
ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)نیز رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو
اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہئے۔( مسلم ، کتاب الایمان )
مطلب یہ ہےکہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ
ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو قرض طلب کرے تو اسے قرض دو، خوشی میں ہوتو
مبارک باد دو مصیبت زدہ ہو تو تسلی دو، اسے سلام میں پہل کرو، بات نرمی سے کرو،
اسکے دین ودنیا کی درست رہنمائی کرو، اسکے عیوب کی تلاش میں نہ رہو، اسکی لغزشوں
سے درگزر کرو، اسکی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اسکو ایذا نہ دو۔ یہ سب باتیں ہمسایہ
کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کے کے تحت آتی ہیں۔
ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر حق ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی
یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ
کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ
مؤمن نہیں ہوسکتا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول
كون ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا وہ شخص جس کا پڑوسی اسکی
شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔( بخاری ،کتاب الادب ) اورایک روایت میں فرمایا جو اللہ
اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوتو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ ( بخاری )
لفظ مؤمن کا مصدر ،ایمان امن سے ماخوذ ہے جو شخص اللہ پر
ایمان رکھتا ہو وہ مفسد اور شر پسند نہیں ہو سکتا ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ
مؤمن اپنے پڑوسی کو ایذا نہیں دیتا، اس پر ظلم نہیں کرتا، اس پر بہتان نہیں
لگاتا، اسکی عزت و آبرو پر حملہ نہیں کرتا بلکہ وہ امن وسلامتی کا پیکر ہوتا ہے نہ
صرف یہ کہ مؤمن پڑوسی اسکے شر، دست درازی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے
بھی اسکی،شرافت امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں جوشخص اپنی شرارتوں سے پڑوسی
کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی فتنہ انگیزی سے اسکا چین چھین لیتا ہو وہ مؤمن
نہیں ہے۔
اللہ پاک ہمیں
پڑوسیوں اور اہل محلہ سے حسن سلوک کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد عبد المبین عطّاری (
درجۂ ثانیہ جامعۃُ المدينہ فیضان امام غزالی گلستان کالونی فیصل آباد، پاکستان)
ایک ہی محلے یا سو سائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے
سے میل جول نہ رکھیں، دکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پر پریشانیاں
پیدا ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں والدین اور عزیز واقارب کے ساتھ حسن سلوک،
ہمدردی و اخوت ، پیارو محبت اور امن و سلامتی کی تعلیم دی ہے وہیں ہمارے قرب و
جوار میں بسنے والے پڑوسیوں کو بھی محروم نہیں رکھا۔ بلکہ ان کی جان ومال اور اہل
و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی
مسائل حل ہوسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے جہاں ہر
ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔
(1) پڑوسی کے
حقوق بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اگر وہ
(پڑوسی) بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت
کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عیب دار ہو جائےتو اس کی پردہ
پوشی کرو۔ ( معجم کبیر، ج 19 ، ص 419 ، حدیث : 1014 )
(2) ایک اور روایت
میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ (پڑوسی) تم سے مدد طلب
کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو
میں تمہیں کہہ رہا ہوں ؟ پڑوسی کا حق کم لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا
رحم و کرم ہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، ج 3، ص 243 ، حدیث:3914)
(3) پڑوسیوں کے حقوق
میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اس کی خوشی وغمی میں شریک ہوں ، اسے تکلیف نہ پہنچائیں
اور اپنے لیے جو پسند کریں اس میں سے کچھ حصہ پڑوسی کے گھر بھیج دیں۔
ایک روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا
: اگر وہ (پڑوسی ) تنگ دست ہو جائے تو اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک
باد دو، اگر اسے مصیبت پہنچے تو اس سے تعزیت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے
میں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہوا نہ
روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو
صحیح ہے، اگر پھل خرید کر لاؤ تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ایسا نہ کر
سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کیلئے تمہارے
بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں ۔ (شعب الایمان، ج 7 ،ص 83 ، حدیث : 9560)
(4) کہیں پڑوسی کو
وارث نہ بنا دیا جائے: حضرت سیدنا امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے. ہیں : میں
حضرت سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا ان کا غلام بکری
کی کھال اتار رہا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے غلام ! جب تو کھال اتارلے
تو سب سے پہلے ہمارے یہودی پڑوسی کو دینا حتی کہ آپ نے یہ جملہ کئی بار فرمایا ،
غلام نے کہا : آپ کتنی بار یہ کہیں گے؟ فرمایا : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ہمیں مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں
پڑوسی کو وارث نہ بنا دیں ۔ (ترمذی، كتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فى حق الجوار،
3/379 ،حدیث:1949)
(5) اسلام میں پڑوسی
کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص
کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا چنانچہ
ایک شخص نے عرض کی یارسولُ الله مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہو
جاؤں؟ تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نیک بن جاؤ۔
اس نے عرض کی : مجھے اپنے نیک بن جانے کا علم کیسے ہوگا ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہیں تو
تم نیک ہو اور اگر وہ برا کہیں تو تم بڑے ہی ہو۔(شعب الایمان ، ج 7، ص 85 ، حدیث :
9567)
پڑوسیوں کے چند عام
حقوق بیان کئے جا رہے ہیں:
۱۔ پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں
پہل کرے ۔
٢۔ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔
۳۔ ان کے حالات کے بارے میں
زیادہ سوال نہ کرے۔
۴۔ جب وہ بيمار ہو تو ان کی
عیادت کرے۔
٥۔ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے ۔
٦۔ ان کی خوشی میں شرکت کرے۔
۷۔ ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔
۸۔ ان کے گھر میں مت جھانکے ۔
۹۔ اگر ان کے عیوب اس پر ظاہر
ہوں تو انہیں چھپائے ۔
۱۰۔ ان کے خلاف
کوئی بات نہ سنے۔
١١۔ ان کی اولاد کے
ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔
١٢۔ دین و دنیا کے
جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں ان کی رہنمائی کرے۔
معاشرے کو پر سکون
اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر
عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کی تکمیل کی توفیق عطافرمائے ۔
آمین
احمد فرید مدنی (امام جامع
مسجد و مدرسہ فیضان رضا اکبری جامع مسجد سہجہ خان پور ، پاکستان)
انسان کا اپنے رشتہ داروں کے علاوہ ایک مستقل واسطہ اپنے
پڑوسیوں کے ساتھ،ہوتاہے،اسلام نے اس تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے جہاں ماں باپ
،میاں بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا
ہے ،وہیں پڑوسیوں کے بارے میں بھی اس کی تاکید اورہدایت فرمائی گئ ہے۔ قراٰنِ پاک
میں دو قسم پڑوسیوں کے پڑوسیوں کا تذکرہ فرمایا گیا اور ان سے اچھا سلوک کرنے کی
تاکید فرمائی گئی چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ
الْجَارِ الْجُنُبِ اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے ۔ (پ5، النسآء:36)
قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا
ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر
سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور
وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور
مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا
ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: 36، ص275)
احادیث مبارکہ میں
پڑوسیوں کے کئی حقوق بیان فرمائے گئے جن میں سے 5 حقوق درج ذیل ہیں ۔
(1) جب وہ مدد
طلب کرے تو اس کی مدد کی جائے: جیساکہ حدیث پاک میں ہے: جس نے مصیبت کے وقت اپنے
مسلمان بھائی کی مدد کی تو اللہ پاک آخرت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت میں اس کی
مدد کر ے گا اور جو مسلمان کا عیب چھپائے اللہ پاک دنیا و آخرت میں اس کے عیب
چھپائے گا اور اللہ پاک بندے کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہے۔
(مسند احمد، جلد 2، ص 252)
(2) جب قرض طلب کرے
اس کو قرض دیا جائے: فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: ہر قرض صدقہ
ہے ۔ (شعب الايمان ، ج 3، ص 284 ، حدیث 3563)اسی طرح معراج کی رات میں نے جنت کے
دروازے پرلکھا ہوا دیکھا کہ صدقے کا ہر درہم ،دس درہم کے برابر ہے اور قرض
کاہردرہم اٹھارہ درہم کے برابر ہے ۔میں نے پوچھا جبرئیل!قرض ،صدقے سے کس وجہ سے
افضل ہے؟عرض کی: سائل سوال کرتا ہے جب کہ اس کے پاس (مال)ہوتا ہے اور قرض طلب کرنے
والا اپنی ضرورت کے لئے قرض طلب کرتا ہے ۔ (حليۃالاولياء، ج 8، ص 374 ، حدیث:
12549)
(3) جب بیمار ہو تو
اس کی عیادت کی جائے: فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو مسلمان کسی
مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار
فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔ (ترمذی،ج
2،ص290، حدیث: 971)
(4) اور اگر اس کو
کوئی نعمت ملے تو مبارک باد دو: (مثال کے طور پران کے ہاں اولاد ہونا، امتحان میں
پاس ہونا، روزگار کا مل جانا، شادی بیاہ) تو ان کو مبارک باد دینا۔ یہاں بھی یہ
بات یاد رکھیں کہ اگر وہ پڑوسی خوشی کے موقع پر غیر شرعی یا غیر اخلاقی پروگرام
کرتا ہے تو اس میں بالکل شرکت نہ کی جائے اور نہ ہی اس موقع پر مبارک باد دی جائے
تاکہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔
(5) پڑوسی کوکھانے
میں سے کچھ بھیج دینا: گھر میں کھانا تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ
کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی خوشبُو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ اگر
گھر میں کوئی اچھا سالن بنائیں تو اس میں بھی ہمسائیوں کو شریک کیا جائے جیساکہ
حضرت سیدنا ابوذرغفاری بیان کرتے ہیں میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
مجھے یہ نصیحت کی تھی جب تم سالن بناؤ تو اس میں شوربہ زیادہ رکھو اور پھر اپنے
پڑوسیوں میں سے کسی ایک کے ہاں اس میں سے کچھ بھیج دیا کرو۔(سنن دارمی، ج 1 ،
حدیث: 1989)
ایک سچا مسلمان ہر لمحے اپنے پڑوسی کے حقوق پہچانتا ہے ،
مصائب ومشکلات میں اس کی مدد کرتا ہے، اس کی خوش حالی میں خوشی ومسرت کا اظہار
کرتا ہے ۔ اس کے رنج وغم اور خوشی وسرور میں شریک ہوتا ہے۔ اگر اس کا پڑوسی ضرورت
مند اور محتاج ہوتا ہے تو اس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہے اور اس کی ضرورتوں کو
پورا کرتا ہے ۔ اگر اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اس کی عیادت کرتا ہے اور اس
کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا اظہار کرتا ہے اور بوقت ِضرورت اس کے کام آتا ہے
اگر اس کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے جنازے میں شریک ہوتا ہے۔ اس کے گھر والوں کو
دلاسہ دیتا ہے اور اپنے خاندان کے احساسات کا لحاظ رکھتا ہے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اپنے تمام پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم