اسلام اللہ پاک کے نزدیک سب سے مقبول و معزز دین ہے اور دین اسلام ہی دینِ فطرت ہے اور انسان کے لئے ایک مکمل ضابطۂ حیات اور سفر و حضر میں مثلِ مشعلِ راہ ہے انسان کی زندگی کے تمام معاملات اور لوازمات کو ہر لحاظ سے اس میں بیان کیا گیا ہے۔

اس دین کی بے شمار و لامحدود خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں حقوق العباد کو بڑے التزام سے بیان کیا گیا تاکہ معاشرہ پر امن رہے اور تاکید کے ساتھ ان کی پاسداری کا حکم بھی دیا ہے۔

والدین کے اولاد کے متعلق اولاد کے والدین کے متعلق زوجین کے باہم اتفاق و اتحاد وغیرہ کے متعلق حقوق ترغیب و ترھیب کے ساتھ انتہائی نفیس طریقے سے بیان ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ایک مسلمان کو اس کے رہن ، سہن اور اس کے پڑوسی کی اہمیت و حقوق کو بھی انتہائی احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے کیونکہ انسان تادمِ حیات کہیں نہ کہیں رہائش اختیار کرتا ہے اور جہاں بھی یہ سکونت اختیار کرے گا تو کسی نہ کسی کا پڑوس تو ضرور ملے گا۔ پڑوسیوں کے متعلق اللہ پاک قراٰنِ پاک کی سورۃُ النساء کی آیت نمبر 36 میں فرماتاہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (پ5، النسآء:36)

تفسیرِ احمدیہ میں الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ کے تحت لکھا ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: 36، ص275)

یاد رکھیئے! کسی بھی مقام پر رہائش اختیار کرنے سے قبل وہاں کے پڑوس کے متعلق ضرور معلومات لے لی جائے کیونکہ اس کی تعلیم پڑوسیوں میں سے بہترین پڑوسی سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ہمیں ارشاد فرمائی ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: التمسوا الجار قبل الدار، والرفيق قبل الطريق یعنی گھر سے پہلے پڑوسی اور راستہ سے پہلے ہم سفر تلاش کرو۔ (کنزالعمال)

رہائش اختیار کرتے وقت اچھے پڑوسیوں کا انتخاب کیا جائے کہ سعادت مندی ہے سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مردِ مسلم کے لیے دنیا میں یہ بات سعادت میں سے ہے، کہ اس کا پڑوسی صالح ہو ۔(المستدرک،کتاب البر والصلۃ، باب ان اللہ لایعطی الإیمان الا من یحب،5/232،حدیث: 7386)

اور برے پڑوسیوں سے اللہ پاک کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ پڑوسیوں کے اچھا برا ہونے کا اثر صاحب خانہ اور اس کے تمام اہل خانہ پر پڑتا ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی برے پڑوسی کے بارے میں یوں دعا مانگتے ۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا فرمائی! اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں رہنے کے گھر میں برے پڑوسی سے، اس لیے کہ گاؤں کا پڑوسی بدلتا رہتا ہے۔( ابن ابی شیبہ، کتاب الادب)

اور ارشاد فرمایا : مستقل جائے قیام میں برے پڑوسی سے اللہ پاک کی پناہ مانگو۔( کنزالعمال، کتاب الصحبۃ ، فصل في الترهيب عن صحبۃ السوء )

اسی طرح حضرت لقمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بیٹے کو کچھ یوں نصیحت فرمائی : فرمایا: اے میرے بیٹے! میں نے پتھر اور لوہا اٹھایا ہے، مگر برے پڑوسی سے زیادہ وزنی (یعنی تکلیف دہ) چیز کوئی نہیں دیکھی۔ ( شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، آثار وحکایات فی فضل الصدق۔۔۔ الخ، 4/ 231، روایت: 4891)

البتہ کسی بھی جگہ رہائش اختیار کرنے کے بعد اپنے پڑوسیوں کا خیال ضرور رکھا جائے اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ حدیث پاک ہے ۔

پڑوسیوں کی اقسام: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی تین قسم کے اور تین درجے کے ہوتے ہیں ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک ہی حق ہو اور وہ (حق کے لحاظ سے) سب سے کم درجہ کا پڑوسی ہے، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوں اور تیسرا وہ جس کے تین حق ہوں۔ تو ایک حق والا وہ مشرک (غیر مسلم) پڑوسی ہے جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہ ہو (تو اس کا صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے) اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے، جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم (یعنی دینی بھائی) بھی ہو، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہو گا اور دوسرا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے، جو پڑوسی بھی ہو، مسلم بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو۔ تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا ہو گا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا اور تیسرا رشتہ داری کا ہو گا۔ (حليۃ الاولياء ،5/235)

لہذا پڑوسی جیسا بھی ہو اس کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتے رہنا چاہیے اور ان کا خیال رکھنا چاہیے اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جا سکتا ہے ۔

کہیں پڑوسیوں کو وارث نہ بنا دیا جائے: چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ اِبنِ عُمَر رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے: حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلام مجھے پڑوسی کے بارے میں وصِیَّت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وراثت کا حقدار بنا دیں گے۔ (صحیح البخاری، کتاب الادب ،باب الوصاۃ بالجار، ص1500، حدیث:6015)

ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے اور ان کے حقوق کی پاسداری کے متعلق ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے ۔ حدیثِ پاک میں ہے للجار حقٌّ یعنی: پڑوسی کا بہت بڑا حق ہے۔ (کنزالعمال، کتاب الصحبة، فصل فی حق الجار)

اس مناسبت سے یہاں پڑوسیوں کے چند حقوق احادیث کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں جن کو پورہ کرنا سعادت مندی کا ذریعہ جبکہ ان سے دست برداری بہت بڑی محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔

پڑوسیوں کے عام حقوق بزبانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اپنی تمام تر ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی کی عام ضروریات کی طرف بھی خاص توجہ رکھنی چاہیے کیونکہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نزدیک پڑوسوں کی کیا اہمیت تھی اور آپ نے کس اہتمام سے ان کو بیان بھی فرمایا اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جا سکتا ہے ۔

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے فرمایا: تمھیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ یہ کہ جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو، کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو اور میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا۔ تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! پوری طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں ، وہی ہیں جن پر اللہ (پاک) کی مہربانی ہے۔ (شعب الإیمان ، باب في اکرام الجار، 7/83،حدیث: 9560 )

(2)پڑوسیوں کے ساتھ کھانے کا ایثار: گھر میں جب کوئی چیز پکائی جائے تو اپنے پڑوسیوں کو بھی اس میں سے کچھ نہ کچھ بھیج دینا چاہیے کہ سب سے بڑھ کر ایثار فرمانے والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: جب کوئی شخص ہانڈی پکائے تو شوربا زیادہ کرے اور پڑوسی کو بھی اس میں سے کچھ دے۔ (المعجم الأوسط ‘‘ ، باب الراء،2/379،حدیث: 3591 )

(3)پڑوسیوں کے بچے کو بھی خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ: اگر پڑوسیوں کا بچہ کھبی گھر آئے تو اسے خالی ہاتھ واپس لوٹانے کی بجائے کچھ نہ کچھ دے دیا جائے ۔ کہ اس سے باہم محبت میں اضافہ ہو گا جیسا کہ سرکارِ عالی وقارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ جب تمہارے پاس پڑوسی کا بچہ آئے اس کے ہاتھ میں کوئی چیز رکھ دو چونکہ ایسا کرنے سے محبت بڑھتی ہے۔(کنزالعمال،کتاب الصحبة، فصل فی حق الجار)

(4)چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتا چہرہ: اپنی کمائی میں سے کچھ نہ کچھ پڑوسیوں کی معاونت کرنی چاہیے ۔سرکار عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جس نے اس نیّت سے دنیا کی کمائی کی کہ حلال مال حاصل کرے لوگوں کی محتاجی سے بچے، گھر والوں کی ضروریات بخیر و خوبی پوری کرے اور پڑوسی کے ساتھ مہربانی کرے تو اللہ پاک اسے قیامت کے دن اس طرح اٹھائے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتا ہوگا۔ (کنز العمال ،الفصل الأول في فضائل الكسب الحلال)

(5)پڑوسیوں کے احترام کا حکم: اسی طرح پڑوسیوں کی دل سے عزت کرنا کمالِ ایمان سے ہے ۔ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهٗ یعنی جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج:6 حدیث:4243)

(6) پڑوسیوں کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کی فضیلت: یاد رکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی پڑوسی کے حقوق میں شامل ہے بسا اوقات پڑوسی کے ساتھ جتنا بھی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا ”پڑوسی“ اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،2/152، حدیث: 1637)

(7) سب سے بہتر پڑوسی: عبداﷲ بن عَمْرْو رضی اللہ عنہما سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک ساتھیوں میں وہ بہتر ہے، جو اپنے ساتھی کا خیر خواہ ہو اور پڑوسیوں میں اللہ (پاک) کے نزدیک وہ بہتر ہے، جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔ (سنن الترمذي ،کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء في حق الجوار،3/379،حدیث: 1951)

پڑوسیوں کے معاملہ میں ہمارے اسلاف کا کیا طرزِ عمل تھا جس کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:

خواجہ پیا کا پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک: حضرت سَیِّدُنا خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھا کرتے ،ان کی خبر گیری فرماتے، اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے ، اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہو جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہوکر اس کے حق میں مغفرت ونَجات کی دُعا فرماتے نیز اس کے اہلِ خانہ کو صبر کی تلقین کرتے اور انہیں تسلّی دیا کرتے ۔ (معین الارواح ،ص 188،بتغیر)

پڑوس کے چالیس چالیس گھروں کا بھی خیال کرنے والے بزرگ: فی زمانہ تو اپنے گھر کے ساتھ متصل پڑوسیوں کا خیال رکھنا بھی دشوار سے دشوار ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن ابی بکر رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے پڑوس کے گھروں میں سے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے چالیس چالیس گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے،عید کے موقع پر انہیں قربانی کا گوشت(Meat) اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر سو100 غلام آزاد کیا کرتے تھے۔(المستطرف ،1/276)

پڑوسیوں تکلیف پہنچانے کی عام مثالیں: جہاں پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک سعادتِ دارین کا سبب ہے وہی ان کے ساتھ بدسلوکی اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی اور بربادئ دارین کا سبب ہے لیکن افسوس لوگ اس سے یکسر غافل ہیں کیونکہ آج کل کی صورتِ حال یہ ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے ، کبھی ڈسٹ بن سے کچرے کی تھیلی اُٹھا کر چپکے سے اس کے دَروازے کے آگے رکھ کر بھاگ جاتے ہیں ، کبھی اس کے دَروازے کے آگے پانی بہا کر تکلیف دیتے ہیں ، اگر چند منزلہ عمارت ہے تو آرام کے وقت میز کُرسیاں گھسیٹ کر آرام میں خَلل ڈالتے ہیں یا بچے زور زور سے شور شرابا کرتے ہوئے کھیلیں گے ، چیزیں پھینکیں گے تو دِیگر گھر والے انہیں روکیں گے نہیں اور دوسری منزل والے کی آنکھ کھل جائے گی ، کبھی اس بے چارے کا پانی بند کر دیں گے تو کبھی بارش کے پانی کا رُخ اس کی طرف کر دیں گے ، کوئی چیز جھاڑیں گے تو دھول اس بے چارے کے گھر میں جانے دیں گے ، نہ جانے پڑوسیوں کو کیسی کیسی تکلیفیں دیں گے اور جب وہ بے چارہ فریاد لے کر آئے گا تو اس کی کوئی شنوائی بھی نہیں ہو گی غور کر لیجیے! پڑوسی کو تکلیف دینے کی کتنی بڑی خرابی اور بَدنصیبی ہے۔

ان فرامینِ مصطفٰی کو پڑھئے اور پڑوسیوں کے حقوق کے معاملے میں اللہ سے ہر دم ڈرتے رہیے۔

(1)پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانے والا مؤمن نہیں: سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تکمیل ایمان کا دار و مدار پڑوسیوں کو تکلیف نہ پہنچانے پر رکھا۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ۔ عرض کی گئی، کو ن یا رسولَ اللہ ! ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) فرمایا: وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ (صحیح البخاري ،کتاب الأدب، باب اثم من لایأ من جارہ بوائقہ،4/104،حدیث: 6016)

اس حدیث پاک میں میر ے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار قسم اِرشاد فرمائی اور تاکیداً فرمایا کہ وہ مؤمن نہیں ہے۔ اِس کا مَطلب ہے جو شخص پڑوسیوں کو تکلیف دے اور وہ اس سے محفوظ نہ ہوں تو یہ شخص کامل اِیمان والا نہیں ہے۔

(2)پڑوسی کو تکلیف دینے والا گویا اللہ پاک کو ایذا دینے والا ہے: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے ”پڑوسی“ کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو ايذا دی، نیز جس نے اپنے ”پڑوسی“ سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،3/286، حدیث: 3907)

(3)نماز روزہ بھی کام نہ آئے:

پڑوسیوں کو ایذا دینے والی عورت کے متعلق جب سوال ہوا تو فرمایا:۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرْض کیا، یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! فلاں عورت نماز و روزہ، صدَقہ کثرت سے کرتی ہے مگر اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جہنّم میں ہے۔(مُسْنَد اَحمَد، 4/635، حدیث:9926)

(4)پڑوسیوں کو دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں: سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کسی نے کسی مسلمان کو اس کے گھر والوں کے بارے اور اپنے پڑوسی کو دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (کنزالعمال ، کتاب البر، فصل في الأخلاق والأفعال المذمومة،حدیث:7830)

(5) جنت سے محرومی کی وعید : مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔(کنزالعمال، کتاب الصحبت، فصل فی حق الجار )

(6)پڑوسی کی خیر خبر نہ لینے والا پڑوسی : قیامت کے دن پڑوسی اپنے پڑوسی سے چمٹ جائے گا اور کہے گا: اے میرے پروردگار اس سے سوال کر اس نے میرے اوپر اپنا دروازہ کیوں بند کیا اور اپنا کھانا کیوں مجھ سے روکے رکھا۔ (کنزالعمال، کتاب الصحبت، فصل فی حق الجار)

(7)وہ ایمان دار نہیں: اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے ”پڑوس“ میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر،ج12/119، حدیث: 12741)

قراٰنِ کریم و آحادیث طیبات کے فرامین اور بزرگانِ دین کے طرزِ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کریں۔ اور پڑوسیوں کی ناراضیوں سے ہر دم بچتے رہیں تاکہ اس معاشرے میں محبت کی فضا قائم رہے۔

اللہ پاک ہمیں بھی دینِ اسلام اور شریعتِ مطّہرہ کے عین مطابق اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے، دنیا و آخرت میں بہتر پڑوس عطا فرمائے۔

پڑوسی خُلد میں یارَب بنا دے اپنے پیارے کا

یہی ہے آرزو میری یِہی دِل سے دعا نکلے( وسائل بخشش)