اللہ پاک نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اچھے اور نیک پڑوسیوں کا ملنا بھی ہے جس طرح ہم پر والدین و اساتذہ کرام ، رشتے داروں اور دوستوں کے حقوق ہیں اسی طرح حقوق الجیران یعنی پڑوسیوں کے بھی حقوق ہیں اور ان پر عمل کرنا ہماری اخلاقی ذمے داری ہے۔ پڑوسیوں کی عزت اور احترام کرنا یہ ان کا سب سے بڑا حق ہے ۔ یہ پڑوسیوں کا حق ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی اور بد تمیزی نہ کی جائے۔

حدیث مبارکہ ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہوں اور اللہ پاک کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔ (ترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ما جاء فى حق الجوار،3/379،حدیث:1951)

پڑوسی کو اچھے کام کی ترغیب دینا اور برے کام سے روکنا اسکے حقوق میں سے ہے۔ اگر پڑوسی کسی غلط کام میں ملوث پایا جائے تو اسے نرم لہجے میں سمجھانے کی کوشش کرنا اور اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے۔ تو عفو و درگزر سے کام لینا اخلاقیات میں ہے۔

پڑوسیوں کا حق یہ بھی ہے کہ اگر وہ بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کی جائے اگر محتاج ہو تو اسکی مدد کی جائے اگر ضرورت مند ہو تو اسکی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے اگر مصیبت میں ہو تو اسکے ساتھ ہمدردی کی جائے اگر غمگین ہو تو اسے دلاسہ دیا جائے پریشان ہو تو حوصلہ افزائی کی جائے ۔ حدیث مبارکہ ہے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ،تاجدار رسالت صلی علیہ سلم نے ارشاد فرمایا: جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری ، کتاب الادب ، باب الوصیۃ بالجار، 4/104،حدیث:6014)

پڑوسیوں کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کی جائے اس سے حسد نہ کیا جائے اس کے متعلق بدگمانی نہ کی جائے اس کے کامیابی کے راستے میں بلاوجہ رکاوٹ نہ بنا جائے بلکہ اس کے حق میں کامیابی کے لئے ہمیشہ دعا گو رہا جائے۔پڑوسیوں کو ہر قسم کی تکالیف سے بچانا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں ، وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔(صحیح مسلم)

پڑوسی کی محنت کی تعریف کرنا اور ان کے حق میں منصفانہ عمل کرنا بھی ان کا حق ہے۔ پڑوسیوں کے امن و امان اور ان کی چیزوں کی حفاظت کرنا اور ان کی خوشیوں میں اور غموں میں شریک ہونا اور جب ضروری ہو تو ان کی معاونت کرنا یہ سب ان کے حقوق میں شامل ہیں۔

پڑوسیوں سے میل جول رکھنا ان کی عورتوں کا احترام کرنا اور ان کے بچوں کیساتھ شفقت کا معاملہ کرنا اہم ہے۔ ہمارا دین بھی اس بات کا درس دیتا ہے اور پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ ہم ایک اچھا ماحول تخلیق کر سکیں، فضاؤں کو خوشگوار بنا سکیں، نفرتوں کو دور کر سکیں ، آپس میں محبت اور اتحاد بڑھا سکیں۔

آئیں یہ عزم کریں کہ پڑوسیوں کے ساتھ محبت و احترام اور تعاون کی روایات کو مستقل بنانے کی ہر ممکن کوشش کرینگے کیونکہ ہم پڑوسیوں کے حقوق کو عمل میں لاکر ایک خوبصورت و متحد اور بہتر معاشرہ تعمیر کر سکیں۔


اللہ پاک کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے ہمیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا اور اللہ پاک نے ہم پر بہت سے احکامات نافذ فرمائے ہیں ان میں سے ایک حکم پڑوسی کے حقوق کو ادا کرنا بھی ہے اسی ضمن میں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک فرمان سنتے ہیں چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی میں کیسے جانوں کہ جب میں بھلائی کروں یا جب میں برائی کروں تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے بھلائی کی تو تم نے واقعی بھلائی کی اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برائی کی تو واقعی تم نے برائی کی۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 6 حدیث، 4988)

ہمیں تو اپنے سارے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر ہمیں معلوم بھی تو ہو کہ اچھے کام اور برے کام کی علامت کیا ہیں یہاں کام سے مراد معاملات ہیں عقائد و عبادات میں کسی بھی جہت سے اچھا برا کہنے کا اعتبار نہیں معاملات میں اچھائی یا برائی کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پڑوسی تمہیں اچھا کہیں یا برا کہیں لیکن حال تو یہ ہے کہ ہمارے پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات ہوتے ہی نہیں ہیں ہم کو پتہ ہی نہیں ہوتا ہمارے برابر میں کون رہتا ہے کوئی ہم سے پوچھ لے کسی کا گھر تو ہم تو اس کو جانتے بھی نہیں ہیں لیکن وہ ہمارے برابر میں کافی ٹائم سے رہتا ہے صرف اس بنا پر کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا کہ ہم کو ان کے بارے میں کچھ پتہ ہو۔ جہاں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کیا جاتا ہے اور جنت میں جانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے وہیں پڑوسی کے حقوق ادا نہ کرنا ان کو پریشان کرنا جہنم میں جانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: مؤمن وہ نہیں کہ جو خود سیر ہو جائیں اور اس کے برابر میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔(مشکوٰۃ المصابیح ،جلد 6 ، حدیث: 4991)

یعنی اگر کسی شخص کو اپنے پڑوسی کی بھوک و محتاجی کی خبر ہو تب تو یہ بہت بے مروت ہے اور اگر خبر نہیں تو بہت لاپرواہ ہے مؤمن کو چاہیے کہ اپنے عزیزوں،قرابت داروں، پڑوسیوں اور محلے والوں کے حالات کی خبر رکھیں، اگر کسی کی حاجت مندی کا پتہ چلے تو ان کی حاجت روائی کو غنیمت جان کر کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں ایذا دینے سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ اسلام میں پڑوسیوں کے کئی حقوق بیان کئے گئے ہیں ۔اور انکے ساتھ اچھا سلوک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس ہمسایہ کے تین حقوق ہیں وہ رشتہ دار مسلمان ہمسایہ ہے ۔ اور اسکا ہمسائیگی کا حق ۔ اسلام کا حق اور رشتہ داری کا حق ہے ۔ جس ہمسایہ کے دو حق ہیں وہ مسلمان ہمسایہ ہے اسکے لئے ہمسائیگی کا حق اور اسلام کا حق ہے اور جس ہمسایہ کا ایک حق ہے وہ مشرک ہمسایہ ہے ۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 585)

ایک شخص نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ہمسایہ کی شکایت کی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حکم فرمایا کہ مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوکر اعلان کردو کہ ساتھ کے چالیس گھر ہمسائیگی میں داخل ہیں ۔(مکاشفۃ القلوب ،ص 586)زہری نے کہا :چالیس ادھر ، چالیس اُدھر چالیس ادھر اور چالیس ادھر اور چاروں سمتوں کی طرف اشارہ کیا ۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 586)

اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جانتے ہو ہمسایہ کا کیا حق ہے ؟ جب وہ تجھ سے مدد طلب کرے اس کی مدد کر اگر وہ تیری امداد کا طالب ہو اسکی امداد کر، اگر وہ تجھ سے قرض مانگے تو اسے قرض دے ، اگر وہ مفلس ہوجائے تو اسکی حاجت روائی کر اگر وہ بیمار ہوجائے تو اسکی عیادت کر اگر مرجائے تو اسکے جنازے میں شرکت کرے ۔ اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارکباد کہے۔ اگر اسے مصیبت پیش ائے تو اسے صبر کی تلقین کرے، اسکے مکان سے اپنا مکان اونچا نہ بنا تاکہ اسکی ہوا نہ رکے اگر وہ اجازت دے دے تو کوئی حرج نہیں ۔اسے تکلیف نہ دے ۔جب میوے خرید کر لائے تو اسکے گھر بطورِ تحفہ بھیج دو ورنہ خفیہ لے کر آ ، میوے اپنی اولاد کے ہاتھ میں دے کر باہر نہ بھیج تاکہ اسکے بچے ناراض نہ ہوں ۔ ہانڈی کی خوشبو سے اپنے ہمسایہ کو ایذا نہ دے مگر یہ کہ ایک چلو شوربا اس بھیج دے ۔ پھر فرمایا : جانتے ہو ہمسایہ کا حق کیا ہے ؟ بخدا ! ہمسایہ کے حقوق کو کوئی پورا نہیں کر سکتا مگر جس پر اللہ پاک نے رحمت ہو ۔(مکاشفۃ القلوب ، صفحہ 588)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے وصیت فرمائی کہ جب سالن پکائے تو اس میں پانی زیادہ ڈال لیا کر اور اس میں سے ہمسائے کو بھی بھیجا کر ۔(کیمیائے سعادت، صفحہ 316)

ہمسایہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے تکلیف نہ دی جائے بلکہ اسکے ساتھ نیکی اور بھلائی کی جائے اسکے دکھ سکھ میں ساتھ دیا جائے ۔ہمسایہ سے نرمی اور حسن سلوک سے پیش آیا جائے اسکی غیبت نہ کی جائے نہ سنی جائے ۔ہمسایہ کی عدم موجودگی میں اسکے گھر کا خیال رکھا جائے ۔ اسکی غلطیوں سے درگرز کیا جائے ۔

اللہ کریم ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اور دین اسلام کے احکامات پر عمل کرنے دوسروں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


ہماری شریعت مطہرہ نے ہر کسی کے حقوق بیان کیے ہیں اور ان حقوق میں سے پڑوسیوں کے حقوق بھی ہیں۔ یاد رکھئے ! ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے جو ان حقوق کے علاوہ ہیں جن کا اخوت اسلامی تقاضا کرتی ہے ۔ ایک مسلمان جن باتوں کا مستحق ہوتا ہے ان تمام کا اور ان سے کچھ زائد کا مسلمان ہمسایہ مستحق ہوتا ہے۔ آئیے ہم پڑوسیوں کے حقوق کو قراٰن و احادیث سے سمجھنے کی سعی کرتے ہیں کہ ہمیں قراٰن واحادیث پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی کیا تعلیم دے رہے ہیں۔ رب تعالیٰ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

اب مذکورہ آیت مبارکہ میں غور کیا جائے تو اس میں اللہ پاک اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرایا جائے۔ اور بندوں کے یہ حقوق بیان ہوئے اپنے ماں باپ، رشتہ داروں ، یتیموں ،رشتہ دارروں قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسیوں کے ساتھی ، راہ گیر، اور اپنی باندی غلام سے وغیرہ وغیرہ ۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں لفظ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ آیا جس کا ترجمہ قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ہیں۔

آئیے ہم اس کو مزید سمجھنے کیلئے تفاسیر ملاحظہ کرتے ہیں: تفسیر مدارک میں ہے: (ذی القربی) الذى قرب جواره ( والجار الجنب) الذى جواره بعید او الجار: القريب النسیب، والجار الجنب : الأجنبى یعنی والجار ذی القربی سے مراد قریب پڑوسیوں سے نیک سلوک کرو ۔ جبکہ والجار الجنب سے مراد دور کے پڑوسی کیساتھنیک سلوک کرو یا قریب کے پڑوسی سے مراد قرابت و رشتہ کےاعتبار سے قریبی پڑوسی مراد ہے اور دور کے پڑوسی سے اجنبی پڑوسی مراد ہے۔ (تفسیر مدارک،1/357)

تفسیر نعیمی میں ہے کہ (والجار زی القرنی)سے مراد پڑوس میں رہنے والا یعنی جار پڑوسی ہے قربی سے مراد مکانی قرب نہ کہ رشتہ کا قرب یا دین و ایمانی قرب مرادہے بمعنی قریب کا پڑوسی جس کا گھر تم سے ملا ہوا ہو یا مسلمان پڑوسی۔ (والجار الجنب)سے مراد دوری قرابت کا مقابل یہاں دور والے پڑوسی سے مراد یا مکانی دور والا ہے جس کا گھر ہم سے کچھ فاصلہ پر ہو یا دینی دور یعنی کافر پڑوسی کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ ہرطرف سے 40 گھر تک پڑوس ہے یعنی آگے پیچھے دائیں بائیں کہ چالیس چاہیں گھر پڑوسی ہیں ۔(تفسیر نعیمی، 5/76، 77) نعیمی کتب خانہ)

ایک تفسیر میں اس کا مفہوم کچھ بھی ہے کہ علامہ ابی مالکی متوفی828 ھ نے لکھا ہے کہ جس شخص کا گھر یا دوکان تمہارے گھر یا دوکان سے متصل ہو وہ تمہارا پڑوسی ہے بعض علما نے 40 گھروں تک اتصال کا اندازہ کیا ہے۔

اور تفسیرات احمدیہ میں اس بارے میں یوں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہوں قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ،ص 275)

امید کی جاتی ہے کہ اگر ان تفاسیر کو بغور دیکھا جائے اور مطالعہ کیا جائے تو تو آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ دور اور قریب کے پڑوسی سے کیا کیا مراد ہے اور ان کیساتھ حسن سلوک اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے میں اہم کردار و رہ نمائی رہے گی۔پڑوسیوں کے متعلق کے متعلق چند احادیث کریمہ آپ بھی پڑھئے:

( 1) اپنے پڑوسی کیساتھ حسن سلوک کر تو ( کامل ) مسلمان ہو جائے گا ۔ ( ابن ماجہ475/4، حدیث4217)

( 2) من کان یؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره یعنی جو شخص اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے ۔ ( صحیح مسلم ، حدیث47)

( 3) ایک شخص نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں عرض کی یا رسولَ الله مجھے کیونکہ معلوم ہو کہ میں نے اچھا کیا یا برا کیا ؟ فرمایا: جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیاہے تو بیشک تم نے اچھا کیا اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کیا تو بیشک تم نے برا کیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ،4/489 ، حدیث: 4223)

(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اے عائشہ پڑوسی کا بچہ آجائے تو اس کے ہاتھ میں کچھ رکھ دو کہ اس سے محبت بڑھے گی : ( الفردوس بماثور الخطاب، 468/5،حدیث863)

(5) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مرد مسلم کیلئے دنیا میں یہ بات سعادت میں سے ہے کہ اس کا پڑوسی صالح ہو اور مکان کشادہ ہو اور سواری اچھی ہو۔ (المستدرک،5/232،حدیث: 7386)

(6) اول خصمين يوم القيامة جاران یعنی قیامت کے دن سب سے پہلے جن دو آدمیوں کا جھگڑا پیش ہوگا وہ دو پڑوسی ہوں گے ۔ (المسند الامام احمد بن حنبل ، حدیث عقبۃ بن عامر الجھنی، 134/6 ،حدیث: 17377)

(7) لایؤمن عبد حتی با من جاره بوائقہ کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اسکا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو جائے۔(مسند البزار،5/392،حدیث: 2026)

(8) حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں : میں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا: مؤمن وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے یعنی مؤمن کامل نہیں ۔ (شعب الایمان، 3/225، حدیث:3389)

(9)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : اللہ پاک نے تمہارے مابین اخلاق کی اسی طرح تقسیم فرمائی جس طرح رزق کی تقسیم فرمائی ، الله پاک دنیا اسے بھی دیتا ہے جو اسے محبوب ہو اور اسے بھی جو محبوب نہ ہو اور دین صرف اسی کو دیتا ہے جو اس کے نزدیک پیارا ہے، لہذا جس کو خدا نے دین دیا اسے محبوب بنا لیا ، قسم ہے اسکی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بندہ مسلمان نہیں جب تک اسکا دل اور زبان مسلمان نہ ہو یعنی جب تک دل میں تصدیق اور زبان سے اقرار نہ ہو اور مؤمن نہیں ہوتا جب تک اس کا پڑوسی اس کی آفتوں سے امن میں نہ ہو۔ (شعب الایمان،395،396/4، حدیث: 5524)

پڑوسی کو تکلیف نہ دیجئے: کوئی تکلیف دے تو اس کے شر سے بچنے کیلئے اس کے قریب سے اٹھا جا سکتا ہے، آئندہ اس سے ملنے سے بچا جا سکتا ہے، اس سے تعلقات ختم کئے جا سکتے ہیں مگر اگر پڑوسی ہی تکلیف دینے پر لگ جائے تو انسان کہاں پناہ ڈھونڈے ؟ کیونکہ اسکی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا یا مکان بدلنا پڑ گیا جو کہ بہت دشوار ہے۔ اب ایسی چند احادیث مبارکہ پیش کی جائیں گی جس میں اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کو تکلیف دینے سے منع فرمایا اور ہمیں ان احادیث کو پڑھ کر غور کر لینا چاہئے کہ پڑوسی کو اذیت دینا کتنا برا عمل ہے اور عبرت حاصل کرنی چاہے چنانچہ

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ۔ عرض کی گئی کون یارسولُ الله ، فرمایا وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اسکی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں یعنی جواپنےپڑوسیوں کو تکلیفیں دیتا ہو ۔ (صحیح البخاری،4/154، حدیث:6016)

ایک شخص نے عرض کی، یارسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فلانی عورت کے متعلق ذکر کیا جاتا ہے کہ نمازو روزہ و صدقہ کثرت سے کرتی ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے، فرمایا: وہ جہنم میں ہے۔ انہوں نے کہا: یارسول اللہ فلانی عورت کی نسبت زیادہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اس کے روزہ و صدقہ و نماز میں کمی ہے (یعنی نوافل) وہ پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو ایذا نہیں دیتی، فرمایا:وہ جنت میں ہے۔ (مسند احمد ، مسند ابی ہریرہ ،حدیث:9681، 3،ص441۔ شعب الایمان، باب فی اکرام الجار ،7/78، 79، حدیث:9545)

تم ہمارے ساتھ نہ بیٹھو: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک غزوہ پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا : آج وہ شخص ہمارے ساتھ نہ بیٹھے جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی ہو ۔ ایک شخص نے عرض : میں نے اپنے پڑوسی کی دیوار کے نیچے پیشاب کیا تھا ۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: آج تم ہمارے ساتھ نہ بیٹھو۔ (المعجم الاوسط، 6/481، حدیث:9479)

ہمسائے کی بکری کو بھی تکلیف نہ دو: ام المؤمنین حضرت سیدتنا اُم سلمہ رضی اللہُ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ ایک دن ہمسائے کی بکری گھر میں داخل ہو گئی ۔ جب اس نے روٹی اٹھائی تو میں اسکی طرف گئی اور روٹی کو اسکے جبڑے سے کھینچ لیا۔ یہ دیکھ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تجھے اس کو تکلیف دینا امان نہ دیتا کیونکہ یہ بھی ہمسائے کو تکلیف دینے سے کم نہیں۔( مکارم الاخلاق للطبرانی ، صفحہ 395 ، حدیث 239)

وہ جنت میں داخل نہ ہوگا :5- حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی : یا رسول اللہ میں نے فلاں قبیلے کے محلے میں رہائش اختیار کی ہے مگر ان میں سے جو مجھے سب سے زیادہ اذیت دیتا ہے وہ میرا سب سے زیادہ قریبی پڑوسی ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت علی المرتضی رضی اللہُ عنہم کو بھیجا وہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے لگے :بیشک چالیس گھر پڑوس میں داخل ہیں اور جس کے شر سے اس کا پڑوسی خوفزدہ ہو جنت میں داخل نہ ہوگا ۔(المعجم الکبیر، 73/19 ، حدیث:143)

حق پڑوس کیا ھے ؟ یاد رکھئے ! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو اذیت دینے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے ۔ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں دیتا اور وہ اسکے بدلے اسے اذیت نہیں دیتا حالانکہ اسطرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ اسکے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے سے پیش آئے۔

پڑوسی کے گھر کی دیوار کے سائے کا حق : ابن مقفع کو یہ خبر ملی کہ اسکا پڑوسی قرض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا ہے چونکہ ابن مقفع اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بیٹھتا تھا کہنے لگا: اگر اس نے مفلس ہونے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا جب تو میں نے اسکے گھر کے سائے کا بھی حق ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر ابن مقفع نے اس کے گھر کا ثمن ادا کیا اور کہا کہ گھر مت بیچو۔(احیاء العلوم،771/1 مکتبۃ المدينہ)

پڑوسیوں کو تکالیف دینے کی کون کونسی صورتیں ہیں ؟ آئیے جانتے ہیں:

1۔ اسکے دروازے کے سامنے کچرا ڈال دنیا۔

2۔ اس کے دروازے کے پاس شور کرنا۔

3۔ بچوں کا (بالخصوص سونے کے اوقات میں) شور کرنا ۔

4۔بے وقت کیل ٹھونکنا

5۔اس کے گھر میں جھانکنا ۔

6۔ایک ہی بلڈنگ میں رہنے کی صورت میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے زور زور سے پاؤں چٹخانا ۔

7۔اونچی آواز سے ٹیپ ریکارڈ یا ڈیک وغیرہ چلانا ( چاہے نعتیں ہیں کیوں نہ ہو اسکی آواز اپنے تک محدود رکھیں)

8۔ اپنے گھر کا فرش دھونے کے بعد پانی پڑوسیوں کے گھر کے سامنے چھوڑ دینا۔

9۔انکے بچوں کو مارنا جھاڑنا وغیرہ وغیرہ۔

یہ تو محض چند صورتیں ذکر کی گئی اسکے علاوہ اور بہت کسی صورتیں ہیں جو پڑوسیوں کو تکالیف دینے کا باعث بنتی ہیں۔

پڑوسیوں کے عام حقوق :

پڑوسیوں کے عام حقوق کونسے ہیں آئیے جانتے ہیں :

1۔ پڑوسیوں کیساتھ سلام میں پہل کرے۔

2۔ ان کیساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔

3۔ ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے ۔

4۔ جب وہ بیمار ہو تو ان کی عیادت کرے۔

5۔ مصیبت کے وقت ان کی غمخواری کرے ۔

6۔ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے۔

7۔ خوشی میں ان کو مبارکباد دے ۔

8۔ ان کی خوشی میں شرکت کرے ۔

9۔ ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔

10۔ اپنے گھر کی چھت سے ان کے گھرمت جھانکے۔

11 ۔ ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرے۔

12 ۔جو کچھ وہ لے جارہے ہوں اس پر نظر نہ گاڑے۔

13۔ اگر ان کے عیوب ان پر ظاہر ہو تو انہیں چھپائے ۔

14۔ اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آئے تو فوراً ان کی مدد کرے ۔

15 ۔ پڑوسیوں کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنےمیں غفلت کا مظاہرہ نہ کرے۔

16 ۔ ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے۔

17- ان کی اولاد کیساتھ نرمی سے گفتگو کرے

18۔ دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں انکی رہنمائی کرے ۔ ( ماخوز ازاحیاء العلوم 2/ 773 ، مكتبۃ المدينۃ)

پڑوسی کا حق کیا ہے؟پڑوسی کے چند اور حقوق بیان کیے جاتے ہیں: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ پھرارشاد فرمایا:اگر وہ تم سے مدد چاہے تو اسکی کی مدد کرو، اگر تم سے قرض مانگے تو قرض دو، اگر محتاج ہو تو اسکی حاجت پوری کرو، اگر بیمار ہو جائے تو اسکی عیادت کرو، اگر وہ فوت ہو جائے تو جنازے میں شرکت کرو، اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو مبارکباد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو ، اسکی اجازت کے بغیر اسکے گھر سے اونچا گھر نہ بناؤ کہ ان کو ہوا نہ پہنچے، اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر تم کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس میں سے پڑوسی کے بچے اس پھل کی وجہ سے غمگین ہوں گے اور اپنی ہانڈیوں کی خوشبووں سے بھی پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ کچھ سالن اسے بھی بھیج دو۔ یہ فرمانے کے ارشاد فرمایا : اتدرون ما حق الجار والذی نفسی بیدہ ما یبلغ حق الجار الا من رحمہ یعنی جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ پاک رحم فرمائے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ویسے ہی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جیسا حقوق ادا کرنے کا حق ہے آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


دین اسلام نے جہاں والدین اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح پڑوسیوں کے ساتھ بھی اچھے اخلاق سے پیش آنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے کیونکہ جب ایک ہی محلے میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں اور ایک دوسرے کے خوشی و غمی میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں پیدا ہوسکتی ہیں اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں پڑوسی کی اتنی اہمیت ہے وہیں اس کے چند حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں آئیے ان حقوقِ میں سے کچھ حقوق ملاحظہ کرتے ہیں.

اللہ پاک پسند فرماتا ہے:محبوب رب العزت، محسن انسانیت صلى الله تعالى علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے : جن لوگوں سے الله عزوجل محبت فرماتا ہے ان میں وہ شخص بھی شامل ہے، جس کا بُرا پڑوسی اسے ایذا دے تو وہ اس کی ایذا دینے پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی یا موت کے ذریعے کفایت فرمائے۔(معجم كبير،2/152، حدیث:1637)

پڑوسیوں کے عام حقوق :حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے ، جب وہ بیمار ہو تو ان کی عیادت کرے ، خوشی میں ان کو مبارکباد پیش کریں ، ان کی لغزشوں کو معاف کرے ، دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو تو اس میں ان کی رہنمائی کرے۔ (احیاء العلوم، 2/272)

پڑوسی کی قسمیں:حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ پڑوسی کی 3 قسمیں ہیں ۔ بعض کے 3 حق ہیں ، بعض کے 2 اور بعض کا ایک حق ہے ۔ جو پڑوسی مسلمان ہو اور رشتہ دار ہو اس کے تین حق ہیں حق پڑوسی ، حق مسلم اور حق قرابت ۔ مسلمان پڑوسی کے 2 حق ہیں حق پڑوسی اور حق اسلام اور غیر مسلم پڑوسی کا صرف ایک حق ہے حق جوار ۔ (شعب الایمان، باب فى اكرام الجار، حدیث:79560)

خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اور پڑوسیوں کے حقوق: آپ اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھا کرتے تھے اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہوجاتا تو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے ،اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس چلے جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہوکر اس کے حق میں مغفرت و نجات کی دعا فرماتے اور اس کے اہل خانہ کو صبر کی تلقین کرتے اور انہیں تسلی دیا کرتے ۔ ( معین الارواح، ص188 بتغير )

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ان کے غم میں شریک ہوں اگر ان کی جانب سے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کرنا چاہیے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


پڑوسی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا گھر آپ کے گھر سے متصل ہو، یا جس کا گھر آپ کے گھر سے قریب ہو، اگرچہ متصل نہ ہو، یا جس کا گھر آپ کے گھر کے بالمقابل ہے ، در میان صرف راستہ حائل ہے ، یادونوں کی گلی اور راستہ ایک ہو، یا دونوں کی ملاقات مسجد میں ہوتی ہو وغیرہ وغیرہ یہ سب پڑوسی ہی ہیں۔ اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

صاحب ابنِ کثیر اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں کہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ان کے ساتھ اچھا برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار ہوں یا نہ ہوں ، اسی طرح خواہ مسلمان ہوں یہودی ہوں یا نصرانی ۔ ( تفسیر ابن کثیر ، النساء ، تحت الاٰیۃ 36 )

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضورِ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ پاک پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اُس کو چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے اور اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور زبان سے کوئی بات نکالے تو بھلائی کی نکالے ورنہ چپ رہے ۔ ( صحیح بخاری: 6018 )

گویا پڑوسی کے حق کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائے اور یہ اُس کا بہت ہی ادنیٰ درجہ کا حق ہے ورنہ دوسری روایات میں پڑوسی اور ہمسایہ کے حق کے متعلق بہت زیادہ تاکیدیں وارد ہوئی ہیں۔چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پڑوسی کے گیارہ حق ہیں: (۱)جب اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہو اس کی مددکرو(۲)اگر معمولی قرض مانگے دے دو(۳)اگر وہ غریب ہو تو اس کا خیال رکھو(۴)وہ بیمار ہو تو مزاج پرسی بلکہ ضرورت ہو تیمارداری کرو(۵)مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ(۶)اس کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت کرو(۷)اس کے غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شریک رہو(۸)اپنا مکان اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اس کی ہوا روک دو مگر اس کی اجازت سے(۹)گھر میں پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیۃً بھیجتے رہو نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو، تمہارے بچے اس کے بچوں کے سامنے نہ کھائیں(۱۰)اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو(۱۱)اپنے گھر کی چھت پر ایسے نہ چڑھو کہ اس کی بے پردگی ہو۔قسم اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے پڑوسی کے حقوق وہ ہی ادا کرسکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔(مراٰۃ المناجیح ، ج 6 ، باب الضیافۃ، الحديث: 4058)

کہا جاتا ہے ہمسایا اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں۔افسوس! مسلمان یہ باتیں بھول گئے۔آج ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ اجنبی جیسا برتاؤ کرتے ہیں جو کسی صورت اچھی بات نہیں۔ اللہ کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


ہمارا جو اس ماہ کا مضمون ہے وہ پڑوسی (ہمسایہ ) کے حقوق کے حوالے سے ہے ۔پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کرنا یہ بہت ہی عمدہ کام ہے اور ہمیں اس بات کے حوالے سے ہمارے دین نے بھی بہت تربیت کی ہے، چنانچہ پڑوسی کی دو قسمیں ہیں:

(1) قریب کے پڑوسی (ہمسائے) سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو ۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا پڑوسی ہے۔

(2) اور دور کے پڑوسی (ہمسائے) سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو ۔ یا وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا پڑوسی ہے۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا پڑوسی ہے۔(صراط الجنان، پ 5، سورۃ النساء :4. آیت 36)اسی ضمن میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :

(1)اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جبرئیل علیہ السّلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔(بخاری، کتاب الادب، باب الوصاۃ بالجار،4/104، حدیث:6014)

دیکھا جائے تو اس حدیث مبارکہ میں کتنا پیارا ذہن دیا گیا ہے پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیا جا رہا ہے ۔

(2)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہوں اور اللہ پاک کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی حق الجوار،3/379، حدیث:1951)

حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا :اللہ پاک کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔ اور ہمارا کیا کردار ہے؟ یہاں سوچنے کا مقام ہے آیا کہ ہمارے پڑوس والے افراد ہمارے ساتھ خوش ہیں یا نہیں ؟ خوش ہیں تو فَبِھَا اور اگر خوش نہیں ہیں تو کیوں خوش نہیں ہیں؟

(3)ترمذی و دارمی و حاکم نے عبداﷲ بن عمرو رضی اللہُ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں وہ بہتر ہے، جو اپنے ساتھی کا خیر خواہ ہو اور پڑوسیوں میں اﷲ کے نزدیک وہ بہتر ہے جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔ (سنن الترمذی، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی حق الجوار ،3/379،حدیث:379)

حدیث مبارکہ میں خیرخواہ کا لفظ استعمال کیا گیا لغت میں خیرخواہ بھلا چاہنے والے / ہمدرد کو بھی کہتے ہیں ۔ کیا ہم اپنے پڑوسیوں کے خیرخواہ ہیں یا نہیں یہ مقام غوروفکر کا ہے۔

(4)بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے روایت کی، کہتے ہیں : میں نے رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا:مؤمن وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔ (شعب الایمان، باب فی الزکاۃ ، فصل فی کراھیۃ امساک الفضل ۔۔ الخ ،3/225، حدیث:3389) حدیث مبارکہ میں ذکر کیا گیاوہ مؤمن نہیں اس سے مراد وہ کامل مؤمن نہیں ۔

(5)طبرانی نے جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت کی کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب کوئی شخص ہانڈی پکائے تو شوربا زیادہ کرے اور پڑوسی کو بھی اس میں سے کچھ دے۔(المعجم الاوسط، باب الراء،2/379، حدیث:3591) اس حدیث مبارکہ سے اپنے پڑوسیوں کو اپنے کھانے میں سے کچھ دینے کا درس دیا گیا ہے ۔

(6)امام احمد و بیہقی نے شعب الایمان میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے عرض کی، یارسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فلانی عورت کے متعلق ذکر کیا جاتا ہے کہ نمازو روزہ و صدقہ کثرت سے کرتی ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے، فرمایا: وہ جہنم میں ہے۔ انہوں نے کہا: یارسول اللہ فلانی عورت کی نسبت زیادہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اس کے روزہ و صدقہ و نماز میں کمی ہے (یعنی نوافل) وہ پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو ایذا نہیں دیتی، فرمایا:وہ جنت میں ہے۔ (مسند احمد ، مسند ابی ہریرہ ،حدیث:9681، 3،ص441۔ شعب الایمان، باب فی اکرام الجار ،7/78، 79، حدیث:9545)

اس حدیث مبارک میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگرچہ اعمال میں کمی ہو(مراد نوافل) مگر اپنے پڑوسی کو خوش کریں اس بات کا درس دیا گیا ہے۔

(7)حاکم نے مستدرک میں عائشہ رضی اللہُ عنہا سے روایت کی کہتی ہیں میں نے عرض کی، یارسول اﷲ میرے دو پڑوسی ہیں ، ان میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ فرمایا:جس کا دروازہ زیادہ نزدیک ہو۔(المستدرک للحاکم، کتاب البر والصلۃ ، باب لایشبع الرجل دون جارہ ،5/232، حدیث:7389)

یہ تھیں چند احادیث مبارکہ جو کہ پڑوسی کے کے حقوق پر دال ہیں ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ بھی پڑوسیوں کے حقوق میں سے ہی ہیں۔

اللہ پاکٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاکٰ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنےاور ذکر کی گئی احادیث مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک کا ہم پر بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا، اُن نعمتوں میں سے ایک بہت ہی بڑی نعمت پڑوسی ہیں۔ پڑوسیوں کے حقوق کی بہت زیادہ اہمیت ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے پاکیزہ کلام میں پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور احادیث میں بھی پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور ان کو ایذا دینے سے ڈرایا گیا ہے ۔

قراٰنِ پاک میں پڑوسیوں کے حقوق:

پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کرنا: اللہ رب العزت اپنے پاکیزہ کلام میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

احادیث میں پڑوسیوں کے حقوق:

پڑوسیوں کو تکلیف دینا:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:خدا کی قسم! وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم! وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم! وہ مؤمن نہیں۔ عرض کی گئی، کون یارسول اللہ ! فرمایا:وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں( یعنی جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیفیں دیتا ہے)

پڑوسیوں کے متعلق وصیت کرنا:حضرت اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے ، کہ رسول ﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔

پڑوسی کا اکرام کرنا:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کا اِکرام کرے۔

پڑوسی کی اقسام:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:پڑوسی تین طرح کے ہیں: (۱) وہ مسلمان رشتہ دار پڑوسی ہیں جن کے تین حق ہیں ۔ حقِ رشتہ دار ، حقِ مسلمان اور حقِ پڑوس (۲) وہ مسلمان پڑوسی ہیں جن کے دو حق ہیں ۔ حقِ مسلمان اور حقِ پڑوس (۳) وہ پڑوسی ہیں جن کا ایک حق ہے ۔ حقِ پڑوس۔

حضرت امام زہری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ چالیس دائیں گھر والے پڑوسی ، چالیس بائیں ، چالیس آگے والے اور چالیس پیچھے والے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چاروں جانب اس طرح اشارہ کرکے فرمایا ۔

اس سے معلوم ہوا کہ پڑوسیوں کی تعداد ایک سو ساٹھ ہے ۔ چالیس بائیں ، چالیس دائیں ، چالیس آگے ، چالیس پیچھے ۔پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بزرگان دین کا طرز عمل:

پڑوسی کا احساس : ایک بزرگ نے اپنے دوستوں سے چوہوں کے متعلق شکایت کی تو اُن سے کہا گیا : آپ بلی کیوں نہیں پال لیتے ؟ تو فرمایا : مجھے اس بات کا خوف ہے کہ بلی کی آواز سے چوہے پڑوسی کے گھر میں نہ چلے جائیں اور میں اس بات کو پسند کرنے والا ہو جاؤں گا جسے میں اپنی ذات کے لئے پسند نہیں کرتا ۔ (احیاء العلوم، ج 2)

حقِ پڑوس سے مراد:حقِ پڑوس سے مراد یہ نہیں کہ اُنہیں تکلیف دینے سے اجتناب کیا جائے بلکہ ان کی طرف سے آنے والی تکالیف پر صبر بھی کیا جائے ۔

اس کے علاوہ بھی قراٰن و حدیث میں بھی پڑوسیوں کے حقوق بیان ہوئے ہیں اور پڑوسیوں کے حقوق کے متعلق بزرگان دین کے کئی واقعات ہیں جس میں اُنہوں نے اپنے طرز عمل سے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت بیان کی ہے ۔

دعا ہے رب العزت سے ہمیں پڑوسیوں کا خیال رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین 


ہمسایہ اور پڑوسی قریب کے رہنے والے لوگوں کو کہتے ہیں عربی میں اسے جار کہتے ہیں اور جیران اس کی جمع ہے ۔ ہمسایہ کی حدود ایک حدیث مبارکہ میں چالیس گھروں تک بتائی گئی ہے اور زیادہ حق قریب ترین پڑوسی کا بتایا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے : ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

پڑوسیوں سے حسن سلوک:حضرت عمررضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے: جبرائیل مجھے پڑوسی (کے حقوق کا خیال رکھنے) کے بارے میں اتنی تلقین کرتے رہے ، میں نے یہ گمان کیا کہ یہ اسے وارث قرار دے گے۔ (بخاری)

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:نبی کریم صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ کے نزدیک سب سے بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لئے بہتر ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں بہتر ہو۔(ترمذی، 1945)

تحائف کا عطیہ: پڑوسیوں میں محبت کے جذبات پروان چڑھانے کے لیے ہدیوں اور تحائف دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈال دیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔ ( مسلم ، 4 حدیث: 2025) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے مؤمن خواتین تم میں سے کوئی ایک بھی اپنی پڑوسن سے آنے والی چیز کو حقیر نہ سمجھو خواہ وہ بکری کا ایک پایہ ہو۔ ( بخاری)

اذیت کی ممانعت : پڑوسیوں کو اذیت دینے کی ممانعت کی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے: اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہو سکتا اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہوسکتا عرض کی گئی کون یارسول اللہ صلی علیہ وسلم آپ نے فرمایا وہ شخص جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔ ( بخاری،1،ص 137، حدیث:1371) مسلم کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کے شرسے محفوظ نہ ہو۔ ( مسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ پہنچائے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ مہمان نوازی کرے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ ( بخاری)پڑوسیوں کے چند حقوق ملاحظہ کیجئے :

جب وہ آپ سے مدد مانگیں ان کی مدد کریں: جب وہ محتاج ہو ان کی حاجت پوری کرو، جب وہ بیمار ہو اس کی عیادت کرو ، جب اسے خبر پہنچے اسے مبارکباد دو، جب اس پر کوئی مصیبت آپڑے اس کی عیادت کرو،جب قرض مانگے اسے قرض دو ،جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ۔

انسان کو خوشی اور غمی دونوں سے واسطہ پڑتا ہےاس لئے ایک ہمسائے کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی خوشی اور غمی میں شریک ہو، اس کا ہاتھ بٹائے اور اگر اس سلسلہ میں کسی مالی امداد کی ضرورت پیش آئے تو اسے بھی پورا کرے اور اس سے بغض و کینہ اور حسد تکبر نہ کرے۔حدیث پاک میں ہے: جب مؤمن اپنے بھائی کی ایک حاجت پوری کرتا ہے تو اللہ پاک اس بندے کی بہتر حاجات پوری کرتا ہےاور ہمسایہ کو کوئی غم کا واقعہ پیش آجائے تو اسے تسلی دلائی جائے، کھانے وغیرہ کا انتظام کیا جائے اور مالی امداد کا اگر مستحق ہو تو ان کی پوری طرح مدد کی جائے۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین


اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ ترجمہ کنز الایمان : آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا۔( پ6،المآئدۃ: 50) چونکہ جب دین اسلام کامل دین ہے تو جہاں اس نے لوگوں کو کفروشرک کے اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لایا تو وہیں اس نے لوگوں میں انسانیت کو بھی کامل کر دیا کے کہ اس نے لوگوں کے حقوق کو تحفظ بخشا اسلام نے جہاں ہمیں گھر والوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا وہیں اس نے ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔

(1)جیسا کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جبرائیل علیہ سلام مجھے پڑوسیوں کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کے مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنادیں ۔ ( بخاری، کتاب الادب، باب الوصیۃ بالجار، 4/104،حدیث: 6014)

(2)اسی طرح حضرت عبد الله بن عمرو رضی اللہ سے روایت ہے نبی کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: الله تعالی کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لئے بہتر ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لئے اچھے ہوں۔ (ترمذی، کتاب البروالصلۃ، باب ما جاء فى حق الجوار، 3/379،حدیث:1951)

(3) اسی ایک طرح ایک اور روایت میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فرماتے ہوئے سنا کہ مؤمن وہ نہیں جو خود سیر ہوجائےاور اسکے برابر میں اسکا پڑوسی بھوکا ہو۔ (مراٰة المناجیح شرح مشكوة المصابيح، جلد : 6 حدیث نمبر : 4991)

(4)اس طرح حضرت ابن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بے شک اللہ پاک نے تمہارے درمیان تمہارے اخلاق تقسیم فرمادیئے جیسے کہ تمہارے درمیان تمہاری روزی بانٹ دی اور اللہ پاک دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور اسے بھی جسے ناپسند فرماتا ہے مگر دین اس کو دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے تو جسے اللہ دین عطا فرمادے تو اس سے محبت کرتا ہے۔ اسکی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کے بندہ مسلمان نہیں ہوتا حتی کہ اسکا دل و زبان سلامت رہے اور مؤمن نہیں ہوتا حتی کہ اسکاپڑوسی اس کے شر سے امن میں ہو۔ (مراۃ المناجیح جلد : 6 حدیث نمبر: 4994)

ان روایتوں سے پڑوسیوں کے حقوق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن آج اس زمانے میں دیکھا جائے تو پڑوسیوں کے کے حقوق کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی پڑوسی بیمار ہو جائے تو نہ ہم اسکی عیادت کو جاتے ہیں اور نہ اسکے احوال کے متعلق پوچھتے ہیں ۔ اسی طرح اگر ہمارا پڑوسی فقیر ہو تو ہم اسکی مدد کرنے کے بجائے اسے اپنی حسین زندگی دکھا کر اسکا دل دکھاتے ہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہے وہ ہمیں پڑوسی کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


یاد رکھئے ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے ،ایک مسلمان جن باتوں کا مستحق ہوتا ہے ان تمام کا اور ان سے کچھ زائد کا مسلمان ہمسایہ مستحق ہوتا ہے۔ پڑوسی کی چند اقسام ہیں: سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا پڑوسی تین قسم کے ہیں : (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے۔ ( 2)وہ وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں ۔ (3)وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔

مسلمان رشتہ دار کے تین حق ہیں: حق پڑوس، حق اسلام اور رشتہ داری کا حق۔

مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں حق پڑوس اور حق اسلام۔

مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے حق پڑوس ۔

اس حدیث پاک میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے۔ کہ حضور علیہ السلام نے مشرک کے لیے بھی صرف پڑوس کےباعث حق ثابت فرمایا ہے۔ یہاں پر پڑوسیوں کے کچھ حقوق لکھے گئے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

حسن سلوک : پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر تو ( کامل ) مسلمان ہو جائے گا۔

مشکل وقت میں ساتھ دے: پڑوسی کا یہ بھی حق ہے کہ مشکل وقت میں اس کا ساتھ دے۔ اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آئے تو فوراً ان کی عیانت (مدد) کرے۔ اگر وہ بیمار ہو جائے تو ان کی عیادت کریں۔

تکلیف نہ پہنچائیں: پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے، اگر ان کی طرف سے کوئی لغزش ہو تو اس کو معاف کر دے۔ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اگر تم نے پڑوسی کے کتے کو مارا تو درحقیقت تم نے اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچائی ۔

پڑوسی کی عزت کریں: ان کا یہ بھی حق ہے ان کی عزت کی جائے کیونکہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :جو الله اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ پڑوسی کی عزت کرے۔

عیوب کو چھپائے: اگر اپنے پڑوسی کے تم پر کوئی عیوب ظاہر ہوں تو ان کی پردہ پوشی کرو اور ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرو۔ ان کےخلاف کوئی بات نہ سنو۔

ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کو سمجھنے کی اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)


دینِ اسلام نے جہاں ہمیں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دیگر عبادات کا درس دیا ہے وہیں حقوقُ العباد کی ادائیگی کا خیال رکھنے کی بھی بہت تاکید فرمائی ہے، والدین، اساتذہ، عزیز و اقارب اور عام رشتہ داروں میں سے ہر ایک کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔ اسی طرح پڑوسیوں کو بھی دینِ اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور ان کے بھی بہت سے حقوق بیان کئے گئے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰى وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰكِیْنِ وَالْجَارِذِی الْقُرْبٰى وَالْجَارِالْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَمَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ ترجَمۂ کنز الایمان : اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے۔ (پ5، النسآء:36)

پڑوسیوں کے حقوق کے متعلق 4فرامینِ مصطفٰے پڑھئے:

(1)وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ (مشکاۃ، 2/212،حدیث: 4963) یعنی صالحین اور نجات پانے والوں کے ساتھ وہ جنت میں نہ جائےگا اگرچہ سزا پا کر بہت عرصہ کے بعد وہاں پہنچ جائے گا۔(دیکھئے:مراٰة المناجیح،6/556)

(2)کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے۔(مشکاۃ، 1/547،حدیث:2964)یعنی اگر تمہاری دیوار میں پڑوسی کیل وغیرہ گاڑنا چاہے اور تمہارا اس میں کوئی نقصان نہ ہو تو بہتر ہے کہ اسے منع نہ کرو۔(مراٰۃ المناجیح، 4/326)

(3)اللہ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسیوں کے لئے اچھے ہوں۔ (مشکاۃ، 2/215، حدیث:4987)

(4)مشہور مفسر حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پڑوسی کے 11 حق ہیں:(۱)اس کو تمہاری مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کرو (۲)اگر معمولی قرض مانگے تودے دو (۳)اگر وہ غریب ہو تو اس کا خیال رکھو (۴)وہ بیمار ہو تو مزاج پُرسی بلکہ ضرورت ہو تو تیمارداری کرو (۵)مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ (۶)اس کی خوشی میں خوشی کے ساتھ شرکت کرو (۷)غم و مصیبت میں ہمدردی کے ساتھ شریک رہو (۸)اپنا مکان اتنا اونچا نہ بناؤ کہ اس کی ہوا روک دو مگر اس کی اجازت سے (۹)گھر میں پھل فروٹ آئے تو اسے ہدیہ بھیجتے رہو۔ نہ بھیج سکو تو خفیہ رکھو اس پر ظاہر نہ ہونے دو، تمہارے بچے اس کے بچوں کے سامنے نہ کھائیں (۱۰)اپنے گھر کے دھوئیں سے اسے تکلیف نہ دو (۱۱)اپنے گھر کی چھت پر ایسے نہ چڑھو کہ اس کی بے پردگی ہو۔ قسم اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے پڑوسی کے حقوق وہ ہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔(مراٰۃ المناجیح،6/52، 53)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں کہ جن میں پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ان کے ساتھ بُرا سلوک کرنے پر وعیدیں بیان کی گئیں ہیں۔

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے قرب و جوار میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی اور پیار و محبت کے ساتھ پیش آئیں۔ اللہ کریم ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جنّتُ الفردوس میں اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پڑوسی بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم