ارشاد نبوی ہے: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)یہ اسلام کی انسانیت نوازی اور اس کا درس احترام ہے جو اس ارشاد گرامی سے صاف طور پر ظاہر ہو رہا ہے جو اپنے سے بڑی عمر والوں کے ساتھ عظمت و احترام کا برتاؤ نہ کرے ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے ان کی بزرگی اور عمر رسیدہ ہونے کا خیال کرکے ان کا احترام ان کی تعظیم نہ کرے اسی طرح امر بالمعروف کو ترک کرنے والے اور برائی سے نہ روکنے والے کی بابت آپ ﷺ نے یہی حکم فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ دنیا و آخرت کی فلاح بزرگوں خصوصاً بوڑھے والدین کی عزت و تکریم اور خدمت میں ہے۔

1۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری امت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010)

2۔ عمر رسیدہ افراد کی تکریم علامت ایمان ہے۔ معمر افراد کی بزرگی کے باعث انہیں خاص مقام و مرتبہ عطا کیا گیا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا حق (بزرگی) نہیں پہچانتا۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

3۔ معمر افراد کی تکریم ہی صحت مند روایات کی اساس ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)

4۔ معمر افراد کا وجود معاشرے کے لیے باعث برکت ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہمارے بڑوں کی وجہ سے ہی ہم میں خیر وبرکت پائی جاتی ہے۔پس وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی توقیر نہیں کرتا۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

5۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو نوجوان کسی بوڑھے آدمی کی اس کے بڑھاپے کی بناء پر تکریم کرے تو اللہ تعالیٰ اس نوجوان کے بوڑھا ہونے پر اس کے ساتھ بھی ایسے ہی اکرام کرنے والے کو مقرر فرمائے گا۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011)

ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی اس طرح منقول ہے: یہ بات اللہ کی عظمت میں شامل ہے کہ آدمی کسی بوڑھے مسلمان کی اس کے بڑھاپے کی بناء پر عزت کرے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے: تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔(کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6012)

6۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنے ضعیف لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ ضعیف لوگوں کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (کنز العمال، 2/ 72، حدیث: 6016)

حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ! جو شخص کسی قوم کا محافظ بن جائے تو کیا اسے اور دوسرے لوگوں کو مال غنیمت میں برابر حصہ ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ام سعد کے بیٹے! تمہیں تمہارے بوڑھوں کے سبب ہی رزق دیا جاتا اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔

حضرت عمرو بن میمون ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: (1) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔(2) صحت کو بیماری سے پہلے۔(3) خوش حالی کو ناداری سے پہلے۔(4) فراغت کو مشغولیت سے پہلے۔(5) زندگی کو موت سے پہلے۔(مشکاۃ المصابیح، 2/245، حدیث: 5174)