فرد سے مل کر معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں جہاں چھوٹے اور نوجوان لوگ موجود ہیں اسی طرح معمر اور ضعیف لوگ بھی موجود ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ عمر رسیدہ افراد اپنی کمزوری، ناتوانی اور ضعیف العمری کی وجہ سے ذہنی و جسمانی لحاظ سے بچے کی مانند ہو جاتے ہیں، جو کل تک دوسروں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا کرتے تھے آج وہ خود عمر کی اس منزل پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ان کی خدمت و محبت کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں نوکروں یا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ان کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا مداوا بننے کی کوشش کی جائے اور ان سے محبت اور حسن سلوک کیا جائے اور اس کے عوض بارگاہ الٰہی سے عظیم اجر حاصل کیا جائے ۔

عمر رسیدہ افراد کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں فرامین رحمتِ عالم ﷺ بڑے واضح اور اہمیت کے حامل ہیں۔

(1)۔ان کی عزت کیجئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔ (1)

اسلام، ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے۔ ہمارا دین اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔ اسی طرح بزرگوں کی عزت و تکریم کی عظمت کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک میری اُمت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔(2)

2۔باجماعت نماز کی قرات میں تخفیف۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سن رسیدہ افراد کے ساتھ احساس ہمدردی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ باجماعت نماز میں عمر رسیدہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے قرأت میں تخفیف فرمانے کی تاکید فرماتے جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللہﷺ! خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نصیحت کرنے میں اُس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔ فرمایا: تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھانی چاہیے کیونکہ ان میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مندبھی ہوتے ہیں۔

3۔ان کے مرتبے کا خیال رکھا جائے۔ حدیث پاک میں ہے: بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال کرو۔ (4)

مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر موقع پر بوڑھوں کا لحاظ فرمایا اور ان کا اکرام آپ ﷺ نے انسانیت کی بنیاد پر کیا آپ ﷺ نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو ترجیح دی۔

4۔گھر میں ان کا ادب و احترام بجا لایا جائے اور ان کے حکم کو ترجیح دی جائے۔ اور جس کسی کام کے کرنے کا حکم دیں اگر خلاف شرع نہ ہو تو فورا بجا لایا جائے ( یعنی کر لیا جائے) ان کی باتوں کو توجہ سے سنا جائے اگر عمر کے تقاضے کے مطابق اگر کسی بات پر ڈانٹ دیں یا غصہ کریں تو ان سے ناراض نہ ہوا جائے اور نہ ہی اکتاہٹ کا شکار ہوں۔

5۔ ان کی مدد کی جائے اور حسن سلوک سے پیش آیا جائے بوڑھے اور ضعیف لوگ تو گھر کی رونق ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اگر ان کے ساتھ باہر جائیں تو ہاتھ پکڑ کر سڑک کو عبور کرنے میں مدد کی جائے بچوں کو بوڑھوں کا ادب سکھایا جائے اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بنا جائے اور ان کی خوب خدمت کر کے ان سے دعائیں لی جائیں ان کے ساتھ نرم گفتاری، حسن سلوک اور جذبہ خیر خواہی اختیار کریں ان کے حقوق احسن طریقے سے پورے کریں تاکہ معاشرہ اور گھر دونوں امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکیں۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔ (5)

اللہ پاک ہمیں بوڑھوں کا اکرام کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حوالہ جات:

1۔کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6011

2۔کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010

3۔ بخاری، 1/ 248، حدیث: 670

4۔بخاری، 4/138، حدیث: 6142

5۔مستدرک، 1/ 131، حدیث: 210