بہادری ایسی قابلِ ستائش اور لائقِ تعریف صفت ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اس صفت سے متصف ہو۔ یہ صفت ایک آدمی کے جسمانی طور پر قوی و طاقتور ہونے پر منحصر نہیں ہے بلکہ یہ صفت قلب وجگر کی مضبوطی پر موقوف ہے۔ نبیِ اکرم ﷺ کی شجاعت وبہادری  اور دلیری کے متعدد ایسے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نہایت ہی بہادر ،شجاع اور دلیر ہیں ۔چنانچہ

جنگ و غزوات میں بہادری:

جنگ و غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور و بہادر میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگ جایا کرتے تھے وہاں حضور ﷺ ثابت قدم رہا کرتے تھے۔جیسا کہ

جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہِ استقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے، جب کمان پارہ پارہ ہوگئی تو سنگ اندازی شروع کردی۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص354)

جب گھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تو صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین حضور ﷺ کی آڑ میں پناہ لیا کرتے۔چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی الله عنہ کا قول ہے: اللہ پاک کی قسم ! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبیِ کریم ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا جو آپ کے ساتھ جنگ میں دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہوتا۔(مسلم ،ص980، حدیث :1776)

تبلیغِ دین اور حق گوئی میں بہادری:

نبیِ کریم ﷺ تبلیغِ دین کرتے ہوئے بھی حق بیان کرنے سے پیچھے نہ ہٹے۔آپ کو جھٹلایا گیا، طرح طرح کی اذیتيں دی گئیں پھر بھی ڈٹ کر تبلیغِ دین کی یہاں تک کے جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا اردہ کیا تو آپ نے فرمایا:چچا جان ! الله کی قسم ! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کے خدا اسے غالب کردے یا میں ہلاک ہوجاؤں۔(سیرت رسول عربی،ص 355)

یوں ہی سرکارِ دو عالمﷺ کی خدمت ِاقدس میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد حاضر ہوا جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھا ،ان میں سے چوبیس معززین اور تین قوم کے مقتدا اور پیشوائے اعظم تھے۔آپ نے انہیں دعوتِ اسلام دی مگر وہ آمادہ نہ ہوئے۔الله پاک نے ان کے قائل نہ ہونے کی صورت میں ان سے مباہلہ کرنے کا ارشاد فرمایا ۔حکمِ الٰہی کے مطابق نبیِ کریم ﷺ نے ان سے مباہلہ کے لئے کہا۔انہوں نے مہلت مانگی۔اگلے روز نبیِ پاک ﷺ مباہلہ کے لیے امام حسن، امام حسین ، مولا علی اور فاطمہ الزہرہ رضی الله عنہم کو لیے روانہ ہوئے اور ان سے فرمایا کہ جب میں دعا کروں تو آمین کہنا۔پنجتن پاک کو دیکھ کر ابو حارثہ جو بڑا پادری تھا کہنے لگا:میں وه صورتیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ ٹل جائے تو بیشک ان کی دعا سے ٹل جائے گا، اس لئے تم مباہلہ نہ کرو ، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور روئے زمین پر قیامت تک کوئی عیسائی نہ رہے گا۔ الله کی قسم ! تمہیں اس کی نبوت معلوم ہو چکی ہے اور تمہارے صاحب ( عیسی) کے بارے میں قول فیصل لایا ہے ۔ اللہ کی قسم ! جس قوم نے مباہلہ کیا وه ہلاک ہوگئی ۔یہ سن کر عیسائی ڈر گئے اور مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے بلکہ صلح کر لی اور جزیہ دینا قبول کر لیا۔

(مواھب لدنیہ مع شرح زرقانی، 5/186۔190ملتقطًا)

نبیِ کریم ﷺکی جسمانی قوت:

آپ ﷺ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی ۔یہاں تک کے پہلوانوں کو بھی پچھاڑ دیا کرتے تھے۔رکانہ بن عبد العزیز جو قریش میں سب سے طاقتور تھا آپ ﷺ نے اسے کشتی میں دو بار پچھاڑ دیا یوں ہی ابو الاسود جحمی کو بھی پچھاڑ دیا تھا جو ایسا طاقتور تھا کہ گائے کی کھال پر کھڑا ہو جاتا ، دس جوان اس کھال کو اس کے پاؤں کے نیچے سے نکال لینے کی کوشش کرتے وه چمڑا پھٹ جاتا مگر اس کے نیچے سے نہ نکل سکتا تھا ۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:اگر آپ مجھے کشتی میں پچھاڑ دیں تو میں آپ پر ایمان لے آؤں گا ۔ نبیِ کریم ﷺ نے اسے پچھاڑ دیا مگر وه بد بخت ایمان نہ لیا۔(مواہب لدنیۃ مع شرح زرقانی،6/103،104)

مختصر یہ کہ نبیِ کریم ﷺ کے تمام اوصافِ کریمہ کے ساتھ ساتھ وصفِ بہادری میں بھی ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔ اللہ کریم ہمیں نبیِ کریم ﷺ کی شجاعت و بہادری کا صدقہ نصیب فرمائے ۔امین