دین اسلام جہاں اپنے ماننے والوں دیگر نیک اعمال کا حکم دیتا ہے وہیں اسکی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ نہایت احسن انداز میں حقوق العباد کا حکم بھی ارشاد فرماتا ہے، حقوق العباد میں عمر رسیدہ حضرات کے حقوق بھی شامل ہیں اگر سب کے حقوق پورے کیے جائیں تو ایک غیر خوشگوار معاشرہ ایک خوشگوار معاشرے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔آئیے جانتے ہیں حقوق کہتے کس کو ہیں؟ چنانچہ حقوق جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔ (المعجم الوسیط، ص 188) جبکہ حقوقُ العباد کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ تمام کام جوبندوں کو ایک دوسرے کے لئے کرنے ضروری ہیں۔ان کا تعلق چونکہ بندے سے ہے اسی لئے ان کی حق تلفی کی صورت میں اللہ پاک نے یہی ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے معاف نہ ہوں گے۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/459-  460ملخصاً)

قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸) (پ 14، الحجر:88) ترجمہ: تم اپنے پروں کو مسلمانوں کے لیے جھکائے رکھو۔

چند حقوق ملاحظہ کیجیے:

جگہ دینے میں جلدی کی جائے: مجلس میں بیٹھے ہوں اور کوئی بزرگ آجائے تو ان کے لیے جگہ بنائی جائے۔ حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھا شخص حُضورِ اکرم ﷺ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا، لوگوں نے اسے جگہ دینے میں دیر کی تو رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ ( ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

ان کی تعظیم کی جائے: ہر مسلمان کی تعظیم فرض ہے لہذا معمر افراد کی عزت کرنے میں بھی چستی سے کام لیاجائے۔ یہ اللہ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ (شعب الایمان، 7/ 460، رقم: 10987)

کچھ تقسیم کرنے میں انکو فوقیت دینا: کچھ تقسیم کررہا ہے اور ضعیف افراد بھی حاضر ہیں تو ان کی دل جوئی کیلیے انکو پہلے دینا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے اُس میں سے نوش فرمایا اور آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ حضرات تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ عمر رسیدہ لوگوں کو دے دوں۔ (بخاری، 2/ 829، حدیث: 2224)

معاملات میں ان کا لحاظ رکھاجائے: یعنی کہ جس معاملے میں انکے لیے آسانی ہو اور شریعت بھی اجازت دے تو اس کو اختیار کیا جائے۔ جو کوئی بھی لوگوں کو نماز پڑھائے وہ مختصر کرے کیونکہ ان میں کمزور بوڑھے اور کام کاج والے ہیں۔

ان کی بات توجہ سے سنی جائے: وہ بات کریں تو مکمل توجہ انکی جانب کرکے بات سننی چاہیے۔ حضور ﷺ جس طرح پہلے شخص پر توجہ دیتے تھے اور اس کی بات کو سنتے تھے، وہی توجہ آخری شخص پر بھی ہوتی تھی اور اس کو بھی اسی طرح توجہ سے سنتے۔

اے عاشقان رسول ﷺ ہمارے بزرگان دین ضعیف و معمر حضرات کے حقوق کا خصوصی لحاظ رکھتے تھے ہمیں بھی انکے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ الله پاک ہمیں تمام حقوق احسن انداز میں اداکرنے کی توفیق عطافرمائے۔