دین اسلام نے جہاں ہمیں نماز روزہ زکوۃ حج اور دیگر عبادات کا درس دیا ہے وہی حقوق العباد کی ادائیگی کا خیال رکھنے کی بہت تاکید فرمائی ہے ہمارا پیارا دین اسلام تعلیم دیتا ہے کہ جو عمر اور مقام مرتبہ میں چھوٹا ہو اس کے ساتھ شفقت اور محبت کا برتاؤ کریں اور جو علم عمر عہدے اور منصب میں ہم سے بڑے ہیں ان کا ادب و احترام بجا لائیں ہمارے بڑوں میں ماں باپ چچا تایا ماموں بڑے بھائی بہن دیگر رشتہ دار استاذہ پیر مرشد علماء مشائخ اور تمام ذی مرتبہ لوگ شامل ہیں زندگی بھر کسی نہ کسی طرح ہمارا اپنے بڑوں سے رابطہ ضرور رہتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان کا ادب و احترام کریں ان کے ادب و احترام کا حکم خود ہمارے پیارے آقا ﷺ نے یوں ارشاد فرمایا: بڑوں کی تعظیم و توقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو تم جنت میں میری رفاقت پا لو گے۔ (شعب الایمان، 7/458، حدیث: 10981)

والدین کے ادب و احترام کے متعلق اللہ والوں کا کتنا پیارا انداز ہوا کرتا تھا حضرت امام ابن شہاب الزہری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کے بہت فرمانبردار تھے مگر اس کے باوجود اپنی والدہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے ساتھ کھانا تناول نہیں فرماتے تھے کسی نے آپ سے اس کا سبب دریافت کیا تو ارشاد فرمایا: میں امی جان کے ساتھ اس خوف کی وجہ سے کھانا نہیں کھاتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کسی چیز پر ان کی نظر پہلے پڑھے اور انجانے میں وہ چیز ان سے پہلے کھا کر ان کا نافرمان ہو جاؤں۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1926)

اس ارشاد گرامی سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جو اپنے سے بڑی عمر والوں کے ساتھ عظمت اور احترام کا برتاؤ نہ کریں ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئیں ان کی بزرگی اور عمر رسیدہ ہونے کا خیال کر کے ان کا احترام اور ان کی تعظیم نہ کریں اسی طرح امر بالمعروف کو ترک کرنے والے اور برائی سے نہ روکنے والے کی بابت آپ ﷺ نے یہی حکم فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں۔ دنیا اور آخرت کی فلاح بزرگوں خصوصا بوڑھے والدین کی عزت و تکریم اور خدمت میں ہیں ماں باپ کے کا احترام اور ان کی خدمت کرنا یقینا بڑی سعادت مندی ہے ہمارے حق میں ان کے دل سے نکلی ہوئی دعا دنیا اور اخرت سنوار سکتی ہے اسی طرح قریبی رشتہ دار سے صلہ رحمی اور ان کا احترام یقینا باعث سعادت ہے۔ حدیث پاک ہے کے مطابق ان سے صلہ رحمی کرنے پر عمر میں اضافہ اور رزق میں وسعت کی بشارت ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے بزرگوں کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کا احترام کرے، انہیں تکلیف پہنچانے سے بچے کہ ارشاد نبوی ہے: آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو پیٹھ نہ پھیرو بغض نہ رکھو حسد نہ کرو اور اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی رکھے۔ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالی کی تعظیم کا حصہ ہے اور اسی طرح قرآن پاک کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔ (ابو داود، 4/344، حدیث: 4843)

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک میری امت کے معمر و ضعیف افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی اور عظمت ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6010)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں ہے: تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔ (کنز العمال، 2/ 71، حدیث: 6012)

حضرت ابو دردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے اپنے ضعیف لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ ضعیف لوگوں کے سبب تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔(کنز العمال، 2/ 72، حدیث: 6016)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ادھیڑ عمر کے لوگوں سے بھلائی حاصل کرو اور نوجوانوں پر رحم کرو۔ (کنز العمال، 2/ 72، حدیث: 6047)

پیر و مرشد کے تعظیم و توقیراور ان کا ادب و احترام بھی ہر مرید پر لازم ہے والدین اساتذہ اور بڑے بھائی کا مقام اور ان کی اہمیت بھی اپنی جگہ مگر پیر مرشد وہ ہستی ہے جن کی محبت دل میں خوف خدا عشق مصطفی ﷺ اجاگر کرتی ہے نیز باطن کی صفائی،گناہوں سے بیزاری، اعمال صالحہ میں اضافہ اور سلامتی ایمان کے لیے فکر مند رہنے کی سوچ فراہم کرتی ہے لہذا مرید کو چاہیے کہ مرشد سے فیض پانے کے لیے پیکر ادب بنا رہے۔ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب کوئی مرید ادب کا خیال نہیں رکھتا تو وہ لوٹ کر واپس وہی پہنچ جاتا ہے جہاں سے چلا تھا بزرگوں کا ادب کرنے والا نہ صرف معاشرے میں معزز سمجھا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات بڑوں کے ادب و احترام کے سبب اس کی بخشش و مغفرت بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص دریا کے کنارے پر بیٹھا وضو کر رہا تھا اسی دوران لاکھوں حنبلیوں کے عظیم پیشوا حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وہاں تشریف لائے اور اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر وضو فرما رہے تھے جب اس شخص نے دیکھا کہ جس طرف میرے وضو کا غسالہ بہہ رہا ہے اس طرف تو اللہ کے مقرب ولی بیٹھ کر وضو فرما رہے ہیں تو اس کے دل نے یہ بات گوارا نہ کی اور وہ اٹھ کر حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے دوسری طرف جا کر بیٹھ گیا جہاں سے ان کے وضو کا مستعمل پانی اس طرف آرہا تھا اللہ کے ولی کے ادب و احترام کا صلہ اس شخص کو یوں ملا کہ جب اس کا انتقال ہوا اور کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر حال دریافت کیا تو اس نے بتایا اللہ پاک نے اپنے ولی حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے ادب و احترام کی برکت سے بخش دیا۔ (تذکرۃ الاولیاء، 1/196)

حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! جو شخص کسی قوم کا محافظ بن جائے تو اسے اور دوسرے لوگوں کو مال غنیمت میں برابر حصہ ملے گا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ام سعد کے بیٹے تمہیں تمہارے بوڑھوں کے سبب ہی رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔