حضور ﷺ کو اللہ پاک نے جس طرح جمالِ صورت میں اولین و آخرین
سے ممتاز اور افضل و اعلی بنایا ہے۔ اسی طرح آپ
کو کمالِ سیرت میں بھی بےمثل و بےمثال پیدا فرمایا ۔ ہم اور آپ حضور اکرم ﷺ
کی شانِ عظمت بے مثال کو بھلا کیا سمجھ سکتی ہیں ! حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
جو دن رات سفر و حضر میں فضل و کمال کی تجلیاں دیکھتے رہے انہوں نے محبوب خداﷺ کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے اس کو سن اور
پڑھ کر کسی مداح ِرسول نے کیا خوب کہا ہے کہ
لم يخلق الرحمنُ
مثلَ محمد ابداً
و علمى أنه لا يخلق
یعنی اللہ پاک نے
حضرت محمد ﷺ کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور
میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے
گا۔( حیاۃ الحیوان، 1/42 )
حضور ﷺ محاسنِ اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی حلم
وعفو، رحم و کرم، عدل و انصاف، جو دو سخا ، ایثار و قربانی،مہمان نوازی ،حیاداری،منساری
،تواضع و انکساری، شجاعت و بہادری کی اتنی منزلوں پر آپ فائزو سرفراز ہیں کہ حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک جملے میں اس کی تصویرکھینچتے ہوئے فرمایا:كان خُلْقهُ القُرآنیعنی تعلیمات
ِقرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ کے اخلاق
تھے ۔( دلائل النبوة ،للبیہقی، 1/ 309 )
بہادری :
حضور ﷺ کے محاسنِ اخلاق سے ایک کمال خلق بہادری و شجاعت بھی
تھا۔ حضور ﷺکی بہادری کے کیا کہنے!آپ کی بے مثال شجاعت و بہادری کا عالم یہ تھا کہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسےبہادر صحابی کا قول ہے کہہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی
اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑےبڑے بہادروں کی
آنکھیں سرخ ہو جاتیں اس وقت ہم لوگ رسول
اللہ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے اور آپ ہم سب
لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کراور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کرجنگ فرماتے تھے اورہم
لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے
قریب رہ کر دشمنوں ں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116)
حضرت ابن ِعمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے بڑھ کر کسی کوبہادر ،صاحب حوصلہ سخی ،اورہر
معاملے میں خوش نہ دیکھا۔( مقدمہ دار می، 1 /30)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺجب کسی
لشکرکے مقابل ہوتے تو مسلمانوں میں سے سب سے پہلے حملہ کرتے۔ (مکارم اخلاق ،ص54)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریمﷺ تمام لوگوں
سے بہتر ،سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ایک رات مدینہ کے لوگ گھبر اگئے
اور آواز کی جانب چل پڑے تو دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس جانب سےواپس آرہے ہیں۔گویا
آپ اس آواز کی جانب پہلے ہی پہنچ گئے تھے اور خیر کی خبر لائے تھے۔آپ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر بغیر زین
وکاٹھی سوار ہو کر تلوار گلے میں لٹکا کر
تشریف لے گئے تھے۔آپﷺ فرماتے تھے:ڈرو
مت!ڈرو مت!۔
(بخاری،4/108-109، حدیث:6033)
حضرت براء بن عازب اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےبیان
فر مایا ہے کہ جنگِ حنین میں بارہ ہزار مسلمانوں کالشکر کفار کے حملوں کی تاب نہ
لاکر بھاگ گیا تھا اور کفار کی طرف سے لگاتار تیروں کا مینہ برس رہا تھا اس وقت میں
بھی رسول الله ﷺ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔بلکہ ایک سفید خچر پر سوار تھے اور
حضرت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ آپ کی خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے اور آپ اکیلے دشمنوں کے دل بادل لشکروں کے ہجوم کی طرف
بڑھتے چلےجا رہے تھے اور رجز کے یہ کلمات زبانِ اقدس پر جاری تھے:
اَنَا النَّبِيُّ لَا
کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
یعنی میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے۔میں عبد المطلب کا بیٹا
ہوں۔
(بخاری
،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)
اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے ۔آمین